نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر اور دعا کرنا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارٸینِ کرام : نماز کے بعد ذکر بالجہر کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ افضل بھی ہے ۔
عن ابی سعيد الخدری رضی الله عنه رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : أکثروا ذکر ﷲ تعالی حتی يقولوا مجنون ۔
ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہیں ۔ (ابن حبان، الصحیح، 3 : 99، رقم : 817)
اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے پر لوگ تبھی دیوانہ کہیں گے جب لوگ سنیں گے اور سن اسی وقت سکتے ہیں جب ذکر بالجہر ہو گا ۔
عن ابن عباس رضی الله عنهما قال : قال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم أذکروا ﷲ ذکرا يقول المنافقون إنکم تراؤون.
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا ذکر اس قدر کرو کہ منافق تمہیں ریا کار کہیں ۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، 12 : 169، رقم : 12786)
اس حدیث پاک میں بھی واضح طور پر ذکر بالجہر ہی کی بات کی گئی ہے کہ جس پر منافق ریا کار کہیں ۔
عن جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنهما أن رجلا کان يرفع صوته بالذکر فقال رجل لو أن هذا إخفض من صوته فقال رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فإنه آواه قال فمات فرأی رجل نارا فی قبره فاتاه فاذا رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فيه وهو يقول هلموا الی صاحبکم فاذا هو الرجل الذی کان يرفع صوته بالذکر ۔
ترجمہ : حضرت جابر بن عبدا للہ رٰ اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا، ایک آدمی نے کہا : اگر یہ آدمی اپنی آواز پست رکھتا (تو بہتر ہوتا) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ مست ہے راوی کہتا ہے کہ وہ شخص انتقال کر گیا پس ایک شخص اس کی قبر میں روشنی دیکھ کر اس کے قریب آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں (پہلے سے) موجود تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اپنے اس ساتھی کی طرف آؤ جو بلند آواز سے ذکر کیا کرتا تھا ۔ (الحاکم، المستدرک، 1 : 522، رقم : 1361)
یعنی بلند آواز سے ذکر کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مروج تھا ۔
نماز کے بعد ذکر کرنے کا حکم قرآن و حدیث اور اقوالِ فقہائے کرام سے ثابت ہے اس کی بڑی فضیلت ہے اور اس میں بڑی برکت ہے حیلے بہانوں سے اسے منع کرناقبیح بدعت اور گناہ ہے قرآنِ کریم میں ہے : فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔
ترجمہ : پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔(سورہ الجمعۃ، 62 : 10)
پھر ایک مقام پر یوں ارشاد فرمایا : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ۔
ترجمہ : اے ایمان والو! تم اللہ کا کثرت سے ذکر کیا کرو ۔ (سورہ الاحزاب، 33 : 41)
مانعینِ ذکر اور قرآن
مسجدوں میں ﷲ کے ذکر سے منع کرنے والے کو قرآن نے ظالم کہا ہے : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُوْلَـئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلاَّ خَآئِفِينَ لهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔
ترجمہ : اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے ، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے ۔ (سورہ البقرہ، 2 : 114)
معلوم ہوا کہ اللہ کی نظر میں سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کے ذکر سے منع کرے ۔ منع اسی وقت کرے گا جب آواز سنے گا اور آواز اسی وقت سنے گا جب بلند آواز سے ذکر کیا جائے گا جو دل میں ذکر کرے اس کی آواز تو اللہ ہی سنتا ہے کسی دوسرے کو کیا معلوم کہ یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جب دوسرے کو پتا ہی نہیں تو منع کیسے کرے گا ؟ یہ قرآن کی آیت ہے اس پر بار بار غور کریں اور منع کرنے والے سے بھی سوال کریں ۔
ذکرِ الٰہی اطمنانِ قلب کا ذریعہ : أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ۔
ترجمہ : جان لو کہ ﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔ (الرعد، 13 : 28)
إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ ۔
ترجمہ : شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے ۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آو گے ؟ ۔ (سورہ المائدۃ، 5 : 91)
مانعین ذکر تنگدل ہیں
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۔
ترجمہ : اور جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے، دل تنگ ہو جاتے ہیں ان کے جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ۔ (سورہ الزمر، 39 : 45)
مانعین ذکر پر رزق کی تنگی : وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ۔
ترجمہ : اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے۔ (سورہ طہ، 20 : 124)
عن ابن عباس رضی الله عنه قال کنت أعرف إنقضاء صلٰاة رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بالتکبير ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز سے فراغت اللہ اکبر کی آواز سن کر معلوم کرتا تھا ۔ (بخاری، الصحیح، 1 : 288، الرقم : 806)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ان رفع الصوت بالذکر حين ينصرف الناس من المکتوبة کان علی عهد نبی صلی الله عليه وآله وسلم وقال ابن عباس کنت أعلم إذا بذلک إذا سمعته ۔
ترجمہ : بلند آواز سے ذکر کرنا، جب لوگ فرض نماز سے فارغ ہو جائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھا اور ابن عباس رضی ﷲ عنہ نے فرمایا میں اس کی آواز سن کر معلوم کر لیتا تھا کہ نماز ہو گئی ہے ۔ (مسلم، الصحیح، 1 : 410، الرقم : 583)
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی صحیحین میں باب الذکر بعد الصلاۃ (نماز کے بعد ذکر کرنے کا بیان) پر ابواب قائم کیے ہیں، اوریہ ثابت کیا ہے کہ نماز کے بعد ذکر کرنا نہ صرف جائز، مستحب اور مسنون ہے ۔ انہوں نے حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نقل کی جا میں وہ فرماتے ہیں: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں فرض نماز کے بعد بآواز بلند ذکر معروف تھا ۔ حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ (بچپن میں اپنے گھر میں) جب میں اِس ذکر کی آواز سنتا تو جان لیتا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکے ہیں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب صفة الصلاة، باب الذکر بعد الصلاة، 1 : 288، رقم : 805)(مسلم الصحيح کتاب المساجد باب الذکر بعد الصلاة، 1 : 410، رقم : 583)
اِسی طرح حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ رضی الله عنه يَقُوْلُ فِي دُبُرِ کُلِّ صَلَاةٍ حِيْنَ يُسَلِّمُ : لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيئٍ قَدِيْرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاﷲِ لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُوْنَ ۔ وَقَالَ : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ کُلِّ صَلَاةٍ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہر نماز میں سلام پھیرنے کے بعد کہا کرتے تھے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے بادشاہی ہے ، اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غالب آنے والا اور قوت رکھنے والا نہیں اور ہم سوائے اس کے کسی کی عبادت نہیں کرتے اس کے لئے تمام نعمتیں ہیں اور اسی کے لیے فضل اور تمام اچھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کا دین خالص ہے اگرچہ کافروں کو یہ ناگوار گزرے ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب المساجد، باب استحباب الذکر بعد الصلاة وبيان صفته، 1 : 415، رقم : 594)(أبو داود، السنن، کتاب الوتر، باب ما يقول الرجل إذا سلم، 2 : 82، رقم : 1506، 1507)(نسائي، السنن، کتاب السهو، باب عدد التهليل والذکر بعد التسليم، 3 : 70، رقم : 1340)
امامِ شافعی رحمة اللہ علیہ مسند شافعی میں اپنی سند سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد ﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کَانَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اِذَا سَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ يَقُوْلُ بِصَوْتِهِ الْاَعْلٰی : لَا اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ وَحْدَه لَا شَرِيکَ لَه لَهُ الْمُلْکُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ لَا اِلٰهَ اِلَّا ﷲُ وَلَا نَعْبُدُ اِلَّا اِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا ﷲُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے پڑھتے : اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ، اسی کے لئے بادشاہی ہے ، اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی غالب آنے والا اور قوت رکھنے والا نہیں اور ہم سوائے اس کے کسی کی عبادت نہیں کرتے اس کے لئے تمام نعمتیں ہیں اور اسی کے لیے فضل اور تمام اچھی تعریفیں ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اسی کا دین خالص ہے اگرچہ کافروں کو یہ ناگوار گزرے ۔ (مسند شافعی 44، 45)
اس حدیث مبارکہ کے تحت ذکر بالجہر کے جواز میں امام طحطاوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : فرض نمازوں کے بعد ذکر بالجہر کرنا جائز ہے ۔ (طحطاوی، مراقی الفلاح : 174)
علاوہ ازیں اِجتماعی طور پر ذکر بالجہر کرنا بھی حدیث مبارکہ سے ثابت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ میرے متعلق جیسا خیال رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں ۔ جب وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے دل میں میرا ذکر (ذکر خفی) کرے تو میں بھی تنہا اس کا ذکر (ذکر خفی) کرتا ہوں، اور اگر وہ جماعت میں میرا ذکر (ذکر جلی) کرے تو میں اس کی جماعت سے بہتر جماعت میں اس کا ذکر (ذکر جلی) کرتا ہوں ۔ اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک آئے تو میں ایک بازو کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں ۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دو بازؤوں کے برابر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔ (بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول ﷲ تعالی : کل شیء هالک إلا وجهه، 6 : 2694، رقم : 6970)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے ذکر بالجہر کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ ذکر بالجہر کی دو اقسام ہیں :
ذکرِ مُتَوَسَّط
ذکرِ مُفْرَط
ذکر متوسط سے مراد ایسی درمیانی درجہ کی آواز سے کیا گیا ذکر ہے جو دوسروں کے لیے باعثِ خلل نہ ہو۔جبکہ ذکر مفرط سے مراد بہت ہی بلند آواز سے ذکر کرنا جو کہ دوسروں کے لیے باعثِ تکلیف ہو ۔
بہتر یہی ہے کہ نماز کے بعد ذکر بالجہر متوسط کرنا چاہیے اور اسی پر تمام علماء کرام کا اتفاق ہے۔ اِس لیے ذکر بالجہر متوسط جائز اور مستحب ہے تاکہ حدیث شریف پر بھی عمل ہو اور دوسروں کے لیے باعثِ زحمت بھی نہ ہو ۔
حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتا ہے : (1)عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی علیہ و آلہ کی نماز کا اختتام تکبیر (اللہ اکبر) سے پہچان لیتا تھا ۔ (البخاری ٨٤٢ , مسلم ١٢٠ / ٥٨٣ ولفظہ ” كنا نعرف انقضاء صلوة رسول الله صلى الله عليه و سلم بالتكبير ” امام ابو داود نے اس حدیث پر ” باب التکبیر بعد الصلوة ” کا باب بھاندا ہے ( قبل حدیث ١٠٠٢)
حاشیہ : لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ (فرض ) نماز کے بعد امام اور مقتدیوں کو اونچی آواز سے اللہ اکبر کہنا چاہئے , یہی حکم منفرد کے لے بھی ہے ” ان رفع الصوت بالذکر ” میں الذکر سے مراد ” التکبیر ” ہی ہے جیسا کہ بخاری وغیرہ سے ثابت ہے , اصول میں یہ مسلم ہے کہ ” الحدیث یفسر بعضه بعضاًَ ” یعنی ایک حدیث دوسرے حدیث کی تفسیر کرتی ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ کی نماز کا ختم ہونا معلوم نہیں ہوتا تھا مگر تکبیر (اللہ اکبر سننے) کے ساتھ۔(مسلم ١٢١ / ٥٨٣)(مختصر صحیح نماز نبوی – شیخ زبیر علی زائی / باب نماز کے بعد اذکار / صفحہ نمبر 255)
بعد نماز بلند آواز سے ذکر کو بدعت اور ذکر کرنے والوں کو بدعتی کہنے والو تمہارے فتوے کی زد میں کون کون آیا ؟
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ مراۃ شرح مشکواۃ میں لکھتے ہیں : باب الذکر بعد الصلوۃ ، نماز کے بعد ذکر کا باب (1)
الفصل الاول ، پہلی فصل
(1) اس ذکر سے مراد حمد الٰہی ، درود شریف اور تمام دعائیں ہیں۔تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ بعد نماز خوب اونچی آواز سے ذکر اﷲ کرنا سنت ہے جیسا کہ آئندہ احادیث میں آرہا ہے۔اس میں اختلاف ہے کہ جن فرائض کے بعد سنتیں ہیں ان کے بعد ذکر وغیرہ کرے یا نہ کرے،صحیح یہ ہے کہ کرے مگر مختصر ۔
959 -[1] (مُتَّفق عَلَيْهِ)
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم بِالتَّكْبِيرِ ۔
روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرماتے ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونا تکبیر سے پہچانتا تھا (1) ۔ (مسلم،بخاری)
(1) یعنی میں زمانہ نبوی میں بہت کم عمر تھا اس لیے کبھی کبھی جماعت میں حاضر نہ ہوتا مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ نمازکے بعد اتنی بلند آواز سے تکبیریں کہتے تھے کہ گھروں میں آواز پہنچ جاتی تھی اور ہم پہچان لیا کرتے تھے کہ نماز ختم ہوگئی ۔ بعض مشائخ ہر نماز کے بعد بلند آواز سے تین بار کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں ، پنجاب میں فجر اور عشاء کے بعد اونچی آواز سے درود شریف پڑھا جاتا ہے ان سب کا ماخذ یہی حدیث ہے بلکہ مسلم شریف میں ہے کہ نمازوں کے بعد ذکر بالجہر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عہد میں عام مروج تھا۔اس کی پوری بحث ہماری کتاب"جاءالحق"حصہ اول میں دیکھو،یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں"وَاذْکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً" اس لیے کہ آیت میں اخفاء کی نمازوں کی تلاوت مراد ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس ذکر بالجہر سے ان نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے جو اپنی فوت شدہ رکعتیں پوری کررہے ہیں مگر ان کا یہ قیاس حدیث کے مقابل ہے،نیز وہ لوگ تشریق کی تکبیروں اور حاجی کے تلبیوں اور حرم شریف کی نمازوں میں کیا کریں گے کہ ان سب میں بڑا شور ہوتا ہے ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکواۃ المصابیح جلد دوم)
نماز کے سلام کے بعد ذکر اور دعا کرنا
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے : حدثنامحمدبن کثیراخبرناسفیان ح وحدثنااحمدبن یونس حدثنازائدۃح وحدثنامسدد حدثنا ابوالاحوص ح وحدثنامحمدبن عبیدالمحاربی وزیادبن ایوب قالاحدثناعمربن عبیدالطنافسی ح وحدثناتمیم بن المنتصراخبرنااسحاق یعنی ابن یوسف عن شریک ح وحدثنااحمدبن منیع حدثنا حسین بن محمدحدثناحدثنااسرائیل کلھم عن ابی اسحاق عن ابی الاحوص والاسود عن عبداللہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کان یسلم عن یمینہ وعن شمالہ حتی یری بیاض خدہ السلام علیکم ورحمۃاللہ السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی دائیں طرف اوراپنی بائیں طرف سلام کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے رخسارہ کی سفیدی نظرآتی ۔ (اوران کلمات سے سلام فرماتے) السلام علیکم ورحمۃاللہ، السلام علیکم ورحمۃاللہ ۔ اس حدیث کوامام ابوداؤد نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۵۴۸) امام ترمذی نے اپنی جامع میں (حدیث نمبر۲۷۲) امام نسائی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۵۰۳۱) امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۴۰۹) امام احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں (حدیث نمبر۶۱۵۳) روایت فرمایا)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَیْدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِیدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِیِّ، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ، اسْمُہُ شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللہِ، عَنْ أَبِی أَسْمَاء ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ : کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہِ اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا وَقَالَ:اللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ قَالَ الْوَلِیدُ: فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِیِّ: کَیْفَ الْاسْتِغْفَارُ؟ قَالَ:تَقُولُ:أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ " ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار پڑھا کرتے اور یوں دعا فرماتے : اللّٰہُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ، تَبَارَکْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ حضرت ولید فرماتے ہیں کہ میں نے امام اوزاعی سے دریافت کیا کہ استغفار کیسے پڑھا کرتے تھے ؟ فرمایا: أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ، أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ ۔ (صحیح مسلم، ج1کِتَابُ الْمَسَاجِدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّکْر بَعْدَ الصَّلوٰۃ، ص463حدیث1235)،(ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ بَعْدَ السَّلَام، ص276، حدیث976)
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عِیسَی، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَکِ، أَخْبَرَنَا مَالِکُ بْنُ مِغْوَلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَکَمَ بْنَ عُتَیْبَۃَ، یُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مُعَقِّبَاتٌ لَا یَخِیبُ قَائِلُہُنَّ – أَوْ فَاعِلُہُنَّ – دُبُرَ کُلِّ صَلَاۃٍ مَکْتُوبَۃٍ، ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ تَسْبِیحَۃً، وَثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ تَحْمِیدَۃً، وَأَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ تَکْبِیرَۃً ۔
ترجمہ : حضرت کعب بن عُجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا: ان کلمات کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے والا کبھی محروم نہیں رہتا۔ 33مرتبہ سُبْحٰنَ اللّٰہ 33مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ 34مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر ۔ (صحیح مسلم، ج1کِتَابُ الْمَسَاجِدبَابُ اسْتِحْبَابِ الذِّکْر بَعْدَ الصَّلوٰۃ، ص468حدیث1250)
نماز کے بعد دعاء کرنا
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَہْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی حَفْصُ بْنُ مَیْسَرَۃَ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ، عَنْ عَطَاء بْنِ أَبِی مَرْوَانَ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ کَعْبًا حَلَفَ لَہُ بِاللَّہِ الَّذِی فَلَقَ الْبَحْرَ لِمُوسَی إِنَّا لَنَجِدُ فِی التَّوْرَاۃِ: أَنَّ دَاوُدَ نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَانَ إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِہِ قَالَ: اللَّہُمَّ أَصْلِحْ لِی دِینِی الَّذِی جَعَلْتَہُ لِی عِصْمَۃً، وَأَصْلِحْ لِی دُنْیَایَ الَّتِی جَعَلْتَ فِیہَا مَعَاشِی، اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوذُ بِعَفْوِکَ مِنْ نِقْمَتِکَ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ، قَالَ: وَحَدَّثَنِی کَعْبٌ، أَنَّ صُہَیْبًا حَدَّثَہُ، أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُہُنَّ عِنْدَ انْصِرَافِہِ مِنْ صَلَاتِہٖ ۔
ترجمہ : ابی مروان نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ حضرت کعبؓ نے اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا کہ اس اللہ کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کے لئے دریا کو چیر دیا۔ ہم نے توریت میں دیکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام جب نماز سے فارغ ہوتے تو یوں دعاء فرماتے : اے اللہ! میرے لئے میرا دین سنوار دے جس کو تو نے میری حفاظت کا سبب بنایا ہے اور میری دنیا سنوار دے جس میں تو نے میری روزی پیدا کی ہے۔ اے اللہ! میں تیری خوشنودی کے ساتھ تیرے غصے سے اور تیری معافی کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔ جو چیز تو عطا کرے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روکے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں۔ اور تیرے فیصلے کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور کسی کی دولت اسے تیرے عذاب سے نہیں بچا سکتی ، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ (راوی حدیث) نے بیان فرمایا کہ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نماز کے بعد یہ دعا فرمایا کرتے ۔ (سنن نسائی، ج1، کِتَابُ السَّہْو، باب الدُّعَاء عِنْدَ الِانْصِرَافِ مِنَ الصَّلَاۃِ، ص414-15)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِیٍّ، قَالَ:حَدَّثَنَا یَحْیَی، عَنْ عُثْمَانَ الشَّحَّامِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ أَبِی بَکْرَۃَ، قَالَ:کَانَ أَبِی یَقُولُ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِ:اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، فَکُنْتُ أَقُولُہُنَّ، فَقَالَ أَبِی: أَیْ بُنَیَّ، عَمَّنْ أَخَذْتَ ہَذَا؟ قُلْتُ عَنْکَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُہُنَّ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِ ۔
ترجمہ : حضرت مسلم بن ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نماز کے بعد یہ دعا فرماتے اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ ۔ ترجمہ : اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں کفر اور محتاجی اور عذاب قبر سے ) میں نے بھی نماز کے بعد ایسا کرنا شروع کر دیا۔ میرے والد نے مجھ سے دریافت فرمایا اے بیٹے ! تم نے یہ کہاں سے سیکھا ؟ میں نے کہا آپ سے ۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نماز کے بعد یوں ہی دعا فرماتے تھے ۔ (سنن نسائی، ج1، کِتَابُ السَّہْو، باب التَّعَوُّذِ فِی دُبُرِ الصَّلَاۃِِ، ص415)
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِی شَیْبَۃَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَبَابَۃُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ مُوسَی بْنِ أَبِی عَائِشَۃَ، عَنْ مَوْلًی لِأُمِّ سَلَمَۃَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ: إِذَا صَلَّی الصُّبْحَ حِینَ یُسَلِّمُ اللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَیِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا ۔
ترجمہ : حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم صبح کی نماز کے بعد یوں دعا فرماتے : ’’اللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا طَیِّبًا، وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا‘‘(ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع اور پاک رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں ) ۔ (سنن ابن ماجہ، ج1، اَبْوَاب اِقَامَتِ الصَّلوٰۃ، باب مَایَقُوْلُ بَعْدَ السَّلَام، ص275، حدیث973) ، فی الزوائد رجال إسنادہ ثقات یعنی زوائد میں ہے کہ اس کے اسناد کے رجال ثقہ ہیں۔ اور شیخ ناصر البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 Comments