مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہلسنّت کا مؤقف

 مشاجراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہلسنّت کا مؤقف

***********************************

محترم قارئینِ کرام : دشمنان دین نے بھی سب سے پہلے اصحاب رسول (رضی اللہ عنہم) (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم) کو ہی تنقید کا نشانہ بنایا ۔

ان کے مقدس کردار کو داغدار کرنے کے لیئے ہر قسم کے حربے اختیار کیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور امت کے درمیان کا یہ واسطہ کمزور پڑجائے اور یوں بغیر کسی محنت کے اسلام کا یہ دینی سرمایا خود بخود زمین بوس ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے بغض و عناد کے اظہار اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے بھی ان دشمنان دین نے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہی ہدف تنقید بنایا ۔



مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ بن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہدی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا : وہ زندیق ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیص کرنے کی تو ان میں ہمت نہ تھی انہوں نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تنقیص بیان کرنا شروع کردی ۔ گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم برے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے ۔ (تعجیل المنفعۃ :ص271) ۔(خطیب بغدادی (م463ھ) نے یہی واقعہ کچھ تفصیل سے تاریخ بغداد (ج8ص220) میں بیان کیا ہے ۔



اس تفصیل سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بارے میں لب کشائی کا پس منظر واضح ہوجاتا ہے مگر دشمنان اسلام اپنی تمام تدبیروں کے باوجود اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور اللہ کے مقرر کردہ اس طبقہ کی عدالت و صداقت کو داغدار نہ کرسکے اور محدثین عظام اور فقہاء کرام نے بیک زبان ”الصحابۃ کلہم عدول“ کی ایسی صدا بلند کی کہ اس کے مقابلے میں تمام کوششیں ہیچ ثابت ہوئیں ۔



اوائل میں اسلام دشمنی کے اس محاذ پر ابن سبا کی ذریت تھی ، رفتہ رفتہ اس میں بعض فرقوں نے بھی حصہ لیا ۔



آخری دور میں مستشرقین اور ان کی معنوی اولاد نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیامگر علمائے حق نے ہر دور میں اس فتنہ کا تعاقب کیا اور دفاع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق ادا کیا ۔



سبِّ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ممانعت احادیث و آثار کے آئینے میں : چند روایات پیش کی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلاکہنا اور انہیں تنقید کا نشانہ بنانا جائز نہیں ۔



(1) : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذو ہم غرضا بعدی فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن آذاہم فقد آذانی ۔


ترجمہ: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو! ان کو میرے بعد تنقید کا نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے بھی ان سے محبت کی تو یہ میری محبت کی بناء پر کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بد ظنی کی بناء پر ان سے بغض رکھا۔ جس نے ان کو ایذاء دی تو گویا اس نے مجھے ایذاء دی ۔(مشکوٰۃ المصابیح: ج2ص554)



(2) : حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:


دعولی اصحابی لا تسبو اصحابی ۔


ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر کرو، میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا نہ کہو ۔ (مسند البزار: ج2 ص342) ، علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی صحیح بخاری ومسلم کے راوی ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)



(3) : حضرت عائشہ رضی ا للہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسبوا اصحابی لعن اللہ من سب اصحابی ۔


ترجمہ : میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہتا ہے ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ج5 ص94)


علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علی بن سہل کے علاوہ اس روایت کے سب راوی صحیح بخاری کے ہیں اور علی بن سہل بھی ثقہ ہے ۔ (مجمع الزوائد ج10ص21)



(4) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : من سب اصحابی فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین ۔


ترجمہ : جو میرے صحابہ کو براکہتا ہے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی طرف سے لعنت ہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی:ج12 ص142)



(5) : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : احفظونی فی اصحابی ۔ (سنن ابن ماجہ: ص172)


ترجمہ : لوگو !میری وجہ سے میرے صحابہ کا خیال رکھو ۔


بعض روایات میں ”احسنوا الی اصحابی “ کے الفاظ ہیں ۔ کہ میرے صحابہ کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ۔ (سنن النسائی: رقم الحدیث9175)



(6) : حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اذا ذکر اصحابی فامسکو واذا ذکرت النجوم فامسکوا وذا ذکر القدر فامسکوا ۔


ترجمہ : جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو خامو ش رہو، جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ج2 ص96) ۔ حضرت ابن عباس سے یہی روایت موقوفاً ان الفاظ سے ہے کہ انہوں نے فرمایا : یا غلام ایاک وسب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم فان سبہم مفقرۃ الخ ۔


ترجمہ :  اے بر خوردار: صحابہ کرام کو برا کہنے سے اجتناب کرو کیونکہ ان کو برا کہنا فقر و مسکینی کا باعث ہے ۔ (کتاب الثقات لابن حبان ج8ص3)



(7) : ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : امروا ان یستغفروا لاصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسبوہم ۔ (صحیح مسلم: ج2ص421)


ترجمہ : لوگوں کو حکم تو دیا گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں استغفار کرو مگر لوگوں نے انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا ۔



(8) : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : لا تسبوا اصحاب محمد فان اللہ عز وجل امرنا بالا ستغفار لہم وھو یعلم انہم سیقتلون ۔


ترجمہ :  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا مت کہو ، بے شک اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ عنقریب قتل و قتال میں مبتلا ہوں گے ہمیں ان کے بارے میں استغفار کا حکم فرمایا ہے ۔ (الصارم المسلول فصل نمبر5 المسئلہ الثانیہ فی استتابۃ الذمی بیروت)



(9) : حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ عراق سے ان کے ہاں ایک وفد آیا جنہوں نے حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازیبا باتیں کہیں تو آپ نے فرمایا : کیا تم مہاجرین میں سے ہو ؟ انہوں نے کہا : جی نہیں ،پھر آپ نے پوچھا: کیا تم انصار میں سے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : جی نہیں ۔ اس پر حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : جب تم ان دونوں میں سے نہیں ہو تو میں گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی ہرگز نہیں ہو جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا ۔


ان تمام احادیث و آثار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بری اور ناگوار بات کرنا، ان کی مذمت یا ان کو سب شتم کرنا منع ہے اور اس کے مرتکبین کو لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔




مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ



مشاجرات صحابہ میں‌ اہلِ سنت کا کیا مؤقف ہے ؟



موضوع : فضائل و مناقب



سوال پوچھنے والے کا نام: حافظ شاہ فيروز وارثی  مقام : سمبھل، اتر پردیش، انڈیا



سوال نمبر 3815 : السلام عليکم! حدیث پاک ہے کے علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے۔ اب جو بھی دنيا ميں علی کے مقابلے پر آئے وہ اس حدیث پاک کی روشنی ميں ناحق پر ہے۔ اس بارے ميں حضرت معاویہ اور کے متعلق کيا سمجھا جائے ؟ حضرت عائشہ رضی عنہا اور حضرت معاویہ نے حضرت علی سے جنگ کی اب حق پر کون ہے ؟ اس کا مدلل اور مفصل جواب دیں ۔



جواب : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں‌ کو حق اور ناحق کے پلڑوں‌ میں‌ رکھنے کی جرات نہیں‌ کرسکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشادِ‌ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے ، صحابہ کرام کا نہیں۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے ، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته ۔


ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (نووی، شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن)


حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں، نہ کہ ہوا و ہوس پر۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول)


مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوب: 67 دفتر دوم)


اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے، جو شیطان کا کام ہے، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے ۔ واللہ و رسولہ اعلم بالصواب ۔ مفتی : محمد شبیر قادری (تاریخ اشاعت: 2016-03-30)۔(مفتی منہاج القرآن کا فتویٰ یہاں ختم ہوا)



اعلیٰ حضرت امام احمد رضا  محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :  حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے مشاجرات ومنازعات کیئے ، ہم اہلسنت ان میں حق ، مولیٰ علی رضی اللہ عنہ کی جانب مانتے ہیں اور ان سب کو (موردِ لغزش) برغلط وخطا ۔ اور حضرت علی اسدُ اللہ رضی اللہ عنہ کو ان سب سے اکمل واعلیٰ جانتے ہیں ۔ چونکہ ان حضرات کے مناقب وفضائل میں احادیث مروی ہیں اس لیئے ان کے حق میں زبانِ طعن وتشنیع نہیں کھولتے ، اور انہیں ان کے مراتب پر رکھتے ہیں جو انکے لیئے شرع میں ثابت ہیں ۔  ان میں کسی کو کسی پر ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں اور ان کے اختلاف کو امام ابوحنیفہ وامام شافعی رضی اللہ عنہما جیسا اختلاف سمجھتے ہیں ۔ ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی بارگاہِ رفیع میں طعن کریں ۔ خدا کی قسم ! یہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی جناب میں گستاخی ہے ۔ (اعتقاد الاحباب:۶۳)



اعلیٰ حضرت امام احمد رضا  محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : اہلسنت وجماعت سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نیک ومتقی جانتے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کی تفاصیل پر نظر کرنا حرام سمجھتے ہیں کیونکہ اس طرح شیطان ان متقی بندوں کے متعلق بدگمان کر کے گمراہی کی طرف لے جاتا ہے ۔ چنانچہ آپ رقمطراز ہیں ،’’جو فعل کسی (صحابی) کا اگر ایسا منقول بھی ہوا جو نظرِ قاصر (ونگاہِ کوتاہ بیں) میں اُن کی شان سے قدرے گرا ہوا ٹھہرے (اور کسی کوتاہ نظر کو اس میں حرف زنی کی گنجائش ملے ، تواہلسنت) اسے محملِ حسن پر اتارتے ہیں (اور اسے ان کے خلوصِ قلب و حسنِ نیت پر محمول کرتے ہیں) اور اللہ کا سچا قول رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ سن کر آئینۂ دل میں زنگِ تفتیش کو جگہ نہیں دیتے (اور تحقیقِ احوال واقعی کے نام کا میل کچیل ، دل کے آبگینہ پر چڑھنے نہیں دیتے) ، رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حکم فرما چکے ،  اِذَا ذُکِرَ اَصْحَابِیْ  فَامْسِکُوْا۔ ’’جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز رہو‘‘ (سوئِ عقیدت اور بدگمانی کو قریب نہ پھٹکنے دو، تحقیقِ حال و تفتیشِ مآل میں نہ پڑو) ۔ 


 اپنے آقا اکا فرمانِ عالی شان اور یہ سخت وعیدیں، ہولناک تہدیدیں (ڈراوے اور دھمکیاں) سن کر زبان بند کر لی اور دل کو سب کی طرف سے صاف کر لیا۔ اور جان لیا کہ ان کے رُتبے ہماری عقل سے وراء ہیں پھر ہم ان کے معاملات میں کیا دخل دیں۔


 ان میں جو مشاجرات (صورۃًنزاعات و اختلافات) واقع ہوئے ، ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون ؟ کہ ایک کی طرف داری میں دوسرے کو برا کہنے لگیں ، یا ان نزاعوں میں ایک فریق کو دنیا طلب ٹھہرائیں بلکہ بالیقیں جانتے ہیں کہ وہ سب مصالح دین کے خواستگار تھے ۔


(اسلام ومسلمین کی سربلندی ان کا نصب العین تھی پھر وہ مجتہد بھی تھے تو) جس کے اجتہاد میں جو بات دینِ الہٰی و شرع رسالت پناہی جل جلالہٗ و ا کے لیے اصلح وانسب (زیادہ مصلحت آمیز اور احوال مسلمین سے مناسب تر) معلوم ہوئی ، اختیار کی۔ گو اجتہاد میں خطا ہوئی اور ٹھیک بات ذہن میں نہ آئی لیکن وہ سب حق پر ہیں (اور سب واجب الاحترام) ۔ ان کا حال بعینہٖ ایسا ہے جیسا فروعِ مذہب میں (خود علمائے اہلسنت بلکہ ان کے مجتہدین مثلاً امام اعظم ) ابوحنیفہ  و (امام)شافعی (علیہم الرّحمہ) کے اختلافات ، نہ ہرگز ان منازعات کے سبب ایک دوسرے کو گمراہ فاسق جاننا نہ ان کا دشمن ہو جانا ۔ جس کی تائید حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ اخواننا بغوا علینا۔یہ سب ہمارے مسلمان بھائی ہیں جو ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دوعالم ا کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔ خدا ورسول ا کی بارگاہ میں معظم  ومعزز اور آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے ہیں ، اصحابی کالنجوم) ، اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشادات سے (اہلسنت وجماعت نے اپنا عقیدہ اور) اتنا یقین کر لیا کہ سب (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) اچھے اور عادل وثقہ، تقی ، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار) ہیں ، اور ان (مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر ، گمراہ کرنے والی ہے ۔ (اعتقادُ الاحباب:۳۸ـ-۴۰)


 رب تعالیٰ نے فرمایا ، وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ، ان سب (صحابہ رضی اللہ عنہم) سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ فرمایا‘‘۔کہ اپنے اپنے مرتبے کے لحاظ سے اجر ملے گا سب ہی کو ، محروم کوئی نہ رہے گا۔اور جن سے بھلائی کا وعدہ کیا، ان کے حق میں فرماتا ہے ، اُولٰئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْن ’’وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں‘‘۔ لاَ یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَہَا’’وہ جہنم کی بھنک تک نہ سنیں گے‘‘۔  وَہُمْ فِیْ مَااشْتَہَتْ اَنْفُسُہُمْ خٰلِدُوْنَ ۔’’وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے‘‘۔ لاَ یَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ  ۔’’قیامت کی سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی‘‘۔ تَتَلَقّٰہُمُ الْمَلٰئِکَۃُ ۔’’فرشتے ان کا ستقبال کریں گے‘‘۔ ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ  ۔ یہ کہتے ہوئے کہ’’ یہ ہے تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا‘‘۔(سورۃ الانبیائ) ۔ رسول ُ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی یہ شان اللہ عزوجل بتاتا ہے تو جو کسی صحابی پر طعن کرے وہ اللہ واحد قہار کو جھٹلاتا ہے ۔ اور ان کے بعض معاملات جن میں اکثر حکایاتِ کاذبہ ہیں، ارشادِ الہٰی کے مقابل پیش کرنا اہلِ اسلام کا کام نہیں ۔ (اعتقاد الاحباب:۴۳)



 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء علیہم السّلام نہ تھے ، فرشتے نہ تھے کہ معصوم ہوں ، ان میں بعض کے لیئے لغزشیں ہوئیں مگر ان کی کسی بات پر گرفت اللہ عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے خلاف ہے ۔ اللہ عزوجل نے سورۃ الحدید میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنین قبل فتحِ مکہ اور بعد فتحِ مکہ۔ اور اِن کو اُن پر فضیلت دی اور فرما دیا، وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی ’’سب سے اللہ نے بھلائی کا وعدہ فرما لیا‘‘ ساتھ ہی ارشاد فرمادیا،  وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر’‘  ’’اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرو گے‘‘۔ (سورہ الحدید:۱۰)


 تو جب اس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنت بے عذاب و کرامت وثواب کا وعدہ فرما چکے توکسی دوسرے کو کیا حق رہا کہ وہ ان کی کسی بات پر طعن کرے ۔ کیا طعن کرنے والا اللہ تعالیٰ سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ؟ (بہارشریعت حصہ۱:۷۷)



حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کے باہمی قتال پر جو دکھ اور صدمہ ہوا ، اس کا اندازہ اس روایت سے کیجیے : حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگِ جمل کے دن حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، کاش میں اس واقعہ سے بیس سال پہلے مر جاتا ۔ (ازالۃ الخفاء ج ۴:۵۳۶،حاکم)


 باوجود اختلاف ونزاع کے باہم محبت کا یہ حال تھا کہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ جَمَل کے متعلق پوچھا گیا ، کیا یہ لوگ مشرک ہیں ؟ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، نہیں ! یہ لوگ شرک سے دور بھاگتے ہیں ۔ پھر پوچھا گیا ، کیا یہ منافقین ہیں ؟ فرمایا ، نہیں ! منافقین تو اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت قلیل کرتے ہیں ۔ پوچھا گیا ، پھر یہ لوگ کون ہیں ؟ فرمایا ، یہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں ، جو ہمارے خلاف کھڑے ہوئے ۔ مگر مجھے امید ہے کہ ہم اُن لوگوں کی مثل ہو جائیں گے جن کے متعلق رب تعالیٰ کا ارشاد ہے، وَ نَزَ عْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِ ھِمْ مِنْ غِلٍّ ۔ (الاعراف ۴۳)’’اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیئے ، (جنت میں) اُن کے نیچے نہریں بہیں گی۔ اور کہیں گے ،سب خوبیا ںاللہ کو جس نے ہمیں اس کی راہ دکھائی ‘‘۔ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، مجھے امید ہے کہ میں ، عثمان ، طلحہ اور زبیر اُن میں سے ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (تفسیر خازن ، تفسیرمظہری ،ازالۃ الخفاء ج ۴:۵۲۲)



اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ یہی روایت نقل کر کے فرماتے ہیں ، ضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کے بعد بھی ، ان (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) پر الزام دینا عقل وخرد سے جنگ ہے ، حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ ہے اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے جنگ ہے ۔ العیاذ باللہ ۔ جب کہ تاریخ کے اوراق شاہدِعادل ہیں کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو جونہی اپنی غلطی کا احساس ہوا ، انہوں نے فوراً جنگ سے کنارہ کشی کر لی ۔ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مددگار کے ذریعے حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرلی تھی ۔ اور تاریخ سے ان واقعات کو کون چھیل سکتا ہے کہ جنگِ جمل ختم ہونے کے بعد مولا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا کے برادرِ معظم محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور دیکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خدانخواستہ کوئی زخم وغیرہ تو نہیں پہنچا ۔ بلکہ بعجلت تمام خود بھی تشریف لے گئے اور پوچھا ، آپ کا مزاج کیسا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ، الحمدللہ! اچھی ہوں ۔ مولا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ آپ کی بخشش فرمائے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا ، اور تمہاری بھی ۔ پھر مقتولین کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کی واپسی کا انتظام کیا اور پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں چالیس معزز عورتوں کے جھرمٹ میں ان کو حجاز کی جانب رخصت کیا ، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دور تک مشایعت کی ، ہمراہ رہے ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ میلوں تک ساتھ گئے ۔ چلتے وقت امالمومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجمع میں اقرار فرمایا کہ ، ’’مجھ کو علی رضی اللہ عنہ سے نہ کسی قسم کی کدورت پہلے تھی اور نہ اب ہے ۔ ہاں ساس داماد میں کبھی کبھی جو بات ہو جایا کرتی ہے اس سے مجھے انکار نہیں‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا ، ’’لوگو! عائشہ رضی اللہ عنہا سچ کہہ رہی ہیں ۔ خدا کی قسم ! مجھ میں اور ان میں ، اس سے زیادہ اختلاف نہیں ہے ۔ بہرحال خواہ کچھ ہو ، یہ دنیا و آخرت میں تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زوجہ مطہرہ ہیں‘‘۔ اللہ اللہ ! ان یارانِ پیکرِ صدق وصفا میں باہمی یہ رِفق ومؤدت اور عزت واکرام ، اور ایک دوسرے کے ساتھ تعظیم واحترام کا یہ معاملہ ۔ اوران عقل سے بیگانوں اور نادان دوستوں کی حمایتِ علی رضی اللہ عنہ کا یہ عالم کہ اُن پر لعن طعن کو اپنا مذہب اور شعار بنائیں اور اُن سے کدورت ودشمنی کو مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے محبت وعقیدت ٹھہرائیں ! ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ۔

(اعتقاد الاحباب:۷۰)


مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ائمہ حضرات کی آراء



امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (م150ھ) کا موقف : حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی من جملہ تصانیف میں ایک کتاب ”الفقہ الاکبر“بھی ہے ۔ اس کتاب میں آپ فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا . ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الابخیر . ہم سب صحابہ رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔


ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.


(شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)


یعنی گو بعض صحابہ کرام سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے ۔


الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں:


اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد . (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948)


اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔



امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ (م181ھ) کا فرمان : مشہور محدث، فقیہ،مجاہد اور زاہد امام عبداللہ بن مبارک اس سلسلے میں کس قدر محتاط تھے، اس کا اندازہ ان کے حسب ذیل قول سے لگایا جاسکتا ہے ، فرماتے ہیں : السیف الذی وقع بین الصحابۃ فتنۃ ولا اقول لاحد منہم مفتون . (السیر ج8ص405)


ترجمہ : صحابہ کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے ۔



امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(اس پاک فرقہ اہل سنّت و جماعت نے اپنا عقیدہ اور ) اتنا یقین کرلیا کہ سب ( صحابہ کرام) اچھے اور عدل و ثقہ، تقی، نقی ابرار (خاصانِ پروردگار ) ہیں۔ اوران ( مشاجرات ونزاعات کی) تفاصیل پر نظر گمراہ کرنے والی ہے، نظیر اس کی عصمتِ انبیاء علیہم الصلوۃ والثناء ہے کہ اہلِ حق ( اہلِ اسلام ، اہلسنت وجماعت) شاہراہِ عقیدت پر چل کر ( منزل) مقصود کو پہنچے ۔ اور ارباب ( غوایت واہل) باطل تفصیلوں میں خوض ( و ناحق غور) کرکے مغاک ( ضلالت اور) بددینی ( کی گمراہیوں) میں جا پڑے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص58)


مزید فرماتے ہیں : مشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت مرتضوی امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جنہوں نے مشاجرات و منازعات کیئے ۔ اور اس حق مآب صائب الرائے کی رائے سے مختلف ہوئے ، اور ان اختلافات کے باعث ان میں جو واقعات رُونما ہوئے کہ ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے مثلاً جنگ جمل میں حضرت طلحہ وزبیر و صدیقہ عائشہ اور جنگِ صفین میں حضرت امیر معاویہ بمقابلہ مولٰی علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہم)ہم اہلسنت ان میں حق ، جانب جناب مولٰی علی (مانتے) اور ان سب کو مورد لغزش) بر غلط و خطا اور حضرت اسد اللہّی کو بدرجہا ان سے اکمل واعلٰی جانتے ہیں مگر بایں ہمہ بلحاظ احادیث مذکورہ ( کہ ان حضرات کے مناقب و فضائل میں مروی ہیں) زبان طعن وتشنیع ان دوسروں کے حق میں نہیں کھولتے اور انہیں ان کے مراتب پر جوان کے لیے شرع میں ثابت ہوئے رکھتے ہیں، کسی کو کسی پر اپنی ہوائے نفس سے فضیلت نہیں دیتے۔ اور ان کے مشاجرات میں دخل اندازی کو حرام جانتے ہیں، اور ان کے اختلافات کو ابوحنیفہ و شافعی جیسا اختلاف سمجھتے ہیں۔ تو ہم اہلسنت کے نزدیک ان میں سے کسی ادنٰی صحابی پر بھی طعن جائز نہیں چہ جائیکہ اُمّ المومنین صدیقہ ( عائشہ طیبہ طاہرہ) رضی اللہ تعالٰی عنہا کی جناب رفیع اوربارگاہِ وقیع) میں طعن کریں، حاش ! یہ اللہ و رسول کی جناب میں گستاخی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 29 ص61)



صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے۔ تمام صحابہ کرام اسلام کے لیے مخلص، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے۔ ہم صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں‌ کو حق اور ناحق کے پلڑوں‌ میں‌ رکھنے کی جرات نہیں‌ کرسکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشادِ‌ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں ۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا ، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے ، صحابہ کرام کا نہیں ۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے ، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے ۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف النووی (المتوفی 676ھ) شرح صحیح مسلم میں رقم طراز ہیں : و مذهب أهل السنة و الحق إحسان الظن بهم و الإمساک عما شجر بينهم و تاويل قتالهم، و إنهم مجتهدون متأولون لم يقصد و امعصية ولا محض الدنيا، بل اعتقد و اکل فريق أنه المحق و مخلافه باغ فوجب قتاله لير جع الی أمر الله، وکان بعضهم مصيباً و بعضهم مخطئاً معذوراً في الخطأ لأنه بإجتهاد و لمجتهد إذاأ خطألا إثم عليه وکان علی رضی الله عنه هو المحق المصيب في ذلک الحروب هذا مذهب أهل السنة و کانت القضايا مشتبة حتی أن جماعة من الصحابة تحيرو ا فيها فاعتزلو االطائفتين ولم يقاتلو اولو تيقنو االصواب لم يتأ خرواعن مساعدته ۔


ترجمہ : اہلِ سنت اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ۔ ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ۔ وہ بلا شبہ سب مجتہد اور صاحب رائے تھے معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی ، بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ لڑائی ضروری ہے تاکہ وہ امر الٰہی کی طرف لوٹ آئے ، اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطا پر تھے ، مگر خطا کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطا پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہلِ سنت کا یہی موقف ہے ، یہ معاملات بڑے مشتبہ تھے یہاں تک کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جامعت اس پر حیران و پریشان تھی جس کی بنا پر وہ فریقین سے علیحدہ رہی اور قتال میں انہوں نے حصہ نہیں لیا ، اگر انہیں صحیح بات کا یقین ہو جاتا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معاونت سے پیچھے نہ رہتے ۔ (شرح صحيح مسلم، 2: 390، کتاب الفتن )



صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جو باہمی نزاعات اور مشاجرات ہوئے ہیں ان پر لب کشائی ہم مناسب نہیں سمجھتے ۔ تمام صحابہ کرام اسلام کےلیے مخلص ، اور حق گوئی و حق طلبی کے لیے کوشاں تھے۔ مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں بحث و تکرار سے گریز کرنا ضروری ہے ، کیونکہ اس کا نتیجہ سوائے خود کو شیطان کے حوالے کرنے کے اور کچھ نہیں ہے ، علمائے امت نے بتکرار اس سے خبردار کیا ہے ۔ ہم صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے مشّرف اور قابلِ صد احترام ہستیوں‌ کو حق اور ناحق کے پلڑوں‌ میں‌ رکھنے کی جرات نہیں‌ کرسکتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشادِ‌ گرامی ہے کہ میرے تمام صحابہ عادل ہیں ۔ عدالتِ صحابہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان سے بشری غلطیاں بالکل سرزد نہیں ہوئیں یا ان سے خطاؤں کا قطعاً وقوع نہیں ہوا ، یہ خاصہ ومنصب تو انبیا علیہم السلام کا ہے ، صحابہ کرام کا نہیں ۔ بلکہ حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ ان سے بشری غلطیوں کا صدور ہوا ہے ، مگر جب ان کومتنبہ کیا گیا تو فوراً وہ اس سے تائب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی کی ضمانت لی ہے ۔ جہاں تک اجتہادی خطاؤں کے صدور کا سوال ہے تو اس کے وقوع سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔



حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اور ان لڑائی جھگڑوں کو جو ان کے درمیان واقع ہوئے ہیں ، نیک محمل پر محمول کرنا چاہیے اور ہوا وتعصب سے دور سمجھنا چاہیے ۔ کیونکہ وہ مخالفتیں تاویل واجتہاد پر مبنی تھیں ، نہ کہ ہوا و ہوس پر ۔ یہی اہل سنت کا مذہب ہے ۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب: 251، دفترِ اول) ۔ مزید فرماتے ہیں : یہ اکابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صحبت کی تاثیر سے ہوا و ہوس ، کینہ و حرص سے پاک صاف ہوگئے تھے ۔ ان حضرات کے اختلافات کو دوسروں کی مصالحت سے بہتر سمجھنا چاہیے ۔ (مکتوب: 67 دفتر دوم)



اس کے برخلاف بدگوئی وفضول گوئی پھوٹ پیدا کرتی ہے ، جو شیطان کا کام ہے ، وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں میں غصہ، نفرت، عداوت، کینہ، حسد، نفاق کے بیج بوتا ہے ۔



صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ایسی مقدس و محترم جماعت کا نام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کی پوری امت کے درمیان اللہ رب العزت کا مقرر کیا ہوا واسطہ ہیں ۔ اس کے بغیر نہ قرآن کریم ہاتھ میں آسکتا ہے اور نہ ہی قرآن کا بیان جسے ہم سنت و حدیث سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انہیں خیر امت اور امت وسط کے لقب سے نوازا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی ان کو یہ ڈیوٹی اور ذمہ داری سونپ دی۔ فرمایا : بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً ۔ ترجمہ : میری طرف سے (امت کو) پہنچاؤ اگر چہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو ۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث3461 عن عبد اللہ بن عمرو) ۔ بلکہ حجۃ الوداع کے عظیم اجتماع میں اس جماعت کو مخاطب ہو کر فرمایا : فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ . ترجمہ : حاضرین میری باتیں غائبین تک پہنچادیں ۔ (صحیح البخاری: رقم الحدیث1741 عن ابی بکرۃ)



اس کا نتیجہ تھا کہ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کی تمام تر تعلیمات کو پوری دنیا میں پھیلایا جو ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے ذمہ لگائی تھی اس کا پورا پورا حق ادا کردیا ۔



امام عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : واللہ ان الغبار الذی دخل فی انف فرس معاویۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم افضل من عمر بالف مرۃ صلّٰی معاویۃ خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویہ رضی اللہ عنہ ربنا لک الحمد فما بعد ھذا الشرف الاعظم ۔


ترجمہ : اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی معیت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار عمر بن عبدالعزیز سے ہزار بار افضل ہے ، حضرت معاویہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پیچھے نمازیں پڑھیں آپ نے ”سمع اللہ لمن حمدہ“ فرمایا تو حضرت معاویہ نے ”ربنا لک الحمد“ کہا اس کے بعد اور بڑا فضل و شرف کیا ہوگا ؟ ۔ (مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر58 ص32ج1)



امام ابو جعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ (م321ھ) کی وضاحت : اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں ، موصوف اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں : نحب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ولا نفرط فی حب احد منہم ولا نتبرا من احد منہم و نبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکر ہم الا بخیر وحبہم دین وایمان و احسان وبغضہم کفر و نفاق وطغیان۔


ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہےہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ ص704 ج2 بیروت)



امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ مزید اس سلسلے میں فرماتے ہیں : ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وازواجہ الطاہرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد برئ من النفاق . ترجمہ : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے ، ازواج مطہرات کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپ کی مقدس آل و اولاد کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ ص490)



یعنی اہل سنت و جماعت ناصبیوں اور رافضیوں کے افراط و تفریط سے بچ کر سب سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہتے ہیں ۔



حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل نہ تھے



حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے ۔ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا ، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا، کسی صحابی نے آپ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں انکار ثابت ہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد امام بر حق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے ۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے ۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا ۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی ۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیئے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے ، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام رضی اللہ کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے ، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔ (تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260)



صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اہل سنت و جماعت کے جس عقیدے کی نشاندہی علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس کی وضاحت اوپر ائمہ کرام کے حوالے سے گزر چکی ہے البتہ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح جو انہوں نے فرمایا کہ ان معاملات میں ایک تیسرا فریق بھی تھا جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے علیحدہ رہا محل نظر ہے ۔ یہی فریق اکثریت میں تھا اور ان کی علیحدگی فتنہ سے بچنے کے لیئے تھی جیسا کہ باحوالہ گزر چکا ہے ۔



امام محی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف النووی رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 676ھ شرح مسلم میں رقم طراز ہیں : ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة ۔


ترجمہ : اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے ، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے ۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)


علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ یہ ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے ، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے ۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ یہ سبھی عادل ہیں، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے ۔


(شرح مسلم ص272 ج2)



اکثر صحابہ قتال سے علیحدہ کیوں رہے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ : اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قتال سے علیحدہ اس لیئے رہے کہ ان حروب میں حصہ نہ لینے کا سبب فتنہ سے بچاؤ کرنا تھا کیونکہ بہت سی نصوص میں باہمی خانہ جنگی کو فتنہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی بناء پر اس سے کنارہ کش رہے ۔ امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے بسند صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا : فتنہ رونما ہوا تو صحابہ کرام دس ہزار کی تعداد میں تھے ، ان میں سے ایک سو بلکہ تیس کے قریب شریک ہوئے ۔ ان کا یہی قول علامہ ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے جس کی سند کے بارے میں وہ لکھتے ہیں : ھذا الاسناد اصح اسناد علی وجہ الارض . یہ سند روئے زمین پر سب سے زیادہ صحیح ہے۔( منہاج السنہ ص147 جز6 قطربہ الشاملہ)



حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 852ھ فرماتے ہیں : والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ ۔


ترجمہ : ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ :ج7ص312الشاملہ)



حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر رقم طراز ہیں : واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين ۔


ترجمہ : اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا ۔ (فتح الباری ج13ص43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان)



علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ المتوفیٰ 861 شرح مسامرہ میں فرماتے ہیں : واعتقاد اہل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنہم وجوبا باثبات اللہ انہ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم والثناء علیہم کما اثنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ واثنی علیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما جری بین معاویۃ وعلی من الحروب کان مبنیا علی الاجتہاد لا منازعۃ فی الامامۃ ۔


ترجمہ : اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے اور اہل سنت ان کے بارے میں طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان سب کی مدح و ثناء بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ نے ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھی تعریف کی ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں، یہ جنگیں امامت و خلافت کے جھگڑا کی بناء نہ تھیں ۔ (المسامرہ بشرح المسایرہ ص259 باب الرکن الرابع الاصل الثامن)



حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ (م1176ھ) کا فیصلہ : حضرت شاہ ولی اللہ صاحب مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے اپنے انداز میں لکھتے ہیں : واما آن کہ حضرت عائشہ و طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم مجتہد مخطی معذور بودند ازاں قبیل کہ من اجتہد فقد اخطا فلہ اجر واحد پس ازاں جہت کہ متمسک بودند بشبہ ہر چند دلیل دیگر ارجح ازوی بعد و موجب آن شبہ دو چیز است الخ ۔


ترجمہ : رہا یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہم خطا کرنے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے تو وہ اس اعتبار سے معذور ہیں کہ انہوں نے شبہ سے استدلال کیا اگر چہ اس سے زیادہ راجح دوسری دلیل بھی موجود تھی، اس شبہ کا موجب دو چیزیں تھیں ۔ (ازالۃ الخفاء مترجم ج4ص521)



اس کے بعد انہوں نے ان دو شبہات کو بیان کیا ہے اور دونوں کے قرائن و دلائل بھی بیان کیے ہیں ۔ اس تفصیل کے بعد شاہ صاحب مزید فرماتے ہیں : انہی شبہات کی بناء پر ہی حضرت معاویہ اور حضرت علی کے مابین جنگ صفین ہوئی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں : واما آنکہ معاویہ مجتہد مخطی معذور بود پس ازاں جہت کہ متمسک بود بشبہ ہر چند دلیل دیگر در میزان شرح راجح تر ازاں بر آمد مانند آنچہ در قصر اہل جمل تقریر گردم باز یادات اشکال ۔


ترجمہ : اور رہا یہ کہ حضرت معاویہ مجتہد مخطی اور معذور تھے تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے اگرچہ دوسری دلیل بھی موجود تھی جو میزان شریعت میں اس سے زیادہ وزن رکھتی تھی ، اسی طرح جس کی تقریر ہم اہل جمل کے قصہ میں بیان کرچکے ہیں بعض اشکال کے اضافہ کے ساتھ ۔


گویا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اہل جمل سے بھی زیادہ اشکالات تھے جن کی بناء پر وہ حضرت علی کی بیعت نہ کرسکے اور بالآخر اس کا نتیجہ جنگ صفین کی شکل میں سامنے آیا ۔ ان اشکالات کی وجہ سے حضرت معاویہ بھی معذور تھے گو حضرت علی کا موقف ان سے راجح اور دلائل کے اعتبار سے زیادہ صحیح تھا ۔ وہ مزید اشکالات کیا تھے اس کی تفصیل شائقین حضرات ازالۃ الخفاء میں ملاحظہ فرمائیں ۔


مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تابعی رضی اللہ عنہ (متوفی 150ہجری) کا موقف



حضرت امام اعظم ابو حنیفہ تابعی رضی اللہ عنہ ”الفقہ الاکبر“ میں فرماتے ہیں : تولاہم جمیعا ۔ امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ایک نسخہ میں آخری الفاظ یوں ہیں : ولا نذکر احدا من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم الابخیر ۔


ترجمہ : ہم سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور کسی بھی صحابی کا ذکر بھلائی کے بغیر نہیں کرتے ۔



امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس کے شرح میں رقم طراز ہیں : وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم ۔


ترجمہ : گو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صورۃً شر صادر ہوا ہے مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کا شر سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے ۔ (شرح الفقہ الاکبر ص153 اردو مکتبہ رحمانیہ لاہور)



الفقہ الاکبر کے ایک اور شارح علامہ ابو المنتہی احمد بن محمد المگنیساوی لکھتے ہیں : اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ والثناء علیہم کما اثنی اللہ ورسولہ علیہم وما جری بین علی و معاویۃ کان مبنیا علی الاجتہاد ۔


ترجمہ : اہل سنت وجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ان کی اسی طرح تعریف کی جائے جیسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کی ہے اور جو حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان لڑائی ہوئی وہ اجتہاد کی بناء پر تھی ۔ (شرح الفقہ الاکبر مطبوعہ مجموعۃ الرسائل السبعہ حیدر آباد دکن 1948)



اما م ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہکے عقیدہ وعمل کے ترجمان ہیں ، آپ اپنی مشہور کتاب ”العقیدۃ الطحاویۃ“ میں لکھتے ہیں : نحب اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا نفرط فی حب احد منہم ولا نتبرا من احد منہم و نبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم ولا نذکر ہم الا بخیر وحبہم دین وایمان و احسان وبغضہم کفر و نفاق وطغیان ۔


ترجمہ : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں ، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے اور سرکشی ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ صفحہ نمبر 704 جلد نمبر 2 بیروت)



امام ابو جعفر طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں مزید فرماتے ہیں : ومن احسن القول فی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وازواجہ الطاہرات من کل دنس وذریاتہ المقدسین من کل رجس فقد برئ من النفاق ۔


ترجمہ : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے ، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپ کی مقدس آل و اولاد رضی اللہ عنہم کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے ۔ (شرح العقیدہ الطحاویہ صفحہ نمبر 490 جلد نمبر 2 بیروت)



اہل سنت و جماعت ناصبیوں ، خارجیوں اور رافضیوں کے افراط و تفریط سے بچ کر اہلبیت اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ہمیشہ اچھی بات کہتے ہیں ۔



جنگ جمل : جنگ جمل کا واقعہ نصف جمادی الاولیٰ یا عند البعض جمادی الثانی 36ھ میں پیش آیا تھا ۔ شہادت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا اور بیعت کی گئی تو اس میں حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ، دیگر اکابر صحابہ اور اہل مدینہ نے بھی بیعت کی۔ جب بیعت ہوچکی تو اس وقت حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر اکابر صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مطالبہ پیش کیا کہ آپ مسند خلافت پر تشریف فرماچکے ہیں اب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے متعلق انتطام فرمادیں کیونکہ اگر ہم شہید مظلوم کا انتقام نہ لیں اور فسادیوں کا قلع قمع نہ کریں تو اللہ تعالیٰ کے عتاب و غضب کے مستحق ٹھہریں گے تو اس مطالبہ کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ : ان ھولاء لہم مدد واعوان انہ لا یمکنہ ذلک یومہ ھذا . ترجمہ : ان لوگوں کو مدد گار اور حمایتی میسر ہیں اس لیے یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا حالات کے سازگار ہونے کے بعد یہ ہوسکے گا ۔ (البدایہ لابن کثیر ج7ص229 تحت ذکر بیعت خلافت علوی )



بہرحال اس جواب پر ان حضرات کو تشفی نہ ہوئی کیونکہ قاتلان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کر کے پناہ لی تھی جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے : وقاتلان بجز آنکہ پناہی بحضرت مرتضیٰ بردند با او بیعت کنند علامے نیافشند وکیف ماکان عقد بیعت واقع شد .


ترجمہ : قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ ملا کہ حضرت علی کی بیعت کریں اور اس کی پناہ میں آئیں جیسا کہ یہ معاملہ ہوا بھی، بہر کیف یہ بیعت منعقد ہوئی ۔ (قرۃ العینین ص143 طبع مجتبائی دہلی)



تو ان دو حضرات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کی غرض سے مکہ کا سفر شروع کیا ، جب مکہ پہنچے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اور امہات المومنین رضی اللہ عنھن بھی عمرہ کی غرض سے مکہ پہنچ چکی تھیں ۔ بعد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر حضرات مکہ تشریف لے گئے ۔ یوں مکہ میں صحابہ کرام ، امہات المومنین رضی اللہ عنہم اور دیگر حضرات کا اجتماع ہوا ، ان تمام کا مقصد ایک ہی تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا خون ناحق اور ظلما گرادیا گیا ہے اس لیئے ان کے قصاص کا مسئلہ سب سے پہلے طے ہونا چاہیئے اور مجرموں کو جلد سے جلد سزا ملنی چاہیئے ۔ اس سلسلے میں مختلف آراء سامنے آئیں ۔ بالآخر طے ہوا کہ اس سلسلے میں بصرہ پہنچنا چاہیے ۔ منشاء یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک کثیر جماعت اگر مطالبہ پر جمع ہوجائے تو امید ہے کہ فریق ثانی بھی اس کی طرف توجہ کرے گا اور باہمی موافقت کی صورت پیدا ہوجائے گی ۔ اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی شامل رہنے کی درخواست کی گئی تاکہ اصلاح کی کوئی صورت پیدا ہوجائے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں : فسارت معہم بقصد الاصلاح وانتظام الامور . (تفسیر روح المعانی ج22ص10) ۔ اس کے بعد بہت سارے حضرات ان اکابر (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے ساتھ شریک ہوگئے اور بصرہ کی طرف سفر شروع کیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اطلاع ملی تو انہوں نے بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی طرف سفر شروع کیا ۔ بصرہ کے قریب جب دونوں جماعتیں اپنے اپنے مقام پر پہنچیں تو بعض معتمد حضرات کے ذریعے مصالحت کی گفتگو جاری ہوئی ۔ اسی موقعہ پر حضرت قعقاع بن عمر التمیمی حضرت عائشہ اور ان کی جماعت کے پاس آئے اور عرض کیا : ای اُمُّہ ما اشخصک وما اقدمک ھذہ البلدۃ قالت: ای بنی! اصلاح بین الناس .


ترجمہ : حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اے ام المومنین! اس شہر میں آپ کا تشریف لے آنا کسی مقصد کے لیے ہے؟ تو ام المومنین نے فرمایا اے بیٹے !لوگوں کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کرنے کے لیئے ۔ (روح المعانی ج22ص9، 10 وقرن فی بیوتکن)


اس پر حضرت قعقاع رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کریں تاکہ مسلمانوں میں انتشار کی یہ فضا ختم ہوجائے اور اتفاق پیدا ہوجائے تاکہ حضرت عثمان کا بدلہ لینا آسان ہوجائے ۔


افہام و تفہیم کے اس بیان کے بعد حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد فرمایا : اصبت واحسنت فارجع الخ ۔


ترجمہ : آپ کی بات درست ہے ہم اس پر آمادہ ہیں۔ آپ جائیں (اور فریق ثانی کو اطلاع دیں) ۔ فرجع الی علی فاخبرہ فاعجبہ ذالک واشرف القوم علی الصلح کرہ ذالک من کرہہ ورضیہ من رضیہ وارسلت عائشۃ الی علی تعلمہ انہا انما جاءت للصلح ففرح ھولاء وھولاء . (البدایہ لابن کثیر ج7ص239 روح المعانی ج22 ص9، 10)


مختصر یہ کہ جب یہ اطلاع حضرت علی کو ملی تو بہت خوش ہوئے اور باقی لوگ بھی صلح پر متوجہ ہوئے۔ البتہ بعض لوگوں کو یہ چیز ناگوار گزری اور بعض کو پسند آئی۔ بہرحال فریقین نے صلح ومصالحت پر اتفاق ظاہر کیا ۔



اس موقعہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک تاریخی خطبہ دیا اور اس میں یہ بھی اعلان فرمایا کہ : الا وانی راحل غدا فارتحلوا الا ولا یرتحلن غدا احد اعان علی عثمان بشئی فی شئی من امور الناس . ہم کل یہاں سے روانہ ہوں گے (اور دوسرے فریق کے پاس جائیں گے) اور خبردار جس نے بھی حضرت عثمان کے قتل پر اعانت کی ہے وہ ہم سے الگ ہوجائے، ہمارے ساتھ نہ رہے۔(الفتنۃ وقعۃ الجمل لسیف بن عمر الضی ص147 البدایہ لابن کثیر ج7ص237)



جب یہ اعلان ہوا تو فتنہ انگیز پارٹی کے سربراہ شریح بن اوفیٰ ، علباء بن الہیثم، سالم بن ثعلبہ العبسی، عبداللہ بن سبا المعروف بابن السوداء وغیر ہ سخت پریشان ہوئے اور انہیں اپنا انجام تاریک نظر آنے لگا۔ قابل غور بات یہ تھی کہ اس پارٹی میں ایک بھی صحابی نہ تھا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : ولیس فیہم صحابی وللہ الحمد. ( البدایہ لابن کثیر ج7ص238) ۔ اس پارٹی نے ایک خفیہ مشورہ کے تحت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن باہم اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام رہا ۔


چنانچہ شیخ عبدالوہاب شعرانی لکھتے ہیں : فان بعضہم کان عزم علی الخروج علی الامام علی رضی اللہ عنہ وعلی قتلہ لما نادیٰ یوم الجمل بان یخرج عن قتلۃ عثمان الخ . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77) ۔ بہرحال یہ دشمن تو اپنے اس مذموم عمل میں ناکام رہے، ادھر دونوں جماعتیں دو مقام پر جمع ہوئیں۔ حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ ”زابوقہ“ کے مقام پر پہنچے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جماعت کے ساتھ ”ذاقار“ کے مقام پر تشریف لائے۔ قعقاع کے میدان میں فریقین کی صلح ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین کو شرعی سزا دینے پر راضی ہوگئے اور دوسری جماعت (حضرت طلحہ وغیرہ) بیعت پر راضی ہوگئے اور اس صلح پر کوئی شک نہ رہا ۔



وہم لا یشکون فی الصلح . (الفتنۃ وقعۃ الجمل ص155 روح المعانی ج22ص9، 10)


ان حالات میں تمام حضرات نے خیر اور سلامتی سے رات گذاری لیکن مفسدین اور قاتلین عثمان پوری رات فتنہ کھڑا کرنے کی تدابیر میں مصروف رہے آخر کار تاریکی میں دفعۃ لڑائی کرادینے پر ان کا اتفاق ہوگیا ۔



اس واقعہ جمل کو علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تفسیر احکام القرآن میں سورۃ الحجرات کی آیات کے تحت اس طرح بیان فرمایا ہے : قلت : فهذا قول في سبب الحرب الواقع بينهم. وقال جلة من أهل العلم : إن الوقعة بالبصرة بينهم كانت على غير عزيمة منهم على الحرب بل فجأة ، وعلى سبيل دفع كل واحد من الفريقين عن أنفسهم لظنه أن الفريق الآخر قد غدر به ، لأن الأمر كان قد انتظم بينهم ، وتم الصلح والتفرق على الرضا. فخاف قتلة عثمان رضي الله عنه من التمكين منهم والإحاطة بهم ، فاجتمعوا وتشاوروا واختلفوا ، ثم أتفقت آراؤهم على أن يفترقوا فريقين ، ويبدأوا بالحرب سحرة في العسكرين ، وتختلف السهام بينهم ، ويصيح الفريق الذي في عسكر علي : غدر طلحة والزبير. والفريق الذي في عسكر طلحة والزبير : غدر علي. فتم لهم ذلك على ما دبروه ، ونشبت الحرب ، فكان كل فريق دافعا لمكرته عند نفسه ، ومانعا من الإشاطة بدمه. وهذا صواب من الفريقين وطاعة لله تعالى ، إذ وقع القتال والامتناع منهما على هذه السبيل. وهذا هوالصحيح المشهور. والله أعلم.


اس کا مفہوم یہ ہے کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کردی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ والو ں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے ۔ (تفسیر قرطبی ج16ص318، 319)


اس کو جنگ ”جمل“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ آخر کار اس لڑائی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت غالب آگئی اور دوسرے فریق کے اکابر حضرت زبیر اور حضرت طلحہ وغیرہم شہید ہوگئے اور یہ فریق مغلوب ہوگیا ۔ اس کے بعد امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے ام المؤمنین کو حفاظتی انتظام کے ساتھ لایا گیا ۔ حضرت علی نے سلام عرض کیا اور خیریت دریافت کی ، حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : میں بخیریت ہوں ، اس کے بعد چند ایام بصرہ میں گزارنے کے بعد جب حجاز کی طرف سفر کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ضروریات سفر مہیا کر کے بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ روانہ فرمایا ۔ چونکہ یہ واقعہ دشمنوں کی ناپاک حرکتوں کی وجہ سے سرزد ہوا اس لیئے اس واقعہ پر دونوں فریقین کی طرف سے اظہارِ افسوس روایات بھی منقول ہیں ۔


حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اظہار افسوس : عن قیس بن عبادۃ قال قال علی یوم الجمل یا حسن لیت اباک مات منذ عشرین سنۃ فقال لہ یا ابہ قد کنت انہاک عن ھذا قال یا بنی انی لم ار ان الامر یبلغ ھذا. (البدایہ لابن کثیر ج2ص240)


حضرت ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اظہار افسوس : فقالت انما ارید ان یحجز بین الناس مکانی قالت ولم احسب ان یکون بین الناس قتال ولو علمت ذالک لم اقف ذالک الموقف ابدا. (مصنف عبدالرزاق ج5ص475 غزوات ذات السلاسل وخیر علی و معاویہ )


ترجمہ : حضرت ام المومنین سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرا خیال تھا کہ میں اپنے مقام و مرتبہ کی بنا پر لوگوں کے درمیان جنگ و قتال سے مانع ہوں گی اور مجھے یہ گمان ہی نہ تھا کہ لوگوں کے درمیان لڑائی واقع ہوگی ۔ اگر یہ بات مجھے پہلے معلوم ہوتی تو میں اس مقام پر ہرگز نہ پہنچتی ۔


ام المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراضات کے جوابات



جنگ جمل میں شرکت کی وجہ سے حضرت سیدہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو سطحی قسم کے اعتراضات کیے گئے ہیں ذیل میں ان میں سے کچھ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے :



اعتراض نمبر 1 : قرآن پاک میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کو اپنے گھر میں ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا ہے حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں شرکت کر کے قرآن مجید کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے ۔


اس اعتراض کا جواب : مشہور مثال ہے ”المعترض کالاعمیٰ“ یہی حال مذکورہ اعتراض کرنے والوں کا بھی ہے ۔ سورۃ الاحزاب کی آیت کریمہ ”و قرن فی بیوتکن ولا تبرجن“ میں استقرار فی البیوت کا جو حکم دیا گیا ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک خاص نوعیت اور کیفیت کے ساتھ ہے اور وہ جاہلیت کی رسم کے مطابق زیب و زینت کے ساتھ بغیر پردے کے گھر سے باہر نکلنا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کے قول کے مطابق اگر امہات المومنین کو گھروں سے نکلنا منع ہوتا تو وہ درج ذیل احکام شرع پر کیسے عمل کرتیں حالانکہ بالاتفاق مندرجہ ذیل احکام ان کے حق میں بھی وارد ہوئے ہیں اور انہوں نے یہ امور سر انجام بھی دیئے ہیں :


(1) حج و عمرہ کے لیے جانا


(2) غزوات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا


(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے وقت اپنے حجروں سے نکل کر عیادت کے لیے حضرت عائشہ کے حجرہ مقدسہ میں جانا


(4) فوت شدگان کی تعزیت کے لیے جانا


(5) والدین اور اقارب کی ملاقات کے لیے تشریف لے جانا


(6) عیادت مریض کے لیے تشریف لے جانا


(7) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جب امہات المومنین سفر حج کے لیے جانے لگیں تو ان کے ساتھ محافظ کے طور پر سیدنا عثمان غنی اور سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف کو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے روانہ کیا۔


(روح المعانی ج22 ص12 تحت الایہ قرن فی بیوتکن)


اس سے معلوم ہوا کہ ازواج مطہرات کا اپنے گھروں سے نکلنا مطلقا منع نہ تھا، اس لیے امہات المومنین مذکورہ بالا امور شرعیہ کو پوری زندگی سر انجام دیتی رہیں اور دینی معاملات کو پورا کرنے کے لیے تستر اور حجاب کے ساتھ گھروں سے نکلتی رہیں اور آج گئے گزرے دور میں بھی پردہ نشین عورتیں ستر وحجاب کی پابندیوں کے ساتھ سفر کے لیے نکلتی ہیں خاص طور پر وہ سفر جو دینی، ملی یا دنیاوی مصالح پر مبنی ہو جیسے حج و عمرہ اور جہاد وغیرہ ۔


جنگ جمل کے موقع پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ایک دینی مصلحت یعنی اصلاح بین الناس اور مطالبہ قصاص ازخلیفہ عادل کے لیئے سفر اختیار فرمایا تھا جو کہ بالکل صحیح تھا اور اس کا جواز حج و عمرہ کی طرح ہے۔ چنانچہ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بھی اس نوعیت کا تھا کہ مسلمانوں میں باہم رخنہ پڑگیا تھا اس کی اصلاح ہو اور امام عادل کے قتل کے قصاص کے مطالبہ میں سب مسلمان متفق اور شریک ہوں... آپ کا یہ سفر حج و عمرہ کے سفر کی مانند تھا ۔ (تحفہ اثنا عشریہ ص630 عالمی مجلس تحفظ اسلام کراچی)



اعتراض نمبر 2 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر بغیر محرم کے تھا لہذا ، عند الشرع صحیح نہ تھا ۔


اس اعتراض کا جواب : یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس لیئے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ سفر ایک نیک مقصد کے لیئے تھا اور شرعی محارم کے ہمراہ تھا، علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ام المؤمنین کے ساتھ آپ کی بہنوں ؛ حضرت اسماء اور ام کلثوم کے صاحبزادے اس سفر میں موجود تھے ۔ امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دریں سفر عبداللہ بن زبیر ہمشیرہ زادہ حقیقی وے ہمراہ وے بود وطلحہ بن عبیداللہ شوہر خواہرش ام کلثوم بنے ابی بکر وزبیر بن العوام شوہر خواہر دیگرش بود اسمائ بنت ابی بکر واولاد ایں ہر دو نیز ہمراہ بود ۔ (تحفہ اثناء عشریہ ص330 طبع لاہور در تحت جواب طعن اول)


نیز عظیم مفسر سید محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : وکان معہا ابن اختہا عبداللہ بن الزبیر وغیرہ من ابناء اخواتہا ام کلثوم زوج طلحہ واسماء زوج الزبیر بل کل من معہا بمنزلۃ الابناء فی المحرمیۃ وکانت فی ہودج من حدید ۔ (روح المعانی ج22ص10 تحت الایۃ وقرن فی بیوتکن) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اماں جی رضی اللہ عنہا کا یہ سفر محارم کے ساتھ ہوا تھا۔ اس لیے یہ اعتراض ساقط الاعتبار ہے ۔



اعتراض نمبر 3 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ قتال حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عناد اور عداوت کی وجہ سے کیا تھا اور اس میں ناکامی کی وجہ سے بعد میں شرمندگی کا اظہار کرتی تھیں اور رویا کرتی تھیں ۔ نیز یہ اعتراض حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی عائد ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں حضرات کو بھی حضرت علی کی خلافت سے شدید عداوت تھی، حضرت عثمان کے قصاص کا مطالبہ ایک بہانہ تھا ۔


اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں :


(1) : یہ اعتراض بھی جہلاء نے اہلِ بیتِ رسول سے بغض و عداوت کی وجہ سے وضع کیا ہے حالانکہ اہل بیت رسول کے ساتھ امیر المومنین سیدنا علی اور دیگر اصحاب رسول کا بہت ہی اچھا برتاؤ تھا اور اہل بیت بھی حضرت علی المرتضی اور اصحاب رسول سے محبت و مودت کا تعلق رکھتے تھے (رضی اللہ عنہم ) ۔


(2) : واقعہ جمل پر صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ندامت اور افسوس کا اظہار نہیں کیا بلکہ امیر المومنین محبوب المسلمین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس واقعہ پر اظہار افسوس اور متاسفانہ کلام منقول ہے ذیل میں دو حوالے درج کیے جاتے ہیں : (1) سید محمود آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فقد صح انہ رضی اللہ عنہ لما وقع الا نہزام علی من مع ام المومنین وقتل من قتل من الجمعین طاف فی مقتل القتلیٰ کان یضرب فخذیہ ویقول : یا لیتنی مت من قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (روح المعانی جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 11)


(2) امام المحدثین حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت امیر قتلی را ملاحظہ فرمود، را نہائے خود را کوفتن گرفت و مے فرمود یالیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا . (تحفہ اثناء عشریہ ص335)


مذکورہ دونوں حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جب جمل کے مقتولین پر نظر ڈالی تو اس وقت بے ساختہ طور پر اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ کاش میں اس سے قبل فوت ہوگیا ہوتا اور بھلا دیا گیا ہوتا ۔ کیا معترضین اب حضرت علی کے بارے میں بھی وہی کہیں گے جو انہوں نے اماں جی کے بارے میں کہاہے بلکہ اس مقام پر حضرت علی المرتضی کے کلام سے جو مراد لیا گیا ہےحضرت عائشہ کے فرمان میں بھی اسی قسم کا کلام پایا گیا ہے اور اس کا مقصد و محمل بھی وہی ہے ۔


(3) حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور دیگر صحابہ کرام کا واقعہ جمل کے بعد اس پر تاسف کرنا اور پریشان ہونا خشیت الہی اور تقوی کی بناء پر تھا اور مسلمانوں کے باہم قتال اور افتراق بین المسلمین پر تھا۔ اس سے جانبین کی باہمی عداوت اور عناد کا تصور قائم کرنا اصل کلام کے محمل سے بعید تر ہے اور مقصد کلام کے خلاف ہے اور توجیہ القول بمالا یرضی بہ القائل کے قبیل سے ہے ۔



اعتراض نمبر 4 : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ جمل کے سفر میں نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بلکہ اس پر جمی بھی رہیں وہ اس طرح کہ اہل تشیع کی عام روایات اور اہل السنۃ کی بعض روایات میں ہےکہ حضرت عائشہ کا لشکر مکہ سے بصرہ کی طرح جب عازم سفر ہوا تو راستہ میں ایک ایسے مقام سے گزرا جہاں پانی تھا تو وہاں کتوں نے بھونکنا شروع کردیا ۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ یہ کونسامقام ہے ؟ تو محمد بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس جگہ کو ”حوآب“ کہتے ہیں۔ یہ سن کر آپ فرمانے لگیں کہ ”ردونی“ مجھے واپس لے چلو کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی ازواج مطہرات سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ تم میں سے اس کا کیا حال ہوگا جس پر حوآب کے کتے بھونکیں گے۔ اس پر حضرت طلحہ و زبیر اور لشکر کے دیگر نے تحقیق کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ مقام ماء الحوآب نہیں ہے ۔ لوگوں کی شہادت کے بعد حضرت عائشہ نے پھر آگے سفر شروع کردیا ۔ اس روایت کی بناء پر مخالفین صحابہ سیدہ پر سخت معترض ہوئے کہ انہوں نے اس فرمان نبوی کی علانیہ مخالفت کی اور بصرہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ۔


اس اعتراض کا جواب : اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جاسکتا ہے


(1) روایت کے اعتبار سے (2) درایت کے اعتبار سے ۔


روایت کے اعتبار سے :


(1) : مستند کتب احادیث میں یہ روایت نہیں ہے ۔


(2) : واقعہ کی اکثر سندوں کا آخری راوی قیس بن ابی حازم ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ شخص منکر الحدیث ہے اور اس سے کئی منکر روایات مروی ہیں جن میں سے ایک روایت ”کلاب الحوآب“ بھی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن الحجر العسقلانی تحریر کرتے ہیں : قال ابن المدینی قال لی یحیی بن سعید: قیس بن ابی حازم منکر الحدیث ثم ذکر لہ یحیی احادیث مناکیر منہا حدیث کلاب الحوآب.


( تہذیب التہذیب ج8ص388 تحت قیس بن ابی حازم)


(3) : اس واقعہ کی بعض روایات میں عبدالرحمان بن صالح ازدی پایا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء رجال نے تصریح کی ہے کہ یہ جلنے والا شیعہ ہے اور صحابہ کرام کے حق میں مثالب و مصائب کی بری روایات بیان کرتا ہے اور کوفہ کے مشہور غالی جلنے والے شیعوں میں سے ہے ۔ (الکامل لابن عدی ج4ص1627 تحت عبدالرحمان بن صالح، العلل المتناہیہ فی الاحادیث الواہیۃ لامام ابن الجوزی ج2ص366)


(4) : عظیم محقق مولانا محمد نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس واقعہ کی عام روایات عموما عند المحدثین سقیم پائی جاتی ہیں اور بیشتر علماء کےنزدیک اس واقعہ کی روایت منکر و مجروح ہیں ۔ (سیرت سید علی المرتضی ص241)


(5) : واقعہ حوآب مورخین کے نزدیک کوئی متفق علیہ امر نہیں ہے کہ جس کا انکار کرنا مشکل ہو کیونکہ قدیمی مورخین میں سے اکثر نے اس واقعہ کو اس مقام میں ذکر ہی نہیں کیا شہادت کے طور پر ہم فریقین کے ایک ایک مؤرخ کا فقط نام ذکر کرتے ہیں : (1) خلیفہ بن خیاط م240ھ ۔ (2) صاحب اخبار الطوال احمد بن داود دینوری شیعی م282ھ ۔ بعض مورخین نے اس واقعہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی سند انتہائی کمزور اور مجروح ہے مثلا مورخ الطبری نے اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس کی سند علماء فن کے نزدیک مجروح ہے۔ مثلا :


(1) طبری کا استاد اسماعیل بن موسی فزاری ہے جو غالی شیعہ ہے


(2) پھر اس کا استاد علی بن عابس الرزاق بالکل غیر معتبر ہے۔


(3) اس کے بعد دو راوی ابو الخطاب الہجری اور صفوان بن قبیصہ الاحمسی دونوں مجہول ہیں ۔


(4) پھر ان سے اوپر والے راوی صاحب الجمل العرنی اور اس کے بعد العرش کو ایک سوار ملتا ہے العرنی اور سوار دونوں مجہول ہیں ۔


خلاصہ یہ ہے کہ طبری کی یہ روایت مذکورہ بالا کوائف کی وجہ سے بالکل بے حکم ہے، ہرگز قابل اعتماد نہیں ہے، بعد والے لوگوں نے طبری سے ہی نقل کی ہے ۔


درایت کے اعتبار سے : اگر بالفرض ”روایت حوآب “کو درست تسلیم کر لیا جائے اور علماء کی تنقیدات سے صرف نظر کرلیا جائے تب بھی درایت کے اعتبار سے جواب یہ ہے کہ پیش کردہ روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عامر کے پانیوں سے گزرنے سے منع نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ خود حضور صلی ا للہ علیہ وسلم نے اپنے ازواج مطہرات کو بطور پیش گوئی یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں ایک کو یہ مصیبت پیش آئے گی جو بعد میں صحیح ثابت ہوئی۔ اس حدیث سے نہی سمجھنا اور مخالفت رسول پر اصرار اور ضد کی نسبت سیدہ صدیقہ کی طرف کرنا بالکل غلط ہے اور سیدہ اس اعتراض سے بری ہیں ۔ ﴿جنگِ صفین﴾


بلادِشام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام ”صفین “ ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔ یہ محرم 37ھ کا واقعہ ہے ۔


فریقین کا موقف : حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا ۔ (البدایہ لابن کثیر ج8ص127تحت ترجمہ معاویہ)


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کےگئے ہیں اور ان کے قاتلین علوی جیش میں موجود ہیں، لہذا ان سے قصاص لیاجائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے ۔


واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا . (الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی ص 70)


حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی ۔ (فتح الباری ج3ص246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)


ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف ص 158،159)


مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں ۔


حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرت رضی اللہ عنہ طرف سے جو رائے تھی وہ درج ذیل ہے : لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ . (کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان ص216)


لہذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے ۔ فریقین کے موقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تاآنکہ یہ واقعہ پیش آیا ۔


ایک اشکال مع جواب : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتاہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیوں کیا ؟


اس کا جواب خود شیعہ کتب میں موجود ہے : ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ . ( کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی ص 153 مطبوعہ نجف)


یعنی دم ِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے ۔


اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں : فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیام گاہ سے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی ۔ (البدایہ ج7ص253،258 سیر اعلام النبلاء للذھبی ج3ص93)


لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین ۔ (فتح الباری ج13ص73)


جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے ۔


ان کی صحیح تعداد اللہ کومعلوم ہے۔ جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :


فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.(البدایہ ج7ص271)


البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت خزیمہ بن ثابت ، رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھےاور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا، حضرت ذوالکفل اور حوشب رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں سے شہید ہوئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون


بعض مورخین کے قول کے مطابق بدھ ، جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37ھ کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔( البدایہ ج7ص261)


آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمروبن العاص فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے ۔ (تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ ج 1ص173،174 العبر للذھبی ج1ص43)



اعتراض نمبر 5 : مخالفین کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا ۔


جواب : اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دوتین درج کیے جاتے ہیں :


(1) جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب وشتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط ،یحیی، ابو جناب یحیی بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔


(2) بعض اوقات کلام میں الفاظ توسختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کردیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی ۔


(3) اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ ”والمحرم مقدم علی المبیح“ کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی ۔



مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ



امام حافظ ابو الفضل امام احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی المتوفیٰ 852 ہجری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والظن بالصحابۃ فی تلک الحروب انہم کانوا فیہا متاولین وللمجتہد المخطی اجر واذا ثبت ھذا فی حق احادی الناس فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الاولیٰ ۔


ترجمہ : ان لڑائیوں میں صحابہ کرام کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہےتو صحابہ کرام کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ ۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 312 الشاملہ)



امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اسی بحث کے ضمن میں ایک مقام پر فرماتے ہیں : واتفق أهل السنة على وجوب منع الطعن على أحد من الصحابة بسبب ما وقع لهم من ذلك ولو عرف المحق منهم لأنهم لم يقاتلوا في تلك الحروب الا عن اجتهاد وقد عفا الله تعالى عن المخطئ في الاجتهاد بل ثبت أنه يؤجر أجرا واحدا وان المصيب يؤجر أجرين ۔


ترجمہ : اہل سنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین واقع ہونے والے حوادث کی بناء پر ان میں کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع سے اجتناب واجب ہے اگر چہ یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں صحابی رضی اللہ عنہ کا موقف موقف حق تھا کیونکہ انہوں نے ان لڑائیوں میں صرف اپنے اجتہاد کی بناء پر حصہ لیا اور اللہ نے مجتہد مخطی کو معاف فرمادیا ہے بلکہ یہ بات ثابت ہے کہ مجتہد کے اجتہاد میں خطا ہوجائے تب بھی اسے ایک گنا اجر ملے گا اور جس کا اجتہاد درست ہوگا اسے دو گنا اجر ملے گا ۔ (فتح الباری جلد 13 صفحہ 43 کتاب الفتن باب ا اذا التقیٰ المسلمان)



حضرت عثمان غنی کے قتل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل نہ تھے



حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے اور مظلوم شہید ہوئے ۔ اللہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بالفعل ان کے قتل کرنے سے محفوظ رکھا ، ان کو شہید کرنے والا متعنت شیطان تھا ، کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے قتل پر رضا مندی کا اظہار ثابت نہیں بلکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس بارے میں انکار ثابت ہے ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مسئلہ اجتہادی تھا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ قصاص ضرور لیں گے لیکن تاخیر سے لیں گے اسی میں مصلحت ہے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رائے یہ تھی کہ قصاص جلدی لینے میں مصلحت ہے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا اور ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک اجر کا مستحق ہوگا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ بر حق حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء تاویل کرتے تھے اور ان میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل تھے جو معاملہ مشتبہ ہونے کی وجہ سے فریقین سے علیحدہ رہے اور کسی ایک فریق کے ساتھ ملنے سے رک گئے ۔ ہر ایک نے اپنے اجتہاد پر عمل کیا ۔ وہ تمام حضرات عادل تھے اور دین کو نقل کرنے والے تھے ۔ نیز وہ دین پر عمل کرے والے تھے ۔ انہی کی تلوار سے دین غالب ہوا اور انہی کی زبانوں سے دین پھیلا ۔ اگر ہم ان آیات کی تلاوت کریں اور ان احادیث کو بیان کریں جو ان کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں تو بات لمبی ہوجائے گی ۔ یہ چند کلمات ایسے ہیں کہ جو ان کے خلاف عقیدہ رکھے گا وہ گمراہی اور بدعت میں مبتلا ہوگا دیندار آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں اس بات کو پختہ کرے ، جو واقعات (مشاجرات) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان رونما ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان کو روکے رکھے ، یہ وہ خون ہے کہ اس سے اللہ جل شانہ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک و صاف رکھا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو اس سے آلودہ نہ کریں ۔ (تحریر الاصول مع شرح تقدیر الاصول ج2ص2260)



امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م676 ہجری) شرح مسلم میں فرماتے ہیں : ومذهب أهل السنة والحق إحسان الظن بهم والامساك عما شجر بينهم وتأويل قتالهم وأنهم مجتهدون متأولون لم يقصدوا معصية ولامحض الدنيا بل اعتقد كل فريق أنه المحق ومخالفة باغ فوجب عليه قتاله ليرجع إلى أمر الله وكان بعضهم مصيبا وبعضهم مخطئا معذورا فى الخطأ لأنه لاجتهاد والمجتهد إذا أخطأ لا إثم عليه وكان على رضى الله عنه هو المحق المصيب فى تلك الحروب هذا مذهب أهل السنة ۔


ترجمہ : اہل سنت اور اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے ، ان کے آپس کے اختلافات میں خاموشی اور ان کی لڑائیوں کی تاویل کی جائے ، وہ بلا شبہ مجتہد اور صاحب رائے تھے ، معصیت اور نافرمانی ان کا مقصد نہ تھا اور نہ ہی محض دنیا طلبی پیش نظر تھی بلکہ ہر فریق یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرا باغی ہے اور باغی کے ساتھ قتال ضروری ہے تاکہ وہ امر الہی کی طرف لوٹ آئے ۔ اس اجتہاد میں بعض راہ صواب پر تھے اور بعض خطاء پر تھے اور خطاء کے باوجود وہ معذور تھے کیونکہ اس کا سبب اجتہاد تھا اور مجتہد خطاء پر بھی گنہگار نہیں ہوتا ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ ان جنگوں میں حق پر تھے اہل سنت کا یہی موقف ہے ۔ (شرح صحیح مسلم ص390 ج2 کتاب الفتن باب اذا التقی المسلمان بسیفہما)



امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے تھوڑی سی تفصیل سے اہل سنت و جماعت کا یہی موقف انہوں نے کتاب فضائل الصحابہ کے اوائل میں بیان کیا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :



امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بالاجماع صحیح ہے ، اپنے وقت میں وہ خلیفہ تھے ان کے علاوہ کسی کی خلافت نہیں تھی ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عادل فضلاء اور نجباء صحابہ میں سے تھے ۔ ان کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں اس کی وجہ یہ شبہ تھا کہ ان میں سے ہر ایک گروہ اپنی حقانیت کا اعتقاد رکھتا تھا ۔ یہ سبھی عادل ہیں ، جنگوں اور دیگر اس قسم کے معاملات میں متاول ہیں ان میں سے کوئی چیز ان میں سے کسی کو عدالت سے خارج نہیں کرتی اس لیے کہ وہ سب مجتہد تھے ۔ (شرح مسلم ص272 ج2)



محترم قارئین : فقیر نے انتہائی دیانتداری اور مہذب انداز میں مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ مختصر چار مضامین لکھے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے غلطیوں کا امکان موجود ہے اہل علم جہاں کہیں غلطی پائیں اس فقیر کو ضرور آگاہ فرمائیں ـ


اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ و اہلبیت رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطاء فرمائے بے ادبی و گستاخی سے بچائے آمین ۔




Post a Comment

0 Comments