شانِ صدیق اکبر مولا علی و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں کتب شیعہ و کُتُبِ اہلسنّت کی روشنی میں

 شانِ صدیق اکبر مولا علی و اہل بیت رضی اللہ عنہم کی نظر میں کتب شیعہ و کُتُبِ اہلسنّت کی روشنی میں 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی انہوں نے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے انہوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے سنا ابوبکر سے بہتر کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ اس کے بعد حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے روایت میں غلط بیانی کی ہو تو مجھے شفاعت نصیب نہ ہو اور میں تو قیامت کے دین صدیق کی شفاعت کا طلب گار رہونگا ۔ اسی کے ساتھ دوسری روایت ہے کہ ساری امت سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (الرّیاض النضرہ مترجم اردو جلد اوّل صفحہ نمبر 267 ، 268 مطبوعہ مکتبہ نورِ حسینیہ لاہور)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول صفحہ نمبر 107)


حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے ۔ شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے ۔ (کتاب سلیم بن قیس: ۲۲۸)


شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے : پھر علی علیہ السلام نماز کے لیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (الاحتجاج: ۱/۱۲۶)


شیخ طوسی لکھتا ہے : یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے ۔

(تلخیص الشافی : ۳۵۴، طبع ایران)


اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین افراد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔

(الصوارم المہرفۃ : ۳۲۳، نمبر ۱۱۱)


حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ’’ اگر میرے پاس ایسا شخص لایا گیا جو مجھے ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے افضل قرار دیتا ہو تو میں اسے بہتان بازی کی سزا دوں گا ۔ (العیون و المحاسن: ۲/۱۲۲-۱۲۳)


اور جب ان سے ابو بکر کی خلافت کی بیعت کرنے سبب معلوم کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : اگر ہم ابو بکر کو خلافت کا اہل نہ سمجھتے تو ہم اسے خلیفہ نہ بننے دیتے ۔

(شرح نہج البلاغۃ: ۲/۴۵)

مزید لکھتا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی : کیا آپ وصیت نہیں کریں گے ؟ ‘‘انہوں نے فرمایا’’ جو وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی میں بھی اسی کی وصیت کرتا ہوں ۔ لیکن جب اللہ لوگوں کی خیر خواہی کرنا چاہتا ہے تو انہیں بہترین شخص کی حکومت تلے جمع کر دیتا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انہیں امت کے بہترین شخص کی خلافت میں جمع کر دیا تھا ۔ (الشافی فی الامامۃ: ۱۷۱)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے کے دوران میں فرمایا تھا ’’اے اللہ ہماری اسی طرح اصلاح فرما جیسی تم نے خلفائے راشدین کی اصلاح فرمائی تھی ۔‘‘ ان سے پوچھا گیا وہ خلفاء کون ہیں؟ فرمایا وہ ابو بکر اور عمر ہیں جو ہدایت یافتہ امام تھے۔ جس نے ان کی اقتدا کی وہ بچ گیا اور جس نے ان کے نقش قدم کی پیروی کی وہ سیدھی راہ پا گیا ۔ (الصراط المستقیم الی مستحقی التقدیم: ۳/۱۴۹-۱۵۰ (فضل فی روایات)


عراق سے کچھ لوگ علی بن حسین کے پاس آئے اور انہوں نے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی شان میں نازیبا باتیں کیں۔ جب وہ اپنی گفتگو سے فارغ ہوئے تو علی بن حسین نے انہیں فرمایا کیا تم مجھے بتائو گے کہ کیا تم اولین مہاجرین میں سے ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : لِلْفُقَرَاءِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ ۔ (سورہ الحشر: ۸)

(مال فٸی) ان مہاجر فقراء کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے ہیں وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا ڈھونڈتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔وہ عراقی کہنے لگے نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا تو تم ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْاِِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ اِِلَیْہِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ ۔ (سورہ الحشر: ۹)

اور (مال فٸی ان کے لیے) جنہوں نے (مدینہ کو) گھر بنا لیا تھا اور ان (مہاجرین) سے پہلے ایمان لا چکے تھے، وہ (انصار) ان سے محبت کرتے ہیں جو ان کی طرف ہجرت کرے اور وہ اپنے دلوں میں اس (مال) کی کوئی حاجت نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دیا جائے اور اپنی ذات پر (ان کو) ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود انہیں سخت ضرورت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘ عراقی گروہ نے جواب دیا : نہیں۔ ہم ان میں بھی شامل نہیں۔ تو حضرت علی بن حسین نے فرمایا خبردار! تم نے ان دو گروہوں سے لاتعلقی کا اظہار خود ہی کر دیا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں بھی شامل نہیں ہو جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِِنَّ رَؤْفٌ رَحِیْمٌ ۔ (سورہ الحشر: ۱۰)

اور (مال فٸی ان کےلیے ہے) جو ان (مہاجرین و انصار) کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنہوں نے ایمان میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ۔ اے ہمارے رب! بے شک تو بہت نرمی والا، نہایت رحم والا ہے۔(اے عراقیو!) میرے پاس سے چلے جائو، اللہ تمہیں برباد کرے ۔ (کشف الغمۃ: ۲/۲۹۱، الصوارم المہرقۃ: ۲۴۹-۲۵۰، نمبر: ۸۳)


ابو عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو صدیق کا لقب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے ۔ ( تفسیر البرہان: ۲/۱۲۵)


ابو جعفر الباقر سے تلوار کو سونے چاندی سے منقش کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں، ابو بکر الصدیق رضی اللہ نے اپنی تلوار کو منقش کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا آپ انہیں صدیق کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں، ہاں وہ صدیق ہیں۔ جو شخیص صدیق نہ کہے اللہ دنیا اور آخرت میں اس کے کسی قول و اقرار کی تصدیق نہ فرمائے ۔ (الصوام المہرقۃ : ۲۳۵، نمبر ۷۲)


کوفہ کے رؤسا اور معززین اور زید کی بیعت کرنے والے جمع ہوئے تو انہوں نے فرمایا ’’میں ان دونوں کے بارے میں کلمہ خیر ہی کہوں گا جیسا کہ میں نے اپنے اہل بیت سے ان کے بارے میں خیر ہی سنی ہے۔ ان دونوں نے ہم پر اور نہ کسی دوسرے پر کوئی ظلم کیا ہے۔ انہوں نے اللہ کی کتاب اور سنت رسول پر عمل کیا ہے۔‘‘ جب اہل کوفہ نے ان کا یہ کلام سنا تو ان کی امامت کے منکر ہو گئے اور ان کے بھائی الباقر کے گرد جمع ہو گئے۔ اس پر زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا آج انہوں نے ہمارا انکار کر دیا ہے اسی لیے اس جماعت کا نام رافضہ (امامت زید کے منکرین) پڑ گیا ۔ (ناسخ التواریخ: ۲/۵۹۰، احوال الامام زین العابدین)۔(اعیان الشیعۃ ۲/۱۳۲، قسم نمبر:۱)


شیعہ عالم نشوان حمیری ان سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے جب زید رحمہ اللہ سے کہا ابو بکر اور عمر سے برا ت کا اعلان کرو، وگرنہ ہم آپ کی امامت کا انکار کر دیں گے؟ تو زید نے فرمایا اللہ اکبر! مجھے میرے والد محترم نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’بے شک عنقریب ایک قوم آئے گی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرے گی، وہ اپنے برے لقب سے پہچانے جائیں گے۔ پھر جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔ جائو چلے جائو تم رافضہ ہو ۔ (الحور العین: ۱۸۵)


آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ اہل بیت کی نظر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مقام ملاحظہ کیا اب ذرا شیعہ محدثین کا بھی عقیدہ ملاحظہ فرمائیں ، شیعہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں کفر و فسق اور لعن طعن کے فتوے علی الاعلان دیے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے ائمہ کے موقف کو رد کر دیا ہے۔ حضرت ابو بکر کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی اکثر عمر بت پرستی میں گزاری ۔ (الصراط المستقیم: ۳/۱۵۵)


اور ابو بکر بت پرست تھے ۔ (بحار الأنوار: ۲۵/۱۷۲ باب فی صفات الامام)

اور ان کا ایمان یہود و نصاریٰ جیسا تھا ۔ (الکشکول: ۱۰۴)


شیعہ عالم الجزائری لکھتا ہے کہ کچھ خصوصی روایات میں آیا ہے کہ ابو بکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتا تو بت ان کی گردن میں لٹکا ہوتا تھا اور وہ اسے سجدہ کرتا۔(الأنوار النعمانیۃ: ۱/۵۳)


شیعہ علماء نے حضرت ابو بکر کو مرتدین کے ساتھ جہاد کرنے کی وجہ سے اور ان کے اس فرمان کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے کہ ’’ اگر (ان مرتدین نے) مجھے ایک رسی بھی دینا بند کی یا فرمایا اگر انہوں نے (زکوٰۃ کی ادائیگی میں) ایک میمنا بھی دینا بند کیا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے تو میں ان کے ساتھ قتال یا فرمایا جہاد کروں گا۔‘‘ ان کا یہ فعل بہت برا اور ظلم عظیم تھا اور حد درجہ سرکشی تھی …‘‘ یہ کلمات کہنے والا اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے خارج ہے اور یہ بات ہر ذی فہم کو معلوم ہے اور اگر وہ انہیں ظالم کہیں تو ان کے لیے اتنی ہی رسوائی، کفر اور جہالت کافی ہے ۔ (الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ: ۱/۷)


جب کہ شیعہ عالم نے ابوبکر کے مومن نہ ہونے کو پورے جزم سے بیان کیا ہے ۔

(مراۃ العقول: ۳/۴۲۹-۴۳۰)


اور رسول اللہ نے انہیں غار میں ساتھ لے جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ وہ رسول اللہ کے بارے میں مشرکین کو اطلاع کر دیں گے۔‘‘ شیعہ عالم ابن طاؤس لکھتا ہے یہ بڑی نادر روایت ہے کہ رسول اللہ نے ابوبکر کو اپنے ساتھ غار میں لے جانے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ آپ کو یہ خوف تھا کہ ابو بکر کافروں کو آپ کی اطلاع کر دیں گے… لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنے بستر پر سلایا اور ابن ابی قحافہ سے ڈرتے تھے کہ یہ کافروں کو بتا دیں گے اس لیے انہیں اپنے ساتھ غار میں لے گئے ۔(الطرائف فی معرفۃ مذہب الطوائف: ۴۱۰)


اور یہ کہ ’’ابو بکر نے قرآن مجید میں آیات وراثت کا اضافہ کیا ہے ۔ (کشف الاسرار: ۱۲۶) ۔


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ھیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ خلافت کے سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں یہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کےغار  کے ساتھی ھیں اور ثانی اثنین ھیں۔ہم ان کی شرافت اور بزرگی کے معترف ھیں۔بلکہ خود حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ان کو امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین روایت نمبر 4422 جلد 4 صفحہ 154)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے کہا گیا کہ آپ اپنا کوئی جانشین مقرر کیوں نہیں کرتے؟؟ تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ کیا نبی علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کروں،اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان لوگوں کو ان میں سے سب سے بہتر فرد پر جمع کر دے گا اس طرح جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے نبی علیہ السلام کے بعد سب سے بہتر شخص پر جمع کر دیا تھا ۔ (مجمع الزوائد روایت نمبر 14334)


حضرت ابوجحیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو فرماتے ہوئے سنا  کہ اس امت کی بہترین شخصیت نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) ہیں ۔ (فضائل الصحابہ امام احمد بن حنبل حدیث نمبر 40 صفحہ نمبر 36 مترجم امتیاز حسین صدیقی)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کے پاس جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ھوتا تو آپ  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ انہیں کثرت سے آگے بڑھنے والے فرماتے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہم کسی نیکی کے کام میں آگے بڑھنا چاہتے تو ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہم سے آگے ہوتے تھے ۔ (المعجم الاوسط ج 5 صفحہ 456 روایت نمبر 7168)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے  اپنے والد محترم سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے ؟ تو فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں میں نے پوچھا پھر کون ہے ؟ فرمایا عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہیں اور میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام لینے سے ڈرا اور پوچھا پھر  تو آپ ہیں ؟

تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا میں تو مسلمانوں میں سے ایک مسلمان شخص ہوں ۔ (صحیح البخاری  باب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نمبر  حدیث نمبر 3671)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے۔۔

1:-انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔۔

2:-مجھ سے پہلے ہجرت کی۔۔

3:-سید عالم علیہ السلام کے یار غار ھونے کا شرف پایا۔

4:-سب سے پہلے نماز قائم فرمائی ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 291)


حضرت عمرو بن حریث فرماتے ھیں کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کوفہ کے ممبر پر تشریف فرما ھوے اور آپ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس امت میں حضور علیہ السلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں ان کے بعد سب سے افضل حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور میں تیسرے کا نام لینا چاھوں لے سکتا ہوں ۔ (المعجم الکبیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 172)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم ھیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ھوسکتی نہ ہی میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (کنزالعمال روایت نمبر 36141)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے کہا گیا کہ آپ اپنا کوئی جانشین مقرر کیوں نہیں کرتے؟؟ تو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ کیا نبی علیہ السلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کہ میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کروں،اگر اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے بارے میں بھلائی کا ارادہ کرے گا تو ان لوگوں کو ان میں سے سب سے بہتر فرد پر جمع کر دے گا اس طرح جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے نبی علیہ السلام کے بعد سب سے بہتر شخص پر جمع کر دیا تھا ۔ (مجمع الزوائد روایت نمبر 14334)


وہب سوائی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے دوران خطبہ یہ فرمایا اس امت میں سب سے بہتر کون ہے ؟ 

میں نے کہا امیر المومنین!آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ  ہی ھیں،آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں،نبی علیہ السلام کے بعد اس امت میں سب سے بہتر شخص ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا تھا ۔ (مسند الامام احمد بن حنبل حدیث نمبر 846)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللّٰہ کے محبوب علیہ السلام کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز شخص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ھیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن کو جمع کرنا شروع کیا اور نبی علیہ السلام کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے قائم کیا ۔ (جمع الجوامع روایت نمبر 157)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دی ہے یہ گفتگو حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم تک پہنچ گئی آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ منبر پر تشریف لے آئے  اور اللّٰہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہیے کہ کسی کو سزا دی جب تک مقدمہ سامنے نہ آئے۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پہ چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 30 صفحہ 369)


حضرت سیدنا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی بارگاہ میں حاضر ھو کر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ھیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی زیارت کی ہے تو وہ کہنا لگا نہیں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم  کی زیارت کی ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا اگر تو آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا اقرار کرتا تو میں تیری گردن اور اگر تو ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنز العمال حدیث نمبر 36153)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اس امت میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد سب سے افضل ابوبکر و عمر  رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔ (المعجم الاوسط ج چہارم حدیث نمبر 5421)


اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے میں نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم کی خدمت میں عرض کی اے امیرالمومنین رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کیا پھر کون ہے آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں نے عرض کی پھر کون تو فرمایا میں (علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم) ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد 44 ص 196)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے میں نے کہا میرے ساتھ مدینہ طیبہ میں کون ہجرت کرے گا ؟ عرض کیا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور وہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد امر امت کے والی ہوں گے اور وہ آپ علیہ السلام کی تمام امت سے افضل ہیں ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 32588)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے میرے مرتبے اور ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا ابوبکر کھڑے ھوجاؤ اور لوگوں کو نماز پڑھاؤ۔ آپ نے مجھے نماز پڑھانے کا حکم نہیں دیا،لہذا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر راضی کیوں نہ ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی ابن ابی طالب حدیث 43٫ریاض النضرۃ  ج 1 ص 81)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے فرمایا اللّٰہ نے ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو ہم سب سے بہتر جانا، اور اسے ہم پر ولایت دے دی ۔ (مستدرک حاکم حدیث نمبر 4756)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ لااجد احدا فضلنی علیٰ ابی بکر و عمر الا جلدته حدالمفتری یعنی جسے میں پاؤں گا کہ مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم سے افضل کہتا ہے تو اسے مفتری کی سزا کے طور پر اسی کوڑے ماروں گا ۔ (فضائل الصحابہ لاحمد، الموتلف و المختلف 92/3)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم مروی ہے کہ میں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو فرماتے ھوے سنا کہ انبیاء علیہم السلام کے بعد ابوبکر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔ (الریاض النضرۃ ج 1 صفحہ 136)


حضرت ابراہیم نخعی تابعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک آدمی نے کہا مجھے ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ عنہم کی نسبت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم سے زیادہ محبت ہے۔آپ نے فرمایا ایسی باتیں کرنی ہے تو ہماری مجلس میں مت بیٹھو،اگر تمھاری بات سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم نے سن لی تو وہ تمھاری پشت پر کوڑے ماریں گے ۔(حلیتہ الاولیاء لابی نعیم جلد 6 صفحہ 492)


حضرت المرتضی کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں میں نے نبی علیہ السلام کو فرماتے ھوے سنا کہ اس امت میں میرے بعد(حضور علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (کنز العمال روایت نمبر 36139)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللّٰہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے ھوے سنا اس امت میں میرے (نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام) کے بعد ابوبکر و عمر (رضی اللّٰہ عنہم) سب سے بہتر ہیں ۔ (سنن ابن ماجہ ص نمبر 72 روایت نمبر 106 

ترجمہ جہانگیری)


ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)


بزبان مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما افضل ہیں ۔ (سنن ابن ابی داؤد حدیث 4629)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام لوگوں سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے ہیں یہ ان کے نماز کے ساتھی ہیں ثانی اثنین ہیں ہم ان کی شرافت و بزرگی کے معترف ہیں بلکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خود اپنی  حیات طیبہ میں ان کی امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین حدیث 4422)


عبد خیر کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے۔ یہ گفتگو حضرت تک پہنچ گئی، آپ منبر پر تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہئے کہ کسی کو سزا دے جب تک مقدمہ اس کے سامنے نہ آئے ۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پر چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 369)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت صدیق اکبر کو افضلیت صدیق پر قائم بتانا ۔ (مجمع الزوائد حدیث 14334)


حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہو سکتا ہے ۔ (کنزالعمال حدیث نمبر 36141)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا ۔ (2) مجھ سے پہلے ہجرت کی ۔ (3) سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے یار غار ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم کی ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 30 صفحہ 291)


ایک شخص سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تو نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کی ہے ؟  اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا  اگر تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھنے کا اقرار کرتا میں تیری گردن اڑا دیتا اور اگر تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنزالعمال جلد  13 حدیث 36153)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)


حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)


ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189)


حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)


اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق، جلد 30، ص 382)


حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں


سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)


ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)


جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)


افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے


حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)


حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔

ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)


حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔

ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 ص 428)


حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔

ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)


حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔

ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیا تو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)


مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔

ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، صفحہ 338 سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)


مولا علی کے امام ہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما


حضرت سیدنا مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میرے مرتبے اور ابوبکر کے مرتبے کو خوب سمجھ کر فیصلہ دیا اور فرمایا : ابوبکر کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کونماز پڑھاؤ آپ نے مجھے نماز پڑھا نے کا حکم نہیں دیا ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی الله عليه و آلہ وسلم جس شخص کو ہمارا دینی پیشوا بنانے پر راضی ہیں ہم اسے اپنا دنیاوی پیشوا بنانے پر کیوں نہ راضی ہوں ۔ (اسنی المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حدیث:۴٣)(الریاض النضرۃ جلد ١ صفحہ ٨١)


حضرت سیدنا علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر باقاعدہ مسجد میں لوگوں کے سامنے بیعت کی تھی ۔ بخاری شریف میں آتا ہے : فقال علی لابی بکر موعدک العشية للبيعة فلما صلی ابو بکر الظهر رقی المنبر فتشهد فسر بذالک المسلمون وقالوا اصبت ۔ (شرح، بخاری، 906)

ترجمہ : حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے کہا میں پچھلے پہر آپ کے پاس بیعت کے لیے حاضر ہوں گا ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز ظہر ادا کی اور منبر پر تشریف فرما ہوئے ، توحید و رسالت کی گواہی دی ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال، بیعت میں تاخیر اور آپ کی معذرت تاخیر بیان فرمائی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے توحید و رسالت کی گواہی دی اور سارا ماجرا بیان کیا ۔ اس پر سارے مسلمان خوش ہوئے اور کہا اے علی (رضی اللہ عنہ) آپ نے بہت اچھا کیا ۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نمازیں پڑھتے تھے اور وہ ان کی امامت پر راضی تھے ۔


شیعہ عالم سلیم بن قیس لکھتا ہے : علی علیہ السلام نے فرمایا حضرت ابو بکر نے نماز پڑھائی تو خالد بن ولید نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز ادا کی جبکہ وہ تلوار لٹکائے ہوئے تھے ۔ (کتاب سلیم بن قیس: ۲۲۸)


شیعہ عالم طبرسی لکھتا ہے : پھر علی علیہ السلام نماز کےلیے تیار ہوئے اور مسجد میں آئے اور ابو بکر کے پیچھے نماز پڑھی اور خالد بن ولید نے ان کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (الاحتجاج: ۱/۱۲۶)


حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے پیچھے پانچوں نمازیں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں ادا کیا کرتے تھے تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر راضی و متفق اور ان سے محبت و الفت رکھتے ہیں ۔ (الاحتجاج للطبرسی صفحہ نمبر ۵۳)(کتاب سلیم بن قیس صفحہ نمبر ۲۵۳)(مرآۃ العقول للمجلسی صفحہ ۲۸۸ ط ایران)


شیعہ عالم طوسی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پیچھے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے : بظاہر وہ (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) مسلمان ہی لگتے تھے ۔ (تلخیص الشافی صفحہ نمبر ۳۵۴ مطبوعہ ایران)


شیخ طوسی لکھتا ہے : یہ بات تسلیم شدہ ہے کیونکہ یہی ظاہری بات ہے ۔ (تلخیص الشافی : ۳۵۴، طبع ایران)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائی ۔ (شیعہ حضرات کی کتاب : جلاء العیون صفحہ 150)


نہج البلاغۃ میں لکھا ہے کہ : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے خلیفہ بننے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو خط لکھا کہ جن لوگوں نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی ﷲ تعالیٰ عنہم کی بیعت کی ۔ انہیں لوگوں نے میری بیعت کی ہے ۔ اب کسی حاضر یا غائب کویہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کی مخالفت کرے ۔ بے شک شوری مہاجرین و انصار کا حق ہے اور جس شخص پر جمع ہوکر یہ لوگ اپنا امام بنالیں ، ﷲ تعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے ۔ (کتاب نہج البلاغۃ دوسری جلد صفحہ 8 مطبوعہ مصر)


حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہما) کی بیعت نہ کی کا جواب


شیعہ حضرات کا اعتراض : ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہرگز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟ جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں : فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ۔ (اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)


اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں ؟ اور پھر اس حدیث : علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار ۔ (مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣)


علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں ۔ (رضی اللہ عنہ)


اس اعتراض کا جواب : یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں ۔


بیعت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سے مضمون نمبر 1 میں ہم دے چکے ہیں لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی اس کا صحیح روایت سے ثبوت : امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہیں : فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ۔

ترجمہ : تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی رضی اللہ عنہ نے بیعت کرلی ۔


سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا ۔


عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس ۔

ترجمہ : حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر رضہ مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فورن اتھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر رضہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے ۔ (تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ نمبر 448)


اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا جھوٹ ہے ۔


باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے اور علی رضی اللہ عنہ حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکھتے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کو جاننی چاہئے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق رضی اللہ عنہ) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق رضی اللہ عنہ) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں شیر و شکر تھے ۔


شیعو اپنے گریبان میں جھانکو : اب یہ شیعہ ہین کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی رضی اللہ عنہ حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق رضی اللہ عنہ کو حق نہیں مانتے جسے علی رضی اللہ عنہ حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں ۔ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے ۔ اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر ۔


اے محبتِ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا دعویٰ کرنے والو اب جواب دو تم لوگ حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی بات مانو گے یا سڑک چھاپ جاہل ذاکروں ، جاہل پیروں اور جاہل خطیبوں کی ؟


حضرت ابو الدرداء رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) سے افضل کسی شخص پر نہ سورج طلوع ہوا ہے نہ غروب ۔ ایک روایت میں ہے کہ انبیاء و رسل علیہم السّلام کے بعد ابوبکر اور عمر سے زیادہ افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ حضرت جابر رضی ﷲ عنہ کی حدیث میں بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے انہیں فرمایا ﷲ کی قسم آپ سے افضل کسی شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ہے ۔ (مسند عبد بن حمید حدیث 212، ص 101 ابو نعیم طبرانی)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول صفحہ نمبر 107)


ابوالبختری طائی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر اور وہی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اُمّت کے والی یعنی خلیفہ ہوں گے اور وہی اُمّت میں سب سے افضل اور سب سے بڑھ کر نرم دل ہیں ۔ (ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 73)


رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم افضل ہیں ۔ (صحیح البخاری حدیث 3671)


حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے مبارک عہد میں جب ہم صحابہ کرام کے درمیان ترجیح دیتے تو سب پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترجیح دیا کرتے پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو  پھر عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ۔ (صحیح البخاری حدیث 3655)


بزبان مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں

حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما افضل ہیں ۔ (سنن ابن ابی داؤد حدیث 4629)


حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تمام لوگوں سے زیادہ خلافت کا مستحق سمجھتے ہیں یہ ان کے نماز کے ساتھی ہیں ثانی اثنین ہیں ہم ان کی شرافت و بزرگی کے معترف ہیں بلکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے خود اپنی  حیات طیبہ میں ان کی امامت کا حکم دیا ۔ (المستدرک علی الصحیحین حدیث 4422)


عبد خیر کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ کچھ لوگوں نے باہم بیٹھ کر گفتگو کی ہے اور انہوں نے حضرت علی کو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے۔ یہ گفتگو حضرت تک پہنچ گئی، آپ منبر پر تشریف لے آئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا، مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ کچھ لوگوں نے مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دی ہے اور میرے پاس ایسا کوئی مقدمہ نہیں لایا گیا اگر لایا جاتا تو ضرور سزا نافذ کرتا اور حاکم کو نہیں چاہئے کہ کسی کو سزا دے جب تک مقدمہ اس کے سامنے نہ آئے ۔ سن لو میرے قیام کے بعد جو شخص مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا اس پر وہی سزا چلے گی جو مفتری پر چلتی ہے ۔ (تاریخ مدینہ دمشق جلد نمبر 30 صفحہ نمبر 369)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خلافت صدیق اکبر کو افضلیت صدیق پر قائم بتانا ۔ (مجمع الزوائد حدیث 14334)


حضرت علی  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد اس امت میں سب سے افضل ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں اور میری محبت اور ان کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور میرا بغض اور ان کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہو سکتا ہے ۔ (کنزالعمال حدیث 36141)


مولی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا ۔ (2) مجھ سے پہلے ہجرت کی ۔ (3) سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے یار غار ہونے کا شرف حاصل کیا ۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم کی ۔ (تاریخ مدینۃ دمشق جلد 30 صفحہ 291)


ایک شخص سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کہنے لگا کہ آپ تمام لوگوں سے بہتر ہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا تو نے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی زیارت کی ہے ؟ اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کیا تو نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کی ہے ؟  اس نے کہا نہیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا  اگر تو سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو دیکھنے کا اقرار کرتا میں تیری گردن اڑا دیتا اور اگر تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی زیارت کا اقرار کرتا تو میں تجھے کوڑے لگاتا ۔ (کنزالعمال جلد  13 حدیث 36153)


حضرت محمد بن حنفیہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے (فرماتے ہیں) کہ میں نے اپنے باپ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے عرض کی کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ حضرت ابوبکر ، میں نے عرض کی ، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہم ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،حدیث 3671 جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 522)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ۔ میری امت میں میرے بعد سب سے بہتر شخص ابوبکر ہیں ، پھر عمر ۔ (ابن عساکر)

حضرت ابو حجیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص ! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو حجیفہ ! کیا تجھے بتاؤں کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل کون ہے ؟ وہ حضرت ابوبکر ہیں ، پھر حضرت عمر ، اے ابو حجیفہ ! تجھ پر افسوس ہے ، میری محبت اور ابوبکر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی اور نہ میری دشمنی اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع ہوسکتی ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی من اسمہ علی، حدیث 3920، جلد 3، ص 79)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ پھر عرض کی کہ اے ﷲ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ! ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر فرمایئے ۔ ارشاد فرمایا کہ نہیں ! ﷲ تعالیٰ اسے تم پر خلیفہ مقرر فرمادے گا جو تم میں سب سے بہتر ہوگا پھر ﷲ تعالیٰ نے ہم میں سے سب سے بہتر ابوبکر رضی ﷲ عنہ کو جانا ، جنہیں ہم پر خلیفہ مقرر فرمایا ۔ (دارقطنی، تاریخ دمشق، جلد 30، ص 290-289)


ہمدانی سے باکمال روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے وصال کے وقت مجھے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر ، ان کے بعد عمر ، ان کے بعد عثمان خلیفہ ہے۔ بعض روایات میں یہ لفظ ہے کہ پھر انہیں خلافت ملے گی ۔ (ابن شاہین، فضائل الصدیق لملا علی قاری، ابن عساکر، تاریخ دمشق، جلد 5، ص189)


حکم بن حجل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو بھی مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما پر فضیلت دے اس پر جھوٹ بولنے کی حد جاری کروں گا ۔ (الصارم المسلول صفحہ 405)


اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو مجھے حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دے گا، اسے بہتان کی سزا میں درے لگاؤں گا اور اس کی گواہی ساکت ہوجائے گی یعنی قبول نہیں ہوگی ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36097، جلد 13،ص 6/7)


حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے افضل بتاتے ہیں۔ آئندہ جو مجھے ان سے افضل بتائے گا وہ بہتان باز ہے ۔ اسے وہی سزا ملے گی جو بہتان لگانے والوں کی ہے ۔ (تاریخ دمشق، جلد 30، ص 382)


حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دینے والا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی نظر میں

سالم بن ابی الجعد سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا ۔ جو شخص حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دے گا تو میرے نزدیک اس کی توبہ کبھی بھی قبول نہیں ہوگی ۔ (ابن عساکر، فضائل الصحابۃ للدار قطنی)


ابن شہاب عبد ﷲ بن کثیر سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ہم سے محبت اور ہماری جماعت سے ہونے کا دعویٰ کریں گے ، مگر وہ ﷲ تعالیٰ کے بندوں میں سب سے شریر ہوں گے جوکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کو گالیاں دیں گے ۔ (ابن عساکر، کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36098)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت بر سر ممبر بیان فرمائی

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس امت میں نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں ۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تواتر کے سات ثابت ہے ۔ تاریخ الاسلام باب عہد الخلفاء جلد نمبر صفحہ نمبر 115 امام ذھبی رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت عمرو رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے وصال باکمال کے بعد افضل ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی ﷲ عنہم اجمعین ہیں ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث 178 جلد اول، ص107)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے بہتر ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 33 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اسناد صحیح ہیں)


جو مجھے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فوقیت دے گا میں اسے مفتری کی حد کوڑے لگاؤں گا اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد افضل ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں۔فرمان حضرت مولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ (فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم صفحہ 34 امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اس امت میں سب سے افضل ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔ (فضائل صحابہ صفحہ 37 اس روایت کےرجال ثقہ ہیں)

حضرت ابراہیم نخعی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ مولیٰ علی رضی ﷲ عنہ کو خبر پہنچی کہ عبد ﷲ بن اسود حضرت ابوبکر و عمر رضی ﷲ عنہما کی توہین کرتا ہے تو آپ نے اسے بلوایا ، تلوار منگوائی اور اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا پھر اس کے بارے میں سفارش کی گئی تو آپ نے اسے تنبیہ کی کہ جس شہر میں رہوں ، آئندہ تو وہاں نہیں رہے گا ، پھر اسے ملک شام کی طرف جلا وطن کردیا ۔ (کنزالعمال، کتاب الفضائل، حدیث 36151)


افضلیت ابوبکر صدیق پر مولا علی رضی ﷲ عنہما کے اقوال کتب شیعہ سے


حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ۔ ابوبکر کو سب لوگوں سے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں کہ وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے نماز کے ساتھی اور ثانی اثنین ہیں اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنی حیات ظاہری میں ان کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا ۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی حدید شیعی، جلد اول، ص 332)


حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : ان خیر ہذہ الامۃ بعد نبیہا ابوبکر و عمر ۔

ترجمہ : اس امت میں حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر و عمر ہیں ۔ (کتاب الشافی، جلد دوم، ص 428)


حضرت علی علیہ السلام نے ابوبکر و عمر کے بارے میں فرمایا : انہما اماما الہدی و شیخا الاسلام والمقتدی بہما بعد رسول ﷲ ومن اقتدی بہما عصم ۔

ترجمہ : یہ حضرت ابوبکر و عمر دونوں ہدایت کے امام اور شیخ الاسلام اور حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد مقتدیٰ ہیں اور جس نے ان کی پیروی کی، وہ برائی سے بچ گیا ۔ (تلخیص الشافی للطوسی جلد 2 ص 428)


حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ان ابابکر منی بمنزلۃ السمع وان عمر منی بمنزلۃ البصر ۔

ترجمہ : بے شک ابوبکر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میرے کان اور عمر مجھ سے ایسے ہیں جیسے میری آنکھ ۔ (عیون اخبار الرضا لابن بابویہ قمی، جلد اول، ص 313، معانی الاخبار قمی، ص 110، تفسیر حسن عسکری)


حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ کے منبر پر ارشاد فرمایا : لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر الا جلدتہ حد المفتری ۔

ترجمہ : اگر ایسا شخص میرے پاس لایا گیاتو جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہوگا تو میں اس پر مفتری کی حد جاری کروں گا ۔ (رجال کشی ترجمہ رقم (257) معجم الخونی (جلد ص 153)


مولا علی رضی ﷲ عنہ کو صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ پر فضیلت دینے والوں کو تنبیہ شیعہ حضرات کی کتب سے شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے ۔ فرمان مولا علی رضی ﷲ عنہ : جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ۔ حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی کتاب رجال کشی میں مولا علی رضی ﷲ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہما سے ان کو افضل کہنے والوں کے لئے درّوں کی سزا اور حد کا حکم فرمایا ہے اور حضرت ابو بکر عمر رضی اللہ عنہما کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ شیعوں کا محققِ اعظم لکھتا ہے : انہ رای علیا (علیہ السلام) علی منبر بالکوفۃ وہو یقول لئن اوتیت برجل یفضلنی علی ابی بکر و عمر لا جلدنہ حد المفتری ، وحب ابی بکر و عمر ایمان و بغضہما کفر ۔

ترجمہ : انہوں نے حضرت علی کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے ہوئے دیکھا اور وہ فرما رہے تھے اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی آئے جو مجھے ابوبکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) پر فضیلت دیتا ہو تو میں اس کو ضرور درّے لگاؤں گا جوکہ مفتری کی حد ہے ، حضرت ابو بکر عمر (رضی اللہ عنہما) کی محبت ایمان ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ہے ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 283 مطبوعہ بیروت لبنان)،(رجال کشی، صفحہ 338 سطر 4 تا 6، مطبوعہ کربلا)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: میں تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔(فیضانِ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ،ص656)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا: عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری محبت کا دعویٰ کریں گے اور ہمارے گروہ میں ہونا ظاہر کریں گے، وہ لوگ اللہ کے شریر بندوں میں سے ہیں جو حضرت سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو برا کہتے ہیں۔(کنزالعمال کتاب الفضائل حدیث نمبر 36098)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ بلاشبہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے: (1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہارِ اسلام کیا۔(2)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔(3)سید عالَم نورِ مجسَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار ہونے کا شرف پایا۔(4)اورمجھ سے پہلے نماز قائم فرمائی۔(الریاض النضرہ،1/89)


حضرت سیدنا موسیٰ بن شداد علیہ رحمۃ اللہ الوہاب فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: ہم سب صحابہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/138)


امیر المؤمنین حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:ہم سب صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/ 138)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا،اس میں حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے ۔ (مجمع الزوائد، 9/ 29، حدیث 14332)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جس نے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کی، قیامت کے دن وہ انہی کے ساتھ کھڑا ہوگا اور وہ جہاں تشریف لے جائیں گے، وہ بھی انہی کے ساتھ جائے گا۔(کنزالعمال،7/6،حدیث36094)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے برسر ِمنبر فرمایا:حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کا دل بہت مضبوط ہے۔ (الریاض النضرہ،1/139)


سب سے پہلے خلیفہ صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ:حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا:غور سے سن لو! ہم نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا۔(مستدرک ، 4/ 27، حدیث :4519)


حضرت علی المرتضیٰٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا:جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے افضل کہے گا تو میں اس کو مفتری کی(یعنی تہمت لگانے والے کو دی جانے والی)سزا دوں گا۔(تاریخِ ابن عساکر، 30/ 383)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے مقام و مرتبے سے بخوبی آگاہ تھے، جبھی تو فرماتے ہیں:میں صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔الغرض فرمانِ مولیٰ علی سے شانِ صدیقِ اکبر خوب ظاہر ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ وہ ارفع و اعلیٰ شخصیت کے مالک ہیں جن کی عظمت کے قائل تمام ہی صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم اور خود سردارِ اولیا آپ کی شان کے قائل ہیں۔سبھی اَصحاب سے بڑھ کر مقرب ذات ہے ان کی ،رفیقِ سرورِ اَرض و سَما صدیقِ اکبر ہیں ۔


ابنِ سعید نے زہری سے روایت کیا : رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ سے فرمایا:تم نے حضرت ابوبکر(رَضِیَ اللہُ عنہ) کی شان میں بھی کچھ کہا ہے؟انہوں نے عرض کی: جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا:سناؤ!تو حضرت حسان بن ثابت رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ اشعار پڑھے : و ثانی اثنین فی الغارِ المنیف قد طاف عدو بہ اذ صعد الجبلا یعنی حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت رسالتِ مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار ہیں۔ جب آپ پہاڑ پر چڑھتے ہیں تو دشمن بھاگ جاتا ہے۔وکان حب رسولُ اللّٰہِ قد علموا من البریہ لم یعدل بہ رجلا تمام لوگ جانتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ان کو کتنی محبت ہے ۔ آپ کو اتنی محبت کسی سے بھی نہیں ہوئی۔ان اشعار کو سُن کر رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا اور حضرت انس نے فرمایا: اے حسان! تم نے سچ کہا ۔(تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 168)


ایک بار حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت مولا علی ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا:آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:میں نے رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : پُلِ صراط سے وہی گزرے گا جس کو علیُّ المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے ۔ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرا دئیے اور کہنے لگے : میں آپ کو رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں ؟ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اُسی کو ملے گا ، جو حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا ۔ (الریاض النضرہ،1/201)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کےمزید ارشاداتِ مبارکہ


جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے افضل کہے تو میں اس کو مفتری کی(یعنی بہتان لگانے والے کو دی جانے والی سزا)دوں گا۔(تاریخِ ابنِ عساکر،30/383)


اس اُمّت میں نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے بہتر (حضرت) ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(تاریخِ ابن ِعساکر،30/346)


امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : یہ قول حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ سے تواتر سے منقول ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص 34)


حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ شکر کرنے والوں اور اللہ پاک کے پسندیدہ بندوں کے امین ہیں، آپ ان سب سے زیادہ شکر کرنے والے اور سب سے زیادہ اللہ پاک کے پسندیدہ ہیں۔(تفسیرطبری، پ4، ال ِعمران الآیۃ: 3،144/455)


ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(مسند بزار3/14، حدیث: 761)


یاد رکھو! وہ(یعنی حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ) انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے یارِ غار اور اپنے مال سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والے ہیں۔(الریاض النضرۃ،1/138)


ہم سب صحابہ میں حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرہ،1/138)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔(معجم کبیر ،1/55،حدیث:14)


حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں : بلا شبہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سےسبقت لے گئے : (1)انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا(2)مجھ سے پہلے ہجرت کی(3)رسولِ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کےیارِ غار ہونے کا شرف پایا اور (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔(الریاض النضرۃ، 89/1، تاریخ ابنِ عساکر، 291/30)


حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:میں تو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔(تاریخِ ابن عساکر ، 383/30، کنز العمال، جز:12، 6/224، حدیث:35631)


حضرت علی المرتضیٰ، شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: جس نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کی،قیامت کے دن وہ ان ہی کے ساتھ کھڑا ہوگااور جہا ں وہ تشریف لے جائیں گے وہ بھی ان ہی کے ساتھ ساتھ جائے گا۔(کنزالعمال، جز:13، 6/7،حدیث:36096)(تاریخ ابن عساکر، 128/39)


حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:اس اُمت میں اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں اور ان کا رتبہ سب سے زیادہ بلند ہے کیونکہ انہوں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآنِ مجید،فرقانِ حمید کو جمع کرنا شروع کیا ،نیز رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔(جمع الجوامع، 1/39، حدیث: 158)


ایک بارحضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ اور حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کی ملاقات ہوئی تو حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے پوچھا: آپ کیوں مسکرا رہے ہیں؟ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا:پُلِ صراط سے وہ ہی گزرے گا جس کو علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ تحریری اجازت نامہ دیں گے۔ یہ سن کر حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ بھی مسکرادئیے اور عرض کرنے لگے: کیا میں آپ کو رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف سے آپ کے لیے بیان کردہ خوشخبری نہ سناؤں؟ رسولُ اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:پُلِ صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کو ملے گا جو حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ سے محبت کرنے والا ہوگا۔(الریاض النضرۃ،1/207)


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا : جو شخص مجھے حضرت ابو بکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے گا میں اس کو مُفتری(یعنی بہتان لگانے والے) کی سزا دوں گا۔(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، 3/99، تاریخِ ابنِ عساکر، 365/44)


حضرت نزال بن سبرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:ہم لوگ حضرت علی المرتضیٰ، شیرِخدا رَضِیَ اللہُ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور وہ خوش طبعی فرما رہے تھے۔ ہم نے ان سے عرض کی:اپنے دوستوں کے بارے میں کچھ ارشادفرمایئے۔فرمایا: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تمام اصحاب میرے دوست ہیں۔ہم نے عرض کی: حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کے بارے میں بتایئے۔فرمایا : ان کے تو کیا کہنے!یہ تو وہ شخصیت ہیں جن کا نام اللہ پاک نے جبریلِ امین اور پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبان سے صدیق رکھا ہے ۔ (مستدرک،4/4،حدیث: 4462)


حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:غزوہ ٔبدر کے روز ہم نے دو عالم کے مالک ومختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک سائبان بنایا، تا کہ کوئی کافر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے، اللہ پاک کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا،صرف حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے ،پھر کسی کافر کی جرأت نہ ہو سکی کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قریب بھی بھٹکے۔اس لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی ہیں۔(کنزالعمال، الجزء: 12، 6/ 235،حدیث: 35685)


حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ کا شجاعت و بہادری میں کوئی ثانی نہیں، آپ رتبہ و مقام میں تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عنہم میں سب سے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ آپ کی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت اور احترام کی کوئی مثال نہیں۔ آپ ہر طرح کے مصائب میں رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ ہوتے تھے۔ہجرت کے رفیقِ سفر:حضرت علی المرتضیٰ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے :حضرت جبریلِ امین علیہِ السَّلام نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا:میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ عرض کی:یا رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عنہ ہجرت کریں گے اور وہ صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہیں۔وصال شریف:عاشقِ اکبر حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ 22 جمادی الاخریٰ،سن 13 ہجری،بروز پیر شریف،63سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔(سنن کبری للبھیقی،3/557، حدیث: 6663) بوقتِ وفات زبانِ مبارک پر آخری کلمات یہ تھے:اے پروردگار!مجھے اسلام پر موت عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ (الریاض النضرۃ، 1/258)


حضرت علی، حیدرِ کرار رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:خیرُ ھٰذہ الاُمَّۃِ بعد نبیھا ابو بکر ثم عمریعنی اس اُمّت میں،اس اُمّت کے نبی کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر ہیں، پھر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ۔(مسندامام احمد ، 1/ 106، مقام صدیقِ اکبر،ص 59)


معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ بھی حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کے سب سے افضل ہونے کے قائل تھے۔


حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ نے منبر پر خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا:مجھے پتا چلا ہے کہ کچھ لوگ مجھے حضرت ابوبکر و عمر رَضِیَ اللہُ عنہما پر فضیلت دے رہے ہیں!اگر میں اس معاملے میں مقدم ہوں تو سزا کا حق دار ہوں،تقدیم سے پہلے مجھے سزا نا پسند ہے،(جس نے مجھے حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی،جس نے ایسا کہا)وہ جھوٹا ہے۔اس کو وہی سزا دی جائے گی جو جھوٹے کو دی جاتی ہے۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد تمام لوگوں میں سے بہتر حضرت ابوبکر پھر عمر رَضِیَ اللہُ عنہما ہیں۔(مقامِ صدیقِ اکبر،ص71- فضائلِ صحابہ لامام احمد ،1/633)


معلوم ہوا!جب حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ پر فضیلت دی گئی تو آپ کا منبر پر جلوہ افروز ہو کر غم و غصّے کا اعلان کرنا کوئی عام بات نہ تھی۔آپ کا مبارک انداز بتا رہا ہے کہ یہ مسئلہ کئی مسائل سے زیادہ اہمیت کا حامل تھا کہ نہ صرف آپ نے افضل کہنے والوں کا ردّ فرمایا، بلکہ انہیں جھوٹا قرار دے کر سزا کا حق دار بھی بتایا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی،حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ اپنی زبانِ مبارک سے شانِ صدیق بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بعد زیادہ حق دار ہیں،وہ غار کے ساتھی اور دو میں سے دوسرے ہیں۔نیز ہم ان کی بزرگی اور بڑائی کے قائل ہیں۔رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں انہی کو نماز پڑھانے کا حکم دیا۔(مستدرک ، 3/ 64-سنن کبری للبیہقی، 8/151-مقام صدیقِ اکبر،ص 76)


معلوم ہوا!حضرت مولیٰ علی رَضِیَ اللہُ عنہ والہانہ محبت بھرے انداز میں حضرت صدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ عنہ کی مدح و ستائش،عظمت و رفعت،منزلت و مر تبت اور امتیازی خصوصیات کو بیان فرمایا،نیز اپنے کلام کو مضبوط کیا کہ انکار کی گنجائش نہ رہی ۔


محترم قارٸینِ کرام ! آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں طرح طرح کے فتنے جنم لے رہے ہیں کچھ اہلبیت اطہار کی شان میں اپنی زبانیں دراز کر رہے ہیں تو کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں گستاخیاں کرتے نظر آتے ہیں ۔ یاد رہے کہ اگر اہل بیت اطہار کو کشتی سے تشبیہ دی گئی ہے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ستاروں سے کہ لوگ کشتی میں بیٹھ کر ستاروں ہی کی مدد سے درست راہ کی طرف رہنمائی پاتے ہیں۔انہی چمکتے ستاروں میں سب سے روشن ستارے، محبوب خدا کے پیارے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس پر اہلسنت وجماعت کا اجماع ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد امت میں سب سے افضل ہیں ۔ آپ کی عظمت و شان، قرآن و احادیث میں وارد ہے اور ان احادیث میں وہ بھی ہیں جن کے راوی مولی مشکل کشا حضرت علی المرتضی کرم الله وجہہ الکریم ہیں اور خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات بھی ایسے ملتے ہیں جن کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دم بھرنے والا ،یار غار عتیق من النار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی افضلیت و رفعت شان کا انکار نہ کر سکے گا ۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایات اور آپ کے ارشادات بیان کرنے سے پہلے شان صدیق رضی اللہ عنہ میں وارد قرآن پاک کی ایک آیت پیش کی جا رہی ہے جس کی تفسیر و تشریح بیان کرنے والے خود فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی (ف۸۱) یہی ڈر والے ہیں۔(پ 24،زمر 33)

آیت کی تشریح بزبان حضرت علی رضی اللہ عنہ : والذي جاء بالحق محمد و صدق به ابو بكر الصديق۔ترجمہ:وہ جو سچ لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہیں اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں۔ (تفسیر الطبری، تاریخ الخلفاء للسیوطی، صفحہ 42)


حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ہمراہ تھا کہ اچانک حضرت ابو بکر صدیق وعمر فاروق رضی اللہ عنہما آتے نظر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا : ھذان سیدا کھول اھل الجنة من الاولین و الآخرین الا النبیین والمرسلین، لا تخبرھما یا علي۔ ترجمہ:یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی! تم انہیں نہ بتانا۔(سنن الترمذی ، 6/ 46)


اس حدیث پر جب امام عشق و محبت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کی نظر پڑی تو آپ کے قلم پر سکون طاری رہے یہ کیونکر ممکن ہے، پھر تحریک قلم فرماکر یوں لکھتے ہیں : ⬇


فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں

اے مُرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو


حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا : من یھاجر معي؟، قال:ابو بکر، و ھو الصدیق۔ یعنی ہجرت میں میرے ساتھ کون ہوگا ؟، تو انہوں نے کہا : ابو بکر اور وہ صدیق ہیں۔(تاريخ دمشق، 30/ 73)


سایۂ مصطفیٰ مایۂ اِصطَفیٰ

عِزّ و نازِ خلافت پہ لاکھوں سلام


یعنی اُس اَفْضَلُ الْخَلْقْ بَعْدَ الرُّسُل

ثانیَ اثْنَیْن ہجرت پہ لاکھوں سلام


حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اول من اسلم من الرجال ابو بکر۔ ترجمہ : مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 30)


حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : والذي نفسي بيده ما استبقنا إلى خير قط إلا سبقنا إليه أبو بكر۔ ترجمہ: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں نے جس خیر کے کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سبقت لے گئے۔(تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 50)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : هل أنا إلا حسنة من حسنات أبي بكر۔ ترجمہ: میں تو ابو بکر کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔( تاريخ دمشق لابن عساكر، 30/383)


مولی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: خیر ھذہ الامة بعد نبیها ابو بکر و عمر۔ ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ساری امت سے بہتر ہیں۔(مسند احمد ، 2/ 6)


حضرت علی رضى الله عنہ اللہ پاک کے اس فرمان : وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)(ترجمۂ کنزُ الایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنھوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں) کے بارے میں فرماتے ہیں :وہ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر رضی اللہُ عنہ ہیں۔(تفسير طبری، 20/205،204)


پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضى الله عنہ کی شان تو یہ ہے کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے آپ کو صدیق نام عطا کیا، چنانچہ ابو یحییٰ کہتے ہیں: میں نے بارہا حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے سنا کہ ”بے شک اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبان سے ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔(تاريخ الخلفاء صفحہ 103)


حضرت علی رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ پاک ابو بکر پر رحم فرمائے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کیا، اور دار الہجرت (مدینۂ منوّرہ) تک پہنچایا، اور اپنے مال سے بلال کو آزاد کرایا۔(تاريخ دمشق، 30/63)


حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضر تھا اچانک ابو بکر و عمر رضی اللہُ عنہما آتے نظر آئے، تو سیدُ الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں فرمایا: هَذَانِ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الجَنَّةِ مِنَ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالمُرْسَلِينَ، يَا عَلِيُّ لَا تُخْبِرْهُمَا ترجمہ: یہ دونوں انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام کے علاوہ تمام اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں، اے علی ان دونوں کو اس کی خبر نہ کرنا۔(ترمذی، 6/46)


فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردارِ دو جہاں

اے مُرتضیٰ! عتیق و عمر کو خبر نہ ہو


اسی طرح حضرت سیدنا اِصبغ بن نباتہ رضى الله عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے امیرُ المؤمنین حضرت علیُّ المرتضی شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ سے استفسار کیا : اس اُمّت میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا : اس اُمّت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ہیں، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی، پھر میں۔(یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہُ عنہ)۔(الرياض النضرة، 1/57)


اللہ پاک ہمیں تمام صحابہ و اہلِ بیت علیہمُ الرّضوان کا ادب و احترام عطا فرمائے اور ان کی سچی پکی محبت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، انہوں نے فرمایا:” اول من اسلم من الرجال ابوبکر “۔یعنی سب سے پہلے مردوں میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے ۔(تاریخ الخلفا،ص 23)


ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا وہ اپنے اسلام کو جہاں تک ہو مخفی رکھتا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی یہی حکم تھا، لیکن جب مسلمانوں کی تعداد تقریباً 38 ہو گئی تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر اسلام کا اعلان فرمایا: اسد الله الغالب، حضرت سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرماتے ہیں:” لوگ جب اپنے ایمان کو چھپاتے تھے،مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے“۔(تاریخ الخلفا صفحہ 25)


حضرت سیدنا یحییٰ بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم کو الله کی قسم اٹھا کر کہتے ہوے سنا کہ” انزل اسم ابی بکر من السماء الصدیق، یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا لقب صدیق آسمان سے اتارا گیا“۔(المعجم الکبیر، نسبۃابی بکر الصدیق واسمہ،1/55، الحدیث :14)


ہجرت کی خوشخبری حضرت جبریل علیہ السلام کی زبان سے: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا ؟ عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ کے ساتھ ابوبکر ہجرت کریں گے اور وہ صدیق ہیں۔(الریاض النصرۃ،1/104)


فاتح خیبر، شیر خدا، علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت کو خود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اے لوگو! تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (کنز العمال،باب فضائل الصحابۃ، فضل الصدیق،6/235،الحدیث:3569)


حضرت موسیٰ بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہم سب صحابہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سب سے افضل ہیں۔(الریاض النضرۃ،1/338)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم خلافتِ صدیق اکبر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: " غور سے سن لو ! ہم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا ہے "۔ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ، امر النبی لابی بکر بامامۃ الناس فی الصلاۃ، 4/27،الحدیث : 4519)


حضرت علی رضی الله عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کی تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی ہوں۔(تاریخ مدینہ دمشق، 30/383)


حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے ارشاد فرمایا : عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو ہماری محبت کا دعویٰ کریں گے اور ہماری گروہ میں ہونا ظاہر کریں گے، وہ لوگ اللہ کے شریر بندوں میں سے ہیں جو حضرت سیدنا ابوبکر و عمر کو برا کہتے ہیں۔(تاریخ مدینہ دمشق، 26/343)


بخاری شریف میں ہے کہ محمد بن حنفیہ نے اپنے والد حضرت علی (کرم الله وجہہ الکریم) سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل صحابی کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ابوبکر صدیق رضی الله عنہ (بخاری شریف 3671 )


اور ایک روایت میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ جس کو بھی میں دیکھوں کہ وہ مجھے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الله عنھما پر فضیلت دے رہا ہے تو وہ مفتری (جھوٹ گڑھنے والا ) ہے اور میں اسے مفتری کی حد لگاؤں گا۔ (ابن عساکر فی تاریخ دمشق ، 30 / 383 )


حضرت علی( کرم الله وجہہ الکریم) حضرت ابوبکر صدیق کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مردوں میں سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر مشرف بہ اسلام ہوئے۔(تاریخ الخلفاء مکتبہ دار ابن حزم ،ص 30 )


ایک روایت میں منقول ہے کہ حضرت علی نے لوگوں سے پوچھا بتاؤ کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ آپ سب سے زیادہ بہادر ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں تو ہمیشہ اپنے برابر کے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ یہ بتاؤ کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے آپ ہی ارشاد فرمائیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ جنگ بدر میں ہم نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سائبان (چھونپڑ) تیار کیا تاکہ کوئی کافر آپ پر حملہ نہ کرسکے۔ الله کی قسم ہم میں سے کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ گیا ۔مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنہ اپنی تلوار لہرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے۔ جو کوئی بھی حملے کے لئے آتا آپ اس پر ٹوٹ پڑتے۔ اس لئے آپ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ بہادر ہیں ۔ پھر آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ لوگوں بتاؤ کہ آل فرعون کا مؤمن اچھا ہے یا ابوبکر صدیق ؟ لوگوں نے اس پر سکوت کیا تو آپ نے فرمایا : لوگو! جواب کیوں نہیں دیتے؟ الله پاک کی قسم! حضرت ابوبکر کی زندگی کی ایک ساعت آل فرعون کے مومن کی ہزار ساعت سے بہتر ہے۔ اس لئے کہ اس نے اپنے ایمان کو چھپایا اور اس (ابوبکر صدیق) نے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا۔ (اخرجہ البزار فی مسنده)


ابو یحییٰ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں شمار نہیں کر سکتا تین دفعہ میں نے حضرت علی کو یہ کہتے سنا ہے کہ الله پاک نے ابوبکر صدیق کا نام اپنے نبی کی زبان پر صدیق رکھا ہے۔(تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 28)


حضرت علی سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابو بکر ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع فرمایا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 1/148)


اسید بن صفوان سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی الله عنہ نے اس آیت (وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمہ کنز العرفان : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔) کی تفسیر میں فرمایا : کہ وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور وَ صَدَّقَ بِهٖۤ سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ ہیں ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 42)


ابن عساکر روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت ابو بکر صدیق کو کفنایا ہوا دیکھ کر فرمایا کہ مجھے کوئی شخص جو اپنے نامہ اعمال لیکر الله پاک کو ملے اس مکفون سے زیادہ محبوب نہیں۔


طبرانی اوسط میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے فرمایا اس خدائے پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس نیکی میں سبقت لینی چاہی ہے اس میں حضرت ابو بکر صدیق ہی سبقت لے جانے والے رہے ہیں ۔


اور حضرت جحیفہ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میری محبت اور حضرت ابوبکر و عمر رضی الله عنھما کا بغض کسی دل میں جمع نہیں ہوسکتا۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 59)


ابن عساکر حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں اور میں حاضر تھا غائب نہ تھا، اور نہ میں مریض تھا ۔ تو جس شخص کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لئیے پسند کیا ہم نے اسے اپنی دنیا کے لئیے پسند کیا ۔ (تاریخ الخلفاء عربی صفحہ 53)


حضرت علی فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق بلا شبہ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غار کے ساتھی ہیں، اور آپ ثانی اثنین ہیں۔ اور ہم آپ کے شرف کو اور آپ کے خیر ہونے کو جانتے ہیں۔ بے شک آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں نماز کی امامت کا حکم دیا تھا ۔ (المستدرک للحاکم،3/70)


حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جس نیک کام میں آگے بڑھنے کا ارادہ میں نے کیا ، ابو بکر اس کام میں مجھے سے سبقت لے گئے ۔ نیز فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سب سے بہتر ہیں کسی کے دل میں میری محبت اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کا بغض یکجا نہیں ہو سکتے ۔ (رسائل قادریہ صفحہ 59 مکتبہ اہل سنت فیصل آباد)


مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت علی مرتضیٰ (رضی الله عنہ) نے فرمایا کہ صدیق (رضی الله عنہ) کو رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) نے ہمارے دین کا امام بنا دیا تو ہم نے انہیں اسی دنیا کا امام بنا لیا ۔ (مراۃ المناجیح ، 2 / 203 مکتبہ ادبی دنیا)


سورہ زمر آیت نمبر 33 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳) ترجمہ : اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔


اس آیت کی تفسیر میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : الذي جاء بالصدق محمد والذی صدق به أبو بكر الصديق رضي الله عنه یعنی وہ جو یہ سچ(اسلام) لے کر آئے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔(فتح الباری بشرح صحیح البخاری کتاب التفسير /الزمر صفحہ 534)


گویا کہ حیدر کرار نے دنیا والوں کو شان یار غار بتا دیا کہ جس وقت مصطفٰی کریم علیہ السلام کو جھٹلایا جا رہا تھا اس وقت آپ کی تصدیق کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔


پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس


عن محمد بن الحنفية قال: قلت: لأبي: أي الناس خير بعد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: أبو بكر قلت: ثم من؟ قال: عمر حضرت محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد (علی کرم اللہ وجہ الکریم) سے عرض کی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر میں نے عرض کی، پھر کون ؟ فرمایا حضرت عمر رضی ﷲ عنہما ۔ (بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی،2/522،حدیث :3671)


سیدنا علی کرم اللہ وجہ الکریم خود شیخین کریمین رضی ﷲ عنہما کو سب سے افضل مانتے تھے لہٰذا جو علی رضی ﷲ عنہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور شیخین رضی ﷲ عنہما کو افضل نہ جانے وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔


حضرت ابو جحیفہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے گھر میں داخل ہوا ۔ میں نے عرض کی اے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل شخص! تو آپ رضی ﷲ عنہ نے فرمایا اے ابو جحیفہ ! ٹھہر جا تجھ پر افسوس ہے کیا میں تجھے یہ نہ بتاؤں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ وہ ابو بکر و عمر ہیں اے ابو جحیفہ ! تجھ پر افسوس ہے میری محبت اور ابو بکر و عمر کی دشمنی کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور میرا بغض اور ابوبکر و عمر کی محبت کسی مومن کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی۔ (تاریخ مدینہ و دمشق ،44/201)


معلوم ہوا کہ حیدر کرار رضی ﷲ عنہ کا سچا محب وہی ہے جو ابو بکر و عمر رضی ﷲ عنہما سے محبت کرتا ہے اور وہی سچا مومن ہے اور جو ان سے بغض رکھتا ہے وہ نہ تو مومن کامل ہے نہ ہی محب مولائے کائنات رضی ﷲ عنہ ہے بلکہ وہ بغض صحابہ رضی ﷲ عنہم کا مریض ہے اللہ عزو جل ہمیں جملہ فتنوں سے محفوظ رکھے آمین ۔


(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)





Post a Comment

0 Comments