آج دھوکہ دہی لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے، جب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔
اس میں دنیاوی اور اخروی دونوں طرح کے نقصان ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔(البقرہ:۹)
وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر در اصل وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ۔
یخادعون ’’خدع‘‘ سے مشتق ہے جس کا لغوی معنیٰ چھپانا اور اصطلاحی معنیٰ دھوکہ دینا ہے۔
امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
معناہ: یخادعون رسول اللہ کما قال یؤذون اللہ ای اولیااللہ۔
اس کے معنیٰ ہیں وہ رسول اللہﷺ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا :
بے شک وہ اللہ کو اذیت دیتے ہیں، اس سے مراد اولیا ہیں،
یعنی اللہ کے محبوب بندوں کو اذیت دیتے ہیں۔
امام نسفی نے تفسیر مدارک میں ایک لطیف بات کہی ہے، فرماتے ہیں:
بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نسبت منافقین کی مخادعت کو اپنی مخادعت قرار دے کر آپ کا درجہ اور قدر ومنزلت بلند فرمادیاہے۔
یہ آیت اسی طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے محبوب بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں در حقیقت وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔(تفسیر نسفی، تحت آیت مذکورہ بالا)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے:
اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلیٰ صُبْرَۃِ طَعَامٍ فَاَدْخَلَ یَدَہٗ فِیْھَا، فَنَالَتْ اَصَابِعُہٗ بَلَلاً فَقَالَ: مَا ہٰذَا یَا صَاحِبَ الطَّعَامِ؟ قَالَ اَصَابَتْہُ السَّمَائُ یَارَسُوْلَ اللہِ۔ قَالَ: اَفَلاَ جَعَلْتَہٗ فَوْقَ الطَّعَامِ کَیْ یَراہُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَیْسَ مِنِّی۔ (مسلم، ص۶۵، حدیث:۱۰۱)
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا ۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیک وسلم! آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”
عہد توڑنے والے کے لیے قیامت میں ایک جھنڈا اٹھایا جائے گا اور پکارا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے۔“
(صحیح بخاری بَابُ مَا يُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ حدیث نمبر: 6178)
رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے،
اس پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہو گا نہ نفل۔‘‘
(بخاری، کتاب الجزیۃ والموادعۃ، باب اثم من عاھدثم غدر، ج۲،ص۳۷۰، حدیث۳۱۷۹)
عہد کی پاسداری کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے اور غدر یعنی بدعہدی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔‘
(الحدیقۃ الندیۃ،الخلق الحادی والعشرون۔۔۔الخ،ج۱،ص۶۵۲)
غدر یعنی بدعہدی کا ایک سبب دھوکہ بھی ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیل فعل کی مذمت پر غور کرے کہ جو لوگ دھوکہ دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں۔
یقیناً دھوکہ دینا اور دھوکہ کھانا کسی مسلمان کی شان نہیں ، دھوکہ دہی سے کام لینے والا بالآخر ذلت سے دوچار ہوتاہے، جب لوگوں پر اس کی دھوکہ دہی کا پردہ چاک ہوجاتا ہے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، دھوکہ دینے والا شخص رب عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں بھی ندامت وشرمندگی سے دوچار ہوگا۔
قرآن وحدیث میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دھوکہ دینے بد عہدی کرنے کی سخت مذمت کی ہے ۔آج کے دور میں لوگ دوسروں کے خلاف سازش اور مخفی منصوبہ بندی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اس ترقی کے دور میں کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو چھپے انداز میں۔ یہ دھوکہ بازی لوگوں کی طبیعتوں میں اتنی تیزی کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے کہ ان کا پورا کرداروعمل اسی سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے۔اس بلا میں گرفتار ہونے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآنی تعلیمات اور نبوی ارشادات پر عمل کے حوالے سے ہم کوسوں دور ہیں۔ اگر قرآن وحدیث پر ہمارا ایمان کامل ہوتا تو اس طرح کی ذلیل حرکت ہم سے ہرگز صادر نہ ہوتی۔
دھوکہ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے ـ
(۱) اللہ عز وجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے احکام کی بجا آوری نہ کرنا۔
(۲) والدین اور عزیز واقارب کو دھوکہ دینا
(۳) خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکہ دینا
(۴) کارو بار اور منفعت کے لیے دھوکہ دہی کرنا۔
اسلام نے ان تمام صورتوں سے منع کیا ہے۔ ہمارے لیےلازم ہے کہ ہم قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ دونوں جہاں میں سرخرو اور تابناک ہوسکیں۔
0 Comments