وسیلہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : وسیلہ ،وہ واسطہ ہے جس کے ذریعے کسی چیز تک پہونچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے ، اور شر یعت کی زبان میں بارگاہِ الٰہی میں قرب حاصل کر نے کےلیے یا حصول مراد کےلیے بوقتِ دعا کسی مقبول عمل ، صالح بزرگ یا با بر کت چیز وغیرہ کا واسطہ پیش کر نے کو وسیلہ کہتے ہیں ۔ الحمد للہ ! وسیلہ کے جواز پہ قرآنِ کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سے دلائل موجود ہیں ، ان میں سے کچھ مند رجہ ذیل ہیں : ⏬
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ۔ (سورة النساء آیت نمبر 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آستانہ پر آجائیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔
اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کا وسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اور نام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہو جائے وہ وسیلہ ۔ اس کا ثبوت قرآنی آیات ' احادیث نبویہ' اقوال بزرگاں ، اجماع امت اور دلائل عقلیہ سے ہے ۔ اوپر دی گئی آیتِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مجرم کےلیے ہر وقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اور اجازت عام ہے یعنی ہر قسم کا مجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (سورة المائدہ آیت نمبر 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو ۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو ۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کا وسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تو اتقواللہ میں آگئے اور اس کے بعد وسیلہ کا حکم فرمایا ۔ معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے ۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۔ (سورة التوبہ آیت نمبر 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرماٸیں اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک و صاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات اعمال صالحہ طہارت کا وسیلہ کافی نہیں ۔ بلکہ طہارت تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 89)
مفسرینِ کرام علیہم الرحمہ اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل کفار پر فتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے اہلِ کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پر اعتراض نہ کیا بلکہ تائید کی اور فرمایا کہ '' ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگا کرتے تھے اب ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے ۔ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے ۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۔ (سورة البقرہ آیت نمبر 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام علیہم السلام کا بھی وسیلہ ہیں ۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۔ (سورة البقرہ آیت ننبر 144)
ترجمہ : ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے کو آسمان کی طرف پھرتے دیکھ رہے ہیں اچھا ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جس سے آپ راضی ہیں ۔
معلوم ہوا کہ تبدیلی قبلہ صرف اسی لیے ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی خواہش تھی یعنی کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے قبلہ بنا ۔ جب کعبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ کا محتاج ہے تو دوسروں کا کیا پوچھنا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا : اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کر دیا جائے ۔ اے اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔ (ھٰذا حدیث صحیح ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۱۳۸)(المستدرک جلد۱صفحہ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶)(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲)(دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶۷)(السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹)(الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷)(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱)(الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳)(صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵)(ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸)(البدایہ والنھایہ جلد ۱ صفحہ ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم)(الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲)(الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹ صحیح کہا)
واضح رہے اس حدیث کو غیرمقلد وہابی عالم وحید الزمان حیدرآبادی نے (ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷) ۔ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی وہابی نے (نزل الابرار صفحہ۳۰۴) ۔ غیر مقلد نجدیوں کے’’ مجتہد‘‘ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
غیر مقلد وہابیوں اور دیوبندیوں کے’’ بزرگ‘‘ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو اشرف علی تھانوی دیوبندی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔ اور شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کےلیے عام ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ دورِ فاروقی میں ایک مرتبہ قحط پڑ گیا ، بارش کی سخت ضرورت تھی اور لوگ جاں بلب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام اور دیگر حضرات کو ساتھ لیا اور بارگاہِ ربوبیت میں دستِ سوال دراز کیا۔ دعا میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) کو وسیلہ بنایا اور مالک الملک کی بارگاہ میں عرض کیا ۔ اللھم انا کنا نتوسل الیک نبینا صلی اللّٰہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فتسقینا وانا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔ اے اللہ !ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب فرماتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی کے چچا کا وسیلہ لے کر آئے ہیں ، ہمیں سیراب فرما ! حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں سیراب کیا گیا ۔ (بخاری ، جلد اول کتاب الاستقاء حدیث نمبر:956)
منکرین اب اب کہہ دیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ضعیف حدیثیں لکھتے تھے ۔
صرف یہی نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ویسا ہی سلوک کیا کرتے تھے ، جیسا ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے ۔ پس اے لوگو ! تم بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ کو اپناتے ہوئے آپ سے ویسا ہی سلوک کرو ! واتخذوہ وسبیلۃ الی اللّٰہ ۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں پیش کرو ! ۔ (فتح الباری) ۔ دیکھ رہے ہیں آپ ! کس قدر محبت تھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محبوب دو جہاں ، تاجدارِ مرسلاں ، رسول انس و جاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ ان کے چچا کا وسیلہ پیش کر رہے ہیں ۔ معلوم ہوا نبیوں علیہم السّلام کے علاوہ دوسرے بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔ (تیسیر الباری شرح بخاری غیر مقلد وہابی علامہ نواب وحید الزّمان)
اس حدیث مبارک سے ثابت ہوا کہ طلبِ حاجات میں اللہ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے ۔ منکرین وسیلہ کی طرف سے اگر یہ کہا جائے کہ اس حدیث سے زندوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ثابت ہوتا ہے مُردوں کا نہیں ۔ اس لیے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زندہ تھے ۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو اسی حدیث سے فوت شدہ بزرگوں کے توسل کی نفی ہوتی ہے ۔ کیوں کہ حدیث میں مذکور ہے کہ اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے ۔ اب تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس کا وسیلہ پکڑتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑتے تھے ۔ اگر کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس کا وسیلہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے توسل کرتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بزرگ کے فوت ہو جانے کے بعد اس سے توسل جائز نہیں ۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حدیث مبارک میں نہایت واضح اور غیر مبہم الفاظ میں توسل مذکور ہے ۔ جس میں زندہ اور مردہ کاکوئی تفاوت نہیں اور نہ حدیث کا کوئی لفظ فوت شدہ بزرگوں سے توسل کی نفی پر دلالت کرتا ہے ۔ رہا یہ امر کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ یہاں کیوں نہ پکڑا تو جواباً عرض ہے کہ کسی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وسیلہ بنانے کی نفی نہیں بلکہ کثرت احادیث سے روزِِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کو جائز سمجھتے تھے ۔ اس باب میں البتہ یہاں ایک شبہ باقی رہ جاتا ہے ۔ وہ یہ کہ جب زندہ اور فوت شدہ دونوں قسم کے بزرگوں کا وسیلہ پکڑنا جائز ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خاص موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کیوں کیا تو اس کے جواب میں حدیثِ اعرابی جو شفاء السقام میں منقول ہے رفع شبہات کےلیے کافی ہے جس میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام کی موجودگی میں وہ اعرابی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار مقدس پر حاضر ہوا اور سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا وہ اعرابی اپنے گناہوں کی مغفرت کی حاجت لے کر مزار پر انوار پر حاضر ہوا تھا ۔ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی برکت سے اس کی حاجت پوری ہوئی اور قبر انور سے آواز آئی ’’ان اللّٰہ قد غفرلک‘‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے تیرے گناہوں کو معاف فرما دیا ۔ (تفصیل آگے پیش کی جاۓ گی ان شاء اللہ)
نیز مشکوٰۃ شریف صفحہ ۵۴۵ باب الکرامات میں بروایت دارمی ایک حدیث مرقوم ہے۔ وہو ہذا : عَنْ اَبِی الجَوْزَاء قَالَ قُحِطَ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ قَحْطًا شَدِیْداً فَشَکَوْا اِلٰی عَائِشَۃَ قَالَتْ اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِیّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاجْعَلُوْ ا مِنْہُ کُویً اِلَی السَّمَائِ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ السَّمَائِ سَقْفٌ فَفَعَلُوْا فَمُطِرُوْا مَطَرًا حَتّٰی نَبَتَ الْعَشَبُ وَ سَمَنَتِ الْاِبِلُ حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشحم فَسُمِّیَ عَامَ الْفَتَقِ رَوَاہ الدَارمی ۔
ترجمہ : حضرت ابوالجوزاء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سال اہلِ مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس شکایت لائے ۔ انہوں نے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزار اقدس کو دیکھو اور مزارِ اقدس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھول دو ۔ یہاں تک کہ مزار انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ ہو۔ اہل مدینہ نے ایسے ہی کیا ۔ تو خوب بارش ہوئی حتیٰ کہ جانوروں کا چارہ بھی بکثرت پیدا ہوا اور اونٹ چربی سے خوب موٹے ہو گئے ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چربی سے پھٹے جاتے ہیں تو اس سال کا نام عام الفتق رکھ دیا گیا ۔ اس حدیث کو دارمی نے روایت کیا ہے ۔
امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ : صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں بھی قحط سالی اور خشک سالی میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کیا کرتے تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے وصالِ اقدس کے بعد بھی مزارِ انور سے توسل کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل کی برکت سے خلق اللہ اسی طرح خوشحال ہوئی، جس طرح پہلے ہوتی تھی ۔ اس مبارک حدیث سے آفتاب عالمتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل کرتے تھے اور دونوں توسلوں میں کوئی فرق نہ تھا ۔ دیکھیے سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں بھی بارانِ رحمت کی طلب اور قحط سالی دور ہونے کےلیے توسل کیا گیا اور وصال کے بعد بھی قبرِ انور سے خشک سالی دور ہونے اور بارانِ رحمت نازل ہونے کےلیے توسل کیا گیا ۔ اب منکرین کا یہ کہنا کہ فوت شدہ بزرگوں سے توسل جائز نہیں ۔ نیز یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد از وصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسل نہ کرتے تھے کیونکر درست ہو سکتا ہے ؟ دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ یہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات سے توسل نہیں ۔ یہ توسل بھی حضور سیدِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے ہے ۔ کیوں کہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’اِنَّا نتوسل الیک بِعَمِّ نَبِیِّکَ‘‘ اے اللہ ! ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ۔ عم مضاف ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے جو توسل کیا جا رہا ہے وہ اس نسبت اور اضافت کی بنا پر ہے جو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے ۔ اس نسبت سے قطع نظر کر کے توسل نہیں ۔ جب توسل کا دار و مدار اس نسبت و اضافت پر ہوا تو ثابت ہوا کہ یہ توسل حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قبل الوصال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلا واسطہ توسل ہوتا تھا اور یہ توسل بالواسطہ ہے ۔ اور بالواسطہ توسل میں حکمت یہ ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمیشہ بلا واسطہ توسل کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی کا بغیر واسطہ کے وسیلہ اختیار کرتے رہتے ۔ نیز سرکارِ کل عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی غلام کے واسطہ سے کبھی توسل نہ کرتے تو منکرین وسیلہ کہہ دیتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کسی سے توسل جائز ہی نہیں ۔ اگر جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی تو کسی غیر نبی کا وسیلہ پکڑتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے توسل کر کے اس دعویٰ پر دلیل قائم کر دی کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلا واسطہ توسل جائز ہے ، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے واسطہ سے بھی بلاشبہ توسل جائز اور صحیح ہے ۔ اب قیامت تک ہر ولی اللہ اور بزرگ کے ساتھ وسیلہ پکڑنے کا جواز ظاہر ہو گیا ۔ مختصر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل فرما کر توسل کو آگے بڑھایا اور وسیلہ کو عام کیا اور اس امر پر نص فرما دی کہ یہ توسل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نسبت اور اضافت پر مبنی ہے ۔ لہٰذا قیامت تک اللہ تعالیٰ کا جو نیک بندہ بھی اس نسبت اور اضافت کے شرف سے مشرف ہو ، اس کے ساتھ وسیلہ اختیار کرنا شرعاً جائز اور درست ہے ۔
حدیث وسیلہ راویت دارمی پر منکرین کے اعتراض کا جواب :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کا فرمایا ۔ (مسند دارمی جلد1صفحہ 227) ۔ (اس روایت کے رجال ثقہ ہیں)
منکرین احادیث کے جاہلانہ اعتراض کا جواب انہی کے عالم سے ۔
توسل کے متعلق سنن دارمي والی حدیث عائشہ (رضي الله عنها)کا دفاع ۔
زبیرعلی زئی نے مشکوٰۃ کی تحقیق میں سنن دارمی کی اس روایت کا رد کیا ہے ۔ حدیث : حدثنا : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال :" قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وسلم) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق" ۔
ترجمہ : ابی الجوزاء“ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم ؐ کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے.اور اس سال کا نام عام الفتق یعنی (خوشحالی کا سال) رکھا گیا ۔(مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی)
اعتراض : وقال ابن عدی (الکامل: ۴۱۱): حدّث عنه عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظة ۔
امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ ابو الجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں ۔ (تھذیب التھذیب لابن حجر: ۳۳۶/۱)
جواب : یہ جرح مردود ہے ۔ اس کا جواب مہشور ناصبی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتا ہے : "عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, ان کی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔( مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥ )
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے. لہذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے.یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا". حوالہ : نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر – کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ - (محقق حسین سلیم الدرانی نے اس حدیث کے بارے میں کہا ۔ "رجاله ثقات" حوالہ : سنن دارمي- جلد ١ / صفحہ ٢٢٧ / رقم 227)
غیر مقلد حافظ زبیر علی زئی کے شاگرد شیخ غلام مصطفیٰ امن پوری نے امام نسائی کی کتاب ” وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تحقیق کرتے ہوئے سنن دارمی کی ایک روایت کا رد کیا ہے.روایت اس طرح ہے : أبو النعمان ، حدثنا : سعيد بن زيد ، حدثنا : عمرو بن مالك النكري ، حدثنا : أبو الجوزاء أوس بن عبد الله قال : قحط أهل المدينة قحطاً شديداً فشكواً إلى عائشة فقالت : إنظروا قبر النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فإجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ، قال : ففعلوا فمطرنا مطراً حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق ۔
ابی الجوزاء“ سے نقل ھوا ھے کہ ایک مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا بعض لوگ حضرت عائشہ كى خدمت ميں گئے اور ان سے چارہ جوئی كے ليے كہا_ حضرت عائشہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر پر چلے جاؤ اور قبر والے كمرے كى چھت ميں سوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو لوگ گئے انہوں نے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئی اس قدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے ۔ (سنن دارمی-امام دارمی : ١ /١٥٨ / رقم ٩٣ , مشکاۃ مصابیح -امام تبریزی : ٥٩٥٠)
غلام مصطفیٰ صاحب نے اس کو ضعیف کہا ہے وہ کہتے ہے : اس کی سند ضعیف ہے ۔ اس کے راوی عمرو بن مالک النکری (ثقہ حسن الحدیث) کی روایت ابو الجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے.یہ روایت بھی ایسی ہی ہے. حافظ ابن حجر لکھتے ہے : امام ابن عدی نے فرمایا ہے کہ عمرو بن مالک النکری نے ابو الجوزاء سے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث نقل کی ہے – ( تہذیب التہذیب ١ /٣٣٦)(وفاۃ النبی للنسائی بتحقیقی / صفحہ 235-236 / طبع پاکستان )
ان کے استاد شیخ زبیر علی زائی نے بھی مشکواۃ کی تحقیق میں اس روایت کو اسکی وجہ سے ضعیف کہا ہے ۔ (مشکاۃ مصابیح بتحقیقی / جلد ٣ / باب فضائل و شمائل / صفحہ ٤٧٨ / رقم ٥٩٥٠ / طبع دھلی)
لیکن ان دونون کی یہ جرح مردود ہے ۔ اس کا جواب مہشور ناصبی سلفی کفایت اللہ سنابلی نے یوں دیا ہے وہ ابن عدی کے اس کلام پر یوں کہتے ہے : عرض ہے دس احادیث کوئی بڑی تعداد نہیں کہ اس وجہ سے اس طریق ( زیر بحث حدیث کی سند بھی یہی ہے ) کو ضعیف کہا جائے .نیز یہ فیصلہ بھی صرف امام ابن عدی کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان احادیث میں قصور النکری کا نہیں بلکہ انکے نیچھے رواہ کا ہو جیسا کہ امام ابن حبان نے صراحت کرتے ہوئے کہا : عمرو بن مالک النکری, ابو مالک , یہ یحییٰ بن عمرو کے والد ہے, ان کی حدیث میں نکارت ان سے انکے بیٹے کی روایات میں ہے اور یہ فی النفس صدوق ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار صفحہ ١٥٥)
ابن حبان کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ عمرو بن مالک النکری کی ان روایات میں نکارت ہیں جنہیں اس سے ان کے بیٹے نے روایت کیا ہے ۔ لہٰذا ھم اس نکارت کی ذمہ داری خود عمرو بن مالک النکری پر نہیں ڈال سکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر محدثین نے انہیں علی الطلاق ثقہ قرار دیا ۔ ( نوار البدر فی وضع الیدین علیٰ الصدر کفایت اللہ سنابلی / صفحہ 212 / طبع ممبئ)
نوٹ : اس کا مقدمہ مہشور اھل الحدیث عالم ارشاد الحق الاثری نے لکھا ہے ۔
ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کرتے سے بیماری میں شفا حاصل کرتی تھیں ۔ صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء ۔
حدثنا يحيى بن يحيى أخبرنا خالد بن عبد الله عن عبد الملك عن عبد الله مولى أسماء بنت أبي بكر وكان خال ولد عطاء قال أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر فقالت بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة العلم في الثوب وميثرة الأرجوان وصوم رجب كله فقال لي عبد الله أما ما ذكرت من رجب فكيف بمن يصوم الأبد وأما ما ذكرت من العلم في الثوب ۔
فإني سمعت عمر بن الخطاب يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إنما يلبس الحرير من لا خلاق له فخفت أن يكون العلم منه وأما ميثرة الأرجوان فهذه ميثرة عبد الله فإذا هي أرجوان فرجعت إلى أسماء فخبرتها فقالت هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مكفوفين بالديباج فقالت هذه كانت عند عائشة حتى قبضت فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضى يستشفى بها ۔
ترجمہ : حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا ۔ کہنے لگیں : یہ ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069)(أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 : 49، رقم : 4054)(بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں : وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم ۔
ترجمہ : اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔(نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44)
کیا اب بھی کوئی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کی صحابیہ بہن حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی گواہی کو جھٹلا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو ایک طرف، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ تک اتنا بابرکت تھا کہ مدینے کے صحابہ بیماری کی حالت میں اس سے شفا حاصل کرتے تھے (حالانکہ بیماری سے شفا دینا اصل میں اللہ کا کام ہے)
کیا ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس جبہ سے فائدہ طلب کر کے اس کو اللہ کا شریک بنا دیا ؟
اور انہوں نے اللہ سے براہ ِراست بیماری سے شفا کیوں نہیں مانگ لی ؟
خود سوچیے کہ جب انہوں نے جبہ سے بیماری کے خلاف مدد طلب کی تو کیا یہ مدد حقیقی معنوں میں تھی؟ یا پھر انہوں نے یہ مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی تھی اور جبہ سے مدد مانگنے کا مطلب صرف اور صرف یہ تھا کہ اس کے وسیلے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکت بھی شامل ہو جائے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی مقبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ؟
انتہائی اہم اصول : ظاہری عمل بمقابلہ چھپی ہوئی نیت
اگرچہ کی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور اسماء بنت ابی بکر نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے شفا طلب کرتے ہوئے اللہ کا نام تک نہیں لیا، مگر پھر بھی تمام مسلمان (بشمول اہلحدیث حضرات) یہ یقین رکہتے ہیں کہ ان دونوں نے ایسا کر کے شرک نہیں کیا ہے ۔
اس قسم کے اعمال کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں : ظاہری عمل کی بنیاد پر فتویٰ دینا کہ شفا حقیقی معنوں میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جبہ سے طلب کی جا رہی تھی اور شرک کیا جا رہا تھا ۔
عمل کے پیچھے چھپی ہوئی باطنی نیت کو دیکہنا جو یہ بتا رہی ہے کہ جبہ سے شفا کے لیے مدد مانگنا مجازی معنوں میں تھا اور اصل مدد حقیقی معنوں میں اللہ سے ہی طلب کی جا رہی تھی۔ اور یہ باطنی نیت وہ چیز ہے جسے عمل کے ظاہر پر فوقیت حاصل ہے اور ہر عمل کا دار و مدار اس کے ظاہر پر نہیں ہے بلکہ اس کی نیت پر ہے ۔
اسی لیے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ مگر اہلحدیث حضرات نے اس کا بالکل الٹ کیا اور یہ عقیدہ گھڑا کہ : اعمال کا دار و مدار اُن کے ظاہر پر ہے ۔ لاحول واللہ قوۃ اللہ باللہ ۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کرنے کا مطلب اُن کی شفاعت کے ذریعے مدد طلب کرنا ہے ۔
جب ہم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو یہ مجازی معنوں میں ہوتا ہے اور باطنی نیت یہی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست ہے کہ وہ اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرما کر ہماری مدد فرمائیں ۔
اہلحدیث حضرات کے دوہرے معیار (ڈبل سٹینڈرڈ)
اگرچہ کہ اہلحدیث حضرات میں انتہا درجہ کی ظاہر پرستی کی بیماری پائی جاتی ہے، مگر پھر بھی ام المومنین جناب سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء بنت ابی بکر کے معاملے میں وہ اس قابل ہیں کہ اس عمل کے پیچھے چھپی ہوئی ان کی باطنی نیتوں کو سمجھ سکیں۔ مگر جب ہمارا معاملہ آتا ہے اور ہم رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مجازی معنوں میں مدد طلب کرتے ہیں کہ وہ اپنی شفاعت/دعا کے ذریعے ہماری مدد فرمائیں(اور حقیقی معنوں میں ہم اللہ سے ہی مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں) تو یہی اہلحدیث حضرات ایسی کسی باطنی نیت کا انکار کر رہے ہوتے ہیں اور وہ تمام آیات ہم پر چسپاں کرنے لگتے ہیں جو کہ کفار اور ان کے بتوں کےلیے نازل ہوئی ہیں ۔
اور اگر اب بھی ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، تو پھر وہ ان آیات کو جنابِ عائشہ صدیقہ اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم پر چسپاں کیوں نہیں کرتے ؟ مثلاً یہ آیت کہ : إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ۔ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تچھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ اور اسی طرح قران کو وہ تمام آیات بھی ان پر چسپاں کیوں نہیں کرتے جس میں اللہ فرما رہا ہےکہ اللہ کے سوا کوئی انہیں نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان ۔
قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ۔ (القران 21:66) (ابراہیم نے) کہا، „تو کیا تم اللہ کے سوا ایسوں کی عبادت کرتے ہو جو تمہیں کسی قسم کا فائدے پہنچا سکیں اور نہ نقصان ؟ ۔ اگر یہ ڈبل سٹینڈرڈ اور منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
عن انس انّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ن اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب، فقال اللھم ان کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا ،و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا ،قال:فیسقون ۔
تر جمہ : حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ :جب لوگ قحط کے شکار ہوئے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما کے وسیلے سے اس طرح دعا مانگا:اے اللہ!بے شک ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو ہمیں بارش عطا فرماتا ، اور اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا کے وسیلے سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بارش عطا فرما ، راوی کہتے ہیں : تو بارش ہوئی ۔ (الصحیح البخاری،رقم الحدیث:۱۰۱۰)
عن عثمان بن حنیف ان رجلا ضریر البصر اتی النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فقال:ادع اللہ لی ان یعافینی،فقال :ان شئت اخرّت لک و ھو خیر و ان شئت دعوتُ،فقال:ادعہ،فامرہ ان یتو ضأ فیحسن وضوء ہ و یصلی رکعتین و ید عو ا بھذاالدعا : اللھم انی اسألک و اتو جہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انّی قد تو جھت بک الی ربی فی حا جتی ھذہ لتُقضی،اللّٰھم فشفعہ فِیّ ۔
تر جمہ : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نا بینا شخص نبی کر یم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے پاس آیا ا ور اس نے کہا :میر ے لئے اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے عا فیت بخشے،تو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کہا :اگر تم چاہو تو میں مو خر کردوں اور وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر چاہو تو دعا کر دوں ،تو انہوں نے کہا :دعا کر دیجئے،تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے حکم دیا کہ وہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑ ھے اور اس طر ح سے دعا کرے:ائے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری طرف رحمت والے نبی محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے متوجہ ہو تا ہوں ،یا محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم!بے شک میں نے آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف لَو لگائی اپنی اس ضرورت میں تاکہ میری یہ ضرورت پو ری ہو جائے،ائے اللہ تو میری اس ضرورت کو پو ری فر ما ۔ (ابن ماجہ،رقم الحدیث:۱۳۸۵،ترمذی ،رقم الحدیث: الحدیث:۳۵۷۸)
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم:لما اقترف آدم الخطیئۃقال: یارب أسألک بحق محمد لما غفرت لی فقال اللہ :یا ٓدم وکیف عرفت محمد ولم اخلقہ ؟قال: یارب لأنک خلقتنی بیدک ونفخت فی من روحک ورفعت رأسی فرأیت علی قوائم العرش مکتوبا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ فعلمت انک لم تضف الی اسمک الی أحب الخلق فقال اللہ :صدقت یا آدم انہ لأحب الخلق الی ادعنی بحقہ فغفرت لک و لو لا محمد ما خلقتک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد ۔
تر جمہ : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے کہا :جب حضرت آدم سے خطائے اجتہادی سرزد ہوئی تو انہوں نے دعا کیا : ائے میرے رب !میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما،اس پر اللہ رب العزت نے فر مایا:ائے آدم !تونے محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی میں نے انہیں پیدا بھی نہیں کیا،؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا :مولا! جب تونے اپنے دست قدرت سے مجھے پیدا کیا اور اپنی روح میرے اند ر پھونکی میں نے اپنا سر اوپر اٹھایاتو عرش کے پایوں پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہوا ،میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھااسی کا نام ہو سکتا ہے جو تمام مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے ،اس پر اللہ تعالی نے فر مایا:ائے آدم !تو نے سچ کہا:مجھے ساری مخلوق میں سب سے زیادہ وہی ہیں ،اب جبکہ تم نے اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی ہے تو میں نے تجھے معاف کردیا اور اگر محمد(صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم)نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہیں کرتا۔یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم حدیث:۴۲۲۸)
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما انہ قال: استقی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ عام الرمادۃ بالعباس بن عبد المطلب فقال: اللھم ھذا عم نبیک العباس نتوجہ الیک بہ فاسقینا فما برحوا حتی سقاھم اللہ،قال: فخطب عمر الناس فقال: ایھا الناس ! ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کان یری للعباس ما یری الولد لوالدہ یعظمہ ویفحمہ و یبر قسمہ فا قتدو ا، ایھا الناس بر سول اللہ فی عمۃ العباس واتخذوہ وسیلۃ الی اللہ عزوجل فیما نزل بکم
تر جمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ :حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے قحط و ہلاکت کے سال حضرت عباس بن عبد المطلب کو وسیلہ بنا کر اللہ تعالی سے بارش کی دعا مانگی تو کہا:ائے اللہ! یہ تیرے نبی کے چچا عباس ہیں اِن کے وسیلے سے ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں تو ہمیں بارش عطا فر ما،تو اللہ تعالی نے بارش عطا فر مائی،راوی کہتے ہیں ،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا تو کہا: ائے لوگوں!حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی مقام وحیثیت دیتے تھے جیسا بیٹا اپنے باپ کو دیتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے،لوگوں! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی اقتدا کرو اور انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ بنائوتاکہ وہ تم پر بارش برسائے ۔ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر ۵۴۳۸)
عن ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال: قحط اھل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الی عائشۃ فقالت انظروا قبر النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فاجعلوا منہ کووا الی السماء حتی لا یکون بینہ وبین السماء سقف قال: ففعلوا فمطرنا مطرا حتی نبت العشب و سمنت الابل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق ۔
تر جمہ : حضرت ابو جوزاء اوس بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ:مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے ،تو ان لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی ،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قبر انور کے پاس جائواور اس سے ایک کھڑکی (سوراخ یا روشندان) آسما ن کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے در میان کوئی پردہ حائل نہ رہے ۔راوی کہتے ہیں کہ:انہوں نے ایسا ہی کیاتو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی سے پھٹ پڑیں گے لہذا اس سال کانام ہی ’ عام الفتق ‘(پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیاگیا ۔ (سنن الدارمی،باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بعد موتہ،حدیث:۹۲)
عن مالک الدار قال: وکان خازن عمر علی الطعام قال: اصاب الناس قحط فی زمن عمر فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم فقال: یارسول اللہ!استسق لامتک فانھم قد ھلکوا ،فاتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انکم ستسقون وقل لہ علیک الکیس علیک الکیس فاتی عمر فاخبرہ فبکی عمر ثم قال: یارب!لا آلواالا ما عجزت عنہ ۔
ترجمہ : مالک الدار،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے ،وہ بیان کرتے ہیں کہ:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں پر قحط آیا،تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث مزنی) حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے قبر انور پر آئے اور عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم! اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے کیو نکہ وہ قحط سے ہلاک ہورہے ہیں ،نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا:عمر کے پاس جائو،ان کو سلام کہواور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی،اور ان سے کہوکہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے،پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا:ائے اللہ !میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ میں عاجز ہو جائوں۔حافظ ابن کثیر نے کہاکہ:یہ صحیح اسناد سے مروی ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ،جلد ۱۲،ص:۳۲،البدایۃ والنھایۃ، جلد:۷، ص:۹۱۔۹۲،قال الحافظ ابن کثیر ھذا اسناد صحیح) ، بعد از وصال وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم والی روایت جس میں مالک دار رضی اللہ عنہ کی متابعت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کر رکھی ہے اگر بلفرض مالک کو مجھول مان لیا جائے تو مضرنہیں اور دوسری سند میں اعمش بھی نہیں ہے لہٰذا تدلیس والا بھی بہانہ ختم ہو جاتا ہے ۔ ( الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ نمبر678 باب ذکراحالتہ من سائلہ فی منامہ الدعاء علیہ مترجم اردو جلد اوّل کے صفحات نمبر 668 ، 669 مطبوعہ مکتبہ نور حسینیہ بلال گنج لاہور)
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما عن النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم قال :بینما ثلاثۃ نفر یمشون اخذھم المطر فأووا الی غار فی جبل ،فانحطت علی فم غار ھم صخرۃ من الجبل ،فا نطبقت علیھم فقال بعضھم لبعض:انظروا اعمالا عملتمو ھا صالحۃ للہ ،فادعو اللہ بھا لعلہ یفرجھا عنکم ،قال احدھم :اللھم!انہ کان لی والدان شیخان کبیران ،ولی صبیۃ صغار کنت ارعی علیھم ،فاذا علیھام حلبت ،فبدأت بوالدی أسقیھما قبل بَنِیّ ،وانّی استاخرتُ ذات یوم و لم آتِ حتی امسیتُ ،فو جد تھما ناما ،فحلبت کما کنت احلبُ فقمت عند رئوسھما اکرہ ان او قظھما ،و اکرہ ان اسقی الصبیۃ ،والصبیۃ یتضا غون عند قدمی حتی طلع الفجر ،فا ن کنت تعلم انّی فعلتہ ابتغاء وجھک ،فافرج لنا فر جۃ نری منھا السمائ،ففرج اللہ فرأوالسمائ،وقال الاٰخر :اللّٰھم! انھا کانت لی بنت عم احببتھا کاشد ما یحب الرجال النساء ،فطلبت منھا ،فابت حتی أتیتھا بمأئۃ دینار ،فبغیتُ حتی جمعتھا فلما وقعت بین رِجلیھا قالت:یا عبد اللہ اتق اللہ و لا تفتح الخاتم الّا بحقہ ،فقمت،فان کنت تعلم اِنّی فعلتہ ابتغاء و جھک ،فافرج عنا فر جۃ ،ففرج،وقال الثالث:اللّٰھم !اِنّی استأجرت أجیرا بفرق أرُزّ،فلما قضی عملہ قال:اعطنی حقی ،فعر ضت علیہ فرغب عنہ ،فلم ازل ازرعہ حتی جمعت منہ بقرا و رعا تھا ،فجائنی ،فقال:اتق اللہ،فقلتُ :اذھب الی ذالک البقر و رعاتھا فخذ،فقال :اتق اللہ ولاتستھزی بی ،فقلتُ:انی لا استھزی بک ،فخذ ،فأخذہ ،فان کنت تعلم انی فعلت ذالک ابتغاء وجھک،فافرج ما بقی ، ففرج اللہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا :تین آدمی سفر میں جارہے تھے کہ زور دار بارش ہو نے لگی،تو انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ،اتنے میں غار کے منہ پہ پہاڑ کا ایک چٹان آگرا اور یہ لوگ اس میں بند ہو گئے ۔پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا :تم لوگوں اپنے نیک کاموں پر غور کرو جو تم نے صرف اللہ کی رضا اور خوشنودگی کےلیے کیا ہے ،اور ان نیک کاموں کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو ،شاید اللہ تعالی تم سے یہ مصیبت دور کر دے ۔تو اس میں سے ایک آدمی نے دعا کیا :ائے اللہ !میرے بوڑ ھے ماںباپ تھے ،اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے ،میں بکریاں چرا تا تھا ،جب میں واپس آتا تو دودہ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو دودہ پلاتا ،ایک دن مجھے آنے میں تا خیر ہو گئی ،تو میں رات سے پہلے نہ آسکا ،جب میں آیا تو میرے ماں باپ سو چکے تھے ،میں نے حسب معمول دودہ دوہا اور ایک بر تن میں دودہ ڈال کر ماں باپ کے سر ہانے کھڑا ہو گیا ،میں ان کو نیند سے بیدار کر نا نا پسند کر تا تھا اور ان سے پہلے اپنے بچوں کو دودہ پلانا بھی نا پسند کر تا تھا ،حالانکہ بچے میرے قدموں مین چیخ رہے تھے،میں اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ائے اللہ! یقینا تو جا نتا ہے کہ یہ کام میں نے تیری رضا کے لئے کیا تھا ،تو ہمارے لئے کچھ کشادگی کردے تاکہ ہم غار میں سے آسمان کو دیکھ لیں۔تو اللہ تعالی نے کچھ کشادگی کر دی تو ان لوگوں نے آسمان کو دیکھ لیا ۔
پھر دو سرے آدمی نے دعا کی :ائے اللہ !میر ے چچا کی ایک لڑکی تھی جس سے میں بہت محبت کر تا تھا ،میں نے اس سے مقاربت کی درخواست کی،اس نے انکار کیا اور کہا پہلے سو دینار لائو۔میں نے بڑی محنت کر کے سو دینار جمع کیا اور اس کے پاس گیا ،جب میں جنسی عمل کر نے پر قادر ہو گیا تو اس نے کہا :ائے اللہ کے بندے اللہ سے ڈر اور ناجائز طریقے سے مہر نہ توڑ ،تو میں اسی وقت اس سے الگ ہو گیا ۔ائے اللہ! تجھے یقینا معلوم ہے کہ میں نے یہ کا م صرف تیری خوشی کے لئے کیا تھا ،پس تو ہمارے لئے اس غار کو کچھ کھول دے،تو اللہ تعالی نے غار کو مزید کھول دیا۔
پھرتیسرے شخص نے کہا:ائے اللہ !میں نے ایک شخص کو ایک فر ق(یعنی ایک پیمانہ آٹھ کلو گرام)چا ولوں کی اجرت پہ رکھا تھا ،جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو اس نے کہا مجھے میری اجرت دو ،میں نے اسے مقررہ اجرت دے دی مگر اس نے اس اعراض کیا ،میں ان چاولوں کی کاشت کر تا رہا یہاں تک کہ میں نے اس کی آمدنی سے بیل اور چر واہے جمع کر لئے،پھر ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا :اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو ،میں نے کہا :یہ بیل اور چر واہے لے جاؤ۔اس نے کہا اللہ سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو ، میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا یہ بیل اور چر واہے لے لو ،وہ ان کو لے کر چلا گیا ۔ اے اللہ !تو یقینا جا نتا ہے کہ میں نے یہ کام صرف تیری خوشی اور رضا کے لئے کیا تھا ،تو اب تو غار کا با قی منہ بھی کھول دے ۔ تو اللہ تعالی نے غار کا باقی منہ بھی کھول دیا ۔ (الصحیح البخاری،رقم الحدیث : ۲۳۳۳)
فِیۡہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیۡمَ۬ۚ وَمَنۡ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًاؕ وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًاؕ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیۡنَ ۔ (سورہ اٰل عمران آیت نمبر 97)
ترجمہ : اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سارے جہان سے بے پرواہ ہے ۔
خانۂ کعبہ کی عظمت و شان کا بیان چل رہا ہے ، اسی ضمن میں فرمایا کہ : خانۂ کعبہ میں بہت سی فضیلتیں اور نشانیاں ہیں جو اس کی عزت و حرمت اور فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ۔ ان نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ پرندے کعبہ شریف کے اوپر نہیں بیٹھتے اور اس کے اوپر سے پرواز نہیں کرتے بلکہ پرواز کرتے ہوئے آتے ہیں تو ادھر ادھر ہٹ جاتے ہیں اور جو پرندے بیمار ہوجاتے ہیں وہ اپنا علاج یہی کرتے ہیں کہ ہوائے کعبہ میں ہو کر گزر جائیں ، اسی سے انہیں شِفا ہوتی ہے اور وحشی جانور ایک دوسرے کو حرم کی حدودمیں ایذا نہیں دیتے، حتّٰی کہ اس سرزمین میں کتے ہرن کے شکار کیلئے نہیں دوڑتے اور وہاں شکار نہیں کرتے نیز لوگوں کے دل کعبہ معظمہ کی طرف کھنچتے ہیں اور اس کی طرف نظر کرنے سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور ہر شب ِجمعہ کو ارواحِ اَولیا ء اس کے ارد گرد حاضر ہوتی ہیں اور جو کوئی اس کی بے حرمتی و بے ادبی کا ارادہ کرتا ہے برباد ہوجاتا ہے ۔انہیں آیات میں سے مقامِ ابراہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جن کا آیت میں بیان فرمایا گیا ۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۲۷۶)(تفسیرات احمدیہ صفحہ ۲۰۱-۲۰۲)
مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکعبہ شریف کی تعمیر کے وقت کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پتھر خانۂ کعبہ کی دیواروں کی اونچائی کے مطابق خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے قدمِ مبارک کے نشان تھے جو طویل زمانہ گزرنے اور بکثرت ہاتھوں سے مَس ہونے کے باوجود ابھی تک کچھ باقی ہیں۔ (تفسیر خازن جلد ۱ صفحہ ۲۷۶)
بزرگوں سے نسبت کی برکت
اس سے معلوم ہوا کہ جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآئِرِ اللہِ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نشانی بن جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِۚ ۔ (سورہ بقرہ:۱۵۸)
ترجمہ : بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے قدم پڑجانے سے شَعَائِرُاللہ بن گئے ۔
خانہ کعبہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پورے حرم کی حدود کو امن والا بنادیا ، یہاں تک کہ اگر کوئی شخص قتل وجرم کرکے حدودِحرم میں داخل ہوجائے تو وہاں نہ اس کو قتل کیا جائے گا اورنہ اس پر حد قائم کی جائے گی۔ حضرت عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ’’ اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے ۔ (تفسیر مدارک اٰل عمران صفحہ ۱۷۴)
توسل بعد از وصال قرآن وسنت سے ثابت ہے جیسا کہ سورۃ النساء آیۃ ٤٦ میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے : ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما(سورۃ النساء آیۃ 64)
ترجمہ : اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
حافظ عماد الدین ابن کثیر منکرین وسیلہ کے ممدوح مذکورہ آیۃ کے تحت رقمطراز ہیں : یرشد اللہ تعالیٰ العصاۃ والمذنبین اذا وقع منہم الخطاء والعصیان ان یاتوا الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فیستغفروا اللہ عندہ ویسالوہ ان یغفرلہم فانہم اذا فعلوا ذالک تاب اللہ علیہم و رحمہم وغفرلہم ۔
ترجمہ : اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ عاصیوں ، خطا کاروں کو ارشاد فرما رہا ہے کہ جب ان سے خطا اور گناہ سرزد ہو جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آکر (آپ کی قبر انور کے پاس) اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لیے دعا کیجیے جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا ، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا ۔
مزید لکھتے ہیں : وقد ذکر جماعۃ منہم الشیخ ابو منصور الصباغ فی کتابہ الشامل الحکایۃ المشہورۃ عن العتبی قال کنت جالسا علی قبر النبی صلی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فجاء اعرابی ، فقال السلام علیک یارسول اللہ سمعت اللہ یقول : ولو أنہم إذ ظلموا أنفسہم جاء وک فاستغفروا اللہ واستغفر لہم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما ۔ (النساء/٦٤) ۔ وقد جئتک مستغفرا لذنبی مستشفعابک الی ربی ۔
ترجمہ : شیخ ابو منصور صباغ اپنی کتاب الشامل میں حکایت مشہورہ ذکر کرتے ہیں عتبی کہتے ہیں میں قبرِ انور کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنا ہے (اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ (عزوجل) سے معافی چاہیں اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) ان کی شفاعت فرمائیں تو (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں) ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتا ہوں اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتا ہوا حاضر ہوا ہوں ۔ عتبی قائل ہیں کہ وہ اعرابی چلا گیا اور مجھے نیند آ گئی خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زیارت سے مشرف ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : یا عتبی ، الحق الأعرابی فبشرہ أن اللہ قد غفر لہ'' عتنی جاؤ اس اعرابی کو خوشخبری سنا دو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر سورۃ النساء زیر آیۃ 64)
نیز اس آیت مبارکہ کا حکم صرف زمانہ نبوی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بعدا زارتحال تک حکم جاری ہے کہ اصولی قاعدہ ہے:العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب''کہ عموم لفظ کا اعتبار ہو تا ہے ،خصو ص محل کا اعتبار نہیں ہو تا '' لھذامتذکرہ بالا آیۃ کریمہ میں قبل از وصال کی کو ئی قید نہیں نیز لفظ (اِذ ْ ) ظرفیہ ہے جو اپنے معنی عموم پر دلالت کر رہا ہے جوقبل اور بعد از وصال دونوں کو شامل ہے،اس لیے جناب رسول اللہ ؐ ہرمجرم کے لیے ہر وقت تا قیامت وسیلہ مغفرت ہیں ۔
سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا انبیاء سابقین سے توسل
بعد از وصال صاحب مزار سے توسل خود سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے فعل سے مبرھن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد کےلیے انبیاء سابقین علیہم السلام کے توسل سے دعا مانگی ۔
جیسا کہ أبو القاسم سلیمان بن أحمد بن أیوب الطبرانی اپنی معجم میں رقمطراز ہیں : اللہ الذی یحیی ویمیت وہو حی لایموت أغفر لأمی فاطمۃ بنت أسد۔۔۔۔۔۔ ووسع علیہا مدخلہا بحق نبیک والأنبیاء الذین من قبلی فإنک أرحم الراحمین ۔
ترجمہ : اللہ وہ ہے جو زندہ کر تا اور مارتاہے اور وہ ایسا زندہ ہے جس کوموت نہیں ،اے اللہ! تو میری ماں فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور ان کی قبر کو کشادہ فرما اپنے نبی اور مجھ سے پہلے تمام انبیا کے وسیلے سے یقینا تو بڑا رحم فرمانےوالا ہے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی،مسند النساء ،باب الفاء فاطمۃ بنت أسد بن ہاشم أم علی بن أبی طالب : ٤ ٢/٣٥١،الرقم: ٨٧١)(المعجم الاوسط ج ١ ص ١٥٢)(کنز العمال،کتاب الفضائل،فاطمۃ أم علی رضی اللہ عنہما من الإکمال)(مجمع الزوائد للھیثمی کتاب المناقب ،باب مناقب فاطمۃ بنت أسد أم علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہا،جامع الاحادیث للسیوطی،حرف الراء)
اہل مدینہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بحکم سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا حضور پرنور ؐ کی مزار پر انوار سے توسل
امام أبو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی اپنی سنن میں رقمطراز ہیں : حدثنا ابو الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال قحط اہل المدینہ قحطاً شدیداً فشکوا الی عائشۃ، فقالت انظر قبر النبی ؐ فاجعلوا منہ کووا الی السماء حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف ققال ففعلو فمطروا مطراً حتی نبت العشب، و سمنت الابل حتی تفتقت من الشہم فسمی عام الفتق (رجالہ ثقات)
ترجمہ : اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے جناب عائشہ رضی اللہ عنہا سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر کے پاس جاؤ اور آسمان کی طرف ایک کھڑکی بایں طرح کھولو کہ قبر انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ روای قائل ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی کیا پس بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اگ آیا اور اونٹ اتنے فربہ ہوگئے کہ محسوس ہوتا جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ بایں وجہ اس سال کا نام ہی عام الفتق رکھا دیا گیا ۔ (سنن الدارمی، المقدمہ ،باب ما أکرم اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم بعد موتہ ج١، ص :٤٣، الرقم٩٣،مطبوعہ دمشق،مشکاۃ المصابیح،باب فضائل سید المرسلین)
کبار صحابہ کرام علیھم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وصال کے بعد بھی آپکے وسیلہ سے بارگاہ ایزدی میں التجائیں کرتے تھے جیسا کہ جناب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے متعلق امام أبو عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسابوری اپنی مستدرک میں ارقام فرماتے ہیں : عن داود بن أبی صالح قال أقبل مروان یوما فوجد رجلا واضعا وجہہ علی القبر فأخذ برقبتہ و قال:أتدری ما تصنع ؟ قال:نعم فأقبل علیہ فإذا ہو أبو أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ فقال جئت رسول اللہ ؐ و لم آت الحجر۔۔۔۔۔۔ہذا حدیث صحیح الإسناد و لم یخرجاہ ۔
ترجمہ : داؤد بن ابی صالح سے مروی ہے کہ ایک روز مروان (خلیفہ وقت ) آیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور پر ایک شخص کو چہرہ رکھے ہوئے پایا تو کہا کیا تو جانتا ہے کیا کر رہا ہے جب وہ شخص مروان کیطرف متوجہ ہوا تو وہ ''صحابی رسول'' ابو ایوب انصاری تھے اور آپ نے جوابًا فرمایا (ہاں میں جانتا ہوں) میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں پتھر کے پاس نہیں آیا۔
(المستدرک علی الصحیحین/کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ تعالی عنہم/کتاب الفتن و الملاحم ٤:٥٦٠،الرقم٨٥٧١)
صحابی رسول بلال بن حارث کا بعد از وصال حضور سید المرسلین سے توسل
حافظ عبد اللہ بن محمد بن أبی شیبۃ اپنی مصنف میں رقمطراز ہیں : عن مالک الدار ، قال :أصاب الناس قحط فی زمن عمر ، فجاء رجل إلی قبر النبی ؐ فقال یا رسول اللہ !استسق لامتک فإنہم قد ہلکوا فأتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فأقرئہ السلام ، وأخبرہ أنکم مسقیون وقل لہ:علیک الکیس علیک الکیس فأتی عمر فأخبرہ فبکی عمر ثم قال یا رب لا آلوإلا ما عجزت عنہ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار کہتے ہیں خلافت فاروقی میں لوگ قحط میں مبتلاء ہوئے تو ایک شخص(صحابی رسول حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ) حضور ؐ کی مرقد انور پر حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ! اپنی امت کے لئے بارش کی دعاء فرمائیے کہ امت ہلاک ہورہی ہے ۔ آپ ؐ خواب میںاس صحابی کے پاس تشریف لائے ارشاد فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ اور خبر دو کہ بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کہ وہ نرمی اختیار کریں۔۔۔پھر وہ صحابی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور خبر دی توجناب عمرفاروق رضی اللہ عنہ روپڑے اورکہا اے میرے پروردگا ر !میں کوتاہی نہیں کرتا سوائے اس کے جس سے میں عاجز ہوجاؤں۔ (المصنف لابن ابی شیبہ،کتاب الفضائل،باب ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب٦:٣٥٦الرقم٣٢٠٠٢،)
بعد از وصال وسیلہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم والی روایت جس میں مالک دار رضی اللہ عنہ کی متابعت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کر رکھی ھے اگر بلفرض مالک کو مجھول مان لیا جائے تو مضرنھیں اور دوسری سند میں اعمش بھی نھیں ھے لہٰذا تدلیس والا بھی بہانہ ختم ھو جاتاھے ۔ نجدی منکرو اب تمہارا کیا بنے گا ؟ ( الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ نمبر678باب ذکراحالتہ من سائلہ فی منامہ الدعاء علیہ ( مترجم اردو جلد اوّل کے صفحات نمبر 668 ، 669 مطبوعہ مکتبہ نور حسینیہ بلال گنج لاہور)
ابن تیمیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے مزار اقدس کی زیارت اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ نمانا جائز ہے (استحباب زیارۃ خیر الانام صفحہ 534 ،534)
علامہ ابن تیمیہ سے سوال ہوا وسیلہ جائز ہے کہ نہیں جواب دیا امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں جائز ہے ۔ (مجموعہ فتاویٰ جلد 1 صفحہ140)
ترجمہ : دسواں مسئلہ - علماء اسلام کا قول ہے کہ دعائے استسقاء میں نیکوکاروں کا وسیلہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں اور امام احمد فرماتے ہیں: صرف نبی صلی الله علیہ وسلم کا وسیلہ لینا چاہئے ، اسی کے ساتھ ان علماء نے صراحت کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی بھی مخلوق سے مدد طلب کرنا درست نہیں ، لہٰذا (مدد طلب کرنے اور وسیلہ لینے کے درمیان) فرق بلکل واضح ہے اور ہم جو مسئلہ بیان کر رہے ہیں ، اس پر کوئی اعتراض نہیں ، بعض صالحین توسل کو جائز قرار دیتے ہیں ، تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے ، اگرچہ ہمارے نزدیک صحیح قول جمہور کا ہے کہ توسل مکروہ ہے ، مگر وسیلہ لینے والوں کو ہم غلط بھی نہیں کہتے ، کیونکہ اجتہادی مسائل میں انکار و اعتراض کی گنجائش نہیں ہے . (مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / فتاویٰ و مسائل ، جلد ٤ ، صفحہ ٦٨)
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : ترجمہ : ابو بکر بن صدقہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ احمد بن حنبل کے سامنے صفوان بن سلیم کا ان کے قلیل الروایت ہونے کا اور ان کی بعض مخالف جمہور باتوں کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صفوان ایسے شخص ہیں کہ ان کی حدیثوں کے ذریعہ شفا طلب کی جاتی ہے اور ان کے ذکر سے بارش مانگی جاتی ہے . (صفتہ الصفوة ، جلد ٢ ، صفحہ ١٥٦)
محمد بن عبد الوہاب نجدی لکھتے ہیں : ہمارا مذہب امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ کا مسلک ہے ، جو اہلسنت کے امام ہیں ، ہم چاروں مذاہب کے مقلدین پر کوئی اعتراض نہیں کرتے ، جبکہ وہ کتاب و سنت اجماع اور جمہور کے قول کے مخالف نہ ہو -(مؤلفات محمد بن عبد الوہاب / رسائل الشخصیہ ، جلد ٧ ، صفحہ ١٠٧)
مزید لکھتے ہیں کہ : ترجمہ : الله کا شکر ہے کہ ہم متبع سنت ہیں ، موجدِ بدعت نہیں ، امام احمد بن حنبل کے مسلک پر کاربند ہیں - (بن عبد الوہاب / رسائل الشخصیہ ، جلد ٧ ، ، صفحہ ٤٠)
علامہ ناصر البانی لکھتے ہیں : امام احمد بن حنبل علیہ الرّحمہ اور امام شوکانی کے نزدیک وسیلہ صالحین جائز ہے ۔ (التوسل صفحہ نمبر 42 عربی)
اگر توسل بعد از وصال ناجائز وبدعت اور شرک ہوتا تواللہ تعالیٰ اس کے متعلق ارشاد نہ فرماتا نیز نہ ہی محبوب رب کائنات انبیاء سابقین علیہم السّلام کے توسل سے دعاء مانگتے نہ ہی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مصائب وآلام سے چھٹکارے کے لیئے آپکی مرقد انور سے توسل کرنے کو فرماتیں اور نہ ہی صحابہ کرام توسل کرتے ۔
استغاثہ مافوق الاسباب کے فریب کا جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کےبعد اعرابی نے بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آوازآئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ (تفسیر مدارک التنزیل جلد 1 صفحہ 370 سورہ نساء)
معلوم ہوا استغاثہ اور وسیلہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جائز ہے ۔
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے وصال مبارک کے بعد ایک اعرابی آیا قبر انور کی خاک سر پر ڈال کر فریاد کی تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہو گئی ۔ ( تفسیر بحر المحیط جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 296)
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا قبر انور پر فریاد کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قبر انور سے آواز آئی تحقیق تیری بخشش ہوگئی۔(تفسیر قرطبی سورۃُ النساء صفحہ 265 )
بعد از وصال مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اعرابی کا بارگاہ رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں فریاد کرنا اور نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ، کی طرف سے مغفرت کی بشارت ملنا ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 306 سورہ نساء)
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (سورة النساء 64)
ترجمہ : اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرکے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے آستانہ پر آجائیں اوراللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں اور آپ بھی اے رسول ان کی سفارش کریں توبیشک یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
اللہ کے پسندیدہ بندے خواہ وہ زندہ ہوں یاوفات یافتہ ۔اللہ تعالیٰ کے ہاں مسلمانوں کاوسیلہ عظمیٰ ہیں ان کی ذات اورنام وسیلہ اور ان سے منسوب چیزیں وسیلہ یعنی جس چیز کو ان سے نسبت ہوجائے وہ وسیلہ ۔ہم رب تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس مسئلہ پرکچھ روشنی ڈالتے ہیں ۔
اس کاثبوت قرآنی آیات ‘ احادیث نبویہ’ اقوال بزرگاں ،اجماع امت اوردلائل عقلیہ سے ہے۔ اوپر دی گئی آیۃ کریمہ سے یہ معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہرمجرم کیلئے ہروقت تاقیامت وسیلہ مغفرت ہیں ظلموں میں کوئی قید نہیں اوراجازت عام ہے یعنی ہر قسم کامجرم ہمیشہ آپ کے پاس حاضر ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورة المائدہ ، 35) ۔
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ سے ڈرتے رہو۔ اوررب کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کروتاکہ تم کامیاب ہو۔
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ اعمال کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں کاوسیلہ ڈھونڈھنا ضروری ہے کیونکہ اعمال تواتقواللہ میں آگئے اوراس کے بعد وسیلہ کاحکم فرمایا ۔معلوم ہواکہ یہ وسیلہ اعمال کے علاوہ ہے۔
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ (سورة التوبہ، 103)
ترجمہ : اے محبوب ! ان مسلمانوں کے مالوں کاصدقہ قبول فرمائو اور اس کے ذریعہ آپ انہیں پاک وصاف کریں اور ان کے حق میں دعائے خیرکرو کیونکہ آپ کی دعا ان کے دل کاچین ہے ۔
معلوم ہواکہ صدقہ وخیرات اعمال صالحہ طہارت کاکافی وسیلہ نہیں ۔بلکہ طہارت تو معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے کرم سے حاصل ہوتی ہے ۔
وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا (سورة البقرہ، 89)
مفسرین اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ اہل کتاب معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طفیل کفارپرفتح کی دعا کرتے تھے معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تشریف آوری سے پہلے اہل کتاب آپ کے نام کے وسیلہ سے جنگوں میں دعائے فتح کرتے تھے اور قرآن کریم نے ان کے اس فعل پراعتراض نہ کیابلکہ تائید کی اور فرمایا کہ” ان کے نام کے وسیلہ سے تم دعائیں مانگاکرتے تھے اب ان پرایمان کیوں نہیں لاتے۔ معلوم ہوا کہ حضور معلم و مقصود کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کامبارک نام ہمیشہ سے وسیلہ ہے۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ (سورة البقرہ، 37)
آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی طرف سے کچھ کلمے پائے جن کے وسیلہ سے دعا کی اور رب نے ان کی توبہ قبول کی ۔
بہت سے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ وہ کلمہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم معلم و مقصود کائنات کے نام پاک کے وسیلہ سے توبہ کرناتھا۔ جس سے توبہ قبول ہوئی معلوم ہواکہ حضور علیہ الصلاة والسلام انبیائے کرام کا بھی وسیلہ ہیں ۔
اِستغاثہ کی بحث کے دوران اَسباب کے ضمن میں عام طور پر اُمور کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں : ⬇
(1) اُمورِ عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما تحت الاسباب ۔
(2) اُمورِ غیر عادیہ۔۔۔۔۔۔ یعنی۔۔۔۔۔۔ اُمور ما فوق الاسباب ۔
اِس تقسیم کے تحت ما تحت الاسباب ہونے کے ناطے اُمورِ عادیہ میں اِستغاثہ کو جائز سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اُمورِ غیر عادیہ جو ما فوق الاسباب ہوتے ہیں، میں اِستغاثہ کو شِرک قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کام جو بالعموم اَسباب کے ذریعے سراِنجام پاتے ہیں ان عادی اَسباب کو ترک کر کے مدد چاہنا اِستغاثہ مافوق الاسباب کہلاتا ہے اور اَسبابِ عادیہ کو اِختیار کرتے ہوئے مدد چاہنا ماتحت الاسباب ہے، یعنی اس میں کسی سے مدد چاہتے ہوئے ان اسباب کو اختیار کرلیا جاتا ہے جو بالعموم اس امر سے متعلق ہوتے ہیں۔ اِس تقسیم کے بعد یہ امر پیشِنظر رہنا چاہیئے کہ اُن کے نزدیک دُنیوی حوائج میں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہمی اُمور میں تعاون کرنا اِستغاثہ ماتحت الاسباب ہے اور یہ جائز ہے، جیسے اِرشادِ ربانی ہے :وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰي.ترجمہ : اور نیکی اور تقویٰ (کے کاموں ) میں ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔(المائده، 5 : 2)
ما تحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ کو رَوا رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے نزدیک وہ اِستغاثہ جو ما فوق الاسباب اُمور میں سے ہو وہ حرام و ناجائز ہے ۔
اس اِعتراض کا علمی محاکمہ : پہلا نکتہ : اِستغاثہ ماتحت الاسباب اور اِستغاثہ مافوق الاسباب (اُمورِ عادیہ و غیرعادیہ) میں سے مؤخرالذکر کو شِرک قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اِس تقسیم اور اس کے تحت پائی جانے والی ایک قسم کے جواز اور دُوسری کے عدم جواز کا قرآن و سنت میں کوئی ذکر نہیں۔ یہ ایک خود ساختہ تقسیم ہے اور اِستنباط و اِستخراج کا نتیجہ ہے ۔ کسی قسم کی کوئی نصِ قرآنی اِستغاثہ کے ضمن میں اَسباب کے حوالے سے پائی جانے والی تقسیم پرشاہد نہیں ۔
یہاں ہمیں یہ بات بھی ذِہن نشین رکھنی چاہیئے کہ اُمورِ مافوق الاسباب میں بھی کسی نہ کسی سطح کے اَسباب ضرور کارفرما ہوتے ہیں۔ ’’کُنْ فَیَکُوْن‘‘ کے علاوہ کوئی اَمر مافوق الاسباب نہیں۔ مگر چونکہ بعض اُمور کے اَسباب ہمیں ظاہری طور پر نظر نہیں آتے اِس لئے ہم اُنہیں عام طور پر اُمورِ مافوق الاسباب کا نام دیتے ہیں۔
دُوسرا نکتہ : سورۂ فاتحہ کی جس آیتِ کریمہ کو مسئلہ کی بنیادی کڑی اور اصل سمجھا جاتا ہے خود اُس میں اَسباب کے تحت کی جانے والی کسی تقسیم کا قطعاً کوئی ذِکر نہیں کیا گیا اور ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کہہ کر مدد طلب کرنے کو مطلق رکھا گیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ ألْمُطْلَقُ يَجْرِيْ عَلَي إِطْلَاقِه (مطلق اپنے اِطلاق پر جاری رہتا ہے) اِس لئے ہم کسی خود ساختہ تقسیم کے تحت یہ معنی متعین نہیں کر سکتے کہ اَے باری تعالی! ہم تُجھ سے صرف مافوق الاسباب اُمور میں مدد چاہتے ہیں کیونکہ وہ تیرے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا، رہی بات ماتحت الاسباب اُمور کی تو اُن میں چونکہ تیرے علاوہ حصولِ مدد کے اور بھی کثیر ذرائع موجود ہیں اِس لئے اُن معاملات میں تُجھ سے مدد مانگنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔ اِس طرح کی تقسیم کم علمی اور نادانی کے سِوا کچھ نہیں اور یہی صحیح معنوں میں شِرک میں مبتلا کرنے والی ہے۔
تیسرا نکتہ : تفہیمِ مسائل، رفعِ اِلتباس اوربعض اشیاء کو بعض سے ممیز کرنے کے لئے تقسیمات کی جاتی ہیں، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں مذکورہ تقسیم کی عدم ضرورت کے باوجود تقسیم کرنے اور پھر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز سمجھنے کا کیا جواز ہے ؟ جبکہ مافوق الاسباب میں شِرک کے فتاویٰ جائز اور درُست قرار دیئے جا رہے ہیں۔ اگر ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں اِستغاثہ حقیقی اور اِستغاثہ مجازی کی تقسیم کی جائے تو پھر اُس کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ فی الواقع ’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ میں تقسیم تو ہے مگر ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی بجائے حقیقت اور مجاز کی ہے ۔
صحیح اِسلامی عقیدہ: ⬇
’’إِيَّاكَ نَسْتَعِين‘‘ کے کلمات میں بندہ باری تعالیٰ سے عرض کناں ہوتا ہے کہ اے اللہ! ہم اپنی ضروریات کی کفالت کے لئے ظاہراً کسی سے بھی مدد کے طلبگار ہوں اُس کو مُستغاثِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ مُستغاثِ حقیقی فقط تجھی کو سمجھتے ہیں کیونکہ تیری عدم رضا کی صورت میں کوئی ہمارا مددگار اور پُرسانِ حال نہیں ہو سکتا۔ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ خواہ ہم ڈاکٹر کے علاج معالجہ سے شفایاب ہو رہے ہوں یا کسی بزرگ کے دُعا سے، کسی کو بھی مستعانِ حقیقی خیال نہیں کرتے بلکہ حقیقی مددگار تو اللہ ربّ العزّت ہے ۔ ہم دوا اور دُعا دونوں کو سبب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اصل مُستغاث اور کارساز تو ہی ہے ۔
چوتھا نکتہ : اب غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں تقسیموں، ’’مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب‘‘ اور ’’حقیقت و مجاز‘‘ میں تطبیق کیونکر ممکن ہے؟ بلا شبہ بعض اُمورِ حیات میں ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب کی تقسیم رَوا ہے۔ یہ امرِِ واقعہ ہے اور فہم و شعور میں سمانے والی چیز ہے جس کا ثبوت لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ کچھ اُمور ماتحت الاسباب حل ہوجاتے ہیں اور کچھ اُمور کا حل مافوق الاسباب تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اَسباب دراصل دونوں صورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اَسباب بدیہی ہوتے ہیں جبکہ مافوق الاسباب اُمور میں اَسباب عام آدمی کی نظر سے اوجھل ہوتے ہیں ۔ ماتحت الاسباب کو ظاہری اور مافوق الاسباب کو رُوحانی اور باطنی اَسباب کہنا زیادہ موزوں ہو گا ۔ مافوق الاسباب اُمور میں اگرچہ اسبابِ عادیہ کا ترک ہوتا ہے مگر اسبابِ غیر عادیہ کا وُجود تو بہرطور یہاں بھی پایا جاتا ہے۔ گویا حقیقی معنوں میں کوئی بھی اُمور مطلقاً مافوق الاسباب نہیں ہوتے ۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں اسباب ظاہری ہوتے ہیں جو عام بندے کو دِکھائی دے جاتے ہیں ۔ جبکہ مافوق الاسباب میں اسباب غیر عادیہ ہونے کی وجہ سے فردِ بشر کی عام نظر سے دکھائی نہیں دے پاتے ۔
جب انبیاء، علیہم السّلام اولیاء، صلحاء علیہم الرّحمہ یا کسی بھی فردِ بشر کو عالمِ اسباب کے اندر رہتے ہوئے اسی سے متعلق مدد طلب کی جائے تو وہ الفاظ جو حصولِ مدد کے لئے استعمال ہوں اُنہیں حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا، مگر مستغاثِ حقیقی اس صورت میں بھی اللہ تبارک و تعالی کی ذاتِ برحق ہوگی ۔ اوراُمورِ عادیہ کے ماوراء اَسباب کی دُنیا میں جب مدد طلب کی جائے گی تو اِستغاثہ کے لئے اِستعمال ہونے والے اَلفاظ مجاز اً اِستعمال ہوں گے جبکہ اِعتقاد اس صورت میں بھی اللہ ربّ العزّت ہی کے مُستغاثِ حقیقی ہونے کا ہوگا۔ یعنی معنی حقیقی دونوں صورتوں میں سے کسی میں بھی نہیں پایا جائے گا۔ فرق صرف اِتنا ہے کہ ماتحت الاسباب میں لفظ کا اِستعمال حقیقت پر مبنی تھا اور مافوق الاسباب میں حقیقی معنی مراد لینا متعذر تھا، اِس لئے لفظ کو بھی حقیقت پر محمول نہ کیا گیا۔ الغرض معنا اور عقیدۃ اِستغاثہ حقیقی اللہ ربّ العزّت ہی کے لئے خاص ہے ۔
حقیقت و مجاز کی تقسیم لابدّی ہے ۔
نفسِ اِستغاثہ کا اِنکار کرنے والے ایک طبقے کا مؤقف یہ ہے کہ ماتحت الاسباب اُمور میں اِستغاثہ جائز ہے، جبکہ اِس سلسلے میں حقیقت و مجاز کی کوئی حیثیت نہیں ۔۔۔۔ اب اس مؤقف کے قائل لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں اِستغاثہ کو جائز اور درست مانا جائے اور اِستغاثہ حقیقی و مجازی کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ماتحت الاسباب اُمور میں مُستغاثِ حقیقی کون ہوگا ؟ ۔۔۔ اگر مریض کسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جائے تو مُستعانِ حقیقی کون ہوا؟۔۔۔ کیا مُستعانِ حقیقی وہ ڈاکٹر جو مریض کے معالجے کی تدبیر کر رہا ہے یا کہ اللہ تعالی؟ ۔۔۔ اگر اِس کا جواب یہ ہو کہ دُنیوی اُمور میں بھی مُستعانِ حقیقی اللہ ہی ہے تو مافوق الاسباب اور ماتحت الاسباب میں باہم فرق کیا رہا ؟ ۔۔۔ مافوق میں اسی اِستغاثہ کا نام شِرک اور ماتحت الاسباب میں اجازت! یہ کہاں کا اصول ہے کہ حقیقت و مجاز کا فرق ملحوظ رکھے بغیر مُستعانِ مطلق بھی اللہ کو قرار دیا جائے اور اُس کے غیر سے مدد بھی طلب کرتے پھریں ؟ حالانکہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَo ۔ ترجمہ : اور ہمارا ربّ بے حد رحم فرمانے والا ہے اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے ان (دل آزار) باتوں پر جو (اے کافرو!) تم بیان کرتے ہو o ۔ (الانبياء، 21 : 112)
دُوسری صورت میں اگر اِس کا جواب یہ دِیا جائے کہ اُمورِ ماتحت الاسباب میں مستغاثِ حقیقی اللہ تبارک و تعالیٰ نہیں اِنسان ہی ہے تو اس سے تعدّد لازِم آئے گا ۔۔۔ جو یقیناً شِرک ہے ۔۔۔ کہ دُنیوی کاموں میں مستعان بندہ ہو اور مافوق الاسباب کاموں میں اللہ تعالی ۔ اِس دُوئی کی بنا پر جب بندے کو مستغاث و مستعان تسلیم کیا جائے تو یہ بالکل اُسی طرح کا شِرک قرار پائے گا جو کفار و مشرکینِ مکہ کا تھا کہ وہ دُنیوی اُمور میں بندوں کو مددگار تسلیم کرتے اور دیگر اُمور میں اللہ تعالی کو مددگار مانتے تھے ۔ اور اگر یہ بات کی جائے کہ دنیاوی اُمور میں بھی مستعان اللہ ہی ہے تو پھر اس کے غیر سے مدد مانگنا کیونکر درست ہوگیا ؟
فیصلہ کن بات یہ ہے کہ جب معترضین کے نزدیک اُمورِ ماتحت الاسباب میں مُستغاثِ حقیقی اللہ تعالی ہے اور مخلوق سے اِستعانت فقط ظاہری اور مجازی معنی میں ہے، حقیقی معنی میں نہیں ، ۔۔۔ تو اِس صورت میں ایک سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اگر ماتحت الاسباب میں غیر سے مدد چاہنا اِستغاثہ مجازی ہونے کی وجہ سے جائز ہے تو مافوق الاسباب میں مجاز ہونے کے باوجود کیسے حرام ہوگیا ؟ جبکہ وہاں بھی اِستغاثہ حقیقی کی بجائے اِستغاثہ مجازی ہی تھا ۔
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا جواز : ⬇
مافوق الاسباب اُمور میں مجاز کا اِستعمال اِس لحاظ سے بھی جائز ہے کہ وہ بظاہر تو اگرچہ اِستغاثہ ہوتا ہے مگر اِس سے مفہوم اور مُراد توسل ہوا کرتا ہے، اور مستعانِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو جانا جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ اِستغاثہ کا مجازی معنی میںاِستعمال قرآنِ مجید میں کئی صورتوں میں ہوا ہے ، جن میں سے اکثر استعمالِ مجاز ما فوق الاسباب کے لئے ہوا ہے۔ قرآنِ حکیم میں مجاز کا اِستعمال جس کثرت کے ساتھ ہوا ہے اُس میں سے چند مقامات کا ہم یہاں ذِکر کریں گے تاکہ قارئین کے اذہان و قلوب میں یہ تصوّر اچھی طرح سے راسخ ہو جائے کہ حقیقت و مجاز کی تقسیم سے اِنکار کی صورت میں کس قدر خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔
جبرئیل علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟
حضرت جبرئیل علیہ السلام جب ﷲ کے اِذن سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت کے سلسلے میں حضرت مریم علیھا السلام کے پاس اِنسانی رُوپ میں آئے تو اُن سے کہا : اِنَّمَا أنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً زَکِيًّا ۔
ترجمہ : (جبرئیل نے) کہا میں تو فقط تیرے ربّ کا بھیجا ہوا ہوں (اس لئے آیا ہوں) کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروںo۔(مريم، 19 : 19)
مذکورہ بالا آیت میں جبرئیل امین علیہ السلام کا قول اُمورِ مافوق الاسباب میں سے ہے کیونکہ شادی اور اِزدواجی زندگی کے بغیر بیٹے کا ہونا اور اس پر یہ کہنا کہ : ’’میں تجھے پاکیزہ بیٹا دوں‘‘ مافوق الاسباب اُمور میں مدد کی بہت بڑی قرآنی مثال ہے اور اسبابِ عادیہ کے بغیر اِس دنیا میں اِس کا تصوّر بھی محال ہے ۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض توسل کی نیت سے ﷲ ربّ العزّت کے کسی برگزیدہ بندے کے وسیلے سے اولاد طلب کرے تو کچھ نادان دوست فی الفور شِرک کا فتویٰ لگا دینے سے نہیں چوکتے جبکہ کوئی غیرخدا ۔۔۔ جبرئیل علیہ السلام۔۔۔ کہے کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اور اللہ تعالیٰ خود اُس کا ذِکر قرآنِ مجید میں کرے تو کیا یہ اُسی طرح شِرک نہیں ہوگا؟ مانگنے کی صورت میں تو مانگنے والا پھر بھی اِنسان ہی رہتا ہے مگر یہ کہنا کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ اِس جملے کو اگر مجازی معنی پر محمول نہ کیا جائے تو حقیقی معنوں میں تو یہ سراسر خدا بننے کے مترادف ہے۔ اولاد سے نوازنا فعلِ اِلٰہی ہے اور بندے کا کام اُس سے اُس کی عطا کی بھیک مانگنا ہے ۔ بندے کا غیرﷲ سے مانگنا اگر شِرک ہے تو پھر کسی دینے والے غیرِخدا کا قول یہ کہ ’’میں بیٹا دیتا ہوں‘‘ تو بدرجۂ اولیٰ شِرک قرار دیا جانا چاہئیے۔ اِس مقام پرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جبرئیلِ امین علیہ السلام تو ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ کہہ کر بھی (معاذ ﷲ) مشرک نہ ہوئے بلکہ اُن کا قول، قولِ حق رہا تو اُن کے اس قول کی آخر کیا توجیہہ ہوگی ؟
جواب : یہ قول تو اگرچہ روح الامین کا ہے کہ میں بیٹا دیتا ہوں مگر اِس سے مُراد یہ ہے کہ وہ بیٹا جو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمانے والا ہے ’’میں‘‘ اُس کا سبب، وسیلہ اور ذریعہ بنتا ہوں ۔ پس مذکورہ آیتِ کریمہ میں ’’لِأهَبَ لَکِ غُلَاماً‘‘ میں مدد دینے کا عمل پایا گیا مگر اس سے مُراد محض توسل ہے اور ان کا بیٹا دینے کا قول مجازِ قرآنی کی ایک عمدہ مثال ہے ۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر شِرک کا فتویٰ ؟
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی اُمت کے سامنے اِعلائے کلمۂ حق کیا اور اُنہیں شِرک سے باز آنے اور ﷲ وحدہ لا شریک کی وحدانیت کی طرف بلانا چاہا تو اُنہوں نے اپنی قوم کو مختلف معجزات دِکھائے ۔ قرآنِ مجید میں آپ کی اس دعوت کا ذکر یوں آیا ہے : أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللّهِ وَأُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ والْأَبْرَصَ وَأُحْيِـي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللّهِ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔
ترجمہ : بے شک میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں، میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اللہ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے۔ اور میں مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفا یاب کرتا ہوں اور میں اللہ کے حکم سے مردے کو زندہ کر دیتا ہوں اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بے شک اس میں تمہارے لیے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہوo ۔ (آل عمران، 3 : 49)
اس آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دستِ اقدس سے کل پانچ معجزات کے ظہور کا ذکر آیا ہے : ⬇
1۔ مٹی سے پرندہ بنا کر اُسے زِندہ کرنا
2۔ مادر زاد اَندھے کا علاج
3۔ سفید داغ (برص) کا علاج
4۔ اِحیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا)
5۔ غیب کی خبریں سرِعام بتانا
یہ پانچ معجزات اللہ ربّ العزّت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو عطا فرمائے تھے اور آپ علیہ السلام علی الاعلان ان کا اِظہار بھی فرمایا کرتے تھے ، جس کی تصدیق خود باری تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمائی ہے ۔ یہاں فقط اِتنا سمجھ لینا کافی ہوگا کہ اِس آیتِ کریمہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ’’أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم‘‘ میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی مورت بناتا ہوں ’’أَجْعَلُ‘‘ کی بجائے ’’أَخْلُقُ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا۔ اگر آپ غور کریں تو مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں ساری بحث ہی حقیقت و مجاز کی ہے ۔
حقیقی کارساز اللہ ربّ العزت ہی ہے : ⬇
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ میں بھی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مستعانِ حقیقی نہیں ہیں بلکہ اللہ ہی حقیقی مدد کرنے والا ہے ۔ البتہ ان الفاظ کا اِستعمال فقط مجازا ہوا ہے اور ساری بحث الفاظ پر ہے، لہٰذا اُصول اور ضابطہ یہ ہوا کہ ایسے الفاظ کا اِستعمال مجازا جائز ہے ۔ مذکورہ آیت میں تمام صیغے کلام کرنے والے کے ہیں مگر اِس کام کا حقیقت میں کارساز اللہ ہے گویا حقیقت باذن اللہ ہے ۔ کلمات میں حقیقت و مجاز کی قرآنِ کریم کے حوالے سے یہ بہترین مثال ہے ۔
کیا یہ معجزہ نہیں ؟
اِس موقع پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ سارا ماجرا تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے اور اِستغاثہ کی بحث میں معجزے کا کیا کام کیونکہ اُس سے تو یہاں بحث ہی نہیں۔ اِس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ’’معجزہ تو مریضوں کا شفایاب ہوجانا ہے نہ کہ اُن کا اپنی طرف شفا دینے کی نسبت کرنا‘‘۔ اصل بات یہی ہے کہ اُن کا اپنی طرف ان مافوق الفطرت اَعمال کی نسبت کرنا مجاز ہے اور شِفا اور بیماری درحقیقت ﷲ ربّ العزّت کی طرف سے ہے۔ جب یہ بات اٹل ہے کہ مادر زاد اندھے کو اور سفید داغ والے کو شفاء دینے والا اللہ تبارک و تعالی ہی ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’میں شفا دیتا ہوں‘‘؟ چاہیئے تو یوں تھا کہ اِرشاد فرماتے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پھیرنے سے مادرزاد اَندھے کو بینائی دیتا ہے اور کوڑھی کو شفا عطا فرماتا ہے، معجزے کی شانِ اعجازی میں تب بھی کوئی فرق نہ آتا مگر اُنہوں نے مجازاً اِن اَلفاظ کی نسبت اپنی طرف کی۔
چوتھا قول اُنہوں نے فرمایا : وَ أُحْیِ الْمَوْتٰی بِإِذْنِ ﷲِ ’’ اور میں مُردوں کو ﷲ کے اِذن سے زندہ کرتا ہوں‘‘۔ یہاں تو اِنتہاء ہوگئی۔۔۔ ایسا نہیں فرمایا کہ تم مُردہ لے آؤ، میں اللہ سے اِلتجاء کروں گا ، اللہ میری دُعا سے زندہ کردے گا، بلکہ یوں اِرشاد فرمایا : ’’میں مُردوں کو اللہ کے اِذن سے زِندہ کرتا ہوں‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ان صیغوں اور کلمات کا اِستعمال اور اُن کی کسی فردِ بشر کی طرف نسبت مجازی طور پر جائز ہے۔ مذکورہ آیتِ کریمہ میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی طرف اِن اَعمال و اَفعال کی نسبت کرنا نسبتِ مجازی ہونے کی بناء پر درست ہے اور اِسی آیت کے دُوسرے حصے میں آپ نے بِإِذْنِ ﷲ کے اَلفاظ کے ذریعے حقیقی کارساز اللہ ربّ العزّت ہی کو قرار دیا ۔
پانچویں بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ فرمائی : وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ’’اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو‘‘۔ اس میں کوئی ذِکر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مطلع فرمانے سے ایسا کرتا ہوں، بلکہ فرمایا : أُنَبِّئُكُم میں تمہیں خبر دیتا ہوں ۔ اِن الفاظ میں صراحت کے ساتھ علمِ غیب کا پہلو پایا گیا کیونکہ اِس بات کا علم کہ کسی نے کون سی چیز کھائی ہے علمِ غیب ہے جو باری تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے یوں نہیں فرمایا کہ خداوندِ قدّوس مجھے آگاہ فرماتا ہے۔ اگرچہ واقعتا حقیقت یہی ہے کہ ﷲ ہی آگاہ کرتا ہے مگر اُنہوں نے اِس بات کا اپنے اَلفاظ میں اِظہار نہیں فرمایا اور مجازی طور پر اِس غیب کی نسبت اپنی طرف کی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ غیرﷲ کی طرف علمِ غیب کی نسبت مجازی طور پر جائز ہے ورنہ رسولِ خدا سے یہ فعل ہرگز سرزد نہ ہوتا۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوی نبوت کے سلسلے میں جو اِعلانات فرمائے آج کے نام نہاد مؤحّدین کے مؤقف کی روشنی میں وہ سب کے سب شِرک کی زد میں آئے بغیر نہیں رہتے۔ اِس طرح کے طرزِ فکر سے تو اَنبیائے کرام علیہم السّلام جو خالصتاً توحید ہی کا پیغامِ سرمدی لے کر انسانیت کی طرف مبعوث ہوتے رہے ہیں، اُن کی قبائے عصمتِ نبوّت بھی تار تار ہوئے بغیر نہیں رہتی اور وہ بھی شِرک کے فتویٰ سے نہیں بچ سکتے ۔
ﷲ تعالیٰ پر شِرک کا فتویٰ ؟
سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ میں تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے اَلفاظ مذکور ہیں کہ میں اللہ کے اِذن سے مُردے زِندہ کرتا ہوں، مٹی سے پرندوں کی مُورتیں بنا کر اُن میں جان ڈالتا ہوں وغیرہ، مگر مندرجہ ذیل آیتِ کریمہ میں تو خود اللہ تعالیٰ بھی اُن کے اِس فعل کی تصدیق فرما رہا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے : وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : اور جب تم میرے حکم سے مٹی کے گارے سے پرندے کی شکل کی مانند (مورتی) بناتے تھے ۔ (المائده، 5 : 110)
اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ اے عیسیٰ علیک السلام میں نے تیرے لئے مٹی کے پرندے بنائے اور زِندہ کر دیئے، تیرے لئے مادر زاد اَندھوں کو بینائی دی اور برص زدہ لوگوں کو شفا دی۔ با وجود یہ کہ اللہ تعالی توحیدِ خالص کے حامل سادہ لوح مؤحّدین کی حسبِ خواہش حقیقت پر مبنی اِس اُسلوب کو اپنا بھی سکتا تھا، مگر اِس کے باوجود اُس خالق و مالک نے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۔ ترجمہ : پھر تم اس میں سے پھونک مارتے تھے تو وہ (مورتی) میرے حکم سے پرندہ بن جاتی تھی۔(المائده، 5 : 110)
رُوح پھونکنا دَرحقیقت فعلِ اِلٰہی ہے : یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی میں رُوح پھونکنا اور جان ڈالنا خالقِ کائنات ہی کا کام ہے ۔ مگر اُس نے خود سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کےلیے فرمایا : فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ’’پھر تو اُس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اُڑنے لگتی‘‘ وَتُبْرِىءُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ’’اور جب تم مادر زاد اندھوں اور کوڑھیوں کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے‘‘ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوتَى بِإِذْنِي ’’اور جب تم میرے حکم سے مُردوں کو ( زِندہ کرکے قبر سے) نکال (کھڑا کر) دیتے تھے‘‘۔ اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے کلمات کا غیرﷲ پر اِطلاق مجازاً جائز ہے۔ اِن کلمات کو خود اللہ ربّ العزّت نے اِستعمال فرمایا اور انبیائے کرام علیھم السلام نے بھی اِستعمال کیا حالانکہ ایسے کلمات کی ادائیگی فرمانا اُن کی مجبوری نہ تھی ۔ ﷲ ربّ العزّت کا اپنے کلامِ مجید میں اِن اَلفاظ کو مجازی معنی میں اِستعمال کرنا نہ صرف مجازی معنی کے جواز کا سب سے بڑا ثبوت ہے بلکہ اس کے سنتِ اِلٰہیہ ہونے پر بھی دالّ ہے ۔ اِس ساری بحث سے ظاہری اور باطنی اَسباب کےلیے ایک خاص ضابطہ بھی میسر آتا ہے کہ تمام مافوق الاسباب اُمور میں اَلفاظ اگرچہ براہِ راست بندے اور مخلوق کی طرف منسوب ہوں تب بھی فاعلِ حقیقی اللہ تعالی ہی کو گردانا جائے گا کیونکہ کارسازِ حقیقی وُہی ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَابْتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الْوَسِیۡلَۃَ وَجٰہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوۡنَ ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 35)
ترجمہ : اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ ۔
اس آیت مبارکہ میں وسیلہ کا معنی یہ ہے کہ ’’جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادات چاہے فرض ہوں یا نفل ، ان کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو ۔ اور اگر تقویٰ سے مراد فرائض و واجبات کی ادائیگی اور حرام چیزوں کو چھوڑ دینا مراد لیا جائے اور وسیلہ تلاش کرنے سے مُطْلَقاً ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کا سبب بنے مراد لی جائے تو بھی درست ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ علیہم الرحمہ سے محبت ، صدقات کی ادائیگی ، اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کی زیارت ، دعا کی کثرت ، رشتہ داروں سے صِلہ رَحمی کرنا اور بکثرت ذِکْرُ اللہ عزوجل میں مشغول رہنا وغیرہ بھی اسی عموم میں شامل ہے ۔ اب معنی یہ ہوا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے قریب کر دے اسے لازم پکڑ لو اور جو بارگاہِ الٰہی سے دور کرے اسے چھوڑ دو ۔ (تفسیر صاوی جلد ۲ صفحہ ۴۹۷)
اس سے پہلے متعدد آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہود کی سرکشی اور عناد اور اللہ کی نافرمانی کرنے پر ان کی جسارت اور دیدہ دلیری کو بیان فرمایا تھا ‘ اور اللہ کی اطاعت اور عبادت کرنے سے ان کے بعد اور دوری کا ذکر فرمایا تھا۔ اللہ کے قرب کا وسیلہ اور ذریعہ اس کے خوف سے گناہوں کا ترک کرنا اور عبادات کا بجا لانا ہے ‘ یہود نے اس وسیلہ کو حاصل نہیں کیا تھا ۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تمہارا طریقہ یہود کے برعکس ہونا چاہیے ‘ تم اللہ کے خوف سے گناہوں کو ترک کرکے اور اس کی اطاعت اور عبادات کر کے اس کے قرب کا وسیلہ تلاش کرو ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ذکر فرمایا تھا کہ یہود کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں اور اپنے باپ دادا کے اعمال پر فخر کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بتایا کہ تمہیں اپنے اکابر اور اسلاف پر فخر کرنے کے بجائے نیک اعمال میں کوشش کرنی چاہیے ‘ اور عبادات کے ذریعہ اس کے قرب اور نجات کے وسیلہ کو تلاش کرنا چاہیے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اس سے متصل آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کا ذکر فرمایا تھا اور فرمایا تھا کہ اللہ بہت بخشنے والا اور بڑا مہربان ہے ‘ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ قبولیت توبہ کے لیے اس کی بارگارہ میں وسیلہ تلاش کرو ۔
وسیلہ بہ معنی ذریعہ تقرب
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں : کسی چیز کی طرف رغبت سے پہنچنا وسیلہ ہے اور اللہ کی طرف وسیلہ کی حیققت یہ ہے کہ علم اور عبادت کے ساتھ اسکے راستہ کی رعایت کرنا ‘ اور شریعت پر عمل کرنا اور اللہ کا وسیلہ اللہ کا قرب ہے ۔ (المفردات ص ٥٢٤۔ ٥٢٣“ مطبوعہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)
علامہ ابن محمد بن مکرم بن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : امام لغت علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے ‘ وہ وسیلہ ہے۔ (صحاح جوہری ‘ ج ٥ ص ١٨٤١‘ لسان العرب ‘ ج ١١ ص ٧٢٥۔ ٧٢٤‘ مطبوعہ ایران ‘ ١٤٠٥ ھ)
انبیاء (علیہم السلام) اور اولیاء کرام کے وسیلہ سے دعا کا جواز
امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٣٣ ھ آداب دعا میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی بارے میں انبیاء (علیہم السلام) اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے ۔ (حصن حصین معہ تحفہ الذاکرین ‘ ص ٣٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفیٰ البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
علامہ تقی الدین احمد بن تیمیہ متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق میں سوال کرتا ہوں یا فلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی اس سے شفاعت کرسکتا ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ‘ ج ١ ص ٢١١‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز)
قاضی محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ لکھتے ہیں : یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق سے مراد یہ ہو ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے ‘ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا ۔ (تحفۃ الذاکرین ‘ ص ٦٩‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ابو حاتم محمد بن حبان رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٥٤ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے فرمایا چھ (قسم کے) آدمیوں پر میں نے لعنت کی ہے ‘ اور ان پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول کی جائے گی ۔ (الحدیث) (صحیح ابن حبان ‘ ج ١٣ رقم الحدیث : ٥٧٤٩‘ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے اور میرے علم میں اس کی کوئی علت نہیں ہے اور ذہبی نے اس کو برقرار رکھا ۔ المستدرک ‘ ج ١ ص ٣٦‘ ج ٢‘ ص ٥٢٥‘ ج ٤ ص ٩٠‘ الجامع الکبیر ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ١٢٨٨٥‘ ١٢٩٢١‘ المعجم الاوسط ‘ للطبرانی ج ٢‘ رقم الحدیث : ١٦٨٨۔ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور امام ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا۔ مجمع الزوائد ‘ ج ٧‘ ص ٢٠٥‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١٧‘ ص ٤٣‘ مواردالظمان ‘ رقم الحدیث : ٥٢)
اس صحیح حدیث میں یہ تصریح ہے کہ ہر نبی مستجاب الدعوات ہے : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء (علیہم السلام) کی وجاہت ‘ ان کی حرمت اور اس کے حق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو اپنی بارگاہ میں یہ عزت عطا فرمائی ہے کہ وہ ان کے سوال اور ان کی دعا کو مسترد نہیں فرماتا ‘ ہرچند کہ وہ اس پر قادر ہے کہ وہ ان کی دعا کو مسترد فرما دے ‘ لیکن ایسا کرنا ان کی دی ہوئی عزت اور وجاہت کے خلاف ہے۔ ان کا اللہ پر حق ہے ‘ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ جیسے اجیر کا آجر پر حق ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے ان کی دعا کو قبول کرنے کا جو وعدہ فرما لیا ہے ‘ اس وعدہ کی جہت سے ان کا حق ہے ‘ فی ذاتہ کوئی استحقاق نہیں ہے ‘ یا حق بمعنی وجاہت اور حرمت ہے استحقاق کے معنی میں ہے ۔
اس پر ایک دلیل مذکور الصدر حدیث ہے اور دوسری دلیل یہ حدیث ہے : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے کہ جب بندہ فرائض ادا کرکے نوافل کو ہمیشہ پڑھتا ہے تو اللہ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جب وہ اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ اس کے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے ‘ اس کی آنکھیں ہوجاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے ‘ اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور فرماتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کروں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں ضرور اس کو اپنی پناہ میں لوں گا ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ٧‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٠٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ )(مختصر تاریخ دمشق ‘ ج ٤‘ ص ١٠٤)(مسند احمد بتحقیق ‘ احمد شاکر ‘ رقم الحدیث :‘ ٢٦٠٧١)(مسند ابویعلی ‘ ٧٠٨٧)(صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ رقم الحدیث : ٣٤٧)(مجمع الزوائد ‘ ج ١٠‘ ص ٢٦٩‘ المطالب العالیہ ‘ ج ١‘ ص ١٣٩)
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر ولی اور نبی سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان کی دعا ضرور قبول فرمائے گا اور ان کی دعا رد نہیں فرمائے گا اور ان کا اللہ پر یہی حق ہے ‘ اور یہی ان کی اللہ کی بارگاہ میں وجاہت اور حرمت ہے ۔ اس لیے انبیاء علیہم السّلام اور اولیاء اللہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ‘ یا ان سے دعا کرنے کی درخواست کرنا صحیح ہے اور اب ہم اس سلسلہ میں احادیث پیش کریں گے ۔
یاد رکھئے ! رب تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے نیک بندوں کو وسیلہ بنانا ، ان کے وسیلے سے دعائیں کرنا، ان کے تَوَسُّل سے بارگاہِ ربِّ قدیر عَزَّوَجَلَّ میں اپنی جائز حاجات کی تکمیل کے لئے اِلتجائیں کرنا نہ صرف جائز بلکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا طریقہ رہا ہے ۔
صحیح بخاری میں حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہو جاتے تو حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضرت عباس بن عبدُالمطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے وسیلے سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے ’’اللہُمَّ اِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ ، ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتاتھا اور ا ب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے چچا جان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کوو سیلہ بناتے ہیں کہ ہم پر بارش برسا۔ تو لوگ سیراب کیے جاتے تھے ۔ (بخاری، کتاب الاستسقائ، باب سؤال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا، ۱/۳۴۶، الحدیث: ۱۰۱۰)
حضرت اوس بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ مدینۂ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہاسے ا س کی شکایت کی ۔ آپ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہانے فرمایا : رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی قبرِ انور کی طرف غور کرو ،اس کے اوپر (چھت میں ) ایک طاق آسمان کی طرف بنادو حتّٰی کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے ۔ لوگوں نے ایسا کیا تو ہم پر اتنی بارش برسی کہ چارہ اُگ گیا اور اونٹ موٹے ہوگئے حتّٰی کہ چربی سے گویا پھٹ پڑے، تو اس سال کا نام عَامُ الْفَتْق یعنی پھٹن کا سال رکھا گیا ۔ (سنن دارمی، باب ما اکرم اللہ تعالی نبیہ۔۔۔ الخ، ۱/۵۶، الحدیث : ۹۲)
بلکہ خود رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کی تعلیم ایک صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو دی ، چنانچہ حضرت عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے توان کو یہ دعا ارشاد فرمائی ’’اللہُمَّ اِنِّی اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّی قَدْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ہَذِہٖ لِتُقْضٰی اللہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ‘‘ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ ، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں ، اے محمد ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ ، میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کے وسیلے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے، اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ، میرے لئے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّمَ کی شفاعت قبول فرما ۔ (ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۶، الحدیث: ۱۳۸۵)
جو شخص اس حدیثِ پاک میں مذکور دعا پڑھنا چاہے تو اسے چاہئے کہ اس دعا میں ان الفاظ’’یَا مُحَمَّدُ‘‘ کی جگہ ’’یَا نَبِیَّ اللہ ‘‘یا ’’ یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ پڑھے ۔
حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’علماء تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولی ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے : ’’وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾‘‘ ۔ (سورہ النساء: ۶۴)
ترجمہ : اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ، تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے ۔
کیا اللہ تعالیٰ اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی ! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف فرما رہی ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۲۱ /۳۰۴-۳۰۵)
زیر تفسیر آیت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21 اکیسوویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ (مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اُس اِختیار کی بنا پر اُن بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالیٰ ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے ، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے آکر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کی مدد کی ، لیکن اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ اَذِلَّۃٌۚ ۔ (سورہ اٰل عمران: ۱۲۳)
ترجمہ : اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے ۔
یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالیٰ کی مدد کہا گیا ، اِس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اِختیار اللہ تعالیٰ کے دینے سے ہے تو حقیقتاً یہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ہوئی ۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیائے عِظام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ کا ہے کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتاً وہ مدد اللہ تعالیٰ کی ہوتی ہے ، جیسے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے وزیر حضرت آصف بن برخیا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا ۔ اس پر انہوں نے فرمایا : ’’ہٰذَا مِنۡ فَضْلِ رَبِّیۡ‘‘ ترجمہ : یہ میرے رب کے فضل سے ہے ۔ (سورہ نمل :۴۰)
اورتاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی سیرتِ مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے ، ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں :
صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳/۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱)(الخصائص الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدّم، ۲/۸۵)
نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا ۔ (بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵/۵۳۶)
انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو (1400) یا اس سے بھی زائد اَفراد کو سیراب کر دیا ۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳/۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳)
لُعابِ د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔ (الخصائص الکبری، باب آیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲/۱۱۵-۱۱۸)
اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہٰذا سب اللہ تعالیٰ کی ہی مددیں ہیں ۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30 تیسویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے ’’اَ لْاَمْنُ وَالْعُلٰی لِنَاعِتِی الْمُصْطَفٰی بِدَافِعِ الْبَلَائِ (مصطفی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘ کا مطالعہ فرمائیے ۔
تبع تابعین رضی اللہ عنہم کے توسل سے فتح
عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فََيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے : ہاں، تو انہیں (ان صحابہ کرام کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے : ہاں، تو پھر انہیں (ان تابعین کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں! تو انہیں (تبع تابعین کے توسل سے) فتح دے دی جائے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1335، الرقم : 3449، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم، 4 / 1962، الرقم : 2532، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 7، الرقم : 1056، وابن حبان في الصحيح، 11 / 86، الرقم : 4768)
اگر بزرگوں کی دعاؤں کا وسیلہ جائز ہے تو ان کی ذوات کا وسیلہ بھی درست ہے ، کیونکہ دعا تو رد بھی ہوسکتی ہے ، محبوبان خدا تو اس کے مقبول بندے ہیں اور ویسے بھی ذات اصل ہے اوردعا فرع ہے ۔ اگر فرع کا وسیلہ درست ہے تو اصل کا وسیلہ بھی درست ہے ۔
قرآن مجید میں نیک لوگوں سے وابستہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : یاایھالذین اٰمنوا اتقواللہ وکونوامع الصادقین ۔ (سورۃ التوبۃ،۱۱۹)
ترجمہ : ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ۔
اس آیت میں پہلی آیت کے مضمون کوبھی واضح کردیا گیا ہے ، کہ وسیلہ سے مراد اللہ والوں کی ذات سے تعلق قائم کرنا ہے ۔ اور انہیں اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ بنانا ہے ۔
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعا مانگنے کا خود حکم دیا تھا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا : اچھے طریقہ سے وضو کرے اور دو رکعتیں پڑھنے کے بعد یہ دعا کرے اللھم انی اسئلک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قدتوجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضیٰ اللھم فشفعہ فیّ ۔
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور رحمت والے نبی محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں یارسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہوں تاکہ اسے پورا کردیا جائے ۔ اے اللہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کو میرے حق میں قبول فرما ۔ (یہ حدیث صحیح ہے ، سنن ابن ماجہ صفحہ۱۰۰،مسند احمد جلد۴صفحہ ۱۳۸، المستدرک جلد۱ صفحہ ۳۱۳،۵۱۹،۵۲۶،عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی صفحہ ۲۰۲،دلائل النبوۃ للبیہقی جلد۶صفحہ۱۶۷،السنن الکبریٰ للنسائی جلد ۶ صفحہ ۱۶۹،الاذکار للنووی صفحہ۱۶۷،عمل الیوم واللیلۃ للنسائی صفحہ ۴۸۱ ، الترغیب والترہیب جلد۱صفحہ۴۷۳ ،صحیح ابن خزیمہ جلد۲صفحہ۲۲۵، ترمذی جلد۲صفحہ ۱۹۸،البدایہ والنھایہ جلد۱صفحہ۱۳۰۱مطبوعہ دار ابن حزم، الخصائص الکبریٰ جلد۲صفحہ ۲۰۲،الجامع الصغیر جلد۱صفحہ۴۹صحیح کہا)
واضح رہے اس حدیث کو مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب وحید الزمان حیدرآبادی نے ھدیۃ المھدی صفحہ ۴۷ ، مشہور اہلحدیث عالم علامہ نواب صدیق حسن خان بھوپالوی نے نزل الابرار صفحہ۳۰۴ اور مشہور غیر مقلد علامہ قاضی شوکانی نے تحفۃ الذکرین صفحہ ۱۳۷ پر نقل کیا اور یہ بھی لکھا ہے کہ ائمہ حدیث نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ حرانی نے فتاویٰ ابن تیمیہ جلد۱صفحہ ۲۷۵ پر نقل کیا اور ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وان کانت لک حاجۃ فافعل مثل ذلک ۔ ترجمہ : تجھے جب بھی کوئی حاجت درپیش ہو تو اسی طرح کرنا ۔ اسی حدیث کو علامہ اشرفعلی تھانوی نے نشرالطیب صفحہ ۲۵۳ ۔ اور علامہ شبیر احمد دیوبندی نے یا حرف محبت اور باعث رحمت ہے صفحہ ۴۲ پر نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ عمل صرف اس وقت کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کے لیئے عام ہے ۔
اور دور فاروقی میں قحط سالی کے وقت حضرت فاروق اعظم رضی اللّه عنہ عرض کرتے ہیں : للھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا افتسقینا و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا قال فیسقون ۔ (صحیح البخاری ابواب الا ستسقا ، باب سوال الناس الامام الاستسقا اذا قحطوا۔۱/۱۳۷۔کتاب المناقب، باب ذکر عباس بن عبدالمطب رضی اللہ عنہم ۱/۵۲۶)
ترجمہ : اے اللہ ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا،اب کی بار ہم اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چچا کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ، لہٰذا تو ہم پر باران رحمت کا نزول فرما ۔ راوی کا بیان ہے ، تو انہیں سیراب کردیا گیا ۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور یہ عرض کرتے ‘ اے اللہ ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برساتا تھا (اب) ہم اپنے نبی کے عم (محترم) کو تیری طرف وسیلہ پیش کرتے ہیں ‘ تو تو ہم پر بارش نازل فرما ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا پھر لوگوں پر بارش ہوتی ۔ (صحیح البخاری ‘ ج ١ رقم الحدیث : ١٠١٠‘ مطبوعہ دارالکتب ‘ العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ ‘ المعجم الکبیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث : ٨٤‘ کتاب الدعاء للطبرانی ‘ رقم الحدیث : ٩٦٥‘ شرح السنہ للبغوی ‘ ج ٢‘ رقم الحدیث : ١١٦٠)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ‘ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ‘ آپ سے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے ٹھیک کر دے۔ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہارے لیے دعا کروں اور اگر تم چاہو تو میں اس کو مؤخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اس نے کہا آپ دعا کر دیجئے ‘ آپ نے اس کو حکم دیا کہ وہ اچھی طرح سے وضو کرے ‘ پھر دو رکعت نماز پڑھے اور یہ دعا کرے ‘ ” اے اللہ ! میں تیرے نبی (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی رحمت کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اور تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اے محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ تاکہ میری حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ میرے متعلق آپ کی شفاعت قبول فرما۔ (امام ابن ماجہ نے لکھا ہے کہ ابو اسحاق نے کہا ‘ یہ حدیث صحیح ہے)
علامہ احمد شاکر متوفی ١٣٧٧ ھ نے لکھا ہے اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ١٣‘ رقم الحدیث :‘ ١٧١٧٥‘ ١٧١٧٤‘ طبع قاہرہ ‘ سنن ترمذی ‘ ج ٥‘ رقم الحدیث :‘ ٣٥٨٩‘ سنن ابن ماجہ ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ١٣٨٥‘ سنن کبری للنسائی ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ١٠٤٩٦‘ عمل الیوم واللیلہ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٦٤‘ عمل الیوم والیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٣٣‘ المستدرک ج ١‘ ص ٥١٩‘ دلائل النبوۃ ‘ ج ٦‘ ص ١٦٧‘ امام طبرانی نے اس حدیث کو روایت کر کے لکھا ہے ‘ یہ حدیث صحیح ہے۔ المعجم الصغیر ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٠٨‘ المعجم الکبیر ‘ ج ٩‘ رقم الحدیث :‘ ٨٣١١‘ حافظ منذری نے لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ الترغیب والترہیب ‘ ج ١‘ ص ٤٧٦۔ ٤٧٤‘ حافظ الہیثمی نے بھی لکھا ہے یہ حدیث صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ‘ ج ٢ ص ٢٧٦‘ مختصر تاریخ دمشق ‘ ج ٣ ص ٣٠٤)
شیخ ابن تیمیہ ‘ قاضی شوکانی ‘ علامہ نووی اور امام محمد جزری وغیرھم نے امام ترمذی کے حوالے سے اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں یا محمد کے الفاظ ہیں ‘ لیکن ہمیں جو ترمذی کے پاکستانی اور بیروت کے نسخے دستیاب ہیں ‘ ان میں یا محمد کے الفاظ نہیں ہیں ۔ سنن ترمذی کے علاوہ ہم نے باقی جن کتب حدیث کے حوالے دیئے ہیں ‘ ان سب میں یا محمد کے الفاظ ہیں ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٧٣ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے گھر سے نماز پڑھنے کے لیے نکلا اور اس نے یہ دعا کی ‘ اے اللہ ! تجھ پر سائلین کا جو حق ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور میرے اس (نماز کے لیے) جانے کا جو حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ کیونکہ میں بغیر اکڑنے اور اترانے اور بغیر دکھانے اور سنانے کے (محض) تیری ناراضگی کے ڈر اور تیری رضا کی طلب میں نکلا ہوں ‘ سو میں تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو جہنم میں سے مجھے اپنی پناہ میں رکھنا اور میرے گناہوں کو بخش دینا اور بلاشبہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخشے گا ۔ (سو جو شخص یہ دعا کرے گا) اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوگا اور ستر ہزار فرشتے اس کے لیے استغفار کریں گے ۔ (سنن ابن ماجہ ‘ ج ١ رقم الحدیث : ٧٧٨‘ عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث : ٨٥‘ الترغیب والترھیب ‘ ج ٢‘ ص ٤٥٢‘ صحیح ابن خزیمہ ‘ ج ٢‘ ص ٤٥٨‘ علامہ احمد شاکر نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔ مسند احمد ‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث : ١١٠٩٩)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : عبدالرحمن بن یزید روایت کرتے ہیں کہ (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کو خوب علم تھا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان میں سب سے زیادہ قریب اللہ عزوجل کی طرف وسیلہ تھے ۔ (مسند احمد ‘ ج ٥‘ ص ٣٩٥‘ دارالفکر بیروت ‘ طبع قدیم ‘ علامہ احمد شاکر ‘ متوفی ١٣٧٧ ھ نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ مسند احمد ‘ ج ١٦‘ رقم الحدیث :‘ ٢٣٢٠١‘ طبع قاہرہ)
وسیلہ بہ معنی درجہ جنت
علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : وسیلہ کا ایک معنی جنت کے درجات میں سے ایک (مخصوص) درجہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (نہایہ ‘ ج ٥‘ ص ١٨٥)
امام مسلم بن حجاج قشیری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم موذن (کی اذان) کو سنو تو اس کے کلمات کی مثل کہو ‘ پھر مجھ پر درود پڑھو ‘ کیونکہ جس شخص نے ایک مرتبہ مجھ پر درود پڑھا ‘ اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ پھر میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو ‘ کیونکہ وسیلہ جنت میں ایک ایسا درجہ ہے جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ کو حاصل ہوگا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں ۔ سو جس شخص نے میرے لیے وسیلہ کا سوال کیا ‘ اس کے حق میری شفاعت جائز ہوجائے گی ۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث :‘ (٣٨٤) ٨٢٦‘ سنن ابو داؤد ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٥٢٣‘ سنن ترمذی ‘ رقم الحدیث :‘ ٣٦٣٤‘ صحیح البخاری ‘ ج ١‘ رقم الحدیث :‘ ٦١٤‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٦٧٧‘ عمل الیوم واللیلہ للنسائی ‘ رقم الحدیث :‘ ٤٥‘ عمل الیوم واللیلہ لابن السنی ‘ رقم الحدیث :‘ ٩٤‘ مسند احمد ‘ بتحقیق احمد شاکر ‘ ج ٦‘ رقم الحدیث :‘ ٦٥٦٨‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ١٠٩٦٢‘ ج ١٠‘ رقم الحدیث :‘ ١١٤٤٢‘ ١١٦٨١‘ ١١٧٩٩‘ سنن کبری للبیہقی ‘ ج ١‘ ص ٤١٠۔ ٤٠٩‘ صحیح ابن حبان ‘ رقم الحدیث :‘ ١٦٨٨‘ مطبوعہ مکتبہ اثریہ ‘ فیصل آباد)
دعاء اذان میں حدیث شفاعت کی تحقیق
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اذان سنتے تو دعا کرتے : اے اللہ اس دعوت کاملہ اور (اس کے نتیجہ میں) کھڑی ہونے والی نماز کے رب ‘ اپنے بندے اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رحمت نازل فرما اور قیامت کے دن ہمیں آپ کی شفاعت میں (داخل) کردے ۔ (المعجم الاوسط ‘ ج ٤‘ رقم الحدیث : ٣٦٧٥‘ مکتبہ المعارف الریاض ‘ ١٤٠٥ ھ)
حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس حدیث کی سند میں صدقہ بن عبد اللہ السمین ہے ۔ امام احمد ‘ امام بخاری اور امام مسلم علیہم الرّحمہ نے اس کو ضعیف کہا ہے اور دحیم اور ابو حاتم اور احمد بن صالح مصری نے اس کی توثیق کی ہے ۔ ( مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٣٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت)
حافظ جمال الدین یوسف مزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٤٣ ھ لکھتے ہیں : صدقہ میں عبد اللہ السمین کی روایات سے امام ترمذی ‘ امام نسائی ‘ اور امام ابن ماجہ علیہم الرّحمہ نے استدلال کیا ہے ۔ ہرچند کہ امام احمد اور شیخین علیہم الرّحمہ نے اس کو ضعیف کہا ہے ‘ لیکن سعید بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی نے اس کو ثقہ کہا ۔ عبدالرحمن بن ابراہیم نے کہا : صدقہ ہمارے شیوخ میں سے ہیں اور ان کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ احمد بن صالح مصری نے کہا اس کی روایت صحیح اور مقبول ہے ۔ دحیم نے کہا اگرچہ یہ قدریہ کی طرف مائل تھا ‘ لیکن روایت میں صادق تھا۔ ولید بن مسلم نے کہا یہ ١٦٦ ھ میں فوت ہوگیا تھا ۔ تہذیب الکمال ‘ ج ٩‘ ص ٨١۔ ٧٨‘ ملخصا ‘ میزان الاعتدال ‘ ج ص ٤٢٦۔ ٤٢٥‘ تہذیب التہذیب ‘ ج ٤‘ ص ٣٨١)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا کی ”’ اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ “ اے اللہ ! آپ پر صلوۃ نازل فرما اور آپ کو اس مقام پر پہنچا جو تیرے نزدیک جنت میں آپ کے لیے مخصوص ہے اور قیامت کے دن ہم کو آپ کی شفاعت میں داخل کردے ‘ سو جو شخص یہ دعا کرے گا ‘ اس کے لیے شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ (المعجم الکبیر ج ١٢‘ رقم الحدیث : ١٢٥٥٤‘ الجامع الکبیرج ٧‘ رقم الحدیث : ٢٢١١٨‘ عمدۃ القاری ‘ ج ٥‘ ص ١٢٤)
حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٨٠٧ ھ لکھتے ہیں اس حدیث کی سند میں اسحاق بن عبد اللہ بن کیسان ہے ۔ حاکم اور ابن حبان نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔ اس کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں۔ ( مجمع الزوائد ج ١ ص ٣٣٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
حافظ جمال الدین ابو الحجاج یوسف مزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧٤٢ ھ نے متعدد ائمہ حدیث کے حوالوں سے اسحاق بن عبد اللہ کا ضعف نقل کیا ہے ۔ امام ابو داؤد نے اسحاق بن عبد اللہ کی صرف ایک حدیث متابعۃ درج کی ہے اور امام ترمذی اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اس کی روایات کو درج کیا ہے ۔ اسحاق بن عبد اللہ بن کیسان ١٤٤ ھ میں فوت ہوا تھا ۔ (تہذیب الکمال ‘ ج ١ ص ٦٢۔ ٥٧‘ میزان الاعتدال ‘ ج ١ ص ٣٤٦‘ کتاب الجرح والتعدیل ‘ ج ٢‘ ص ٢٢٨) ۔ ہر چند کہ یہ حدیث ضعیف ہے ‘ لیکن فضائل اعمال میں حدیث ضعیف کا اعتبار کیا جاتا ہے ۔
دعائے اذان کے بعض دیگر کلمات کی تحقیق
اس بحث کے اخیر میں ہم ایک اور حدیث بیان کرنا چاہتے ہیں جس میں ” انک لا تخلف المیعاد “ کا ذکر ہے ۔
امام ابوبکراحمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨‘ ھ روایت کرتے ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اذان سن کر یہ دعا کی ” اے اللہ ! میں تجھ سے اس دعوت کاملہ اور اس کے نتیجہ میں کھڑی ہونے والی نماز کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں وہ مقام عطا فرما جو آپ کے لیے مخصوص ہے ‘ اور آپ کو فضیلت عطا فرما اور آپ کو اس مقام محمود پر فائز کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے ‘ بیشک تو وعدہ کی مخالفت نہیں کرتا ‘ اس حدیث کو امام بخاری نے اپنے صحیح میں علی بن عیاش سے روایت کیا ہے ۔ (سنن کبری ‘ ج ١‘ ص ٤٤٠‘ مطبوعہ نشرالسنہ ‘ ملتان)
اس دعا میں الوسیلۃ اور الفضیلۃ کے بعد والدرجۃ الرفیعۃ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے اس کی اصل یہ حدیث ہے : امام عبدالرزاق بن ھمام رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٢١١ روایت کرتے ہیں : ایوب اور جابر جعفی بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے اقامت کے وقت کہا : اے اللہ ! اس دعوت تامہ اور اس کے بعد کھڑی ہونے والی نماز کے رب سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت میں وہ مقام عطا فرما ‘ جو آپ کے ساتھ مخصوص ہے اور آپ کے درجات بلند فرما “ تو اس کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت واجب ہوجائے گی ۔ (المصنف ‘ ج ١ ص ٤٩٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٠ ھ)
وسیلہ بن معنی مرشد کامل
ایمان ‘ اعمال صالحہ ‘ فرائض کی ادائیگی ‘ اتباع سنت ‘ اور محرمات اور مکروہات سے بچنا ‘ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ تک پہنچنے اور اس کا قرب حاصل کرنا کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں اور جس مرد صالح اور مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت کرکے ایک مسلمان گناہوں سے بچنے اور نیک کام کرنے کا عہد کرتا ہے ‘ جو اس کی مسلسل نیکی کی تلقین کرتا ہے ‘ اور اس کی روحانی تربیت کرتا ہے ‘ اس شیخ کے وسیلہ اور قرب الہی کے ذریعہ میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ قول جمیل میں لکھتے ہیں کہ اس آیت میں وسیلہ سے مراد بیعت مرشد ہے ۔
مولوی اسماعیل دہلوی دیوبندی وہابی متوفی ١٢٤٦ ھ لکھتے ہیں : اہل سلوک اس آیت کو راہ حقیقت کے سلوک کی طرف اشارہ گردانتے ہیں اور مرشد کو وسیلہ سمجھتے ہیں۔ اس بناء پر حقیقی کامیابی اور مجاہدہ سے پہلے مرشد کو تلاش کرنا ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ نے سالکان حقیقت کے لیے یہی قاعدہ مقرر کیا ہے ‘ اس لیے مرشد کی رہنمائی کے بغیر اس راہ کا ملنا شاذ ونادر ہے ۔ (صراط مستقیم ‘ (فارسی) ص ٥٠‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ لاہور)
معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم الصّلوٰۃ والسّلام اور دیگر صالحین علیہم الرّحمہ کا وسیلہ پیش کرنا بھی درست ہے ۔
حضرت شاہ ولی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : اس آیت میں وسیلہ سے مراد مرشد ہے ۔ عملِ صالح اور جہاد مراد نہیں لے سکتے کیونکہ وہ تقویٰ میں شامل ہیں ۔ (القول الجمیل مترجم اردو صفحہ نمبر 39 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہور)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدْعُوۡنَ یَبْتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الْوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمْ اَقْرَبُ وَیَرْجُوۡنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوۡرًا ۔ (سورہ الاسراء آیت نمبر 57)
ترجمہ : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔
کفارکے بہت سے گروہ تھے۔ کوئی بتوں اور دیوی ، دیوتاؤں کو پوجتا تھا اور کوئی فرشتوں کو ، یونہی عیسائی حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو خدا یا خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہودیوں کا ایک گروہ حضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ، یونہی بہت سے لوگ ایسے جنوں کو پوجتے تھے جو اسلام قبول کرچکے تھے لیکن ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ تھی تو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور اُن لوگوں کوشرم دلائی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا جن مُقَرَّبینِ بارگاہِ الٰہی کو یہ لوگ پوجتے ہیں وہ تو خود اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے تاکہ جو سب سے زیادہ مقرب ہو اس کو وسیلہ بنائیں تو جب یہ مقربین بھی بارگاہِ الٰہی تک رسائی کیلئے وسیلہ تلاش کرتے ہیں اور رحمت ِالٰہی کی امید رکھتے ہیں اور عذاب ِ الٰہی سے ڈرتے ہیں تو کافر انہیں کس طرح معبود سمجھتے ہیں ۔ (تفسیر خازن الاسراء تحت الآیۃ: ۵۷، ۳/۱۷۸)
اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اس کی بارگاہ میں وسیلہ بنانا جائز ہے
اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہِ الٰہی میں وسیلہ بنانا جائز اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے ۔ آیت میں وسیلہ بنانے کا جوازبیان کیا گیا ہے اور شرک کا رد کیا گیا ہے ۔ وسیلہ ماننے اور خدا ماننے میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، جو وسیلے کو شرک کہے وہ اس آیت کے مطابق مَعَاذَاللّٰہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھی شرک کا مُرتکب قرار دیتا ہے۔ اِس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کائنات کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں سب سے مقرب وہی ہیں تو بقیہ سب انہیں کو وسیلہ بناتے ہیں اور اسی لئے میدانِ قیامت میں سب لوگ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں ہی جمع ہوکر حاضری دیں گے اور بارگاہِ الٰہی میں سفارش کروائیں گے ۔
خارجیوں نے آیت وسیلہ کے ترجمے میں کھلی تحریف کی ہے تاکہ اپنی خود ساختہ شریعت کو بچا سکیں ۔
زیرِ بحث آیت ، کہ جس کے ترجمے میں خارجی حضرات تحریف کرتے ہیں ، یہ ہے : أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ۔
اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسی چیزیں کھل کر ذکر کر دی ہیں کہ جو خارجیوں کو تا قیامت ہضم نہیں ہو سکتیں ۔
(1) یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا ذکر کر رہا ہے جو اللہ کے قریب پہنچنے کے لیے اپنے میں سے "زیادہ بزرگ" اور "زیادہ مقرب" کا "وسیلہ" پکڑتے ہیں تاکہ اس زیادہ مقرب وسیلے کی شفاعت سے اللہ کے اور قریب پہنچ سکیں ۔
(2) یہ کہ یہ آیت یہ بھی بیان کر رہی ہے کہ اللہ عزّ و جل کے یہ مقرب انبیاء علیہم السّلام "اپنی وفات" کے بعد بھی بزرگی میں اپنے برتر انبیاء علیہم السّلام کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں (اور بزرگی میں اللہ کے نزدیک تر یہ انبیاء بھی (کہ جن کا وسیلہ پکڑا جا رہا ہے) اگرچہ کہ"وصال" فرما کے ہیں ، مگر ان کا وصال اس چیز میں مانع نہیں کہ وہ ان کی شفاعت کریں) ۔
یہاں دو سوال اٹھتے ہیں
(1) یہ کہ انہیں ترجمے میں یہ تحریف کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی ؟
(2) یہ کہ انہوں نے اس آیت کا جو ترجمہ کیا ہے ، اُس میں وہ تحریفی الفاظ کیا ہیں ؟
تو پہلا مسئلہ کہ خارجی حضرات کو تحریف کی یہ ضرورت کیوں پیش آئی ، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خارجیوں کا عقیدہ ہے کہ وسیلہ "صرف اور صرف انسان کے اپنے نیک اعمال ہیں"۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور اللہ کے دیگر برگزیدہ بندوں اور فرشتوں کی شفاعت کو یہ وسیلہ تسلیم نہیں کرتے ۔ چونکہ قرآن کی یہ آیت براہ راست خارجیوں کے عقائد کو غلط ثابت کر رہی ہے ، اس لیے خارجیوں کے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہ گیا کہ وہ اس آیت کے ترجمے و تفسیر میں تحریف کر دیں تاکہ وسیلے کے متعلق ان کا خود ساختہ عقیدہ قائم رہ سکے ۔
(2) دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سمجھیں کہ خارجیوں نے اس ترجمے میں کیا تحریف کی ہے ۔
سعودیہ میں شاہ فہد نے قران کا جو اردو ترجمہ شائع کروایا ہے (جس کے مترجم جونا گڑھی صاحب ہیں) ، اس میں انہوں نے اس آیت کے ترجمے میں تحریف کرتے ہوئے یوں کر دیا ہے :
ترجمہ محمد جونا گڑھی غیرمقلد وہابی: جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون [اپنے نیک اعمال کی بدولت] زیادہ نزدیک ہو جائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔
چنانچہ اس آیت کے ٹکڑے "ایھم اقرب" کا ترجمہ انہوں نے کر دیا ہے "ان میں سے کون اللہ کے زیادہ نزدیک ہو جائے"۔ یعنی ان انبیاء علیہم السّلام میں یہ مقابلہ Competition لگا ہوا ہے کہ قبروں میں اپنی عبادت کے نیک عمل کے ذریعے ایک دوسرے کی نسبت اللہ کے زیادہ قریب ہو جائیں ۔ (دیکھئیے غیرمقلد وہابی عقیدے کے عالم دین "قریب اللہ صاحب" کا انگریزی ترجمہ ، جو ہم آگے نقل کریں گے اور اس میں آپ کو یہ Competition ذرا کھل کر نظر آ جائے گا اور غیرمقلد وہابی حضرات انٹرنیٹ پر اپنے انگلش آرٹیکلز کے لیے قریب اللہ کا یہی ترجمہ استعمال کر رہے ہیں)
غیرمقلد وہابی حضرات نے آیت کے اس ٹکڑے "ایھم اقرب" کے ترجمے میں تحریف کر کے اسکو اپنے عقیدے کے مطابق ڈھال لیا ہے ۔
"ایھم اقرب" کا صحیح ترجمہ
آئیے اب "ایھم اقرب" کے صحیح ترجمے کا اہلحدیث حضرات کے ترجمے سے تقابل کرتے ہیں :
صحیح ترجمہ
"ایھم" ۔۔۔ کون ان میں سے : "اقرب" ۔۔۔ قریب ترین ہے (نوٹ: "ہے" زمانہ حال کا صیغہ ہے جسے انگریزی میں "Present Simple" کہتے ہیں ۔
غیرمقلد وہابی حضرات نے اس "ہے" کو فعل زمانہ مستقبل میں تبدیل کر کے یہ ساری تحریف کی ہے ۔
عربی قواعد کی ترکیب ذرا مختلف ہے اور اس کا ذکر ہم بعد میں تفصیل سے کریں گے اور ثابت کریں گے کہ غیرمقلد وہابیوں کا ترجمہ یقینی طور پر غلط ہے ۔ (ان شاء اللہ)
غیرمقلد وہابی حضرات کا ترجمہ : "ایھم" ۔۔۔ ان میں سے کون ۔ "اقرب" ۔۔۔ زیادہ نزدیک ہو جائے ("ہو جانا" زمانہ مستقبل کا صیغہ ہے اور یہ تحریف کر کے اہلحدیث حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ "ان میں سے کون [اپنی قبر میں کی گئی عبادات کو وسیلہ بنا کر] زیادہ نزدیک ہو جائے۔)
بات بہت نازک ہے اور بہت چالاکی سے یہ تحریف کی گئی ہے ۔ ایک چھوٹے سے "ہے" کو انہوں نے "ہو جانا" سے بدل کر آیت کے معنی کہیں کے کہیں بدل دیے ۔
ہماری قارئین سے درخواست ہے کہ وہ بہت توجہ سے اس بحث کو پڑھتے جائیں اور ہم بہت گہرائی میں جا کر ہر زاویے سے اس غلط ترجمے کی تحریف کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے واضح کریں گے ۔ ان شاء اللہ ۔
وہ علماء جنہوں نے صحیح ترجمہ کیا : اب قبل اس کے کہ ہم "ایھم اقرب" کے صحیح ترجمے پر بحث کو آگے بڑھائیں، بہتر ہے کہ چند صحیح تراجم کو دیکھ لیا جائے ۔
ترجمہ : وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں کہ ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈر کی چیز ہے ۔ (کنز الایمان ترجمہ قرآن امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ)
ترجمہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب : یہ لوگ جن کی عبادت کرتے ہیں (یعنی ملائکہ، جنّات، عیسٰی اور عزیر علیہما السلام وغیرھم کے بت اور تصویریں بنا کر انہیں پوجتے ہیں) وہ (تو خود ہی) اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے (بارگاہِ الٰہی میں)زیادہ مقرّب کون ہے اور (وہ خود) اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور (وہ خود ہی) اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، (اب تم ہی بتاؤ کہ وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں وہ تو خود معبودِ برحق کے سامنے جھک رہے ہیں)، بیشک آپ کے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔
ترجمہ علاّمہ محمود الحسن دیوبندی : وہ لوگ جن کو یہ پکارتے ہیں وہ خود ڈھونڈتے ہیں اپنے رب تک وسیلہ کہ کونسا بندہ بہت نزدیک ہے ۔ اور امید رکھتے ہیں اس کی مہربانی کی اور ڈرتے ہیں اس کے عذاب سے ۔ بے شک تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے ۔
تفسیر از شبیر احمد عثمانی دیوبندی : مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو تم معبود و مستعان سمجھ کر پکارتے ہو، وہ خود اپنے رب کا بیش از بیش قرب تلاش کرتے ہیں ۔ ان کی دوا دوش صرف اس لیے ہے کہ خدا کی نزدیکی حاصل کرنے میں کون آگے نکلتا ہے ، ان میں جو زیادہ مقرب ہیں وہ ہی زیادہ قرب الہی کے طالب رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کسی سب سے زیادہ مقرب بندہ کی دعاء وغیرہ کو حصولِ قرب کا وسیلہ بنائیں ۔ (تفسیر عثمانی)
ترجمہ پیر کرم الازھری رحمۃ اللہ علیہ : وہ لوگ جنہیں یہ مشرک پکارا کرتے ہیں وہ خود ڈھونڈتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ کونسا بندہ (اللہ سے) زیادہ قریب ہے اور امید رکھتے ہیں اللہ کی رحمت کی اور ڈرتے رہتے ہیں اس کے عذاب سے ۔
تفسیر ضیاء القرآن : مطلب یہ ہے کہ کمشرکین جن کو خدا بنائے ہوئے ہیں اور جن کو اپنی تکالیف و مصائب میں پکارتے ہیں یہ خدا نہیں بلکہ وہ تو خود ہر لمحہ ہر لحظہ اپنے رب کریم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اگر واقعی وہ خدا ہوتے جیسے مشرکین کا خیال ہے تو پھر انہیں کسی کی عبادت اور رضاجوئی کی کیا ضرورت تھی۔ مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ مقرب بندوں کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بنانا جائز ہے اور اللہ تعالی کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ اس آیت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی غیر کی عبادت کرنا ممنوع ہے لیکن مقبولانِ بارگاہ ایزدی کا وسیلہ پکڑنا اور انس ے التماسِ دعا کرنا جائز ہے ۔
عربی قواعد کے مطابق "ایھم اقرب" کا ترجمہ
پہلی بات جو آپ نوٹ کریں وہ یہ ہے کہ "ایھم اقرب" میں کوئی "فعل" کا صیغہ استعمال نہیں ہوا ہے ۔ چنانچہ عربی زبان کے لحاظ سے اس میں "فعل حال" یا "فعل مستقبل" کا کوئی بحث ہی نہیں ہے ۔
عربی زبان میں "جملہ" کی دو اقسام ہوتی ہیں :
1) الجملات الفعلیۃ
("فعلیہ جملے" یعنی (Verbal Sentence)
2) الجملات الاسمیہ
("اسمیہ جملے" یعنی (Noun Senteces)
عربی میں جملے کے ان اقسام کی مثال اردو یا انگریزی زبان میں نہیں مل سکتی ۔ "فعلیہ جملے" وہ ہوتے ہیں جو کسی "فعل" سے شروع ہوتے ہیں جبکہ "اسمیہ جملے" وہ ہوتے ہیں جو کسی "اسم" سے شروع ہوتے ہیں۔ اب یہ چیز عربی زبان میں بالکل قابل قبول ہے (بلکہ کچھ صورتوں میں بہتر ہے) کہ فعل "ہے" کو جملے سے نکال دیا جائے۔ مثال کے طور پر عربی زبان میں یہ کہنا بالکل درست ہو گا: "الکتاب کبیر"، جس کا مطلب ہے "یہ بڑی کتاب ہے"۔
آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں "یکن الکتاب کبیرا" جس میں آپ "یکن" کا فعل استعمال کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے "ہے"۔ مگر یہ ناخوشگوار عربی ہے اور یہ بہتر طریقہ ہے کہ "یکن" کو نکال دیا جائے اور صرف "الکتاب کبیر" کہا جائے ۔ اب اوپر کی آیت میں "ایھم اقرب" بالکل اسی طرح کا جملہ ہے ، یعنی کسی بھی "فعل" کے بغیر اور اسی لیے اس کے ترجمہ کرتے ہوئے ہمیں "ہے" استعمال کرنا ہو گا ۔
چنانچہ "الکتاب کبیر" کا ترجمہ ہم "یہ ایک بڑی کتاب ہے" کریں گے بجائے اسکے کہ یہ کہیں "یہ ایک بڑی کتاب ہو جائے"۔ چنانچہ غیرمقلد وہابی حضرات کا ترجمہ "ہو جائے" ہر صورت میں غلط ہے ۔
اگر "ایھم اقرب" کے اس جملے میں کوئی "فعل" استعمال ہو جاتا تو زمانہ حال یا زمانہ مستقبل کے متعلق شاید کچھ غلط فہمی ہو جاتی، مگر اس سلسلے تو سرے سے کسی غلط فہمی کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
چنانچہ "ای" کا مطلب ہے "ان میں سے" اور "اقرب" کا مطلب ہے "قریب ترین"، یعنی "ان میں سے کون قریب ترین ہے"۔
غیرمقلد وہابی حضرات کو چیلنج ہے کہ وہ اس جملے کا ترجمہ "قریب ہو جائے" ثابت کریں ۔ سورۃ النساء کی آیت گیارہ میں "ایھم اقرب" کا ترجمہ ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے پہلے سے ہی خود یہ انتظام کر کے رکھا ہوا ہے کہ غیرمقلد وہابی حضرات کے ترجمے میں غلطی صاف پکڑی جائے ۔ اور یہ انتظام ایسے کیا کہ یہی جملہ "ایھم اقرب" اللہ تعالی نے سورۃ النساء کی آیت گیارہ میں استعمال کیا ہے ۔
علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ متوفی 597 ھ نے لکھا ہے کہ : جن لوگوں کی وہ عبادت کرتے ہیں اس کے مصداق میں تین قول ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ وہ جن ہیں جو بعد میں اسلام لے آئے تھے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ ملائکہ ہیں اور تیسرا قول یہ ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر ہیں ، یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے ، اور اس آیت میں یدعون ، یعبدون کے معنی میں ہے ، یعنی وہ ان کو معبود سمجھ کر عبادت کرتے ہیں ۔ (زاد المسیر ج 5 ص 57، 58، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، 1407 ھ)
جن کی وہ عبادت کرتے تھے ان کے جن ہونے کے متعلق یہ دلیل ہے : حضرت عبد اللہ بن مسعو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے بعض افراد جنات کے بعض افراد کی عبادت کرتے تھے ، پھر وہ جن مسلمان ہوگئے ، اور وہ انسان بدستور ان جنات کی عبادت کرتے رہے تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 4714، صحیح مسلم، رقم الحدیث : 3030، السنن الکبری للنسائی، رقم الحدیث : 11288)
اور جن لوگوں نے کہا وہ فرشتے تھے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ عرب کے بعض قبائل سے کچھ لوگ ملائکہ کی ایک قسم کی عبادت کرتے تھے جن کو جنات کہا جاتا تھا اور وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 16893، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)
اور جن لوگوں نے کہا وہ حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر کی عبادت کرتے تھے ان کی دلیل یہ حدیث ہے : حضرت ابن عباس نے کہا جن کی وہ لوگ عبادت کرتے تھے وہ حضرت عیسیٰ ، ان کی والدہ اور حضرت عزیر ہیں ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : 16895، حضرت ابن عباس کی دوسری روایت میں شمس اور قمر کا بھی زکر ہے، رقم الحدیث : 16897)
جو جنات مسلمان ہوچکے تھے ، اسی طرح فرشتے اور تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور اس کے محتاج ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں ، ہرچند کہ ملائکہ اور انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں وہ کسی قسم کو کوئی گناہ نہیں کرتے اور نہ ان کو دنیا اور آخرت میں کسی قسم کے عذاب کا خطرہ ہے ، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات سے خوف زدہ رہتے ہیں اور ان میں سے جو اللہ تعالیٰ کے جتنے زیادہ قریب ہے وہ اتنا اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ان اتقاکم واعلمکم باللہ انا۔ تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھنے والا میں ہوں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بکثرت جنت کے حصول کی اور دوزخ کے عذاب سے پناہ کی دعائیں فرماتے تھے:حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دعا کثرت سے کرتے تھے : اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں (بھی) اچھائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) اچھائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 6389)(صحیح مسلم، رقم الحدیث : 2690، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1519، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : 939، مسند احمد رقم الحدیث : 12004، عالم الکتب بیروت)
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعاؤں میں سے یہ دعا تھی : اے اللہ ہم تجھ سے رحمت کے موجبات اور پکی مغفرت کو طلب کرتے ہیں اور ہر گناہ سے سلامتی اور نیکی کی سہلوت طلب کرتے ہیں اور جنت کی کامیابی اور تیری مدد سے دوزخ سے نجات طلب کرتے ہیں، یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ۔ (حافظ ذہبی نے اس کو بلا جرح نقل کیا ہے) (المستدرک ج 1 ص 525، قدیم ، المستدرک رقم الحدیث : 1968، الجامع الصغیر رقم الحدیث : 1487)
وسیلہ خواہ تقرب کیلئے ہو یا حاجت روائی کیلئے ہوخواہ کسی نیک اعمال کا ہو یا کسی نیک بندے کا ہو ۔خواہ وہ نیک ہستی حیات ہو۔ یا ظاہری وفات پاچُکی ہو۔۔۔خواہ وَسیلہ کلام حقیقی ذاتی کی صورت میں ہو ۔یا کلام مجازی کی صورت میں ہو۔ یہ قرآن واحادیث کی روشنی میں ایک ثابت شدہ امر ہے۔ اور جائز ہے۔۔۔اِسے شرک کہنا عام مسلمانوں بلکہ بڑے بڑے محدثین تابعین اور صحابہ کرام علیھم الرضوان پر الزام کے مترادف ہے۔ بلکہ اِن نفوسِ قُدسیہ کو شرکیہ افعال میں مبتلا ہونے والا۔ کہنے کے مترادف ہے ۔
حالانکہ قرآن کی کسی آیت اور کسی حدیث میں وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔اُور جو حضرات ہٹ دھرمی دِکھاتے ہوئے قرآن کی وہ آیات پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔۔ کہ،، جس میں بتوں کو پوجنے اور ان سے مدد مانگنے سے منع کیا گیا ہے۔ جُو کہ ،،صریح گُستاخی تُو ہے ہی۔۔۔ لیکن علمی خیانت بھی ہے۔۔۔ کہ جانتے بُوجھتے آیات کا محل بدل دِیا جائے۔ یہ قُرانی آیات کی تفسیر بالرائے کے مترادف ہے۔ جسکی اِسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی جانب سے قران کی تفسیر کرنا بلااجماع علما و محدثین حرام عمل ہے ۔
مثلاً : قُلْ اَنَدْعُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللہِ مَا لَا یَنۡفَعُنَا وَلَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰۤی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ہَدٰینَا اللہُ ﴿ۙ۷۱﴾
ترجمہ : تم فرماؤ کیا ہم اللّٰہ کے سوا اس کو پوجیں جو ہمارا نہ بھلاکرے۔ نہ بُرا۔ اُور الٹے پاؤں پلٹا دیئے جائیں بعد اس کے کہ اللّٰہ نے ہمیں راہ دکھائی ۔
اور ان آیات میں لفظ’’ دعا‘‘ پکار کے معنی میں نہیں بلکہ عبادت کے معنی میں ہے مگر ہٹ دھرمی دیکھئے کہ قرآن میں اپنی رائے سے تفسیر کر تے ہوئے کہتے ہیں کہ دعا سے مُراد’’ پکارنا‘‘ ہے لہذا کسی نبی ولی کو پکارنا جائز نہیں ہے یہ شرک ہے العیاذ باللہ تعالی حالانکہ تمام مفسرین نے ان مقامات پر لفظ دعا کا معنی عبادت کرنا بیان کیا ہے مگر جس کا کام ہی مسلمانوں پر شرک کا فتوی صادر کرنا ہو تو اُسے اپنے ایمان کی بھی کیا فِکر ہُوگی ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ مَنْ قَالَ فِی الْقُرْآنِ بِغَیْرِ عِلْمٍ فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنْ النَّارِ‘‘ یعنی : جس نے قرآن میں بغیر علم کے کچھ کہا پس اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے ۔ (سنن الترمذی باب تفسیر القران حدیث نمبر۲۱۰۱)
بالفرض محال آپ اس کا معنی ’’پکارنا‘‘ ہی لو تو جناب یہ بتایئے کہ دنیا میں کون مسلمان پھر شِرک سے باہررہا۔۔۔ ہر شخص کسی نہ کسی شخص کو دنیا میں اپنی مدد وغیرہ کے لئے ضرور پکارتا ہے۔۔۔ تو جن حضرات نے مطلق پکارنے کو ہی شرک کہا تو اس صورت میں دنیا میں سب کے سب ہی معاذ اللہ کافر و مشرک ہوگئے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اﷲ تعالی نے اس آیت میں جس کو آپ نے دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مطلقاً بَندوں کو پکارنے سے منع کیا ہے۔ تو اب آپ کسی کو بھی نہیں پکار سکتے۔۔۔ اُور اگر آپ یہ کہیں کے زِندوں کو پکار سکتے ہیں۔ مگر مُردہ کو نہیں پکار سکتے۔
تو حضرت موسی علیہ السلام نے اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وصال مبارک کے کئی سو سال بعد مدد فرمائی۔ پچاس نمازوں کو پانچ نمازوں میں تبدیل کرواکر۔۔۔۔ تو اعتراض کرنے والوں کو چاہیئے کہ،، وُہ پُوری پچاس نماز ہی پڑھا کریں۔ کہ،، آپ تو مرنے کے بعد مدد کے قائل نہیں ہیں۔۔۔ نیز آپ نے یہ مُردہ اور زندہ کی تفسیرکہاں سے کی ہے ؟
ذرااس کا حوالہ دیجیے وگرنہ آپ کا یہ عمل تفسیر بالرائے کرنا ہے ۔۔۔ جو کہ حرام ہے۔ اور اگر زندہ کو پکار سکتے ہیں تو کیا فرعون کے ساتھی جو اسے خدا سمجھ کر پکارتے تھے ۔۔تو کیا وہ جائز تھا ؟
یا آج اگر کوئی کسی کو خدا سمجھ کر پکارے تو کیا یہ جائز ہوگا۔۔۔؟ تو معلوم یہ ہُوا۔ کہ، زندہ یا مرد ہ کا فرق نہیں بلکہ خدا سمجھ کر پکارنا ممنوع ہے۔ اُور یہی شرک ہے ۔
الحمد للہ کوئی بھی ذی شعور مسلمان کسی نبی علیہ السلام یا وَلیُ اللہ کو خدا سمجھ کر ہر گز نہیں پکارتا ۔ اور جو پکارے وہ یقیناًمشرک ٹھہرے گا۔ اب بھی اگر کوئی ان آیات کوجو کہ کفار کے حق میں نازل ہوئیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کرتا دَکھائی دے ۔ تو درحقیقت وہ اسلام کے لِبادے میں اہل خوارج بے دین لوگوں میں سے ہیں ۔ کیونکہ بخاری شریف میں یہ خوارجیوں کی نشانی بیان کی گئی ہے ۔
بعد از وصال وسیلہ کی حدیث مع منکرین کے اعتراض کا جواب :
أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ وَأَبُو بكر الفارسي قالا : حدثنا أبو عمر بْنُ مَطَرٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ الذُّهْلِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكٍ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ ص، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ ﷲِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْ هُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَأَتَی عُمَرَ، فَأَخْبَرَهُ، فَبَکَی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَاءِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ : رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ ۔
ترجمہ : حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط پڑا، ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر شریف پر حاضر ہوکر عرض کیا: ”یا رسول اللہ ! اپنی امت کیلئے بارش کی دعا فرمائیں وہ ہلاک ہورہی ہے ۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس شخص کے خواب میں تشریف لاۓ اور فرمایا : ”عمر کے پاس جاؤ ، میرا سلام کہو اور بشارت دو کے بارش ہوگی اور یہ بھی کہو کے نرمی اختیار کریں“، اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی (تو) خبر سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور فرمایا اے رب جو چیز میرے اختیار میں ہے اس میں تو میں نے کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ (علامہ ابن کثیر کہتے ہیں اس کی اسناد صحیح ہیں)۔(المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)
اِس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے المصنف میں اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے ۔ امام ابن ہجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے ۔ سب سے پہلے تو ان اعتراض کے جواب میں صرف اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ : اس حدیث کو مخالفین و موافقین سب کے نزدیک مسلم ائمہ و محدثین الحافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ ابن کثیر نے اس کی سند کو " صحیح " کہا ہے، (الفتح الباری ٢/ ٤٩٥)(البداية والنهاية ٨ / ٨٤ ، البدایہ والنہایہ مترجم اردو جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 126 ،127)
یہاں ہی حجت تمام ہو جاتی ہے ، لیکن اعتراض کا تھوڑا تفصیلی جواب بھی ضروری ہے ، مالک الدار رضی الله تعالی عنہ کی توثیق ! آپ مشور تابعی ہیں اور آپ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے خادم اور وزیر خزانہ تھے .علّامہ ابن سعد نے مالک الدار کو تابعین میں شمار کیا ہے اور فرمایا کہ وہ حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں اور ان سے ابو صالح السمّان نے اور فرمایا " کان معروفا " ۔ (الطبقات الکبیر ، ٦ / ١٢/ ١٤٢٣)
امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الثقات میں فرمایا ، مالک بن عیاض الدار ، حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ اور ابو صالح السمّان سے روایت کی ہیں . (" الكتاب: الثقات جلد ٥ ص ٣٨٤")
الحافظ امام شمس الدین ذھبی رحمۃ اللہ علیہ نے تجريد الأسماء الصحابه میں فرمایا ، مالك الدار مولي عمر بن خطاب ٠روي عن ابي بكر٠حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت ابوبکر رضی الله تعالی عنہ روایت کرتے ہیں.( تجريد الأسماء الصحابه ٢ / ٤٤)
الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی مالک الدار کو صحابی رسول شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے نبی کریم علیہ السلام کو دیکھا اور تفصیل سے آپ کے حالات نقل کئیے.("الاصابة في تميز الصحابة ٦ / ١٦٤ ")
اسی لئے کہتے جھوٹ کے پیر نہیں کذاب البانی نے التوسل میں اس حدیث پر ضعیف کا حکم لگایا مالک الدار کو مجہول کہ کر مگر صحیح الترغیب و الرھیب میں مالک الدار والی ایک روایت پر البانی حسن کا فتویٰ صادر کر رہے ہیں ؟ یہ البانی کا ایک دجل اور ملاحضہ فرمائیں ۔ (صحیح الترغیب و الرھیب ١/ ٩٢٦)
جواب : امام اعمش کی تدلیس ، امام اعمش بخاری و مسلم کے باالجماع ثقہ راوی ہیں ، ایک اہم نقطہ، وہابیوں کا کذاب محدث و امام ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث پر امام اعمش کی ممکنہ تدلیس پرکوئی اعتراض نہیں کیا جس کا شور شرابہ آج کا جاہل وہابی کرتا پھرتا ہے ۔
تدلیس کے اعتبار سے محدثین نے رواۃ حدیث کے مختلف طبقات بنائے ہیں،بعض طبقات کی روایات کو صحت حدیث کے منافی جبکہ دوسرے بعض کی روایات کو مقبول قرار دیاہے۔ مذکورہ راوی کے بارے میں تحقیق پیشِ خدمت ہے : امام اعمش مدلس ہیں مگر انکی حدیث ٢ امور کی بنا پر مقبول ہے، چاہے سماع کی تصریح کرے یا نا کرے، امام اعمش کا شمار مدلسین میں مرتبہ ثانیہ میں ہوتا ہے .
اور محدثین علیہم الرّحمہ نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ طبقہ ثانیہ کے مدلس کی روایت مقبول ہے، طبقہ ثانیہ کے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں . ( التدلیس والمدلسون للغوری ص104)(جامع التحصیل فی احکام المراسیل ص113، روایات المدلسین للعواد الخلف ص32)
امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں ہیں جن کے بارے میں الحافظ امام ابن الحجر العسقلانی فرماتے ہیں.من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح ، یعنی اس طبقے میں ان آئمۃ حدیث کو شمار کیا گیا ہے جن سے تدلیس کا احتمال ہے اور ان سے بخاری اور مسلم نے اپنی صحیح میں روایت لی .
علامہ ابن حزم محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوئے ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح ہیں اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ منهم كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين ١.كالحسن البصري ٢.وأبي إسحاق السبيعي و٣.قتادة بن دعامة و٤.عمرو بن دينار٥. وسليمان الأعمش ٦.وأبي الزبير و٧.سفيان الثوري و٨.سفيان بن عيينة ۔ (الاحکام لابن حزم ج2،ص141 ،142 فصل من یلزم قبول نقلہ الاخبار)
اور اس میں یہی سليمان الأعمش بھی ہیں . اگر بالفرض وہابیوں کے اس اعتراض کو تسلیم بھی کرلیا جاے کہ اس حدیث کو سماع کی تصریح کی وجہ سے ہی قبول کریں جیسا کہ اہل مرتبہ ثالثہ اور بعد کے مدلسین کا مقام ہے پھر بھی یہ حدیث مقبول ہے کیوں کہ یہاں امام اعمش نے ابن ابی صالح سے اسکو روایت کیا ہے ، اور امام الائمہ فی الحدیث امام شمس الدین ذھبی " میزان الاعتدال" میں رقمطراز ہیں . ومتى قال: عن تطرق إليه احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم كـ إبراهيم وأبي وائل وأبي صالح السمان فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
ترجمہ : امام اعمش رحمۃ اللہ علیہ جب " عن " کہیں تو تدلیس کا احتمال عارض ہوتا ہے ، مگر علاوہ ان شیوخ کے جن سے وہ اکثر روایت لیتے ہیں، جسے، ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ ، ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ اور ابی صالح السمّان رحمۃ اللہ علیہ . بلا شبہ اس نوع سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہوتی ہے ۔ (ميزان الاعتدال ٢ / ٢٢٤)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)(حافظ ابوعمرو بن عبدالبر ، حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) ، اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)
علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر کے خازن مالک الدار سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ) ۔
اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔
مذکورہ دلاٸل سے ثابت ہوا کہ کسی ایسے بزرگ کے وسیلے سے بھی دعا کرنا جائز ہے جو ابھی پیدا بھی نہ ہوئے ۔ در اصل وسیلہ میں خا ص نکتہ یہی ہے کہ جس کو ہم وسیلہ بنا رہے ہیں وہ اللہ کی بارگا ہ میں پسندیدہ اور مقبول ہو ۔ چا ہے وہ ابھی دنیا میں موجود ہو یا دنیا سے جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو۔ان سب کو وسیلہ بنانا جائز ہے ۔ اور جو اللہ کی بارگا ہ میں مردود ہو، اس کو وسیلہ بنانا ہر گز جائز نہیں چاہے وہ دنیا میں موجود ہو یا جا چکا ہو یا ابھی آیا ہی نہ ہو ۔ چنانچہ ہم ایک فاسق و فاجر یا کافر ، مشرک کی ذات کو کسی صورت میں وسیلہ نہیں بنا سکتے ۔ چا ہے وہ زندہ ہو یا مردہ ۔ اور اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہستیوں جیسے انبیائے کرام علیہم السلام ، صحابہ عظام رضی اللہ عنہم اور اولیائے کرام علیہم الرحمہ کو ہر حال میں وسیلہ بنا سکتے ہیں ۔ کیو نکہ وہ ہر حال میں اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں ۔ بہت سارے سادہ لوح قسم کے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے ۔ اس لیے اس نکتہ کو خوب سمجھ لیں کہ وسیلہ بنانے کےلیے اُس ذات کا زندہ یا موجود ہونا شرط نہیں بلکہ اس کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہونا شرط ہے ۔
بعد وصال بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر بزرگانِ دین علیہم الرحمہ کے وسیلے سے دعا کر نا جائز ہے : وصال کر جا نے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقبولیت اور محبوبیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب بھی ہی ہے جیسے حیات مبارکہ میں تھی ، بلکہ اب تو اور زیا دہ بڑھ گئی کہ قرآن حکیم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعلق سے ارشاد ہوا ’’وللاٰ خرۃخیر لک من الاولی‘‘ کہ آپ کی ہر آنے والی گھڑی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے ۔ اس لیے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے دعا کر نا جائز تھا ویسے ہی اب بھی جائز ہے بلکہ قبولیت د عا کا سب سے عظیم ذریعہ ہے ۔ چنانچہ امام دارمی علیہ الرحمہ اپنی سنن میں اوس بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کر تے ہیں کہ:ایک مر تبہ مد ینہ شریف کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے تو انہوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے حالات کی شکایت کی ، تو آپ رضی اللہ عنھا نے فر مایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے پاس جاٶ اور اس کی ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھول دو کہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان کو ئی پر دہ نہ رہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ :انہوں نے ایسا ہی کیا،تو خوب بارش ہوئی ۔ اور اُس سال خوب سبزہ اُگا جس کی وجہ سے اونٹ اتنے موٹے ہو گئے کہ محسوس ہوتا کہ چربی کی وجہ سے پھٹ پڑیں گے ۔ اس لیے اُس سال کا نام ہی ’’ عام الفتق‘ پیٹ پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا ۔ (سنن دارمی،باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد موتہ، حدیث:۹۲)۔(اس حدیث پر ہم تفصیل سے عرض کر چکے ہیں)
اب آپ خود ہی سوچیں کہ مصیبت سے نجات حاصل کرنے کےلیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدھے اللہ عزوجل سے کیوں نہ دعا کی ؟ پھر اس وقت صحابہ کرام اور جلیل القدر تابعین رضی اللہ عنہم بھی تو زندہ تھے ۔ انہوں نے شر ک کا فتوی کیوں نہ لگایا ؟ کیا آج کے منکرین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام اور تابعین عظام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کے تو حید پرست ہیں ؟ اگر اِن سوالوں میں سے ہر ایک کا جواب ’’ نہیں ‘‘ ہے تو بلاشبہ جس طر ح باحیات بزرگوں کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ۔ اسی طر ح وفات یافتہ بزرگوں کے وسیلہ سے بھی دعا کرنا جائز ہے ۔
وسیلہ ، کے جواز اور اس کے استحسان پر تمام علمائے اہل سنت و جماعت متفق ہیں ۔چنانچہ ائمہ اربعہ ، امام طبرانی،امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی،امام فخر الد ین رازی،امام قر طبی،علامہ ابن حجر عسقلانی،امام احمد بن محمد شہاب الدین قسطلانی،ملا علی قاری ،علامہ جلال الدین سیوطی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمائے امت علیہم الرحمۃ والرضوان نے اس کے جواز کا فتوی صادر فرمایا ۔ فقیر یہاں پر بنظرِ اختصار صرف امام ابو زکریا محی الدین بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر اکتفا کرتا ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ’کتاب الاذکار‘ کے باب ’الاذکار فی الاستسقا‘ میں کسی بزرگ کے وسیلے سے دعا کرنے کے جواز پر اس طرح سے اظہار خیال فر ماتے ہیں : جب تم میں کو ئی ایسا آدمی ہو جس کا زہد و تقوی مشہور ہو تو اس کی ذات کے وسیلے سے بارش طلب کیا کرو ، اور یوں دعا مانگا کرو ’’ اے اللہ ! ہم تیرے فلاں بندے کے وسیلے سے بارش اور شفاعت طلب کر تے ہیں ۔ جس طرح بخاری شر یف میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے بارش طلب فر مائی ۔ (کتاب الاذکار صفحہ ۱۴۰)
الحمد للہ : وسیلہ کے جواز پر قرآن کریم ، احادیث مبارکہ ، معمولات صحابہ رضی اللہ عنہم اور اقوال ائمہ علیہم الرحمہ سے ، بہت سارے دلائل فراہم کیے گئے ہیں جو متلاشیانِ حق کےلیے کافی سے زائد ہیں ۔ مگر اس کے باوجود کوئی انکار کرے ، اسے شرک و بدعت اور ناجائز و حرام کہے اور مسلمانوں کے درمیان بلا وجہ لڑائی جھگڑے کی صورت پیدا کرے اور اپنی مخصوص ذ ہنیت لوگوں پر مسلط کرنا چاہے تو دنیا میں اس کا کوئی علاج نہیں ۔ ہاں ! البتہ جب میدانِ محشر بپا ہو گا اور لوگ اس دن کے سخت مصائب و الام سے گھبرا کر انبیائے کرام علیہم السلام کو پریشانیوں سے نجات پانے کےلیے وسیلہ بنائیں گے اور ان کی بارگاہوں میں جا کر ان سے فریاد کریں گے ۔ سب دوسرے کے پاس جانے کا مشورہ دیں گے اور آخر میں حضو ر رحمۃ للعا لمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’اَناَ لَھاَ‘‘ کا مژدہ سنائیں گے ، تب جا کے لو گوں کو سکون نصیب ہو گا ۔ تو یقیناً اس دن یہ لوگ مان جائیں گے کہ : ہاں ہم بغیر وسیلہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارگاہِ خداوندی میں نہیں پہنچ سکتے ۔ مگر اس دن ماننے سے فائدہ بھی کیا ہو گا جبکہ دنیا میں انکار کر چکے ۔ پھر انجام کیا ہو گا ؟
ٹھنڈے دل سے سوچیئے ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 Comments