ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام سب سے پہلے قرآنی آیات پڑھتے ہیں جن سے ایصالِ ثواب اور بخشش کی دعا کرنا واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے : ⏬
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ۔ (سورہ توبہ آیت نمبر 114)
ترجمہ : اور ابراہیم کا اپنے باپ (یعنی چچا آزر ، جس نے آپ کو پالا تھا) کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کے سبب جو اس سے کرچکا تھا پھر جب ابراہیم کو کھل گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اس سے تنکا توڑ دیا بیشک ابراہیم ضرور بہت آہیں کرنے والا متحمل ہے ۔
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاَةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ۔ (سورہ ابراهيم ، آیت نمبر 40 ۔ 41)
ترجمہ : اے میرے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور میری دعا سن لے ۔ اے ہمارے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہوگا ۔
وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ۔ (سورہ بنی اسرائيل آیت نمبر 24)
ترجمہ : اور ان کےلیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن میں پالا ۔
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ۔ رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ (سورہ مٶمن (غافر) آیت نمبر 7 ۔ 8)
ترجمہ : وہ جو عرش اُٹھاتے ہیں اور جو اس کے گرد ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بولتے اور اس پر ایمان لاتے اور مسلمانوں کی مغفرت مانگتے ہیں اے رب ہمارے تیرے رحمت و علم میں ہر چیز کی سَمائی ہے تو انہیں بخش دے جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب اور اُنہیں بسنے کے باغوں میں داخل کر جن کا تو نے اُن سے وعدہ فرمایا ہے اور ان کو جو نیک ہوں ان کے باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے ۔
وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ۔ (سورہ حشر آیت نمبر 10)
ترجمہ : اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بے شک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے ۔
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ۔ (سورہ نوح آیت نمبر 28)
ترجمہ : اے میرے رب مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور اسے جو ایمان کے ساتھ میرے گھر میں ہے اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کو اور کافروں کو نہ بڑھا مگر تباہی ۔
کفار کے خلاف دعا کرنے کے بعد حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے لیے ، اپنے والدین اور مومن مَردوں اور عورتوں کےلیے دعا کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی : اے میرے رب عزوجل مجھے اور میرے ماں باپ کو اور میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہونے والے کو اور قیامت تک آنے والے سب مسلمان مَردوں اور سب مسلمان عورتوں کوبخش دے اور کافروں کی تباہی میں اضافہ فرما دے ۔ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اوران کی قوم کے تمام کفار کو عذاب سے ہلاک کر دیا ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعا قبول فرما لی لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے جو دعا مسلمانوں کے بارے میں فرمائی اسے اللّٰہ تعالیٰ قبول نہ فرمائے ۔ (تفسیر خازن جلد ۴ صفحہ ۳۱۴-۳۱۵)(تفسیر مدارک صفحہ ۱۲۸۶)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے والدین مومن تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انتقال کر جانے والے مسلمانوں کےلیے مغفرت کی دعا کرنی چاہئے کہ اس سے انہیں فائدہ ہو تا ہے ۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریادی کی طرح ہی ہوتی ہے کہ ماں ، باپ ، بھائی یا دوست کی دعائے خیر پہنچنے کی منتظر رہتی ہے ، پھر جب اسے دعا پہنچ جاتی ہے تو اسے یہ دعا دنیا اور اس کی تمام نعمتوں سے زیادہ پیاری ہوتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ زمین والوں کی دعا سے قبر والوں کو پہاڑوں کی مانند ثواب دیتا ہے اور یقیناً زندہ کا مُردوں کےلیے تحفہ ان کےلیے دعائے مغفرت ہے ۔ ( شعب الایمان الرابع والستون من شعب الایمان الخ ، فصل فی زیارۃ القبور جلد ۷ صفحہ ۱۶ الحدیث : ۹۲۹۵)
سب سے پہلے ایک قاعدہ یاد کر لیں کہ دلیل منع کےلیے ہوتی ہے ۔ منکرینِ ایصالِ ثواب سے سوال ہے کہ قرآن یا حدیث میں کہاں لکھا ہوا ہے کہ قرآن کا ثواب مرنے والے کو نہیں پہنچتا ؟ یہ قرآن وحدیث کا قاعدہ ہے کہ جو جائز نہیں ہے اس سے منع کر دیا گیا ہے ، باقی سب جائز ہے ۔ ہر نئی آنے والی چیز کو دیکھا جائے گا کہ اس میں ناجائز ہونے کی کوئی علت پائی جاتی ہے کہ نہیں ، اگر نہ پائی جاتی ہو تو جائز ہوتی ہے ۔ اس قاعدے کو سمجھنے کےلیے ایک عام فہم اور سادہ سی مثال درج ذیل ہے جو معرضین کے بہت سے سوالات کا ایک ہی جواب ہے : مثلاً ہم روز مرہ زندگی میں پیدل یا گاڑی پر سفر کرتے ہیں تو کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوتا کہ آپ اس سڑک (Road) پر سے گزر سکتے ہیں ۔ اس گلی (street) سے بھی گزر سکتے ہیں یا اس راستے سے بھی گزر سکتے ہیں ۔ ہاں جس راستے سے منع کرنا ہو وہاں یہ ضرور لکھا ہوتا ہے ، یہ شارع عام نہیں ہے (No Entry) یا یہاں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ بند ہے وغیرہ وغیرہ یا پھر کوئی رکاوٹ لگا کر راستے کو بند کر دیا جاتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جس راستے سے منع ہی نہیں کیا گیا اگر کوئی شخص کہے کہ آپ وہاں سے کیوں گزرے ہیں تو ہم یہی کہیں گے کہ شارع عام ہے جس کی مرضی ہے گزرے کوئی پابندی نہیں ہے ۔ آپ کون ہوتے ہیں منع کرنے والے ؟
لیکن افسوس آج کل کچھ نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار امت مسلمہ کو ہر اس نیکی کے کام سے منع کرتے ہیں جس میں مسلمانوں کا فائدہ ہو ۔ یاد رکھیں ہر نیک کام کا ثواب مرنے والے کو پہنچایا جا سکتا ہے ۔ کہیں بھی تعین نہیں کیا گیا کہ فلاں فلاں کام کا اجر وثواب میت کو پہنچایا جا سکتا ہے اور فلاں فلاں کا نہیں ، جو کہتا ہے نہیں پہنچتا غلط کہتا ہے ۔ قرآن وحدیث میں ایک مقام پر بھی نہیں ہے کہ قرآن مجید کا ثواب مرنے والے کو نہیں پہنچتا ۔ یہ تو چند ضروری باتیں جو بیان کر دی گئی ہیں ۔
ایصال کا مادہ وصل یعنی جوڑنا ، پہنچانا ہے ۔ (المصباح:909)
ایصال ثواب یعنی قرآن مجید یا دورود شریف یا کلمہ طیبہ یا کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچانا جائز ہے ۔ عبادت مالیہ یا بدنیہ فرض و نفل سب کا ثواب دوسروں کو پہنچایا جاسکتا ہے ۔ زندوں کے ایصال ثواب سے مردوں کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا "مردے کی حالت قبر میں ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہوتی ہے۔ وہ انتظار کرتا ہے کہ اس کے باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے اس کو دعا پہنچے اور جب اس کو کی کسی کی دعا پنچتی ہے تو وہ دعا کا پہنچنا اس کو دنیا و مافیھا سے محبوب تر ہوتا ہے ۔ (مشکٰوۃ شریف)(فتاوٰی رضویہ جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 494)
زندوں کا تحفہ مردوں کی طرف
زندوں کا تحفہ مردوں کی طرف یہی ہے کہ ا کے بخشش(کی دعا) مانگی جائے ۔ "اور بیشک اللہ تعالٰی اہل زمین کی دعا سے اہل قبور کو پہاڑوں کی مثل اجرو رحمت عطا کرتا ہے"۔ (مشکٰوۃ شریف)
چنانچہ ہدایہ میں مذکور ہے : الاصل فی ھٰذالباب ان للانسان لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوۃ اور صوما او صدقۃ او غیرھا عند اھل السنۃ والجماعۃ (ھدایہ)
ترجمہ: قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ انسان کےلئے جائز ہے کہ اپنے عمل کا ثواب اپنے غیر کو پہنچادے۔ خواہ نماز ہو یا روزہ یا صدقہ یا ان کے علاوہ کوئی بھی عمل ہو یہ اہل سنت وہ جماعت کا مذہب ہے ۔
مذہب حنقی کی عقائد کی مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں ہے کہ : زندوں کا مردوں کیلئے دعا کرنا اور خیرات کرنا مردوں کیلئے نفع کا باعث ہے ۔
حضرت علامہ علی قاری رحمۃ علیہ "شرح مشکٰوۃ میں فرماتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مردوں کو زندوں کے عمل سے فائدہ پہنچتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے معمولات سے ثابت ہے کہ انہوں نے ایصال ثواب کیا ۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی والدہ کا جب انتقال ہوا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی ، یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سعد کی ماں کا انتقال ہوگیا کون سا صدقہ افضل ہے ۔ ارشاد فرمایا "پانی" انہوں نے کنواں کھودا اور یہ کہا کہ یہ سعد کی ماں کیلئے ہے ۔ (شرح الصدور صفحہ 302)
پس معلوم ہوا میت کےلیے نماز ، روزہ ، حج ، قرآن خؤانی ، فاتحہ خوانی ، تسبیح و کلمہ ، صدقہ و خیرات ، قربانی وغیرہ کا ثواب پہنانا جائز ہے ۔
میت کےلیے نماز ، روزہ اور حج کا ثواب پہنچانا
ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اپنے والدین کے ساتھ جب کہ وہ زندہ تھے نیک سلوک کیا کرتا تھا ۔ اب ان کی وفات کے بعد مین ان کے ساتھ کیسے نیکی کروں؟ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا "اب تیرا ان کےساتھ نیکی کرنا یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ ان کےلئے بھی نفل نماز پڑھ اور اپنے روزوں کے ساتھ ان کیلئے بھی (نفلی) روزے رکھ ۔ (العقائد و المسائل صفحہ 59)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا" جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرے اللہ تعالٰی اس کےلئے جہنم سے آزادی لکھ دیتا ہے اور اس کو کامل حج کا ثواب ملتا ہے۔ اور اسکے والدین کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ افضل ترین صلہ رحمی میت کی طرف سے حج کرنا ہے ۔ (شرح الصدور صفحہ 303)
میت کےلیے قرآن خوانی ، اور فاتحہ خوانی کا ثواب پہنچانا
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص قبروں پر گزرا اور اس نے سورہ اخلاص کو گیارہ مرتبہ پڑھا پھر اس کا ثواب مردوں کو بخشا تو اس کو مردوں کی تعداد کے برابر اجرو ثواب ملے گا ۔ (دار قطنی، شرح الصدور صفحہ 307)
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "انصار کا یہ طریقہ تھا کہ جب ان کا کوئی مر جاتا تو وہ بار بار اس کی قبر پر جاتے اور اس کےلئے قرآن پڑھتے" ۔ (شرح الصدور صفحہ 307)
حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "تمام فقہاء کرام نے حکم کیا ہے کہ قرآن مجید پڑھنے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے"۔ (مالا بد بدمنہ)
حضرت شاہ والی اللہ محدث وہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "اور کچھ قرآن پڑھے اور والدین و پیر استاد اور اپنے دوستوں اور بھائیوں اور سب مومنین کی ارواح کو ثواب بخشے"۔ (الانتباہ فی سلاسل اولیا)
میت کےلیے تسبیح اور کلمہ پڑھنے کا ثواب
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو ہم نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ ان پر نماز جنازہ پڑھی پھر انکو قبر میں اتار کر ان پر مٹی ڈال دی گئی بعد ازاں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تکبیر و تسبیح پڑھنا شروع کردی، ہم نے بھی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ پڑھا شروع کردیا۔ دیر تک پڑھتے رہے ۔ تو کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے تسبیح و تکبیر کیوں پڑھی؟ فرمایا اس نیک بندہ اس پر اس کی قبر تنگ ہوگئی تھی ہماری تسبیح و تکبیر کے سبب سے اللہ تعالٰی نے اس کو فراخ کردیا ہے ۔
صدقہ و خیرات کرنے کا ثواب
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ"ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میرے والد نے بوقت وفات کچھ وصیت نہیں کی اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسکو ثواب پہنچے گا۔ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا "ہاں" ۔ (سنن ابو داؤد)(العقائد و المسائل صفحہ 67)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اس کو نفع پہنچے گا ؟
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہاں پہنچے گا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر میرا فلاں باغ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔ (شرح الصدور صفحہ 302)
تفسیر خازن میں ہے کہ"بلا شک و شبہ میت کی طرف سے صدقہ دینا میت کےلیے نافع و مفید ہے اور اس صدقہ کا میت کو ثواب پہنچتا ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے ۔
میت کےلیے قربانی کا ثواب
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایک مینڈھا ذبح کرکے فرمایا کہ"اے اللہ! اس کو میری اور میری آل کی طرف سے اور میری امت کی طرف سے قبول فرما ۔ (فتح القدیر مجوالہ الصحیین باب الحج جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 65)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ اور ایک روایت میں حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147)(وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401،وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311)(والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ ‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322)(ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004)(وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881)(والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649)(وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں ؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754)(والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632)(وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے ۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا.‘‘اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882)(والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے ۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا ۔ (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی. اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630)(والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652)(وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716)(وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول ﷲ!) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں ؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس ﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے ۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی. اس عورت نے عرض کیا : یا رسول ﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149)(والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667)(والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316)(وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394)(وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912 - 2915)(وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے۔(أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے ۔ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔(أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558 ، الرقم : 1757 ، و ابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے ۔ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔(أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔(أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة ، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056)
ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں. اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے ؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا ۔ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308)
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا ؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے ۔ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704)
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا ؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 111)
حضرت عطا ، حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہم سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔(أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی ﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکو کاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا ۔(أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے ۔ (أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102)
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا ، جس کے ہاتھ ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح ، کتاب الأدب ، باب الغيبة ، 5 / 2249 ، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی.(أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو.(أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826)
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا ﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857)
امام ابن عابدین شامی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ ﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں ۔ (ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191)
حضرت سعید بن عبد ﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : ﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو ﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو ﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول ﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوائ.‘‘اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد ﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے۔‘‘اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں.(أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378)
ملا علی قاری اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے ۔ (مرقاة المفاتيح، 1 / 327)
عساکر الدین ، ابو الحسین مسلم بن الحجاج القشیری المعروف امامِ مسلم رحمۃ اللّٰہ علیہ روایت کرتے ہیں : قَالَ : فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ»، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ ۔
ترجمہ : دو یا تین دن وہ اسی (اختلاف کی) کیفیت میں رہے ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائے ، وہ سب بیٹھے ہوئے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سلام کہا ، پھر بیٹھ گئے اور فرمایا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے بخشش کی دعا مانگو ۔ تو لوگوں نے کہا اللہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی بخشش فرمائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا بلاشبہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ ایک امت میں بانٹ دی جائے تو ان سب کو کافی ہو جائے۔(صحیح مسلم ، صفحہ 853حدیث:4431 ، کتاب الحدود مطبوعہ دار الفکر بیروت)
حضرت ماعز رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مجمع میں تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیساتھ مل کر حضرت ماعز بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے تیجے دن اجتماعی دعا کی ۔
پس ثابت ہوا کہ میت کے دوسرے تیسرے دن اجتماعی دعا کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اور یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی طریقہ ہے ۔ لہٰذا اس کو بدعت کہنا جہالت و حماقت ہے ۔
میت کیلئے قُل خوانی ، یا تیجے کے ختم ، کےلیے جمع ہو کر ذِکر و اذکار کرنا قرآن پڑھنا اور اجتماعی دعا کرنے کی اصل اس حدیث سے ثابت ہوئی ۔
اب اگر کوئی قل شریف یا تیجے کی اجتماعی دعا کو بدعت کہے گا تو فتوی سیدھا جا کر صحابہ کرام علیھم الرضوان پر لگے گا ۔ لہٰذا میت کےلیے دوجے تیجے کی اجتماعی دعا جائز بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے ۔
مزارات پہ جانا اور قرآن خوانی کرنا
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ترجمہ ۔ آخری دو پاروں کے معانی کی وضاحت کےلیے کہ اکثر مسلمان پانچ نمازوں ، جمعہ ، انبیاٗ علیہم السلام و اولیا کرام کی ارواح مقدسہ کی جلوہ گاہوں ، صلحا وعرفا کے مزارات کی زیارت کے مواقع پر انہیں سورتوں کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں اور ان کے مضامین کو دریافت کرنے کی تشنگی پاتے ہیں ۔ (تفسیر عزیزی سورہ فاتحہ صفحہ نمبر 3 از حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)
حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی اس تفسیر سے ثابت ہوا کہ اکابرین بھی مزارات کو جاتے تھے نذر نیاز فاتحہ درودوسلام وغیرہ سب کچھ وہی کرتے تھے جو آج بھی مسلمان کرتے ہیں لیکن دیوبندی اور وہابی حضرات جو شاہ صاحب کو اپنا بڑا مانتے ہیں وہ ان سب امور کو بدعت و گمراہی اور شرک کہتے ہیں اور شاہ صاحب ان امور کو اکثر مسلمانوں کا معمول بتا رہے ہیں کیا یہ سب مشرک بدعتی و گمراہ تھے بشمول شاہ صاحب ؟ ۔ آخر کب دیوبندیوں اور وہابیوں کو اللہ سے شرم اور حیا آئے گی اور امت کو گمراہ کرنے اور امت میں فتنہ فساد اور انتشار و تفرقہ پھیلانے پر وہ معافی مانگیں گے ؟
زندوں کی عبادت (بدنی و مالی) کا ثواب دوسرے مسلمان کو بخشنا جائز ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء سے ثابت ہے ۔ ان لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا قرآن و حدیث پر ایمان و عمل ہے اور پھر معتزلہ کی طرح ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں انہیں اپنی سوچ پر نظر ثانی اور ان دلائل پر غور کرنا چاہیے ، فقیر نے اس مضمون مسئلہ ایصالِ ثواب قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں مکمل حوالہ جات دیانتداری سے نقل کر دیے ہیں انہیں پڑھنا ان پر غور کرنا اور پھر انصاف کرنا آپ کا کام ہے ۔ بقول شاعر : ⏬
کوئی منصف ہو تو انصاف کا چہرہ دمکے
کوئی عادل ہو تو زنجیر ہلائی جائے
اگر آپ تعصب ، بغض ، حسد اور میں نہ مانوں کی عینک اتار کر یہ مضمون مکمل پڑھیں گے تو ان شاء اللہ ضرور فائدہ ہوگا ۔
دنیا سے پردہ کرنے والوں کے حق میں زندوں کی دعا کا یہ کتنا واضح ثبوت ہے اور بھی کئی آیات ہیں مگر اختصار کے پیش نظر اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ۔ حدیث پاک میں آتا ہے : الدعاء مخ العبادۃ ۔“ دعا عبادت کا مغز ہے ۔“ایک اور جگہ ہے ۔ الدعاء ھو العبادۃ ۔ “دعا عبادت ہے“ ۔
ثابت ہوا زندوں کی عبادت دنیا سے جانے والوں کےلیے فائدہ مند ہے ۔ حضرت امام جلالالدین سیوطی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : وقد نقل غیر واحدالاجماع علی ان الدعاء ینفع المیت و دلیلہ من القرآن قولہ تعالٰٰی والذین جاءوا ۔ ( الی الاخر) ۔
ترجمہ : اور اس امر پر بہت سے علماء نے اجماع نقل کیا ہے کہ بے شک دعا میت کو نفع دیتی ہے ۔ اور اس کی دلیل قرآن شریف میں اللہ تعالٰٰی کا یہ قول ہے ۔ (مذکورہ آیت کریمہ والذین جاءوا حصّہ اوّل میں دی گٸی ہے)۔( شرح الصدور صفحہ نمبر 127)
شرح عقائد نسفی میں ہے : وفی دعاء الاحیاء للاموات او صدقتھم عنھم نفع لھم خلافا للمعتزلۃ ۔
ترجمہ : زندوں کی دعا اور صدقے سے مردوں کو نفع پہنچتا ہے ۔ معتزلہ اس کے خلاف ہیں ۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من مات و علیہ صیام صام عنہ ولیہ ۔ (صحیح مسلم شریف)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر مرنے والے کی ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ۔ ایک عورت نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر اس کا انتقال ہو گیا کیا میں اس کی طرف سے حج کرکے اس کی نذر پوری کر سکتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قال حجی عنہا ۔ ، تم اس کی طرف سے حج کرو ۔ (صحیح بخاری)
ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے ۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ اور ایک روایت میں حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147، وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919)
ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے ۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا ۔ اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں ! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا. (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے ، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی . اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول ﷲ) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں . آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس ﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے ۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012)
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی . اس عورت نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316، وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912-2915، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے ۔ (أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے ۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056)
حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213)
حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056)
ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں . اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے ؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا .‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308)
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے ۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704)
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا .‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 119)
حضرت عطا حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہم سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں .‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)
حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی ﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے ۔ (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکوکاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا ۔ (أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے ۔ (أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102)
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کے ہاتھ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے ، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن کتاب الطهارة باب الاستبراء من البول 1 / 6 الرقم 20)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی . پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی . پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی ؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی . (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی ۔ (أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826)
ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا ﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا ﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857)
امام ابن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ ﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں ۔ (ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191)
حضرت سعید بن عبد ﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : ﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو ﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے ۔ سو ﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول ﷲ ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوا .‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے ۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے ۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں ۔ (أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378)
امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے ، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے ۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے ۔ (مرقاة المفاتيح، 1 / 327)
فتاوٰی عزیزی میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : آرے زیارت و تبرک بقبور صالحین و امداد ایشاں بایصال ثواب و تلاوت قرآن ودعائے خیر و تقسیم طعام و شرینی امر مستحسن و خوب است ۔
ترجمہ : ہاں صالحین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا اور ایصال چواب تلاوت قرآن دعائے خیف تقسیم طعام و شیرینی سے ان کی مدد کرنا بہت ہی خوب اور بہتر ہے ۔
اور اس پر علمائے امت کا اجماع ہے ۔ دیکھئے : ما من رجل مسلم یموت فیقوم علی جنازتہ اربعون رجلالا تشرکون بااللہ شیئا الا شقعھم اللہ فیہ ۔ (سنن ابو داؤد)
ترجمہ : اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ پر 40 آدمی ایسے کھڑے ہو جائیں جنہوں نے کبھی کسی کو اللہ تعالٰی کا شریک نہ ٹھرایا ہو تو ان کی شفاعت میت کے حق میں اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے۔ یعنی بخش دیتا ہے ۔
بخاری ، مسلم اور مشکوٰۃ میں ہے : دو قبر والوں پر عذاب ہو رہا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کی ایک تر شاخ منگواہ کر آدھی ایک قبر پر اور آدھی دوسری قبر پر رکھ دی اور فرمایا جب تک یہ چاخیں ہری رہیں گی قبر والوں کے عذاب میں تحفیف رہے گی ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت سعد ابن معاذ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد آپ نے تکبیر و تسبیح پڑھنی شروع کردی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے تکبیر و تسبیح پڑھنے کے بابت پوچھا تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قال لقد تضایق علٰی ھذا العبد الصالح قبرہ حتٰی فرجہ اللہ عنہ ۔ (مشکوۃ)
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔ اس نیک آدمی پر قبر تنگ ہو گئی تھی یہاں تک کہ اب اللہ تعالٰی نے اس کی قبر کو فراغ کر دیا ہے ۔
معلوم ہوا کہ زندوں کی عبادت سے اہل قبور کو فائدہ پہنچتاہے اور دفن کے بعد قبر کے پاس تسبیح وغیرہ (کلام پاک) پڑھنا جائز ہے ۔ میت پر تین دن خاص کر سوگ کیا جاتا ہے ۔ بزرگوں نے فرمایا تین دن سوگ کیا ہے ۔ اب اٹھنے سے پہلے گھر کے چند افراد مل کر کچھ پڑھو کچھ صدقی کرو اوع اس کا ثواب میت کی روح کو پٔہنچا کراٹھو ۔ اس کا نام سوئم یا تیجہ ہو گیا ۔ ثبوت ملاحظہ فرمائیں :
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ملفوظات عزیزی ، صفحہ نمبر 55 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے تیجہ کے متعلق فرماتے ہیں : روز سوئم کثرت ہجوم مردم آں قدر بود “ کہ تیسرے دن لوگوں کے بیرون از حساب است بہشتاد ویک کا ہجوم اسقدر تھا کلام بشمار آمدہو زیادہ بہم شدہ یا شد کہ شمار سے باہر ہے ۔ وکلمہ سا حضر نیست اکیاسی کلام اللہ ختم ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوئے ہوں گے اور کلمہ طیبیہ کا تو ابدازہ ہی نہیں ۔
حضرت سعید بن منذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر استطاعت ہوتو تین دن میں قرآن ختم کرو ۔ (جامع صغیر)
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی عرض پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن ہر مہینے ختم کرو ۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ختم کرو ۔ (بخاری جلد اول) حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو جب حد زنا لگنے سے سنگسار کر دیا تو بعد از دفن جب دو دن یا تین گزر گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے جہاں صحابہ کرام بیٹھے تھے پس سلام کیا آپ نے اور بیٹھ گئے اور صحابہ کرام کو فرمایا کہ ماز بن مالک کی بخشش کی دعا کرو تو صحابہ کرام نے ماز بن مالک رضی اللہ عنہ کی مغفرت کی دعا مانگی ۔ (صحیح مسلم جلد دوم) بفضلہ تعالٰی اہل سنت و جماعت کا یہی معمول ہے ۔
ساتواں
حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ بے شک مردے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائے جاتے ہیں تو صحابہ کرام سات روز تک ان کی جانب سے کھانا کھلانا مستحب سمجھتے تھے ۔ (شرح الصدور ابو نعیم فی الحلیہ) ۔ چناچہ شیخ المحدثین حجرت شاہ عند الحق محدچ دہلوی نے فرمایا وتصدیق کردہ شود از میت بعد رفتن اواز عالم تا ھفت روز ۔ ( اشعتہ اللمعات شرح مشکوٰۃ) “ اور میت کے مرنے کے بعد سات روز تک صدقہ کرنا چاہیئے ۔“
دسواں : فرمایا دس دنوں میں قرآن ختم کرو ۔ (صحیح بخاری شریف، جلد اول)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ قرآن کتنے دنوں میں پڑھا جائے فرمایا دس دنوں میں۔ ( ابو داؤد مترجم جلد اول) لہذا قرآن پڑھ کر میت کو بخشنے میں کوئی حرج نہیں!
چہلم
دن مقرر ہونے کی وجہ سے احباب اکٹھے ہو کر میت کے لئے دعا و استغفار کرتے ہیں ۔ ایک حکمے یہ بھی ہے کہ عام لوگوں کے لئے تین دن سوگ ہے۔ مگر عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ چالیس روز تک سوگ کرے ۔ ہر عورت کے رشتہ دار اور اولاد وغیرہ اس کے غم میں شریک رہتے ہیں آخری دن کچھ پڑھ کر فاتحہ دلا کر اٹھتے ہیں ۔
چالیس کا قرآن سے ثبوت
واذ وعدنا موسٰی اربعین لیلۃ ۔ (سورہ بقرہ آیت نمبر 50)
ترجمہ : اور جب ہم نے وعدہ دیا موسٰی کو چالیس رات کا ۔
اقراء القرآن فی اربعین ۔ (جامع ترمذی شریف)
ترجمہ : قرآن مجید چالیس دنوں میں پڑھا کرو ۔
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ میت کی روح کو چالیس دن تک اپنے گھر اور مقامات سے خاص تعلق رہتا ہے ۔ جو بعد میں نہیں رہتا ۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مؤمن پر چالیس روز تک زمین کے وہ ٹکڑے جن پر وہ خدا تعالٰی کی عبادت و اطاعت کرتا تھا اور آسمان کے وہ دروازے جن سے کہ ان کے عمل چڑھتے تھے اور وہ کہ جن سے ان کی روزی اترتی تھی روتے رہتے ہیں ۔ (شرح الصدور ، ص 24)
اسی لئے بزرگان دین نے چالیسویں روز بھی ایصال ثواب کیا کہ اب چونکہ وہ خاص تعلق منقطع ہو جائے گا لہذا ہماری طرف سے روح کو کوئی ثواب پہنچ جائے تاکہ وہ خوش ہو جائیں اور ان سب کی اصل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سید الشھداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے لئے تیسرے، دسویں، چالسویں دن اور چھٹے مہینے اور سال کے بعد صدقہ دیا ۔ ( کذا فی الانوار ساطقہ مغریا الی مجموعۃ الرویات حاشیہ خزانتہ الرویات)
چہلم کا ایک اور حوالہ
وقیل الٰی اربعین فان المیت یشوق الٰی بیتہ ۔
ترجمہ : اور فرمایا صدقہ دینا چالیس دن پس میت شوق رکھتی ہے ان دنوں اپنے گھر کا۔ (شرح برزخ فیض الاسلام 5، ص 34، کتاب الوجیز، ص 64)
عرس ، برسی
حضرت یحیٰی علیہ السلام کے لئے ارشاد باری تعالٰی : وسلام علیہ یوم ولد و یوم یموت و یوم یبعث حیاہ ۔ ( سورہ مریم: آیت 15)
ترجمہ : اور سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن فوت ہوگا ۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں : والسلام علی یوم ولدت و یوم اموت و یوم ابعث حیاہ ۔ (سورہ مریم آیت 33)
ترجمہ : اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن اٹھوں گا، زندہ ہوکر ۔
تفسیر ابن جریر طبری میں ہے : حدیث بیان کی مثنٰی نے سوید سے کیا خبر دی ابن مبارک نے ابراہیم بن محمد سے انہوں نے سہیل بن ابھی صالح نے انہوں نے محمد ابراہیم سے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے جاتے شہدا کی قبروں پر ہر سال پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ اور سیدنا صدیق اکبر اور فاروق اعظم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنھم اجمعین بھی اپنے زمانے میں ہر سال قبور شہداء پر جایا کرتے تھے ۔ (تفسیر ابن جریر مطبوعہ مصر جلد نمبر 13)
اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ہے کہ آپ ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار اور اسی طرح چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اسی پر عمل پیرا رہے ۔ (تفسیر کبیر مطبوعہ مصر جلد نمبر 5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ تشریف لے جاتے ہر شروع سال مین قبور شہداء پر پس فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ (تفسیر کشاف مطبوعہ بیرون لبنان، جلد دوم) تفسیر کشاف کے حوالے کے بعد تو مخالفین کے انکار کی گنجائش نہیں رہنی چاہیئے ۔
مخالفین کے ایک بڑے کا ایک حوالہ اور ۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شھدائے احد کی قبروں پر تشریف لے جاتے پھر فرماتے : سلام علیکم بما صبرتم فنعم عقبٰی الدار ۔ (البدایہ و النہایہ مطبوعہ مصر، جلد سوم) سرور کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر سال شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے پھر چاروں خلفاء کا اپنے اپنے زمانہ میں اس سنت مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل پیرا رہنا عرائس بزرگان دین کیلئے اتنی زبردست دلیل ہے جس کا رد نا ممکن ہے ۔
حضرت فاطمہ خزائیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور آفتاب قبور شہداء پر غروب ہو چکا تھا اور میرے ساتھ میری بہن تھی ۔ میں نے اس سے کہا آؤ قبر حمزہ رضی اللہ عنہ پر سلام کریں ۔ اس نے کہا ہاں پھر ہم ان کی قبر پر ٹھرے ۔ ہم نے کہا ۔ السلام علیک یا عم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے ایک کلام سنا کہ ہم پر رد کیا گیا ( یعنی لوٹایا گیا) وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ کہا کہ ہمارے قریب کوئی آدمی نہ تھا ۔ ( اخرج البیہیقی)۔(طی الفراسخ الٰی منازل البرازخ مطبوعہ آگرہ 1306 ھ۔سید ذوالفقار احمد وہابی تلمیذ صدیق حسن بھو پالی)
دیوبندی حضرات اور اہل حدیث حضرات مذکورہ حوالہ جات پر ضرور غور فرمائیں ۔ اور ہمارے ساتھ مل کر دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لئے ایصال ثواب کرکے ان کی مدد کریں ۔
ایصال ثواب کے متعلق ضروری وضاحت
ایصال ثواب کے عمل میں دکھاوا اور ریاکاری نہیں کرنی چھاہیئے ۔ اگر ایصال ثواب کا مقصد نمود و نمائش ہے تو اس کا ثواب حاصل نہ ہوگا ۔ اور ایسا دکھاوے کا عمل حرام اور گناہ ہے ۔ عام طور پر بہت سے لوگ قرض لیکر میت کے لئے ایصا ل ثواب کرتے ہیں ۔ اور عام لوگوں کو دعوتیں دیتے ہیں ۔ شریعت میں ایسی دعوتوں کی اجازت نہیں ۔ میت کے ایصال ثواب کے لئے جو کھانا ہے وہ حسب استطاعت ہو اور اسے مستحق اور غریبوں لوگوں کو کھلایا جائے ۔ (صاحبان حیثیت حضرات کو اس کھانے سے اجتناب کرنا چاہیئے) اسی طرح بعض گھروں میں ایصال ثواب کے موقع پر دس بیبیوں کی کہانی ، شہزادے کا سر، داستان عجیب اور جناب سیدہ کی کہانی وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں اسی طرح ایک پمفلٹ : وصیت نامہ“ جس میں “ شیخ احمد“ کا خواب درج ہے ۔ اسے بھی علمائے کرام نے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ ان چیزوں سے بچیں ۔
نوٹ : بزرگانِ دین کی فاتحہ وغیرہ کا کھانا اور چیز ہے یہ تبرک ہے اور اسے امیر لوگ بھی کھا سکتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : واگر فاتحہ بنام بزرگے دادہ شود اغنیا را ہم خور دن جائز است ۔ (زبدۃ النصائح صفحہ 132)
ترجمہ : اور اگر کسی بزرگ کی فاتحہ دی جائے تو مالداروں کو بھی کھانا جائز ہے ۔
امام بدر الدين عينی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عَنْ طَاؤُوْسِ : کَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ لَا يَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْمَيِتِ سَبْعَةَ أَيَامٍ، لِأَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ وَيُحَاسَبُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعَةَ أَيَامٍ ۔ (عمدة القاري في شرح صحيح البخاري جلد 8 صفحہ 70)
ترجمہ : حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف علیہم الرحمہ اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک میت کی قبر میں آزمائش ہوتی ہے اور ان کا حساب ہوتا ہے ۔
امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 174ه) فرماتے ہیں : وَنَرَی الصَّدَقَةَ عَلٰی مَوْتَی الْمُسْلِمِيْنَ وَالدُّعَاءِ لَهُمْ وَنُؤْمِنُ بِأَنَّ اﷲَ يَنْفَعُهُمْ بِذَالِکَ ۔ (الإبانة عن أصول الديانة جلد 1 صفحہ 31)
ترجمہ : اور ہماری رائے میں مسلمان مُردوں کے لیے صدقہ کرنا اور اُن کے لیے دعا کرنا جائز ہے، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان (اَعمالِ صالحہ) کے بدلے نفع دے گا ۔
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 321ه) ’عقیدہ طحاویہ‘ میں فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ، وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفِعَةٌ لِـلْأَمْوَاتِ ۔ (العقيدة الطحاوية صفحہ 56)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کےلیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور صدقہ کرنا نفع دیتا ہے ۔
امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 537ه) فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ عَنْهُمْ نَفْعٌ لَهُمْ ۔ (المطالب الوفية شرح عقائد النسفية صفحہ 153)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیں اور اُن کے صدقات مُردوں کو نفع دیتے ہیں ۔
امام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 791ه) فرماتے ہیں : وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ أَيْ صَدَقَةِ الْأَحْيَاءِ عَنْهُمْ أَي عَنِ الْأَمْوَاتِ نَفْعٌ لَهُمْ ۔ (شرح العقائد المسمی بالنبراس مع التعليقات القسطاس صفحہ 579)
ترجمہ : (جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) اُن کےلیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور زندوں کا ان (مُردوں) کےلیے صدقہ کرنا انہیں نفع دیتا ہے ۔
علامہ ابْنُ أَبِي الْعِزِّ الدِّمَشْقِيُّ رحمۃ اللہ علیہ (م792ه) فرماتے ہیں : إِتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ أَنَّ الْأَمْوَاتَ يَنْتَفِعُوْنَ مِنْ سَعْيِ الْأَحْيَاءِ بِأَمْرَيْنِ : أَحَدُهُمَا : مَا تَسَبَّبَ إِلَيْهِ الْمَيِتُ فِي حَيَاتِهِ، وَالثَّانِي : دُعَاءُ الْمُسْلِمِيْنَ وَاسْتِغْفَارُهُمْ لَهُ، وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجُّ عَلٰی نِزَاعٍ فِيْمَا يَصِلُ مِنْ ثَوَابِ الْحَجِّ. فَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَنٍ (131-189ه) : أَنَّهُ إِنَّمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ ثَوَابُ النَّفَقَةِ، وَالْحَجُّ لِلْحَاجِّ. وَعِنْدَ عَامَةِ الْعُلَمَاءِ : ثَوَابُ الْحَجِّ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُ، وَهُوَ الصَّحِيْحُ. وَاخْتُلِفَ فِي الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ، کَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَالذِّکْرِ، فَذَهَبَ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمْهُوْرُ السَّلَفِ إِلٰی وَصُوْلِهَا، وَالْمَشْهُوْرُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ عََدْمُ وُصُوْلِهَا. وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ أَهْلِ الْکَلَامِ إِلٰی عَدْمِ وُصُوْلِ شَيْئٍ اَلْبَتَّةَ، لَا الدُّعَاءُ وَلَا غَيْرُهُ. وَقَوْلُهُمْ مَرْدُوْدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ ۔ (شرح العقيدة الطحاوية صفحہ 345- 346)
ترجمہ : اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ مردہ لوگ زندوں کی طرف سے کیے گئے عمل سے دو اُمور میںنفع حاصل کرتے ہیں : ان دو میں سے ایک یہ کہ میت نے اپنی حیات میں کوئی عمل کیا ہو (جیسے صدقہ وغیرہ). اور دوسرا مسلمانوں کا ان کے لیے دعا و استغفار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور حج کرنا ۔ اور حج کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ پس محمد بن حسن الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ بے شک میت تک صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے ، اور حج کا ثواب حج کرنے والے کےلیے ہے ۔ عام علماء کا موقف ہے کہ حج کا ثواب محجوج عنہ (جس کی طرف سے حج کیا گیا) کے لیے ہے، اور یہی صحیح موقف ہے، اور بدنی عبادات، جیسے : روزہ، نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کا موقف ہے کہ ان کا ثواب پہنچتا ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب عدمِ وصول کا ہے ۔ اہل کلام میں سے بعض اہل بدعات اِس طرف گئے ہیں کہ کسی بھی چیز کا ثواب مطلقًا نہیں پہنچتا، نہ دعا اور نہ ہی غیر دعا. اور اُن کا یہ قول کتاب و سنت کی روشنی میں مردود (ناقابل قبول) ہے ۔
منکرین کے امام علامہ ابن تیمیہ قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے گناہوں کی بخشش کے دس اَسباب بیان کیے ہیں ۔ اُنہوں نے چوتھا اور پانچواں سبب اِیصالِ ثواب کو قرار دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : اَلسَّبَبُ الرَّابِعُ : اَلدَّافِعُ لِلْعِقَابِ : دُعَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ لِلْمُؤْمِنِ، مِثْلُ صَلَا تِهِمْ عَلٰی جَنَازَتِهِ ۔ (مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 498-499)
ترجمہ : (گناہوں سے بخشش کا) چوتھا سبب اور عذاب سے بچانے والی مومن بندوں کی دوسرے مومنین کی (بخشش) کے لیے کی جانے والی دعائیں ہیں، جیسا کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں ۔
ام المونین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَا مِنْ مَيِتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَبْلُغُوْنَ مِاءَةً کُلُّهُمْ يَشْفَعُوْنَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 654، الرقم : 947)
ترجمہ : جس میت پر سو مسلمانوں کا گروہ نماز پڑھے اور وہ سب اس کے لئے شفاعت کریں تو اس کے حق میں اُن کی شفاعت قبول کر لی جاتی ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلٰی جَنَازَتِهِ أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا لَا يُشْرِکُونَ بِاﷲِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ ﷲُ فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ ۔ (أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 655، الرقم : 948)
ترجمہ : جو مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اس کے جنازہ میں چالیس ایسے لوگ ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے ۔
صحیح مسلم کی مذکورہ بالا دو حدیثیں بیان کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں : وَهٰذَا دُعَاءٌ لَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ. فَـلَا يَجُوْزُ أَنْ تُحْمَلَ الْمَغْفِرَةُ عَلَی الْمُؤْمِنِ التَّقِيِ الَّذِي اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ، وَکُفِّرَتْ عَنْهُ الصَّغَائِرُ وَحْدَهُ، فَإِنَّ ذَالِکَ مَغْفُوْرٌ لَهُ عِنْدَ الْمُتَنَازِعِيْنَ. فَعُلِمَ أَنَّ هٰذَا الدُّعَاءَ مِنْ أَسْبَابِ الْمَغْفِرَةِ لِلْمَيِتِ ۔
ترجمہ : اور یہ دعائے بخشش اس کےلیے موت کے بعد ہے۔ اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ مغفرت صرف متقی مومن کے لئے ہے جو کہ پہلے ہی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ یک بارگی مٹا دیئے گئے ہیں ۔ بے شک (صغیرہ گناہوں کا مٹایا جانا) تو اختلاف کرنے والوں کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے ۔ پس جان لیا گیا ہے کہ دعا بھی میت کی مغفرت کے اسباب میں سے ہے ۔
اِس کے بعد علامہ ابن تیمیہ پانچواں سبب لکھتے ہیں : اَلسَّبَبُ الْخَامِسُ : مَا يُعْمَلُ لِلْمَيِتِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، کَالصَّدَقَةِ وَنَحْوِهَا، فَإِنَّ هٰذَا يُنْتَفَعُ بِهِ بِنُصُوْصِ السُّنَّةِ الصَّحِيْحَةِ الصَّرِيْحَةِ، وَاتِّفَاقِ الْأَئِمَّةِ وَکَذَالِکَ الْعِتْقِ، وَالْحَجِّ، بَلْ قَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ فِي الصَّحِيْحَيْنِ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. وَثَبَتَ مِثْلُ ذَالِکَ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ صَوْمِ النَّذْرِ مِنَ الْوُجُوْهِ الْأُخْرَی، وَلَا يَجُوْزُ أَنْ يُعَارَضَ هٰذَا بِقَوْلِهِ {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} [النجم،53 : 39] لِوَجْهَيْنِ : أَحَدُهُمَا : أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ بِالنُّصُوْصِ الْمُتَوَاتِرَةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَنْتَفِعُ بِمَا لَيْسَ مِنْ سَعْيِهِ، کَدُعَاءِ الْمَلَائِکَةِ، وَاسْتِغْفَارِهِمْ لَهُ، کَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی : {اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا} [غافر، 40 : 7]. وَدُعَاءُ النَّبِيِيْنَ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَاسْتِغْفَارِهِمْ، وَکَدُعَاءِ الْمُصَلِّيْنَ لِلْمَيِتِ، وَلِمَنْ زَارُوْا قَبْرَهُ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔ (مجموع الفتاوی جلد 7 صفحہ 498-499)
ترجمہ : (گناہوں کی بخشش کا) پانچواں سبب وہ نیک اعمال ہیں جو میت کےلیے کیے جاتے ہیں ۔ جیسے صدقہ اور اس طرح کے اعمال ۔ پس یہ بات سنت صحیحہ صریحہ کی نصوص سے ثابت ہے کہ میت کو ان اعمال کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر ائمہ کرام علیہم الرحمہ کا اتفاق ہے اور اسی طرح (میت کی طرف سے) غلام آزاد کرنے اور حج کرنے کا فائدہ (بھی میت کو پہنچتا) ہے ۔ بلکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیحین میں ثابت شدہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر (ماہِ رمضان کے) روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے ادا کرے۔‘‘ اِسی طرح کا حکم الصحيح میں دیگر قرائن کی بنا پر منت کے روزوں سے بھی ثابت ہے۔ پس (یہ تمام تفاصیل جان لینے کے بعد) یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے قول {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} ’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی‘‘ کے ساتھ کوئی تعارض ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ بات نصوص متواترہ اور ائمہ سلف کے اِجماع سے ثابت ہے کہ مؤمن کو اس عمل سے بھی فائدہ ملتا ہے جس کے لیے اُس نے کوئی کوشش نہ کی ہو، جیسا کہ ملائکہ کی دعا اور ان کا مومن بندے کے حق میں استغفار کرنا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں.} اور اِسی طرح نبیوں اور مؤمنین کی دعائیں اور ان کا استغفار کرنا، نماز پڑھنے والوں کا میت کے لیے دعا کرنا، اور قبروں پر جانے والوں کا صاحبِ قبر کے لیے دعا کرنا (بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے) ۔
علامہ ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں بھی اِیصالِ ثواب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اِس کی مشروعیت پر بالتفصیل لکھا ہے : فَأَمَّا مَا يَذْکُرُهُ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّهُ يَنْتَفِعُ الْمَيِتُ بِسَمَاعِ الْقُرْآنِ بِخِلَافِ مَا إِذَا قُرِءَ فِي مَکَانٍ آخَرَ، فَهٰذَا إِذَا عُنِيَ بِهِ : أَنَّهُ يَصِلُ الثَّوَابُ إِلَيْهِ إِذَا قُرِءَ عِنْدَ الْقَبْرِ خَاصَّةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَعْرُوْفِيْنَ، بَلِ النَّاسُ عَلٰی قَوْلَيْن : أَحَدُهُمَا : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ مِنَ الصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهِمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ کَمَا يَصِلُ إِلَيْهِ ثَوَابُ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ، وَهٰذَا مَذْهَبُ أَبِي حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَغَيْرِهِمَا، وَقَوْلُ طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ وَهُوَ الصَّوَابُ لِأَدِلَّةٍ کَثِيْرَةٍ ذَکَرْنَا فِي غَيْرِ هٰذَا الْمَوْضِعِ ۔ وَالثَّانِي : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَةِ لَا يَصِلُ إِلَيْهِ بِحَالٍ. وَهُوَ مَشْهُوْرٌ عِنْدَ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ. وَمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ هٰـؤُلَاءِ يَخُصُّ مَکَانًا بِالْوُصُوْلِ أَوْ عَدْمِهِ ۔ فَأَمَّا اسْتِمَاعُ الْمَيِتِ لِـلْأَصْوَاتِ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهَا : فَحَقٌّ، لٰـکِنَّ الْمَيِتُ مَا بَقِيَ يُثَابُ بَعْدَ الْمَوْتِ عَلٰی عَمَلٍ يَعْمَلُهُ هُوَ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنِ اسْتِمَاعِ أَوْ غَيْرِهِ. وَإِنَّمَا يُنْعَمُ أَوْ يُعَذَّبُ بِمَا کَانَ قَدْ عَمِلَهُ فِي حَيَاتِهِ هُوَ، أَوْ بِمَا يَعْمَلُ غَيْرُهُ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَثَرِهِ، أَوْ بِمَا يُعَامَلُ بِهِ. کَمَا قَدِ اخْتُلِفَ فِي تَعْذِيْبِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِمَا يُهْدَی إِلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِالدُّعَاءِ لَهُ، وَإِهْدَاءِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ ۔ وَکَذَالِکَ قَدْ ذَکَرَ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَائِ مِنْ أَصْحَابِ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِمْ، وَنَقَلُوْهُ عَنْ أَحْمَدَ، وَذَکَرُوْا فِيْهِ آثَارًا : أَنَّ الْمَيِتَ يَتَأَلَّمُ بِمَا يُفْعَلُ عِنْدَهُ مِنَ الْمَعَاصِي ۔ فَقَدْ يُقَالَ أَيْضًا : إِنَّهُ يُتَنَعَّمُ بِمَا يَسْمَعُهُ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَذِکْرِ اﷲِ ۔ (إقتضاء الصراط المستقيم صفحہ نمبر 378-379)
ترجمہ : اور بعض لوگوں کا جو یہ بیان ہے کہ میت کو قرآن حکیم سننے سے فائدہ ہوتا ہے (جب اس کی قبر کے پاس پڑھا جائے) بخلاف اس کے کہ جب کسی دوسری جگہ پر پڑھا جائے۔ اس بات سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ثواب صرف اسی صورت میں پہنچتا ہے جب خاص طور پر قبر کے پاس ہی پڑھا جائے، تو معروف علماء میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں دو آراء ہیں : پہلا قول : بدنی عبادات کے بارے میں ہے جیساکہ نماز اور تلاوتِ قرآن حکیم اور اس کی علاوہ دیگر بدنی عبادات کا ثواب بھی میت کو پہنچے گا جس طرح مالی عبادات کا ثواب پہنچتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور یہ ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کا مذہب ہے۔ ان دونوں کے علاوہ شافعی اور مالکی فقہاء کے ایک گروہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہی حق ہے۔ اس پر بہت سے دلائل ہیں جنہیں ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ بیان کیا ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا ۔ پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے) ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے ۔
امام ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ایصال ثواب پر اہل سنت و جماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا کَذَا فِي الْهِدَايَةِ، بَلْ فِي زَکَاةِ التَّتَارْخَانِيَةِ عَنِ الْمُحِيْطِ، اَلْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْـلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ ۔ (رد المحتار جلد 2 صفحہ 243)
ترجمہ : ہمارے علماء نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اِس بات کی تصریح کی ہے کہ انسان کےلیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے ۔ خواہ وہ عمل نماز ہو ، روزہ ہو ، کوئی صدقہ ہو یا کچھ اور ، اِسی طرح الھدایہ میں مذکورہ ہے ۔ بلکہ فتاویٰ تتارخانیہ میں زکوٰۃ کے باب میں محیط سے منقول ہے ہے کہ ایصال ثواب کرنے والے کےلیے افضل یہ ہے کہ وہ تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کی نیت کرے ، اِس طرح سب کو ثواب پہنچ جائے گا اور اِیصال کرنے والے کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ یہی اہل سنت و جماعت کا موقف ہے ۔
کھانا سامنے رکھ کر قرآن پڑھنا و ایصال ثواب
محترم قارئینِ کرام : اہلسنت کے معمولات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگ کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ , اخلاص یا پھر قرآن مجید کی دیگر آیات کی تلاوت کرتے ہیں جب کہ ہمارے مخالفین اس جائز عمل کو بدعت سیئہ,مکروہ اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہم اہلسنت اپنے دیگر معمولات کی طرح اس کا ثبوت بھی قرآن و سنت سے پیش کرتے ہیں,مگر یہ حق والوں یعنی اہلسنت کی عداوت ہی کی سزا ہے کہ ہمارے مخالفین ثبوت و دلائل مل جانے کے بعد بھی ہم پر زبان طعن بلاوجہ دراز کرکے اپنی آخرت خراب کرتے رہتے ہیں اور اسی کے ساتھ امت محمدیہ میں انتشار و افتراق کی وجہ بنتے ہیں جو کہ نہایت افسوس ناک امر ہے ۔ اب چونکہ کھانا سامنے رکھ کر قرآن ہم پڑھتے ہیں لہٰذا اپنے اس عمل کی تشریح و توضیح کا حق بھی صرف ہم کو ہے ۔
اہلسنت و جماعت کے نزدیک : ⏬
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یونہی وہ لوگ جو اپنے کو حنفی کہتے ہیں اور ایصال ثواب سے انکار کرتے ہیں وہ بھی اس سے باز آجائیں کہ علاوہ حدیث کے کتب معتبرہ مستندہ حنفیہ کی متعدد عبارتیں پیش کر ذی ہیں کہ انکار کی گنجائش باقی نہیں اور غالباً انہیں مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے یہ لوگ اپنی طرف سے کچھ باتیں اضافہ کرکے اسے بدعت و ناجائز کہتے ہیں ورنہ ان کے متقدمین تو سرے سے ایصال ثواب سے ہی انکار کرتے تھے اور دلیل وہی پیش کرتے تھے جو معتزلہ پیش کرتے تھے مگر جب اہلسنت کے دلائل باہرہ کا جواب نہ ہوسکا تو عدم جواز کا دوسرا پہلو نکالا کبھی کہتے ہیں کھانے پر فاتحہ پڑھنا ناجائز ہے اور کبھی یہ کہ ہاتھ اثھا کر فاتحہ پڑھ کر دعا کرنا کبھی یہ کہ کھانا سامنے رکھنا کبھی یہ کہ دن کی تخصیص کرنا غرض ایسی ہی باتیں پیش کر کے ایصال ثواب کو روکنا چاہتے ہیں ۔ اقول (میں کہتا ہوں) قرآن مجید کی قرأت وجہ ممانعت ہو جائے یہ عجیب بات ہے جب صدقہ اور قرأت قرآن دونوں چیزوں کا ثواب پہنچ سکتا ہے جیسا کہ کتب معتبرہ فقہ سے ثابت ہے عبارات پہلے گزر چکیں تو اگر یہ دونوں کام ایک وقت میں کئے جائیں تو ناجوازی کی کیا وجہ ہے ؟
کیا اس وقت قرآن پڑھنا ناجائز ہے ؟ یا تصدق ناجائز ہے ؟ اور جب دونوں جائز تو ایک ساتھ بھی جائز ۔ ( فتاویٰ امجدیہ جلد اول صفحہ٣٥٠مطبوعہ دائرہ المعارف الامجدیہ )
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ بھی جواز کے قائل ہیں دیکھیے ۔ (جآء الحق جلد اول صفحہ٢٦١مطبوعہ نعیمی کتب خانہ لاہور)
مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کھانا وغیرہ سامنے رکھ کر قرآن مجید میں سے کچھ سورتیں پڑھی جائیں اور اس کے بعد ایصال ثواب اور دعا کی جائے یہ اہلسنت کے نزدیک جائز ہے ۔ ( وقار الفتاویٰ جلد اول صفحہ ١٩٩مطبوعہ بزم وقارالدین کراچی)
عصرِ حاضر کی معروف علمی شخصیت امام المناظرین شیخ القرآن علامہ فہامہ امام پروفیسر محمد سعید احمد اسعد صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ایصال ثواب کےلیے کھانا شرط ہے اور کھانے پر قرآن حکیم پڑھنا شرط ہے.ہمارے نزدیک اگر کسی نے صرف کھانا پکا کر کسی کو کھلا کر اس کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزاگر صرف قرآن حکیم پڑھ کر اس کا میت کو ثواب بخشا تب بھی جائزاگر کسی نے قرآن حکیم بھی پڑھا اور کھانا بھی پکایا لیکن کھانے پر قرآن حکیم نہیں پڑھا بلکہ الگ پڑھا اور ان دونوں چیزوں کا ثواب میت کو پہنچایا تب بھی جائزہاں ہاں اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ جب تک کھانے پر قرآن حکیم کی چند مخصوص آیات نہ پڑھی جائیں اتنی دیر تک میت کو ثواب پہنچ ہی نہیں سکتا وہ در حقیقت شریعت مطہرہ پر افتراء کرنے والا ہے اس کو اپنے اس گندے عقیدے سے توبہ کرنی چاہیئے۔ اسی طرح اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ اگر صرف کھانے کا ثواب میت کو بھیجا جائے تو پہنچے گا اسی طرح اگر صرف قرآن خوانی کی جائے تو اس کا ثواب بھی پہنچے گا لیکن اگر کھانا سامنے رکھ کر قرآن اوپر پڑھا جائے تو ثواب نہیں پہنچے گا بلکہ ایسا کرنا بدعت اور گناہ ہوگا یہ عقیدہ رکھنے والا بھی شریعت مطہرہ افتراء کرنے والا ہے ایسے شخص کو بھی ایسے گندے عقیدے سے توبہ کرنی لازم ہے ۔ ہاں اگر کوئی اس گندے عقیدے پر اصرار کرے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن حکیم , احادیث مبارکہ سے ایسی تصریح پیش کرے کہ قرآن حکیم اور طعام کا ثواب الگ الگ ہونے کی صورت میں تو میت کو پہنچے گا لیکن اگر کھانے پر قرآن حکیم پڑھا جائے تو گناہ ہوگا ۔ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ ۔ (مسئلہ ایصال ثواب صفحہ نمبر ٥٠ تا ٥٢ مطبوعہ سنی اتحاد شیخ کالونی فیصل آباد)
ان بزرگان اہلسنت کی تصریح و تشریح و توضیح سے معلوم ہوا کہ ہم اہلسنت کھانا سامنے رکھ کر قرآن مجید پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں نہ کہ فرض واجب اور ایسے ہی اس عمل کے تارک کو نشانۂ طعن بھی نہیں بناتے البتہ اس عمل کو بدعت وغیرہ کہنے والے حضرات کو شریعت پر افتراء کی وجہ سے قصور وار ضرور ٹھہراتے ہیں علماء اہلسنت کی اس صراحت کے باوجود مخالفین ہمیں کیا کیا الزام دیتے ہیں؟ اس کی جھلک بھی ملاحظہ ہو!
مخالفین کے الزام : حنفیت کے دعویدار علماء دیوبند دیگر مسائل کی طرح اس مسئلے میں بھی غیر معمولی شدت اختیار کئے ہوئے ہیں جو عوام الناس کےلیے بہرحال درست نہیں ۔ دیوبندی حضرات کے قطب مفتی رشید احمد گنگوہی اپنی بھڑاس کچھ اندا ز سے نکالتے ہیں : ⏬
سوال : فاتحہ کا پڑھنا کھانے پر یا شیرینی پر بروز جمعرات کے درست ہے یا نہیں ؟
جواب : فاتحہ کھانے یا شیرینی پر پڑھنا بدعت ضلالت ہے ہرگز نہ کرنا چاہیے ۔
اس سے پہلے والے سوال کا بھی کچھ اسی طرح کا جواب ہے جس میں اس عمل کو بدعت سیئہ کہا گیا ہے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٢ کتاب العلم مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند)
ایک اور مقام پر یوں ہے سوال اور جواب دونوں ملاحظہ ہوں : ⏬
سوال : فاتحہ,تیجہ,دسواں کرنا کیسا ہے ؟ زید کہتا ہے کہ چنوں پر فاتحہ سوم میں اللہ کا نام پڑھنا موجب ثواب ہے کہ اس سے ایصال ثواب منظور ہے اور یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے اس میں کچھ حرج نہیں ہے اور فتاویٰ عزیزی میں یہ طریقہ لکھا ہے پس زید کا قول تمام ہوا ان چنوں کا کھانا کیسا ہے ۔
جواب : یہ جملہ امور بدعت ہیں صرف ایصال ثواب جائز ہے باقی قیودات بدعت ہیں ۔
اسی طرح اس کے بعد والے سوال کا جواب بھی کچھ یوں ہے کہ یہ سب امور بدعت ہیں ۔ (فتاویٰ رشیدیہ صفحہ١٤٥ مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند)
تعصب و ہٹ دھرمی کی انتہاء ہے کہ سوال میں چنوں پر اللہ عزوجل کا نام پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو جواب آیا کہ بدعت ہے حالانکہ کلام مجید اس بارے میں اس کے بالکل برعکس فرماتا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے : "فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كُنتُم بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ"
ترجمہ : تو کھاؤ اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا اگر تم اس کی آیتیں مانتے ہو ۔ (سورہ انعام آیت ١١٨ پارہ ٨ )
بلکہ اس سے اگلی آیت کریمہ میں گنگوہی اینڈ کمپنی کیلئے لمحۂ فکریہ ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : "وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ ۔
ترجمہ : اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا وہ تو تم پر مفصل بیان کر چکا جو کچھ تم پر حرام ہوا مگر جب تمہیں اس سے مجبوری ہو بے شک بہتیرے اپنی خواہشوں سے گمراہ کرتے ہیں بے جانے بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔ (سورہ انعام آیت ١١٩ پارہ ٨)
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ گنگوہی صاحب کا فتویٰ سوال جواب دونوں پڑھیں اور پھر مذکورہ بالا آیت کریمہ کو بھی پڑھیں اور پھر فیصلہ اپنے دل سے لیں کیا آیت کا مضمون لمحۂ فکریہ نہیں ؟
قرآن حکیم پہلے حکم فرماتا ہے کہ اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا مگر گنگوہی صاحب اسے بدعت کہتے ہیں اور پھر قرآن حکیم اپنے حکم پر عمل نہ کرنے والوں سے پوچھتا ہے کہ تم اس میں سے کیوں نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اور اگر تم اسے بھی حرام سمجھتے ہو تو تمہارا سمجھنا باطل اور وہم ہے کیونکہ حرام کا ذکر تو تفصیلاً ہو چکا ۔ اگر یہ عمل بھی حرام ہوتا تو حرام کردہ چیزوں میں ضرور بیان ہوتا پھر فرمایا ۔ یہ صرف تمہارا وہمِ باطل ہی نہیں بلکہ تمہاری خواہش نفسانی ہے جس سے تم لوگوں کو ایسے فتوے دیکر گمراہ کرتے ہو ۔ اور پھر ساری زندگی کی پڑھائی لکھائی پر پانی پھیرتے ہوئے فرمایا "بغیر علم" ۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ تم جاہل ہو اور پھر ساتھ ہی فرمایا کہ چند کتابیں پڑھ لینے سے تم عالم نہیں بنے بلکہ اس پڑھائی کے بل بوتے پر جو تم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو تو تم حدیں پھلانگ رہے ہو تب ہی تو فرمایا : بے شک تیرا رب حد سے بڑھنے والوں کو خوب جانتا ہے ۔
اسی لیے نائب محدث اعظم رحمۃ اللہ علیہ پاکستان شیخ الحدیث محمد عبدالرشید صاحب علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : "یعنی جس پاکیزہ چیز پر بھی اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اسے کھانا جائز ہے لہذا تیجا , ساتا , دسواں , چالیسواں , سالانہ , گیارہویں شریف , بارہویں شریف,شب برأت وغیرہا کے کھانے جائز ہوئے کیرنکہ ان کھانوں پر قرآن شریف , درود شریف , ذکر و اذکار پڑھے جاتے ہیں جو انہیں حرام سمجھے وہ شریعت پر زیادتی کرتا ہے ۔ (رشد الایمان صفحہ ١٩٧ مطبوعہ مکتبہ رشد الایمان سمندری)
اس کے علاوہ سائل کے ان الفاظ پر بھی غور ہو کہ یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے ۔ مگر گنگوہی صاحب ہیں کہ بنا اس بات کا ردّ کئے بدعت کا فتویٰ داغ رہے ہیں اب اس فتوے کی زد میں کون کون سے بزرگ آتے ہیں یہ آگے چل کر عرض کروں گا ۔ سوال میں ایک بات اور قابل غور ہے کہ بقول سائل یہ طریقہ فتاویٰ عزیزی میں مذکور ہے مگر اس کے باوجود بھی گنگوہی صاحب کا قلم بدعت لکھے بغیر رہ نہ سکا اور یوں شاہ عبدالعزیز محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جیسی علمی شخصیت کے سر بدعت کا تاج سجا دیا گیا ۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
وَإِنَّ كَثِيرًا لَّيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِم بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔
فتاوٰی رشیدیہ میں پوچھے گئے سوال میں سائل کے سوال میں دوسری بات "یہ طریقہ بزرگان سلف سے چلا آتا ہے" پر کلام ان شاءاللہ آگے چل کر کریں گے ۔ فی الحال سائل کے سوال میں فتاوٰی عزیزی کے حوالے پر کلام پیش خدمت ہے ۔ گنگوہی صاحب نے جس شخصیت کے فتاوٰی عزیزی کا حوالہ آجانے پر بھی بے دھڑک بدعت کا فتویٰ صادر کیا یہ وہی شخصیت ہیں جن کے مدّاح خود علماء دیوبند بھی ہیں ۔ دیوبندی مفتی عزیزالرحمٰن صاحب لکھتے ہیں : حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل و تقویٰ میں کسی کو کلام کی گنجائش نہیں ۔ اس کے بعد اگلے سوال کے جواب میں حضرت شاہ صاحب کو علماء کبار و اولیائے کرام میں سے لکھا ہے ۔ ( فتاوٰی دارالعلوم دیوبند جلد18 صفحہ581 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی)
دیوبندی شیخ الحدیث مولوی سرفراز خان صفدر گکھڑوی لکھتے ہیں : بلاشبہ مسلک دیوبند سے وابستہ جملہ حضرات حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا روحانی پدر تسلیم کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ آگے لکھتے ہیں : بلاشک دیوبندی حضرات کیلئے حضرت شاہ عیدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ حکم آخر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ (اتمام البرھان فی ردّ توضیح البیان حصّہ اول صفحہ نمبر138 مطبوعہ مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ)
لطف کی بات یہ ہے کہ خود گنگوہی صاحب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے جو نظریہ رکھتے ہیں وہ قابل غور ہے.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خاندان کے متعلق لکھتے ہیں کہ : "بندہ خاندان حضرت شاہ ولی اللہ صاحب میں بیعت ہے اور اسی خاندان کا شاگرد ہے گو ان کے عقائد کو حق اور تحقیقات کو صحیح جانتا ہے ۔ پھر آگے شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی تفسیر کا ذکر ہے ۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 58 مطبوعہ ادارۂ صدائے دیوبند )
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی علماء دیوبند کے قلم سے اس قدر تعریف کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح واضح اور عیاں ہے کہ شاہ صاحب کی شخصیت اور ان کی تصانیف کا علماء دیوبند کے ہاں کیا مقام ہے ۔ اور بقول سرفراز صفدر صاحب کے شاہ صاحب کا فیصلہ دیوبندی حضرات کیلئے حکم آخر ہے ۔ (حوالہ پہلے گزر چکا)
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ
اب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ ملاحظہ ہو : ایک سوال کے جواب میں شاہ صاحب فرماتے ہیں : جس کھانے کا ثواب حضرت امامین رضی اللہ عنہما کو پہنچایا جائے اور اس پر فاتحہ و قُل درود پڑھا جائے وہ کھانا تبرّک ہو جاتا ہے اس کا کھانا بہت خُوب ہے ۔ ( فتاوٰے عزیزی صفحہ 189 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )
والحمد للہ علیٰ ذالک ۔
لیجیے محترم قارئین : حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس کھانے جس پر صرف فاتحہ ہی نہیں بلکہ قل اور درود بھی پڑھا جائے کو برکت والا کھانا کہہ رہے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ اسے کھانے کو خوب کہہ کر یہ واضح کیا جارہا ہے کہ اس کا تعلق کسی بدعت یا ناجائز امر سے قطعاً نہیں اب غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دیوبندی حضرات اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے جملوں کا پاس رکھیں اور شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے اس فیصلے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے اس جائز عمل کو بدعت و ناجائز کہنا چھوڑ دیں اور نہ صرف یہ بلکہ خود اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں تاکہ ہمیں یقین واثق ہو جائے کہ دیوبندی حضرات کو اپنے اکابر کے قلم سے نکلے ہوئے لفظوں کی غیرت اور پاس ہے اور یہ حضرات واقعی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے کو حکم آخر سمجھتے ہیں ! (فافھم) وگرنہ روحانی باپ اور باپ بھی وہ جس پر بقول سرفراز صفدر دیوبندیوں کو فخر ہے کی نا فرمانی کا سہرا علماء دیوبند کے سر ماتھے ہوگا ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 Comments