حضور ﷺ کی نماز جنازہ کس طرح ادا کی گئی اور شبہات کا جواب
***********************************************
ایک سوال جو عام طور پر مظالطے کی وجہ سے کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے وقت ایسا کیوں ہوا کہ صحابہ کرام اور خاص کر حضرات ابو بکر وعمر، ان کی تجہیز و تکفین کی فکر کرنے کے بجائے خلافت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔یہ سوال دراصل ایک پورا نقطۂ نظر ہے جو بہت سی غلط فہمیوں پر مشتمل ہے ۔ سرسری معلوما ت کی بنا پر بہت سے لوگ اس نقطۂ نظر سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے حقائق کی روشنی میں اس دعوے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
جواب نمبر 1 تفصیل سے پوسٹوں میں دیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ : ۔ اس بارے راجح اور مبنی برحق موقف جمہور علماء کا یہ ہے کہ اُنہوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کی انفرادی نماز جنازہ پڑھی تھی ۔چنانچہ ایک جماعت حجرہ شریف میں داخل ہوتی تو وہ انفرادی نمازِ جنازہ پڑھ کر باہر آجاتی، پھر دوسرا گروہ داخل ہوتا اور اس طرح از خود نمازِ جنازہ کااہتمام کرتا۔
ایک اشکال: نبیﷺ کی نمازِ جنازہ باجماعت کیوں نہ پڑھی گئی؟
صحابہ کرام نےنبی اکرمﷺ کی نمازِ جنازہ کا باجماعت اہتمام کیوں نہ کیا اوروہ کون سے عوامل و اسباب تھے جن کی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے انفرادی طور پر آپﷺ کی نمازِ جنازہ پڑھنےکو فوقیت دی؟ اس بارے علما کے کئی اقوال ہیں جن میں سے صرف راجح قول کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
صحابہ کرام کے نبیﷺ کی انفراداً نماز جنازہ پڑھنے کے اسباب میں راحج قول یہ ہے کہ آپﷺ کے احترام و فضیلت کی وجہ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی اس شدید خواہش اور لگن کی وجہ سے کہ وہ تمام انفراداً نمازِ جنازہ پڑھ کر برکت حاصل کریں،بایں طور کہ ان کا کوئی پیش امام نہ ہو اور ان کے او رنبیﷺ کےدرمیان کوئی تیسرا فرد حائل نہ ہو تاکہ ان کے اجروثواب اور برکت کے حصول میں کمی واقع نہ ہو۔ یہ وہ محرکات تھے جن کی وجہ سے صحابہ کرام اجمعین آپﷺ کی نمازِ جنازہ انفرادی طور پر پڑھنے کے لئے متفق ہوئے تھے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
صلی الناس علی رسول الله ﷺ أفرادًا ولا یؤمهم أحد، وذلك لعظم أمر رسول ﷺ وتنافسهم في أن لا یتولى الإمامة في الصلاة علیه واحد
’’لوگوں نے رسول اللہﷺ کی نمازِ جنازہ فرداً فرداً پڑھی اور کسی بھی شخص نے اُنہیں نماز باجماعت کی امامت نہ کرائی ،کیونکہ ایک تو آپﷺ کی عظمت و احترام ملحوظ تھا، دوسرا صحابہ کرام کا اس اجروثواب میں ہم سری کا جذبہ موجزن تھا کہ آپﷺ کی نمازِ جنازہ کی امامت کاکوئی ایک شخص مستحق نہ ٹھہرے۔(بلکہ وہ تمام لوگ اس اجر وثواب میں برابر کے شریک ٹھہریں)
امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
أرادوا أن یأخذ کل أحد برکته مخصوصًا دون أن یکون فيها تابعًا لغیره
’’(صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین آپﷺ کی نمازِ باجماعت کے اس لئے قائل نہ ہوئے کہ) اُن میں سے ہر شخص آپﷺ کی نمازِ جنازہ کی برکت خاص کو بایں صورت حاصل کرنا چاہتا تھا کہ کوئی شخص اس برکت میں کسی دوسرے کا تابع نہ بنے (بلکہ وہ تمام اس اجروثواب اور برکت کےبرابر مستحق ٹھہریں ۔
جواب نمبر 2 : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مسلمانوں کے اجتماعی نظام کے متعلق یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ’’اور ان کا نظام باہمی مشورے پر مبنی ہے ‘‘، (شوریٰ 42:38)
قرآنِ پاک کا یہ حکم عرب کے اُس قبائلی معاشرہ میں اترا ، جس میں نہ کسی اجتماعی ریاست کا تصور تھا اور نہ کسی واحد حاکمِ اعلیٰ کی کوئی تاریخ ہی پائی جاتی تھی۔ اسلام سے قبل ہر قبیلے کا اپنا سردار ہوتا جو اس کے معاملات چلاتا تھا۔ عرب میں کوئی باقاعدہ ریاست تھی اور نہ اس کا کوئی مستقل حکمران تھا۔حتیٰ کہ ام القریٰ مکہ کے مرکزی شہر میں بھی کوئی حکمران نہ تھا۔ وہاں بمشکل تمام ایک ڈھیلا ڈھالا نظمِ اجتماعی تھا جس میں قبائلی سردار کسی اجتماعی مسئلے پراکٹھے ہوجاتے اور مل جل کر کوئی فیصلہ کر لیتے ۔
ایسے میں اسلام کا ظہور ہوا۔ ہجرت کے بعد مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فطری طور پر اس ریاست کے حکمران تھے۔ 8 ہجر ی تک یہ ریاست صرف مدینہ اور اس کے اطراف تک محدود تھی۔پھر فتحِ مکہ کے بعد صرف تین برس میں یہ ریاست پورے عرب میں پھیل گئی ۔ یہ وہ عرب تھا جہاں انتشار و اختلاف کے شکار قبائل اور طرح طرح کی عصبیتیں موجود تھیں اور جو پہلی دفعہ کسی ایک حکمران کے ماتحت اکٹھا ہوا تھا۔ مگر لوگوں کا حضور پر بحیثیت رسول ایمان اور حضور کا سب سے برتر قبیلے یعنی قریش سے تعلق وہ چیز تھا جس نے عرب میں یہ سیاسی انقلاب برپا کر دیا۔ تاہم حقیقت یہ تھی کہ نئے ایمان لانے والے قبائل ابھی تک اس پورے نظام کے عادی نہیں ہوئے تھے۔
اپنے آخری وقت میں حضور کو اس صورتحال کا مکمل اندازہ تھا۔ مگر آپ نے اس حوالے سے کوئی بات اس لیے نہیں فرمائی کہ مسلمانو ں کے پاس بہرحال اللہ تعالیٰ کا حکم موجود تھا۔ دوسرے حضور کو معلوم تھا کہ آپ نے اس موقع پر اگر لوگوں کو کوئی حکم دے دیا تو وہ تا قیامت سورہ شوریٰ کی مذکورہ بالا آیت کی واحد قابل عمل شکل قرار پائے گی ۔ یہ بات اُس وقت کے قبائلی دور کے حساب سے تو ٹھیک ہوتی ، مگر آنے والے زمانوں میں حکمران کے انتخاب کے ہر دوسرے طریقے کو غیر اسلامی بنا کر ، اسلام کے نا قابل عمل ہونے کا ایک نمایاں ثبوت بن جاتی ۔ جبکہ اسلام کو قبائلی دور ہی کا نہیں بلکہ آج کے انفارمیشن دور کا مذہب بننا تھا۔ چنانچہ حضور کو جب اندازہ ہو گیا کہ رخصت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنی وفات سے پانچ دن قبل مسجدِ نبوی میں آخری خطبہ دیا۔ اس خطبے میں آپ نے مسلمانوں کو آخری وصیتیں کیں ، مگرسیاسی حکمرانی کے عملی طریقے کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں کی ۔ البتہ اُس شخص کی طرف اشارہ کر دیا جو آپ کی نظر میں اس منصب کا سب سے بڑھ کر اہل تھا۔ چنانچہ اس موقع پر آپ نے دین اور اپنی رفاقت کے حوالے سے حضرت ابوبکر کی خدمات گنوائیں اورحکم دیا کہ مسجد نبوی میں ان کے دروازے کے سوا ہر دروازہ بند کر دیا جائے (متفق علیہ)۔ اگلے دن سے اپنی جگہ حضرت ابوبکر کو مسجد نبوی کی امامت سونپ کر اپنا منشا لوگوں پر مزید واضح کر دیا(متفق علیہ)۔
چار دن بعد پیر کے دن ظہر سے قبل حضور کا انتقال ہو گیا۔ مسلمانوں پر اپنے محبوب نبی کے رخصت ہونے کا انتہائی شدید صدمہ تھا۔ مگر اس کے ساتھ دوسری تلخ حقیقت یہ تھی کہ قبائلی عصبیت سے بھرپور عرب کی نئی ریاست میں حکمرانی کا منصب خالی ہو چکا تھا اور کسی جانشین کا ابھی تک تعین نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ وہی ہوا جو اس پس منظر میں متوقع تھا۔ انصار کے بعض لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھا ہوکر حضور کی جانشینی کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے ۔ حضرت ابو بکر جو بلا شک و شبہ اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر تھے ، ان سے اس موقع پر اگر معمولی سی بھی کوتاہی ہوجاتی تو اسلام کی تاریخ بننے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی۔ ان حالات میں حضرت ابو بکر حضور کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے مسجد نبوی تشریف لائے اور ان شاندار الفاظ سے مسلمانوں کا حوصلہ بلند کیا کہ ’’ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے کبھی نہیں مرے گا‘‘، (بخاری 640/2641)۔ اس کے ساتھ ان پر یہ ذمہ داری بھی آن پڑی کہ وہ مسلمانوں کی رہنمائی کریں ۔ چنانچہ وہ حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح جیسے اہم قریشی سرداروں کو لے کر انصارکے ہاں گئے اور ایک طویل بحث و گفتگو کے بعد حضور کے بعض ارشادات کی روشنی میں انصار کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ہر شخص کو معلوم تھا کہ قریشی مسلمانوں میں سب سے بڑا لیڈر کون ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے ان کا نام تجویز کیا جسے سب نے فوراًتسلیم کر لیا۔ یوں ریاستِ مدینہ میں انتشار کا خطرہ ٹل گیا۔ مگر اس پورے عمل میں پیر کے دن کی رات ہوگئی ۔ اگلے دن منگل کو حضور کو سیدنا علی اور دیگر قریبی اعزا نے غسل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسبِ ارشاد آپ کی قبر آپ کی وفات کی جگہ پر ہی بنائی جانی تھی۔ اس لیے تدفین اور نمازِجنازہ کے لیے کہیں اور جانے کا سوال نہیں تھا۔اس لیے لوگوں نے گروہ در گروہ آ کر سیدہ عائشہ کے اس حجرے ہی میں نماز ادا کی جہاں آپ کا انتقال ہوا تھا۔ اس عمل میں منگل کا پورا دن گزرگیا اور بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں حضرت عائشہ کے حجرے میں حضور کی تدفین عمل میں آئی۔
یہ ہے وہ بات جس کا افسانہ بنا کر ہمارے بعض مسلمان بھائی اسلام، اس کے نبی اور ان کے بہترین پیروکاروں کے بارے میں ایسے سوالات پیدا کر دیتے ہیں جن کی بنا پر نئی نسل اسلام سے بدظن ہوجاتی ہے اور غیرمسلموں کو ہمارا مذاق اڑانے کا موقع مل جاتا ہے ۔ جبکہ ہر صاحب علم یہ بات جانتا ہے کہ حضرت ابو بکر کے ابتدائی زمانے میں خلافت کے قیام اور مہاجرین و انصار اور قریشِ مکہ کی بھرپور تائید کے باوجود عرب میں ایک زبردست بغاوت رونما ہوئی ۔ اندازہ کیجیے کہ اگر حضور کے انتقال کے وقت حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فوری فیصلہ کر کے نزاع کو ابتدا ہی میں ختم نہ کرتے اور اہل مدینہ میں باہمی انتشار پیدا ہوجاتا تو مسلمانوں کا کیا انجام ہوتا؟
ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے ، اس کی تائید سیدنا علی کے اپنے طرز عمل سے ہوتی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہ ہونے کی بنا پر انھیں ابتدا میں یہ شکایت تھی کہ مجھے مشورے میں کیوں شریک نہیں کیا گیا ، مگر جب ان پر معاملہ واضح ہو گیا تو انھوں نے سیدنا ابو بکر کی بیعت میں تاخیر نہیں کی۔ پھر اس کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے پورے دورِحکومت میں انھوں نے بھرپور طریقے سے ان حضرات کی معاونت کی اور ہمیشہ ان کے قریب ترین مشیر رہے ۔ اور ان دونوں نے بھی ہر معاملے میں حضرت علی کی رائے کو مقدم رکھا۔
بلاشبہ صحابہ کرام وہ لوگ ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا حق اس طرح ادا کیا کہ قرآنِ مجید نے بھی جگہ جگہ ان کے اخلاص اور قربانی کی گواہی دی ہے ۔ قرآنِ کریم کی اس گواہی کے بعد ان لوگوں کی صداقت کے لیے کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں ۔
جنازہِ رسول کریمﷺو تدفین………؟؟
سوال:
علامہ صاحب ایک شیعہ بار بار اعتراض کر رہا ہے کہ بتاؤ رسول اللہ کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ کیوں تھے باقی لاکھوں صحابہ کہاں تھے…؟؟ ایک اور بھائی نے بار بار وڈیو بھیجی اور کہا کہ اسکا جواب دیجیے، وڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ رسول کریم کی تدفین میں صحابہ شامل نہ تھے ابوبکر و عمر شامل نہ تھے ایسا اہلسنت کی کتب میں لکھا ہے دیکھو المصنف لابن ابی شیبہ
جواب:
دونوں جھوٹ و بہتان و مردود ہیں، شیعہ و رافضی و نیم رافضیوں کا ایک طرح سے صحابہ کرام پر طعن و اعتراض ہیں….صحابہ کرام بالخصوص خلفاء راشدین نماز جنازہ اور تدفین میں شامل تھے بلکہ نبی پاک کی نماز جنازہ سکھانے والے، مدفن بتانے والے سیدنا صدیق اکبر تھے
دَخَلَ أبو بكرٍ -رضي الله عنه- على رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- حينَ ماتَ…..ويُصَلَّى عَلَيهِ؟ وكَيفَ يُصَلِّى عَلَيهِ؟ قال: تَجيئونَ عُصَبًا عُصَبًا فيُصَلُّونَ فعَلِموا أنَّه كما قال، فقالوا: هَل يُدفَنُ؟ وأَينَ؟ فقالَ: حَيثُ قَبَضَ اللهُ روحَه
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہو گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی تو سیدنا صدیق اکبر نے جواب دیا جی ہاں ۔صحابہ کرام نے عرض کیا کیسے نماز جنازہ پڑھیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم گروہ در گروہ آتے جاؤ اور نماز جنازہ پڑھتے جاؤ… پھر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو دفن کیا جائے گا اور کہاں دفن کیا جائے گا ؟ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو وہاں دفن کیا جائے گا جہاں ان کی روح قبض ہوئی
(السنن الكبرى للبيهقي ت التركي ,7/362روایت6987بحذف)
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے بھی نماز جنازہ پڑھی، دوٹوک تصریح پڑھیے:
ووضع على سريره دخل أبو بكر وعمر فقالا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار قدر ما يسع البيت فسلموا كما سلم أبو بكر وعمر وصفوا صفوفا لا يؤمهم عليه أحد
ترجمہ:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو ابوبکر اور عمر دونوں داخل ہوئے اور دونوں نے عرض کیا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته… سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر کے ساتھ مہاجرین اور انصار میں سے صحابہ کرام تھے کہ جتنا گھر میں جگہ تھی پھر سب نے سلام عرض کیا جیسے کہ ابوبکر اور عمر نے سلام عرض کیا اور یہ سب صف باندھے کھڑے ہوئے تھے کوئی امام نہ تھا
(جامع الأحاديث روایت27941)
(كتاب الطبقات الكبرى ط دار صادر2/290)
سب صحابہ و تابعین نے نماز جنازہ پڑھی:
وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ، وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ
ترجمہ:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا ان کے گھر میں ہی…..پھر لوگ داخل ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گروہ در گروہ آپ پر نماز جنازہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ مرد صحابہ کرام و تابعین وغیرہ نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں کو داخل کیا گیا تاکہ وہ بھی رسول کریم کی نماز جنازہ پڑھ سکیں… جب عورتوں نے نماز جنازہ پڑھ لیا تو بچوں کو داخل کیا گیا تھا کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں اور ان سب نے نماز جنازہ پڑھی، کسی نے کسی کی امامت نہ کی
(سنن ابن ماجه ,1/520روایت1628)
لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ , فَكَانَ النَّاسُ يَدْخُلُونَ زُمَرًا زُمَرًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ وَيَخْرُجُونَ وَلَمْ يَؤُمَّهُمْ أَحَدٌ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ کے جسم مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو لوگ(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام)گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھتے اور پھر نکل جاتے کوئی بھی امام نہ ہوتا
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/430روایت37041)
حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنازہ اس طرح تھا کہ ٹولیوں کی صورت میں لوگ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک میں ایک دروازے سے داخل ہوئے اور درود وسلام پڑھتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکلتے گئے۔ جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
عَنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا صُلِّيَ رَسُولِ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم اُدْخِلَ الرِّجَالُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ إِرْسَالًا حَتَّی فَرَغُوا ثُمَّ اُدْخِلَ النِّسَاءِ فَصَلَّيْنَ عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الصِّبْيَانُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الْعَبِيْدُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ إِرْسَالًا لَمْ يَوُمَّهُمْ عَلَی رَسُولِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اﷲِ اَحَدٌ.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جب حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت نہ کروائی۔‘‘
بيهقي، السنن الکبری، 4: 30، رقم: 6698، مکتبة دار الباز، مکة المکرمة
ابن کثير، البداية والنهاية، 3: 232، مکتبة المعارف، بيروت، لبنان
سيوطي، الخصائص الکبری، 2: 483، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان
اسی طرح تاریح طبری میں ہے:
دخل الناس علی رسول اﷲ يصلون عليه ارسالا..... الخ
’’اسی طرح رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لوگ صلاۃ و سلام پڑھتے رہے۔‘‘
ابن جرير، تاريخ طبری، 2: 239، دار الکتب العلمية، بيروت، لبنان
لہٰذا رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ کی جماعت نہیں کروائی گئی بلکہ صرف درود وسلام بھیجا گیا، جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ازل سے بھیج رہے ہیں۔
ثُمَّ أُضْجِعَ عَلَى السَّرِيرِ، ثُمَّ أَذِنُوا لِلنَّاسِ ; فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَوْجًا فَوْجًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ، حَتَّى لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ بِالْمَدِينَةِ – حُرٌّ وَلَا عَبْدٌ – إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ
ترجمہ:
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا اور پھر لوگوں(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام) کو اجازت دی گئی کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں… تو وہ گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور نماز جنازہ پڑھے بغیر امام کے… تو مدینے پاک میں آزاد یا غلام(مرد یا عورت، بچہ یا بوڑھا) کوئی بھی ایسا شخص نہ بچا کہ جس نے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/33روایت14254)
تدفین کے متعلق چند روایات*
وڈیو میں جس روایت کا ذکر ہے وہ یہ ہے
ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ §لَمْ يَشْهَدَا دَفْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر نبی پاک کے دفنانے میں شریک نہ تھے
(مصنف ابن أبي شيبة7/432)
اس روایت میں آخری راوی عروہ بن زبیر ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ابوبکر و عمر حاضر نہ ہوئے….؟؟مزید یہ کہ مذکورہ روایت صحیح روایت کے خلاف بھی ہے تو مقطوع و منکر ہے…مردود و باطل ہے
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید ہو تو)منکر و مردود ہے
(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)
(اہلسنت کتاب المقنع في علوم الحديث1/188)
ولد عروة سنة ثلاث وعشرين . فهذا قول قوي ، وقيل : مولده بعد ذلك
عروہ بن زبیر 23ھجری میں پیدا ہوئے یہ قول قوی ہے اور کہا گیا ہے کہ 23ھجری کے بھی بعد پیدا ہوئے(جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھجری میں ہوئی)
(سیر اعلام النبلاء4/423)
جب تدفین کا وقت آیا تو صحابہ کرام میں اختلاف ہوا کہ کہاں دفنایا جائے تو سیدنا صدیق اکبر نے حدیث پاک سنا کر مسلہ حل کر دیا:
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي المَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ»، ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو کہاں دفن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس متعلق ایک حدیث پاک سنی ہے کہ جس کو میں کبھی نہیں بھولا…نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کوئی بھی نبی اسی جگہ وفات پاتا ہے کہ جس جگہ پر اس کا دفن ہونا محبوب ہوتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کی جگہ پر دفن کیا جائے گا
(سنن الترمذي ت شاكر ,3/329 روایت1018)
لما فرغ من جهاز رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يوم الثلاثاء وضع على سريره فى بيته وكان المسلمون قد اختلفوا فى دفنه فقال قائل ادفنوه فى مسجده وقال قائل ادفنوه مع أصحابه بالبقيع قال أبو بكر سمعت رسول الله – صلى الله عليه وسلم – يقول ما مات نبى إلا دفن حيث يقبض فرفع فراش النبى – صلى الله عليه وسلم – الذى توفى عليه ثم حفر له تحتہ
ترجمہ:
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک دفن کرنے کا وقت آیا تو اسے تخت پر لٹایا گیا، مسلمانوں میں اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے تو ایک کہنے والے نے کہا کہ مسجد میں دفن کیجیے اور ایک کہنے والے نے کہا کہ دفن کیجیے جنت البقیع میں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو وہاں دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ دفن کیا گیا
(جامع الأحاديث ,25/236روایت27897)
أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ يَدْفِنُونَهُ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُحَوَّلُ عَنْ مَكَانِهِ , يُدْفَنُ حَيْثُ يَمُوتُ» فَنَحَّوْا فِرَاشَهُ فَحَفَرُوا لَهُ مَوْضِعَ فِرَاشِهِ
ترجمہ:
صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی قبر مبارک کہاں کی جائے،کہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کریں؟… سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو اس جگہ سے نہیں ہٹایا جاتا جہاں اس کی وفات ہوئی ہو تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اسی جگہ پر دفن کیا گیا
(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/427 روایت37022)
0 Comments