درسِ قرآن موضوع آیت : اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ
***********************************
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ۔ (سورۃ فاتحہ آیت نمبر 4)
ترجمہ : ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔
محترم قارئینِ کرام : اِس آیتِ مبارکہ میں تقدیم مفعول مفید حصر ہے ۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں ۔ تیرے غیر کی نہ عبادت کرتے ہیں اور نہ تیرے غیر سے مدد چاہتے ہیں۔ عبادت کے معنی ہیں بندگی۔ بندگی کا مفہوم ہے، غایت تذلل اور خشوع و خضوع، دوسرے لفظوں میں غایت تعظیم سے بھی اسے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ جس کا تعلق محض اعتقاد سے ہے ۔ بعض لوگ عبادت کے معنی میں اعتقاد کو شامل نہیں کرتے ، بلکہ محض اعمال کو عبادت قرار دیتے ہیں۔ وہ سخت غلطی پر ہیں۔ اگر عبادت کے معنی میں اعتقاد کا اعتبار نہ کیا جائے اور محض عمل کو عبادت قرار دے دیا جائے تو سجدہ تحیت و تعظیم اور سجدہ عبادت سب کا ایک ہی حکم ہو، کیونکہ ہر صورت میں عمل صرف سجدہ ہے۔ لیکن بالاجماع غیر اللہ کے لئے سجدہ تحیت و تعظیم محض نا جائز و حرام ہیں اور سجدہ عبادت شرک خالص ہے۔ یہ فرق نیت اور اعتقاد کے بغیر نہیں نکل سکتا۔ ثابت ہوا کہ عبادت اعتقاد قلبی کے بغیر نہیں ہوتی ۔ رہا فقہاء کرام کا بعض اعمال کو غیر اللہ کی عبادت قرار دے کر حکم تکفیر جاری کرنا، تو یاد رہے کہ وہ تکفیر فقہی ہے، کلامی نہیں، فقہاء کی بحث عمل سے ہوتی ہے۔ اعتقاد ان کا مبحث نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی تعظیم اس کی عبادت نہیں، بلکہ غایت تعظیم عبادت ہے۔ اس لئے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا : وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ۔ جب شعائر اللہ کی تعظیم ان کی عبادت کے بجائے قلوب کا تقویٰ ٹھہری تو اللہ کے وہ مقرب اور محبوب بندے، جن کے ساتھ شعائر دین وابستہ ہیں، کی تعظیم ان کی عبادت کیونکر قرار پا سکتی ہے؟ بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ محبوبانِ خدا تعالیٰ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے تو یقینا صحیح اور درست ہو گا ۔
استحقاقِ عبادت
پوجا ، بندگی ، غایت تعظیم انتہائے تذلل و خشوع و خضوع اور عبادت کا مستحق وہی ہو سکتا ہے جو اپنے وجود میں مستقل بالذات ہو، کسی کا محتاج نہ ہو۔ جس کا وجود واجب بالذات ہو گا، وہ اپنے ہر کمال اور اپنی ہر صفت میں بھی استقلالِ ذاتی سے متصف ہو گا۔ یعنی اس کا کوئی کمال اور کوئی صفت کسی کی دی ہوئی نہ ہو گی بلکہ اس کے تمام کمالات و صفات بمقتضائے ذات ہوں گے۔ جو موجود یہ شان نہیں رکھتا وہ عبادت کے لائق نہیں ہو سکتا ۔ ظاہر ہے کہ یہ شان صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی واجب الوجود ہے اور اپنے ہر کمال میں مستقل بالذات ہے۔ لہٰذا عبادت کے قابل وہی اور صرف وہی ہے۔ اسکے سوائے کسی کو معبود ٹھہرانا گویا اسے واجب الوجود اور ہر صفت میں مستقل بالذات ماننا ہے۔ اگرچہ اس ماسویٰ اللہ کو معبود ٹھہرانے والا اس کے حق میں وجوب وجود اور استقلالِ ذاتی کا عقیدہ نہ رکھتا ہو، لیکن جب وہ اسے الٰہ اور معبود سمجھتا ہے تو گویا وہ اسے واجب الوجود مستقل بالذات بھی قرار دیتا ہے۔ کیونکہ معبود برحق کا ان صفات سے متصف نہ ہونا عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشرک قرار دیا جو اپنے باطل معبودوں یعنی بتوں کو اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ کہ باوجود انہیں مخلوق تسلیم کرنے کے بھی انہیں معبود مانتے تھے۔ مخلوق کا معبود ہونا عقل و شرع کی رو سے قطعاً محال اور ممتنع ہے اور شرک ہمیشہ امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد ہی ہوا کرتا ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس محال عقلی کے معتقدین کو مشرک قرار دیا ۔
استعانت کے معنی ہیں طلب عون یعنی مدد مانگنا، جس طرح عبادت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی، اسی طرح استعانت بھی اسی معبودِ حقیقی کے ساتھ خاص ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عبادت میں حقیقی مجازی کی تقسیم محال اور یہاں ممکن بلکہ واقع ہے۔ یعنی معبود مجازی محال ہے اور مستعان مجازی ممکن، بلکہ واقع ہے ۔
ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ استحقاقِ عبادت کیلئے استقلالِ ذاتی شرط ہے۔ جب استقلالِ ذاتی غیر کے حق میں متصور نہیں تو غیر کی معبودیت کسی اعتبار سے ممکن نہیں، البتہ استعانت میں دو پہلو نکل سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مستعان مستقل بالذات ہو، دوسرے یہ کہ اسے کسی کی مدد کرنیکی قدرت غیر مستقلہ خدا کی طرف سے عطا کیجائے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ کسی بندے کو غیر مستقل قدرت عطا کر دے اور جو چیز تحت قدرت ہو وہ ممکن بالذات ہوتی ہے۔ اور کسی امر ممکن کا اعتقاد کسی صورت میں شرک نہیں ہو سکتا ۔
بعض لوگ اللہ کے مقبول بندوں کو قضائے حاجات کا وسیلہ بنانا بھی شرک سمجھتے ہیں، وہ بڑی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ بھی سخت غلطی پر ہیں، جن کے نزدیک خدا تعالیٰ کے محبوب بندوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی قدرت غیر مستقلہ کا اعتقاد بھی شرک ہے۔ ہم ابھی عرض کر چکے ہیں کہ جب تک کسی امر ممتنع لذاتہ کا اعتقاد نہ ہو شرک نہیں ہو سکتا۔ اور ظاہر ہے کہ کسی کا وسیلہ ہونا ممکن ہے۔ اسی طرح قدرتِ غیر مستقلہ کی عطا بھی محال نہیں، تو ایسی صورت میں یہ دونوں اعتقاد کیسے شرک ہو سکتے ہیں۔ ہاں، البتہ عطائے الوہیت اور قدرتِ مستقلہ کا دینا عقلاً محال ہے ۔ اس لئے جو شخص کسی مخلوق کے حق میں یہ اعتقاد رکھے گا کہ معاذ اللہ ، اللہ تعالیٰ نے اس کو الوہیت کا درجہ عطا کر دیا، مستقل قدرت دے دی، وہ قطعاً مشرک قرار پائے گا۔ کیونکہ اس نے ایک ایسے امر کا اعتقاد کیا ، جو عقلاً اور شرعاً ہر طرح محال اور ممتنع بالذات ہے ۔
ہمارے اس بیان سے وہ تمام شکوک و شبہات رفع ہو گئے ، جنہیں بعض لوگ ناسمجھی کی وجہ سے پیش کر دیا کرتے ہیں۔ مثلاً ان کا یہ کہنا کہ قضائے حاجات میں کسی بزرگ کو خدا کے دربار میں وسیلہ بنانا اس لئے شرک ہے کہ مشرکین عرب بھی اپنے بتوں کو خدا کے دربار میں وسیلہ ہی بناتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مشرک قرار دیا ۔
اس کا ازالہ ہمارے بیان سے ہو گیا۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو محض اس لئے مشرک قرار نہیں دیا کہ وہ اپنے بتوں کو اللہ کے دربار میں وسیلہ سمجھتے ہیں (اگرچہ پتھر کے بتوں کو وسیلہ سمجھنا عقل سلیم کی روشنی میں قطعاً محال ہے) بلکہ انہیں اس لئے مشرک قرار دیا کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے۔ کسی چیز کو وسیلہ قرار دے کر اس کی عبادت کرنا یقینا شرک ہے۔ یعنی وسیلہ بنانا شرک نہیں بلکہ اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ مشرکین عرب کا اپنے بتوں کی عبادت کرنا، اسی آیت میں مذکور ہے جس میں ان کے وسیلہ بنانے کا ذکر ہے ۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے ان کا مقولہ اس طرح بیان فرمایا : وَمَا نَعْبُدُہُمْ اِلَّا لِیُقِرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ۔
ترجمہ : ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیں ۔
بے شک بتوں کا مقرب الی اللہ ہونا قطعاً باطل ہے لیکن مدار شرک ان کی عبادت پر ہے ، توسل پر نہیں ۔
نظام عالم پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس جہان کا پورا نظم و نسق مخلوق کے باہم امداد و اعانت پر چل رہا ہے۔ ایک کو دوسرے سے فائدہ پہنچنا اور آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا گویا قانونِ فطرت ہے۔ کیونکہ زمین سے لے کر آسمان تک، موجوداتِ کائنات میں ارتباط پایا جاتا ہے۔ اس قانون کے بغیر ممکن نہیں ، بالخصوص بنی نوع انسان کا گزارہ تو اس کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر کسی مخلوق سے مدد لینا ناجائز ہو تو انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے ۔
مثال کے طور پر انسان کے ایک فرد کو لیجئے اور دیکھیے کہ اس کی ضروریاتِ زندگی کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ سب سے پہلے اس کی ولادت پر نظر کیجئے کہ والدین کے بغیر پیدا نہیں ہوا۔ پیدائش کے بعد اس کی تربیت والدین اور دیگر افراد سے متعلق ہے۔ وہ اپنی غذا، لباس، رہائش و دیگر امور میں بے شمار چیزوں کا محتاج اور لا تعداد افراد کا مرہونِ منت ہے۔ بچپن سے لے کر جوانی اور بڑھاپے سے تک بلکہ پیدائش سے موت تک اور مہد یعنی گود سے لے کر لحد تک ہر مرحلے پر دوسروں کی امداد و اعانت سے وابستہ ہے ۔
اس کو غذا کیلئے غلہ کی ضرورت ہے ۔ لباس کیلئے کپڑے اور جوتے کی حاجت ہے۔ بیمار ہو جائے تو علاج کیلئے طبیبوں، ڈاکٹروں اور دواؤں کا محتاج ہے۔ رہنے کے لئے مکان اور اس کی تعمیر کیلئے کاریگروں اور مزدوروں کی ضرورت ہے ۔ غلہ کی پیداوار کاشتکاروں کے عمل سے متعلق ہے ، آٹا پیسنے کے لئے چکی اور روٹی پکانے کے لئے باورچی کی ضرورت ہے اور کپڑا سینے کے لئے درزی کی حاجت ہے۔ جوتے کے لئے چمڑا اور چمڑے سے جوتا بنانے کے لئے کاریگر کا ہونا لازمی ہے۔ دواؤں کے حصول کے لئے ہر مرحلہ پر سینکڑوں قسم کے کارکنوں کی ضرورت درپیش ہے۔ چلنے کے لئے زمین، سانس لینے کے لئے ہوا، پیاس بجھانے کے لئے پانی، گرمی حاصل کرنے کے لئے آگ اور اسی طرح بقیہ ضروریات اجتماعی نظام کے ماتحت بے شمار افراد کی امداد و اعانت پر موقوف ہیں۔ کوئی شخص کسی کو ایک خط لکھنا چاہے تو ہزاروں افراد کی مدد اور اعانت کو حاصل کئے بغیر وہ خط نہیں لکھ سکتا ۔ قلم کی تیاری ، روشنائی اور کاغذ کا وجود کتنے مراحل سے گزر کر ہم تک پہنچتا ہے۔ چاند سورج کی شعاعیں، شب و روز کا اختلاف، ستاروں کی گردشیں، نظام کائنات اور انسانی زندگی پر اس قدر اثر انداز ہیں کہ محتاج بیان نہیں ۔ صرف زندگی نہیں بلکہ موت کے بعد بھی اس کو قبر کی منزل تک انسانوں کی مدد درکار ہے ۔
یہ تو ظاہری اعتبار سے کہا گیا، اس سے آگے بڑھ کر باطنی اور معنوی حیثیت سے نظر کیجائے تو مخلوقات کی اس مدد و اعانت کا سلسلہ اس سے بھی آگے پہنچتا ہے۔ مثلاً غذائے روح کیلئے ایک علیحدہ روحانی نظام ہے، جس کی احتیاج سے کوئی فرد خالی نہیں ہو سکتا۔ قربِ خداوندی اور معرفت الٰہی کا حصول جو عین مقصد تخلیق انسانی ہے ۔ انبیاء و رسل کرام علیہم السلام کی ذواتِ قدسیہ سے وابستہ ہے ۔
عبادات و معاملات و دیگر احکام شرعیہ و مسائل دینیہ وحیٔ ربانی و تعلیماتِ نبوی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے ۔ اگر اس اجمال کی تفصیل کی جائے تو احتیاج کے دامن کی وسعت اور اس کے پورا ہونے میں افرادِ کائنات سے حصول نفع اور باہم امداد و اعانت کا اتنا طویل اور وسیع سلسلہ سامنے آجاتا ہے ، جس کا احصار ممکن نہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا کہ کسی مخلوق سے نفع و ضرر کا عقیدہ رکھنا یا غیر اللہ سے امداد و اعانت طلب کرنا شرک و کفر ہے ، انتہائی مضحکہ خیز اور لا یعنی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہاں ، اس میں شک نہیں کہ جس چیز میں جس نفع کی صلاحیت نہ ہو ، اس سے اس نفع کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا لغو اور بے ہودگی ہے ۔ مثلاً زہر سے تریاق کے نفع کی امید رکھنا ، آگ سے پانی کا کام لینا ، جہل سے حصولِ علم کی توقع قائم کرنا ، قطعاًخلافِ عقل و دانش ہے ۔ اسی طرح جس شخص کو جس کام کی قدرت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا نہیں ہوئی ، اس سے وہ کام لینا یقینا حماقت ہے ۔ لیکن ایسے شخص کو بلا دلیل شرعی مطلقاً کافر و مشرک کہہ دینا بھی سراسر حماقت و جہالت ہے ۔
خلاصہ یہ کہ غیر اللہ سے مدد لینا ، اس مدد کے جواز کا عقیدہ رکھنا ، اسی وقت کفر و شرک قرار پا سکتا ہے ، جب کہ اس غیر اللہ کو مستقل بالذات مانے اور اقصیٰ غایت تعظیم کا عقیدہ اس کے حق میں رکھے اور جب کس کو مظہر عون الٰہی تسلیم کرے اور استقلالِ ذاتی کی اس سے نفی کرتے ہوئے اس کی امداد و اعانت کا عقیدہ رکھا جائے اور اسی اعتقاد کیساتھ اس سے مدد طلب کی جائے تو ہرگز کفر و شرک نہیں ہو سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کام کا اہل نہ ہو اور اس وجہ سے یہ مدد مانگنا لغو اور بے ہودہ قرار پائے ۔ مگر اس کو کفر و شرک کہنا یقینا باطل ہو گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی کو مظہر عون الٰہی تسلیم کر لیا جائے اور اس کے حق میں الوہیت یا لوازم الوہیت کا کوئی عقیدہ نہ ہو تو اس کی مدد اور اعانت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی امداد و اعانت ہو گی، جو کہ ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ کی مدلول ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں کفار بتوں کو مستحق عبادت قرار دیتے تھے اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرتے تھے ‘ لیکن جو مسلمان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت قرار نہ دیتا ہو ، اور نہ اولیا اللہ کو متصرف بالذات سمجھتا ہو ‘ نہ ان کو تصرف میں مستقل سمجھتا ہو ، بلکہ یہ سمجھتا ہو کہ اولیاء اللہ ‘ اللہ کی دی ہوئی قدرت اور اس کے اذن سے اس کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اسی عقیدہ کے ساتھ ان سے استعانت کرے تو اس مسلمان کا یہ فعل شرک ہے نہ زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں کا سا کام ہے ۔
اولیاء اللہ سے استعانت کا صحیح طریقہ
ہونا یہ چاہیے کہ اولیاء اللہ کے مزارات کی زیارت کی جائے کیونکہ زیارت قبور سنت ہے ‘ ان کے مزارات پر ایصال ثواب کیا جائے ‘ یہ بھی احادیث سے ثابت ہے ‘ ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی جائے ‘ کیونکہ قرآن مجید میں وفات یافتہ مسلمانوں کے لیے دعا کرنے کی تعلیم ہے ‘ اور ان کے وسیلہ سے اپنی حاجات کی قبولیت کی دعا کی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کی مغفرت کے لیے اپنے اور انبیاء سابقین علیہم السّلام کے وسیلہ سے دعا فرمائی ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ سے یہ درخواست کی جائے کہ وہ ہماری حاجت روائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں اور اس کی اصل نابینا کی حدیث ہے ۔
وسیلہ اور غیر اللہ سے استمداد
وسیلہ کا لغوی معنی
علامہ ابن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ھی فی الاصل مایتوصل بہ الی الشیء ویتقرب بہ : جس چیز سے کسی شے کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (علامہ محمد بن اثیر جزری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٦٠٦ ھ نہایہ ج ٥ ص ١٨٥‘ مطبوعہ مؤسسۃ مطبوعاتی ‘ ایران ‘ ١٣٦٤ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الجوھری : الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر ‘ امام لغت علامہ جوہری (رح) نے کہا ہے کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (سید جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٧١١ ھ ‘ لسان العرب ج ١١ ص ٧٢٥۔ ٧٢٤ مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ‘ قم ‘ ایران ١٤٠٥ ھ)
علامہ زبیدی نے ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے وسیلہ کی تعریف میں مذکور الصدر عبارات نقل کی ہیں ۔ (تاج العروس ج ٨ ص ١٥٤‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ)
علامہ ابن منظور افریقی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ زبیدی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ جوہری رحمۃ اللہ علیہ کی جس عبارت کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : جس چیز سے غیر کا تقرب کیا جائے وہ وسیلہ ہے ۔ (الصحاح ج ٥ ص ١٨٤١‘ مطبوعہ دارالعلم ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)
ائمہ لغت کی ان تصریحات سے واضح ہوگیا کہ جس چیز سے غیر کا تقرب حاصل کیا جائے وہ وسیلہ ہے ‘ اللہ تعالیٰ کا تقرب اعمال صالحہ اور عبادات سے حاصل ہوتا ہے ‘ تاہم انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو عزت اور وجاہت حاصل ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کے لیے اس عزت اور وجاہت کو پیش کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ۔
انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی ذوات سے توسل کے متعلق فقہاء اسلام کی عبارات :
امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ آداب دعا میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کا وسیلہ پیش کرے ۔ (حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٣٤‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البانی ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں : مصنف نے کہا : دعا میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا امور مستحبہ میں سے ہے کیونکہ ” صحیح بخاری “ کی کتاب الاستقاء میں ہے : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پہلے ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو (اے اللہ ! ) تو بارش نازل فرماتا تھا ‘ اب ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں تو ہم پر بارش نازل فرما ‘ پھر ان پر بارش ہوجاتی ‘ اور جیسا کہ نابینا کی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کا ذکر ہے جس کا کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ” مستدرک “ میں روایت کیا اور کیا یہ کہا کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط کے مطابق صحیح ہے ‘ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : یہ حدیث صحیح ‘ غریب ہے اور ہم نے اس کو ” حصن “ میں ذکر کیا ہے اور حدیث ابوامامہ کی بناء پر جس کو ہم نے صبح کی دعاؤں میں ذکر کیا ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” معجم کبیر “ اور ” کتاب الدعاء “ میں ذکر کیا ہے ۔ (الحرز الثمین ص ١٧٦‘ مطبوعہ مطبعہ امیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوامامہ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : اسئلک بنور وجھک الذی اشرقت لہ السموات والارض وبکل حق ھو لک وبحق السائلین علیک : (امام محمد بن جزری متوفی ٨٣٣ ھ ‘ حصن حصین مع تحفۃ الذاکرین ص ٦٨‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : سوال کرنے والوں کا اللہ پر اس لیے حق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے کرم سے) ان کی دعا قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے : گویا کہ بندے نے اللہ تعالیٰ سے بندوں پر اس کے حق کے وسیلہ سے ‘ اور سائلین کا اللہ پر جو حق ہے اس کے وسیلہ سے سوال کیا ‘ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں ‘ اس کی حمد وثناء کریں ‘ اس کے احکام پر عمل کریں ‘ اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے رکیں ‘ اور بندوں کا اللہ پر یہ حق ہے یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدہ کے مطابق ان کو ثواب عطا کرے ‘ کیونکہ اس کے وعدہ کا پورا ہونا واجب ہے ‘ کہ اس کا وعدہ حق ہے اور اس کی خبر صادق ہے ۔ (الحزر الثمین ص ١٧٦‘ مطبوعہ امیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے فلاں کے حق اور فلاں فرشتے اور انبیاء اور صالحین وغیرھم کے حق سے سوال کرتا ہوں یافلاں کی حرمت اور فلاں کی وجاہت کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں، اس دعا کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت ہو، اور یہ دعا صحیح ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان مقربین کی وجاہت اور حرمت ہے ‘ جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قدر افزائی کرے اور جب یہ شفاعت کریں تو ان کی شفاعت قبول کرے ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کون اس سے شفاعت کرسکتا ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢١١‘ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز)
غیرمقلدین کے امام قاضی شوکانی لکھتے ہیں : یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ پر سائلین کے حق میں مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو مسترد نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے : مجھ سے دعا کرو ‘ میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔ (تحفۃ الذاکرین ٦٩‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
قاضی شوکانی مزید لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کر کے کہا : یہ حدیث حسن ‘ صحیح اور غریب ہے ‘ امام نسائی ‘ امام ابن ماجہ ‘ اور امام ابن خزیمہ علیہم الرّحمہ نے اپنی صحیح میں اور امام حاکم نے اس کو روایت کرکے کہا یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر صحیح ہے ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری بصارت بحال کر دے ‘ آپ نے فرمایا : یا میں رہنے دوں ؟ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر نابینائی بہت دشوار ہے ‘ آپ نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ‘ اور محمد نبی رحمت کے وسیلہ سے میں تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ الحدیث ۔ ” حصن حصین “ کے باب صلوۃ الحاجۃ میں اس حدیث کا ذکر آئے گا ‘ اور صالحین کے توسل کے جواز پر وہ حدیث دلیل ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم محترم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ ! ہم تیرے نبی کے عم محترم کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں ۔ (تحفہ الذاکرین ص ٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
حضرت آدم علیہ السلام کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا
محترم قارئینِ کرام : ہمارے جدِّ اَمجد حضرت سیدنا آدم علیہ الس:لام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق تفصیل درج ذیل ہے :
برِّ صغیر کے نامور محقق و محدث حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرت آدم علیہ السّلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کی فتلقیٰ آدمُ وہ کلمات یہ تھے اسئلک بحق محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر انہیں پیدا نہ کرتا تو تجھے بھی پیدا نہ کرتا ۔ (تفسیر عزیزی صفحہ نمبر 339 مترجم اردو) ۔ یہی عقیدہ اہلسنت ہے معتزلہ منکر ہیں اس کے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا مانگی جس کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا :
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے (اجتہادی) خطاء ہوگئی تو انہوں نے کہا : اے رب ! میں تجھ سے بہ حق (سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے بخش دے ‘ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم ! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے جانا حالانکہ میں نے ابھی ان کو پیدا نہیں کیا ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے کہا : کیونکہ اے رب ! جب تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور تو نے مجھ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی تو میں سراٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا ہوا تھا ‘ سو میں نے جان لیا کہ تو نے جس کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر لکھا ہے وہ تجھ کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہوگا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا : اے آدم تم نے سچ کہا وہ مجھے مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہیں اور کیونکہ تم نے ان کے وسیلہ سے سوال کیا ہے اس لیے میں نے تم کو بخش دیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں تم کو پیدا نہ کرتا ۔ (دلائل النبوۃ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ایک ضعیف راوی ہے لیکن فضائل میں حدیث ضعیف معتبر ہوتی ہے ۔ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔ (معجم صغیر ج ٢ ص ٨٣۔ ٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ ‘ مدینہ منورہ ‘ ١٣٨٨ ھ)
امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ‘ اور حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس مضمون کی حدیث کو روایت کیا ہے ۔ (الوفاء ص ٣٣‘ مطبویہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
علامہ ابن تیمیہ نے بھی ان دونوں حدیثوں کو روایت کیا ہے ‘ لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ ابونعیم حافظ نے اس حدیث کو ” دلائل النبوۃ “ میں روایت کیا ہے ‘ اس نسبت میں ابن تیمیہ کو خطا لاحق ہوئی ‘ یہ حدیث حافظ ابونعیم کی ” دلائل النبوۃ “ میں نہیں ہے بلکہ حافظ بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی ” دلائل النبوۃ “ میں ہے ‘ ان دونوں حدیثوں کے متعلق ابن تیمیہ لکھتے ہیں : یہ دونوں حدیثیں احادیث صحیحہ کی تفسیر کے درجہ میں ہیں ۔ (مجموع الفتاوی ج ٢ س ٩٦‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو حافظ الہیثمی نے بھی ذکر کیا ہے ‘ وہ اس روایت کو درج کرنیکے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام طبرانی نے ” معجم صغیر “ اور ” معجم اوسط “ میں روایت کیا ہے اور اس کے ایک راوی کو میں نہیں پہچانتا ۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٦‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
امام حاکم نیشا پوری نے بھی اس حدیث کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح الاسناد لکھا ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥ دار الباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ) ۔ امام حاکم نیشا پوری نے ایک اور حدیث اس کے مقارب روایت کی ہے ۔
محترم قارئینِ کرام : یہ حدیث مبارکہ مکمل حوالہ جات اور صحیح اسناد کے ساتھ یہ حدیث پاک پیش خدمت ہے پڑھیئے اور پہچانیئے محمد ابن عبدالوھاب نجدی کے پیروکاروں کو جو بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اتنا اندھے ہوچکے ہیں کہ صحیح احادیث کو ضعیف کہہ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس بغض رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی وجہ سے اتنا متعصب و اندھے ہوچکے ہیں کہ احادیث کے بھی منکر ہو گئے اللہ انہیں ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔
سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے : فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ-
ترجمہ : پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے - (سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں روایت مذکور ہے : عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا : اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس حدیث کی سندصحیح ہے ۔ (مستدرک علی الصحیحین)(كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690)(دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 )(مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت )(كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -)(تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق حدیث پاک میں ہے : (مستدرک علی الصحیحین ،معجم صغیر طبرانی ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد، جامع الاحاديث والمراسيل، كنز العمال، تفسير در منثور, تفسير الكشف والبيان للثعلبی، تفسیر روح البیان، الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه، كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، المواهب اللدنية ، شرح المواهب للزرقاني, خصائص كبرى ، سبل الهدى والرشاد، السيرة النبوية لابن كثير، خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،البداية والنهاية لابن كثير ،حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. ، تاريخ دمشق لابن عساكر،اور موسوعہ فقهيہ كويتيہ)
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك » هذا حديث صحيح الإسناد ۔
ترجمہ : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا : اے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں ؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر ۔" لا إله إلا الله محمد رسول الله "لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا - (مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194)(معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690) (معجم صغیر طبرانی، باب الميم، من اسمه محمد، حدیث نمبر: 989)(دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب غزوة تبوك،اب ما جاء في تحدث رسول الله صلى الله عليه وسلم بنعمة ربه عز وجل، حدیث نمبر: 2243) (مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917)(جامع الاحاديث والمراسيل ,مسند علي بن ابي طالب، حديث نمبر:33457) (كنز العمال، كتاب الفضائل من قسم الأفعال ،الفصل الثالث في فضائل متفرقة تنبيء عن التحدث بالنعم، حديث نمبر: 32138 ) (تفسير در منثور, سورة البقرة:37)(تفسير الكشف والبيان للثعلبي، سورة البقرة :37) (تفسیر روح البیان،ج،2،ص:376،سورۃ المائدۃ:16)(الشريعة لابي بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي(متوفي360 ه۔) كتاب الإيمان والتصديق بأن الجنة والنار مخلوقتان، حديث نمبر:938)(المواهب اللدنية ,ج,1,ص,82)(شرح المواهب للزرقاني,ج ,1,ص ,119)(خصائص كبرى ،باب خصوصيته صلى الله عليه وسلم بكتابة اسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش وسائر ما في الملكوت)(سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد, جماع أبواب بعض الفضائل والآيات الواقعة قبل مولده صلى الله عليه وسلم, الباب الخامس في كتابة أسمه الشريف مع اسم الله تعالى على العرش ،ج1ص85)(السيرة النبوية لابن كثير، ج،1 ص،320)(خلاصة الوفا بأخبار دار المصطفى صلی اللہ علیہ والہ وسلم , الفصل الثاني " في توسل الزائر به صلى الله عليه وسلم إلى ربه تعالى)(البداية والنهاية لابن كثير باب خلق آدم عليه السلام)(حجۃ اللہ علی العلمیمن فی معجزات سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،23)(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي. مطلب في حماعة يصلون على النبي، النبي صلى الله عليه وسلم)(تاريخ دمشق لابن عساكر، حرف الألف)(موسوعہ فقهيہ كويتيہ،"التوسل") (الحج النقلیہ صفحہ 84 ، 85 علامہ ابن تیمیہ ممدوح وہابیہ) -
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ وحی کی : اے عیسیٰ علیہ السلام ! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاؤ ‘ اور جو تمہاری امت میں سے ان کا زمانہ پائے اس کو بھی ان پر ‘ ایمان لانے کا حکم دو ‘ کیونکہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو جنت اور دوزخ کو پیدا نہ کرتا اور میں نے عرش کو پانی پر پیدا کا تو وہ ہلنے لگا ‘ پھر میں نے اس پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو وہ ساکن ہوگیا ۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ (المستدرک ج ٢ ص ٦١٥‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ) ۔
علامہ سیوطی نے امام حاکم ‘ امام بیہقی ‘ امام طبرانی ، امام ابونعیم اور امام ابن عساکر علیہم الرّحمہ کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کو بیان کیا ہے ۔ (خصائص کبری ج ١ ص ٦‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ فیصل آباد)
علامہ قسطلانی نے بھی حضرت عمر کی روایت کو امام حاکم کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ (المواہب اللدنیہ مع الزرقانی ج ١ ص ٤٤ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
علامہ زرقانی نے اس کی شرح میں امام حاکم اور ابو الشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم اور ابوالشیخ کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکور الصدر روایت بیان کی ہے اور لکھتے ہیں کہ امام حاکم نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور علامہ سبکی نے ” شفاء القام “ میں اور علامہ بلقینی نے اپنے فتاوی میں اس تصحیح کی تائید کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کی بات رائے سے نہیں کہی جاسکتی ‘ اس لیے یہ حدیث حکما مرفوع ہے ‘ علامہ ذہبی نے کہا : اس کی سند میں عمرو بن اوس ہے ‘ پتا نہیں وہ کون ہے ؟ اور امام دیلمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اگر آپ نہ ہوتے تو میں جنت کو پیدا کرتا نہ نار کو پیدا کرتا ۔ (شرح المواہب اللدنیہ ج ١ ص ٤٤‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)
ملاعلی قاری نے بھی امام دیلمی کی اس روایت کو استشہاد کے طور پر پیش کیا ہے ۔ (موضوعات کبیر ص ٥٩ مطبوعہ مطبع مجتبائی ‘ دہلی ‘ ١٣١٥ ھ)
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے حقیقت محمدی پر بحث کرتے ہوئے یہ دو حدیثیں لکھی ہیں : اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں افلاک کو پیدا نہ کرتا ‘ اگر آپ کو پیدا کرنا نہ ہوتا تو میں اپنی ربوبیت کو ظاہر نہ کرتا ۔ (مکتوبات دفتر سوم ‘ حصہ دوم ‘ مکتوب نمبر ١٢٢) ۔ یہ حدیثیں ہرچند کہ ان الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں مذکور نہیں ہیں لیکن یہ معنی ثابت ہیں ۔ ان حادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ مقربین بارگاہ کے وسیلہ سے دعا کرنا ابتداء آفرینش سے مشروع اور معمول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام مدح میں اس دعا کا ذکر فرما کر اس کے جواز اور استحسان کو بیان فرمادیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا فرمانا
حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی اللہ عنہا فوت ہوگئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی لحد کھودنے سے فارغ ہوگئے تو آپ ان کی لحد میں لیٹ گئے اور یہ دعا کی : اللہ ہی جلاتا ہے اور وہی مارتا ہے ‘ اور وہی زندہ ہے جسے موت نہیں آئے گی ‘ اے اللہ ! اپنے نبی اور مجھ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے وسیلہ سے میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفرت فرما ‘ ان کو حجت القا فرما ‘ اس کی قبر کو وسیع کر ‘ بلاشبہ تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ‘ پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور آپ نے ‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے، اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو قبر میں اتارا ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کبیر “ اور ” اوسط “ میں روایت کیا ہے ‘ اس میں روح بن صلاح نام کا ایک روای ہے ‘ امام حبان اور امام حاکم نے اس کی توثیق کی ہے اور اس میں ضعف ہے ‘ اور اس کے باقی روای حدیث صحیح کے روای ہیں ۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٥٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
اس حدیث کو علامہ نورالدین سمہودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذکر کیا ہے ۔ (وفاء الوفاء ج ٣ ص ٨٩٩۔ ٨٩٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)
شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے ۔ (توسل ص ١٠٢‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا نہ صرف حضرت آدم علیہ السلام کی بلکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی سنت ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے کی ہدایت دینا
انبیاء کرام علیہم السلام اور بزرگان دین کے وسیلہ سے دعا کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ اس نے عرض کیا : آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ میری آنکھیں ٹھیک کردے آپ نے فرمایا : اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور اگر تم چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ‘ اس نے کہا : آپ دعا کردیجیے آپ نے فرمایا : تم اچھی طرح وضو کرو دو رکعت نماز پڑھو ‘ اس کے بعد یہ دعا کرو :” اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے وسیلہ سے اس حاجت میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ میری یہ حاجت پوری ہو ‘ اے اللہ ! نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میرے لیے شفاعت کرنے والا بنا دے ۔ (سنن ابن ماجہ ص ٩٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (جامع ترمذی ص ٥١٥‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)
اس حدیث کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٣٨‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مستدرک ج ١ ص ٥١٩‘ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع ‘ مکہ مکرمہ)
اس حدیث کو امام ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی روایت کیا ہے ۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٣ ص ٣٠٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ دمشق)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو عمارہ بن خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اس سند کے علاوہ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے بھی روایت کیا ہے اس روایت میں یہ اضافہ ہے : قال عثمان : فو اللہ ماتفرقنا ولا طال الحدیث حتی دخل الرجال وکانہ لم یکن بہ ضرقط۔ (امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٧‘ مطبوعہ دار الکتاب العلمیہ بیروت) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بہ خدا ! ابھی ہم اس مجلس سے اٹھے نہیں تھے اور نہ ابھی سلسلہ گفتگو دراز ہوا تھا کہ وہ (نابینا) شخص اس حال میں داخل ہوا کہ اس کی آنکھ میں کوئی تکلیف نہیں تھی ۔
امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے روایت کیا ہے ‘ جس میں مذکورہ الصدر اضافہ ہے ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ مجلس الدائرۃ المعارف ‘ دکن ‘ ١٣١٥ ھ)
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے بیان کیا اور اس میں یا محمد کے الفاظ ہیں ‘ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح لکھا ہے ۔ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو سنن کبری (ج ٦ ص ١٦٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤١١ ھ) میں روایت کیا ہے ۔
امام محمد جزری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے ذکر کیا اور اس میں بھی یا محمد کے الفاظ ہیں ۔ (الاذکار ص ١٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٧٥ ھ)
قاضی شوکانی ” حصن حصین “ کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ” مستدرک “ میں اور نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے جیسا کہ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو تمام اسانید بیان کرنے کے بعد کہا : یہ حدیث صحیح ہے ‘ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ‘ سو ان ائمہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے البتہ نسائی کی روایت میں یہ تفرد ہے کہ اس میں یہ ذکر بھی ہے : اس نے دو رکعت نماز پڑھی ‘ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنے کے جواز کی دلیل ہے ‘ اس لیے ساتھ یہ اعتقاد لازم ہے کہ حقیقۃ دینے والا اور منع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے ‘ جو وہ چاہتا ہے وہ ہوجاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٣٨۔ ١٣٧‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث جس کی بکثرت محدثین نے اپنی اپنی تصانیف میں صحت سند کی صراحت کے ساتھ روایت کیا ہے اس مطلوب پر قوی دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز اور مستحسن ہے اور چونکہ آپ کی ہدایات قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے حجت ہیں ‘ اس لیے آپ کے وصال کے بعد بھی آپ کے وسیلہ سے دعا کرنا اور آپ سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے اور بالخصوص آپ کے وصال کے بعد آپ کے توسل سے دعا کے جواز پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک شخص کو اس کی قضاء حاجت کے لیے یہ دعا تعلیم کی ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اپنی تصانیف میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ‘ جیسا کہ عنقریب ہم بیان کریں گے۔ یہاں تک جو ہم نے احادیث بیان کی ہیں ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہرہ میں آپ کے توسل پر دلیل ہے ‘ اب ہم ایسی احادیث پیش کررہے ہیں جن میں آپ کی وفات کے بعد آپ کے توسل پر دلیل ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک سال قحط پڑگیا تو حضرت بلال بن حارث مزنی (رض) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے ۔
حافظ ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : مالک الدار ‘ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) لوگوں پر قحط آگیا ‘ ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا : اے اللہ ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ (المصنف ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن ‘ کراچی ‘ ١٤٠٦ ھ)
نیز حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ مالک سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ایک شخص (حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے کیونکہ وہ (قحط سے) ہلاک ہو رہی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقیناً بارش ہوگی ‘ اور ان سے کہو : تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے ‘ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر دی ‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عنہ نے کہا : اے میرے رب ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس میں میں عاجز ہوں ۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩٢۔ ٩١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) ، حافظ ابوعمرو بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ (حافظ عمرو یوسف بن عبداللہ عبدالبر قرطبی مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ الاستیعاب علی ہامش الاطابہ ج ٢ ص ٤٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) اور حافظ ابن کثیر نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٣٩٠۔ ٣٨٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربیہ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)
علم حدیث میں حافظ ابن کثیر کی شخصیت موافقین اور مخالفین سب کے نزدیک مسلم ہے اور حافظ ابن کثیر نے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے اور اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ نے آپ کے قبر انور پر جا کر آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ اور اپنا خواب بیان کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو مقرر رکھا اور اس پر انکار نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی وصال کے بعد صاحب قبر سے دعا کی درخواست کرنا جائز ہے ۔
اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خازن مالک الدار رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں (ایک بار) قحط واقع ہوا ‘ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجئے ‘ کیونکہ وہ ہلاک ہورہی ہے ‘ پھر اس شخص کو خواب میں آپ کی زیارت ہوئی اور یہ کہا گیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ ‘ الحدیث۔ سیف نے ” فتوح “ میں روایت کیا ہے کہ جس شخص نے یہ خواب دیکھا تھا وہ یکے از صحابہ حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے ۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ ) ۔ اس حدیث کو حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ دونوں نے سندا صحیح قرار دیا ہے اور ان دونوں کی تصحیح کے بعد کسی تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور نہ کسی کا انکار درخور اعتناء ہے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں صحابہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرنا :
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے ‘ اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ‘ ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے اس بات کی شکایت کی ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : تم وضو خانہ جا کر وضو کرو ‘ پھر مسجد میں جاؤ اور وہاں دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر یہ کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی، نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا ‘ پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاؤں ‘ وہ شخص گیا اور اس نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ‘ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا ‘ دربان نے ان کے لیے دروازہ کھولا اور ان کو حضرت عثمان بن عفان (رض) کے پاس لے گیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا اور پوچھا ‘ تمہارا کیا کام ہے ؟ اس نے اپنا کام ذکر کیا ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا کام کردیا : تم نے اس سے پہلے اب تک اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا : جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم میرے پاس آجانا ‘ پھر وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس چلا گیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء خیر دے ‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : بخدا ! میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کوئی بات نہیں کی ، لیکن ایک مرتبہ میں رسول کی خدمت میں موجود تھا ‘ آپ کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے اپنی نابینائی کی آپ سے شکایت کی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس پر صبر کرو گے ؟ اس نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے راستہ دکھانے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم وضو خانے جاؤ اور وضو کرو ‘ پھر دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر ان کلمات سے دعا کرو ‘ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا : ابھی ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص آیا درآں حالیکہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی، یہ حدیث صحیح ہے ۔ (حافظ زکی الدین عبد العظیم بن عبد القوی منذری متوفی ٦٥٦ ھ رحمۃ اللہ علیہ نے ” الترغیب والترہیب “ ج ١ ص ٤٧٦۔ ٤٧٤‘ مطبوعہ دار الحدیث ‘ قاہرہ ‘ ١٤٠٧ ھ) میں اور حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٧٩‘ مطبوعہ بیروت) میں اس حدیث کو بیان کرکے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔
علامہ ابن تیمیہ کے حوالے سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت کی تائید ‘ توثیق اور تصیح : امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور شعبہ سے اس حدیث کو صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اور وہ اس روایت کرنے میں متفرد ہے (یعنی اس کا کوئی متابع نہیں ہے اور یہ حدیث غریب ہے) اور حدیث صحیح ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ نے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا کہ اس حدیث کو شعبہ سے روایت کرنے میں صرف عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ متفرد نہیں ہے بلکہ روح بن عبادہ نے بھی اس حدیث کو شعبہ سے روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس کا خلاصہ یہ ہے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ روایت دو صحیح سندوں سے مروی ہے ‘ شیخ ابن تیمیہ کی اصل عبارت یہ ہے :
امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اس حدیث کو شعبہ نے ابوجعفر سے روایت کیا ہے اور اس کا نام عمر بن ابی یزید ہے اور وہ ثقہ ہے ‘ عثمان بن ابی عمر ‘ شعبہ سے اس روایت میں متفرد ہے۔ ابوعبد اللہ مقدسی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : اور حدیث صحیح ہے ۔
علاّمہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں : میں کہتا ہوں کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مبلغ علم کے اعتبار سے عثمان بن ابی عمر رضی اللہ عنہ کو متفرد کہا ہے ‘ ان کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ روح بن عبادہ نے بھی شعبہ سے اس حدیث کو روایت کیا ہے اور یہ اسناد صحیح ہے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ عثمان بن ابی عمر رضی اللہ عنہ اس روایت میں متفرد نہیں ہے ۔ (مجموع الفتاوی ج ١ ص ١٩٥۔ ١٩٤‘ مطبوعہ دارالجیل ‘ ریاض ‘ ١٤١٨ ھ)
طبرانی کی روایت مذکورہ کا صحاح کی دوسری روایت سے تعارض کا جواب
ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو امام ترمذی ‘ امام ابن ماجہ ‘ امام احمد اور امام ابن سنی علیہم الرّحمہ نے روایت کیا اور اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وسیلہ کے ساتھ دعا کا ذکر نہیں ہے ‘ اس کے برخلاف امام طبرانی اور امام بیہقی علیہما الرّحمہ نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی حضور سے توسل کرنے کا ذکر کیا ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایک حدیث کو بعض ائمہ اختصار کے ساتھ روایت کرتے ہیں اور بعض ائمہ تفصیل کے ساتھ روایت کرتے ہیں ‘ اعتراض کا محل یہ تھا کہ اس روایت کی سند صحیح نہ ہوتی یا ضعیف ہوتی اور جب علامہ ابن تیمیہ نے خود بیان کیا کہ طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی مفصل حدیث دو صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہے تو پھر اعتراض کی کب گنجائش ہے ؟
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دوسندوں کے ساتھ اس حدیث کو اختصارا روایت کیا ۔ (دلائل النبوۃ ج ٢ ص ١٦٧۔ ١٦٦) ۔ پھر اس حدیث کو روح بن قاسم عن ابی جعفر مدینی عن ابی امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کی سند سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا جیسا کہ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور اس کے بعد مزید یہ کہا : اس حدیث کو ہشام دستوائی نے از ابو جعفر از ابوامامہ بن سہل از عم خود روایت کیا ہے ‘ ابوامامہ کے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہیں ۔ (لائل النبوۃ ج ٦ ص ١٦٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی اس مفصل روایت کا اور اس دوسری سند کا شیخ ابن تیمیہ نے بھی ذکر کیا ہے ‘ لکھتے ہیں :
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سند کے ساتھ قصہ کو روایت کیا ہے اور اس سے آپ کے وصال کے بعد آپ سے توسل پر استدلال کیا جاتا ہے ‘ بشرطیکہ یہ روایت صحیح ہو ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٦٨‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)؎
توسل بعد از وصال پر علامہ ابن تیمیہ کے اعتراضات کے جوابات
علامہ ابن تیمیہ نے یہ تو کہا ہے کہ اگر اس حدیث کی سند صحیح ہو تو اس حدیث سے وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہے ‘ لیکن انہوں نے اس حدیث کی سند پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس میں کوئی ضعف نہیں نکال سکے ‘ علاوہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہکی روایت بیان کرنے کے بعد انہوں نے اسی روایت کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ بیان کرچکے ہیں ‘ لہذا جب امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت صحیح ہے اور اس روایت کی دوسری سند بھی صحیح ہے تو ابن تیمیہ کے اپنے اقرار کے مطابق وفات کے بعد وسیلہ ثابت ہوگیا اور یہ واضح ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ سے دعا کی درخواست کرنا اور آپ کو یا محمد کے صیغہ سے ندا کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک جائز تھا، جبھی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو یہ دعا تلقین کی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں آپ کے وسیلہ سے آپ کے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ وہ میری حاجت پوری کر دے ۔
ابن تیمیہ نے اس بحث میں جو آخری اعتراض کیا ہے وہ یہ ہے : حافظ ابوبکر بن خیثمہ نے اپنی تاریخ میں اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے : حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : میری بینای چلی گئی ہے ‘ آپ اللہ تعالیٰ سے میری لیے دعا کیجئے ‘ آپ نے فرمایا : جا کر وضو کرو اور دو رکعت نماز پڑھو ‘ پھر کہو : اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیرے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں اپنے رب کے حضور اپنی بصارت لوٹانے کے لیے آپ کی شفاعت طلب کرتا ہوں ‘ اے الہ ! میرے حق میں میری شفاعت کو قبول کر اور میری بصارت لوٹانے میں میری نبی کی شفاعت قبول فرما ‘ اور اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو پھر اسی طرح کرنا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت لوٹا دی ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٧٥‘ مطبویہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)
اس روایت پر ابن تیمیہ نے حسب ذیل اعتراضات کیے ہیں
(1) اگر تمہیں کوئی اور کام ہو تو اسی طرح کرو “ یہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ نہیں ہیں ۔
(2) دوسرے راویوں کی روایت میں یہ الفاظ نہیں ہیں (جیسا کہ گزر چکا ہے) اور اگر بالفرض یہ الفاظ ثابت ہوں تب بھی یہ دلیل نہیں ہے ‘ کیونکہ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ دعا کے بعض الفاظ کافی ہیں ‘ کیونکہ انہوں نے مشروع دعا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ دعا کے بعض الفاظ کہنے کا حکم دیا ہے ۔
(3) حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ گمان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بھی اس طرح (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرنا جائز ہے ‘ حالانکہ حدیث کے الفاظ اس کے خلاف ہیں ‘ کیونکہ نابینا صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں اور اس کو یہ یقین تھا کہ آپ اس کے لیے دعا کریں گے اور آپ نے اس کو حکم دیا تھا کہ وہ دعا میں یہ کہے کہ اے اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما ! اور اس طریقہ سے یہ دعا اس وقت صحیح ہوگی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کی دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے، اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے ‘ اس طریقہ سے دعا کرنا اور شفاعت طلب کرنا آپ کی حیات دنیاوی میں ہی درست تھا اور یا قیامت کے دن درست ہوگا جب آپ شفاعت فرمائیں گے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٢٧٦۔ ٢٧٤‘ مطبوعہ بامر فہدبن عبدالعزیز)
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ : اگر یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہ ہوں بلکہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ ہی کے ہوں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کے جائز ناجائز ہونے میں ابن تیمیہ کی بہ نسبت صحابی رسول کی فہم اور ان کے اجتہاد پر اعتماد کرنا زیادہ قرین قیاس ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : حافظ ابن ابی خیثمہ کی اس روایت سے ہمارا استدلال نہیں ہے ‘ اگر اس پر ابن تیمہ کو اعتراض ہے تو اس روایت کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ‘ ہمارا استدلال تو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے جس کے متعلق خود ابن تیمیہ نے تصریح کی ہے کہ یہ دو صحیح سندوں سے مروی ہے ۔
تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ : جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس درخواست کی طرف متوجہ کردیتا ہے یا اس درخواست پر مطلع کردیتا ہے ‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری دعا کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور شفاعت کرتے ہیں اور اس میں کون سا شرعی یا عقلی استبعاد ہے ؟
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٠٧‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
اس حدیث کے پیش نظر جب آپ کا کوئی امتی آپ سے دعا کی درخواست کرے گا تو آپ کو اس کا علم ہوجائے گا اور آپ اس کی شفاعت فرمائیں گے ‘ کیونکہ آپ نے خود اپنے وسیلہ سے دعا کرنے اور دعا کی درخواست کرنے کی ہدایت دی ہے اور اس ہدایت کو عام رکھا ہے اور اس میں حیات یا بعد از وفات کی قید نہیں لگائی ‘ اس لیے ابن تیمیہ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ” اور اس طریقہ سے دعا اس وقت صحیح ہوگی ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا کریں اور اس کی شفاعت کریں اور جس کو آپ کے دعا کرنے اور آپ کے شفاعت کرنے کا علم نہیں ہے اس کا اس طریقہ سے دعا کرنا صحیح نہیں ہے “ کیونکہ حیات اور ممات میں وسیلہ کے جواز اور عدم جواز کا فرق علم کے ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے ہوسکتا تھا اور آپ کے ہر دو صورت میں علم حاصل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام احکام مسلمانوں کے لیے قیامت تک کے لیے حجت ہیں اور آپ کے افعال مسلمانوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں ‘ اگر آپ کا کوئی حکم صرف آپ کی حیات مبارکہ کے ساتھ مخصوص ہو اور بعد کے لوگوں کے لیے اس کا کرنا جائز ہو تو آپ پر لازم ہے کہ آپ یہ بیان فرمائیں کہ یہ حکم میری زندگی کے ساتھ خاص ہے اور بعد کے لوگوں کے لیے اس حکم عمل کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کو ایک شش ماہہ بکرے کی قربانی کرنے کا حکم دیا اور فرما دیا : تمہارے بعد کسی کے لیے یہ عمل جائز نہیں ہے ‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اور قربانی کرو ‘ انہوں نے کہا : میرے پاس صرف چھ ماہ کا ایک بکرا ہے جو سال کے بکرے سے فربہ ہے آپ نے فرمایا : اس کے بدلہ میں اس کی قربانی کردو ‘ اور تمہارے بعد کسی اور کے لیے شش ماہہ بکرے کی قربانی جائز نہیں ہوگی ۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٨٣٤‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ استثناء اس لیے بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اقوال اور افعال مسلمانوں کے حق میں قیامت تک کے لیے حجت ہیں اگر آپ یہ استثناء نہ فرماتے تو چھ ماہ کے بکرے کی قربانی سب کے لیے قیامت تک جائز ہوجاتی ‘ ابن تیمیہ کہتے ہیں : وفات کے بعد کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کرنا شرک کی طرف لے جاتا ہے : ہر چند کہ انبیاء علیہم السّلام اور صالحین علیہم الرّحمہ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ وہ زندوں کے لیے دعا کرتے ہیں اور بیشک اس کی تائید میں احادیث بھی ہیں ‘ پھر بھی کسی شخص کے لیے ان سے دعا کو طلب کرنا جائز نہیں ہے اور پہلے لوگوں میں سے کسی نے یہ نہیں کیا کیونکہ یہ شرک کا سبب ہے ‘ اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کا ذریعہ ہے ‘ اس کے برخلاف اگر ان کی زندگی میں ان سے دعا طلب کی جائے تو یہ شرک نہیں ہے ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ١ ص ٣٣٠‘ مطبوعہ بامر فہد بن عبدالعزیز آل السعود)
ابن تیمیہ کا یہ قاعدہ باطل ہے کیونکہ وفات کے بعد کسی سے دعا کی درخواست کرنا شرک کا سبب ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نابینا صحابی رضی اللہ عنہ سے فرما دیتے کہ اس طریقہ سے دعا کرنا صرف میری زندگی میں جائز ہے اور میرے وصال کے بعد اس طریقہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے ‘ بلکہ شرک کا سبب ہے ‘ کیونکہ آپ کی بعثت کا مقصد ہی شرک کی بیخ کنی کرنا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر کسی استثناء کے نابینا صحابی کو دعا کا یہ طریقہ تعلیم کیا تو معلوم ہوا کہ قیامت تک اس طریقہ سے دعا کرنا جائز ہے اور صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا تھا ‘ اسی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی ایک شخص کو دعا کا یہ طریقہ بتلایا اور ہمارے لیے صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے طریقہ کی اتباع کرنا ‘ ابن تیمیہ کے افکار کی اتباع کرنے سے بہتر ہے ۔
توسل بعد از وصال کے متعلق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کاش میری عقل ان لوگوں کے پاس ہوتی ‘ جو لوگ اولیاء اللہ سے استمداد اور ان کی امداد کا انکار کرتے ہیں ‘ یہ اس کا کیا مطلب سمجھتے ہیں ؟ جو کچھ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا ‘ اللہ کا محتاج ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اس سے اپنی حاجت کو طلب کرتا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے اپنے اس بندہ مکرم پر جو رحمت فرمائی ہے اور اس پر جو لطف و کرم کیا ہے اس کے وسیلہ سے میری اس حاجت کو پورا فرما ‘ کہ تو دینے والا کریم ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس اللہ کے ولی کو ندا کرتا ہے اور اس کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے بندہ خدا اور اے اللہ کے ولی ! میری شفاعت کریں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ وہ میرا سوال اور مطلوب مجھے عطا کرے اور میری حاجت برلائے ‘ سو مطلوب کو دینے والا اور حاجت کو پورا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور یہ بندہ درمیان میں صرف وسیلہ ہے ‘ اور قادر ‘ فاعل اور اشیاء میں تصرف کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ‘ اور اولیاء اللہ ‘ اللہ تعالیٰ کے فعل ‘ سطوت ‘ قدرت اور غلبہ میں فانی اور ہلاک ہیں اور ان کو اب قبر میں افعال پر قدرت اور تصرف حاصل ہے اور نہ اس وقت قدرت اور تصرف حاصل تھا ‘ جب وہ زندہ تھے ۔
اور امداد واستمداد کا جو معنی میں نے ذکر کیا ہے اگر موجب شرک اور غیر اللہ کی طرف توجہ کو مستلزم ہوتا جیسا کہ منکر کا زعم فاسد ہے تو چاہیے یہ تھا کہ صالحین سے طلب دعاء اور توسل زندگی میں بھی ناجائز ہوتا حالانکہ یہ بجائے ممنوع ہونے کے بالاتفاق جائز اور مستحسن ومستحب ہے ‘ اور اگر منکر یہ کہیں کہ موت کے بعد اولیاء اللہ اپنے مرتبہ سے معزول ہوجاتے ہیں اور زندگی میں جو فضیلت و کرامت انہیں حاصل تھی وہ باقی نہیں رہی تو اس پر کیا دلیل ہے ؟
اور اگر یوں کہیں کہ بعد موت کے وہ ایسی آفات وبلیات میں مبتلا ہوئے کہ انہیں دعا وغیرہ کی فرصت نہ رہی تو یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور نہ اس پر دلیل ہے کہ اولیاء کے لیے ابتلا قیامت تک رہتا ہے ‘ زیادہ سے زیادہ جو کہا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر اہل قبر سے استمداد سود مند نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ بعض اولیاء جذب و استغراق کی کیفیت میں ہوں اور عالم لاہوت کے مشاہدہ میں اس طرح منہمک ہوں کہ اس دنیا کے حالات کی طرف توجہ اور شعور نہ رہے تو وہ اس دنیا میں تصرف نہ کریں جیسا کہ دنیا میں بھی اولیا اللہ کے حالات مختلف ہوتے ہیں۔ ہاں اگر اولیاء اللہ کے حق میں زائرین کا یہ اعتقاد ہو کہ وہ مدد کرنے میں مستقل ہیں اور اللہ کی جانب میں توجہ کئے بغیر بطور خود ذاتی قدرت سے امداد کرتے ہیں ‘ جیسے بعض جہلاء کا عقیدہ ہے کہ وہ قبرکو بوسہ دیتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں ‘ یہ تمام افعال ممنوع اور حرام ہیں اور ناواقف عوام کے افعال کا کوئی اعتبار نہیں ‘ اور وہ خارج از بحث ہیں اور عارف بشریعت و عالم بہ احکام بہ احکام دین ان تمام منکرات سے سخت بیزار ہیں اور مشائخ اور اہل کشف سے ارواح کا ملہ سے استفادہ کے بارے میں جو کچھ مروی ہے وہ حصر سے خارج ہے اور ان کی کتابوں میں مشہور اور مذکور ہے ‘ حاجت نہیں کہ ہم اس کا ذکر کریں اور ممکن ہے کہ وہ منکر متعصب کو فائدہ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس بدعقیدگی سے محفوظ رکھے ۔ (اشعۃ اللمعات ج ٣ ص ٤٠٢۔ ٤٠١ مبطوعہ مطبع تیج کمار ‘ لکھنو)
توسل بعد از وصال کے متعلق علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے وصال کے بعد آپ کی عزت اور وجاہت کے وسیلہ سے اللہ سے دعا کرنے میں میرے نزدیک کوئی حرج نہیں ہے ‘ اور آپ کی وجاہت سے یہاں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت مراد ہے ۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی آپ سے وہ کامل محبت جس کا یہ تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کو مسترد نہ کرے اور آپ کی شفاعت کو قبول فرمائے ‘ اور جب کوئی شخص دعا میں کہتا ہے : اے اللہ ! میں اپنی اس حاجت کے پورا ہونے میں تیری محبت کو وسیلہ بناتا ہوں اور اس دعا میں اور تمہارے اس قول میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اے اللہ ! میں تیری رحمت کو وسیلہ بناتا ہوں کہ تو میرا یہ کام کردے ‘ بلکہ میں یہ کہنا بھی جائز سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اے اللہ ! میں تجھ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کی قسم دیتا ہوں کہ تو یہ کام کر دے ۔ وجاہت اور حرمت کے ساتھ سوال کرنے میں ایک جیسی بحث ہے ‘ توسل اور ذات محض کی قسم دینے میں یہ بحث جاری نہیں ہوگی ‘ ہاں وجاہت اور حرمت کے وسیلہ سے دعا کرنا کسی صحابی سے منقول نہیں ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم وسیلہ کے ساتھ دعا کرنے سے اس لیے اجتناب کرتے تھے کہ لوگوں کے ذہنوں میں کوئی بدعقیدگی جگہ نہ پکڑے ‘ کیونکہ ان کا زمانہ بتوں کے ساتھ توسل کرنے کے قریب تھا ‘ اس کے بعد ائمہ طاہرین نے بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء میں وسیلہ کے ساتھ دعا نہیں کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کعبہ کی اس وقت کی عمارت کو منہدم کر کے بناء ابراہیم پر اس کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے ‘ لیکن چونکہ آپ کی قوم تازہ تازہ کفر سے نکلی تھی ‘ اس لیے آپ نے فتنہ پیدا ہونے کے خدشہ سے اپنے ارادہ کو ترک کردیا جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ‘ میں نے وجاہت سے توسل اور قسم دینے کا جواز اور اس کی توجیہ اس لیے بیان کی ‘ تاکہ عام مسلمانوں کو اس دعا میں حرج نہ ہو ‘ کیونکہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجاہت کے وسیلہ سے دعا کرنے پر گمراہی کا حکم لگانے کا دعوی کرتے ہیں، اس تقریر سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ اس طرح وسیلہ سے دعا کرنا ان دعاؤں سے افضل ہے ‘ جو قرآن مجید اور احادیث میں مذکور ہیں اور جن دعاؤں پر صحابہ کرام (رض) کاربند رہے اور اخیار تابعین نے جس طریقہ کو اپنا یا ‘ یقیناً دعا کا یہی طریقہ زیادہ اچھا ‘ زیادہ جامع ‘ زیادہ نفع آور اور زیادہ سلامتی والا ہے۔ (روح المعانی ج ٦ ص ١٢٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)
غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کی عطاء سے اللہ کے بندے مدد کرتے ہیں اِس نیت سے استغاثہ لغیرِ اللہ شرک نہیں ۔ ( یعنی مدد مانگنا) ۔ (ہدیۃُ المہدی عربی صفحہ نمبر 20 نواب وحید الزّمان غیر مقلد اہلحدیث)
نوٹ : یہی ہم مسلمانانِ اہلسنت کہتے ہیں وہابی حضرات ہماری نہ مانیں اپنے بڑوں کی ہی مان لیں اور مسلمانوں پر شرک کے فتوے لگا لگا کر انتشار و فتنہ نہ پھیلائیں ۔
توسل بعد ازوصال کے متعلق غیرمقلد وہابی عالم نواب وحید الزّمان لکھتے ہیں : جب دعا میں غیر اللہ کے وسیلہ کا جواز ثابت ہے تو اس کو زندوں کے ساتھ خاص کرنے پر کیا دلیل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کی تھی ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے ممانعت پر دلیل نہیں ہے ‘ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے اس لیے دعا کی تاکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے ساتھ دعا میں شریک کریں ‘ اور انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ‘ اسی طرح شہداء اور صالحین بھی زندہ ہیں ‘ ابن عطاء نے ہمارے شیخ ابن تیمیہ کے خلاف دعوی کیا ‘ پھر اس کے سوا اور کچھ ثابت نہیں کیا کہ بطور عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استعانت کرنا جائز نہیں ہے ‘ ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو آپ کے وسیلہ سے دعا تعلیم کی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے تھے، اس دعا میں یہ الفاظ تھے : اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی محمد نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں ، اس حدیث کو امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے سند متصل کے ساتھ ثقہ راویوں سے روایت کیا ہے : کاش میری عقل ان منکرین کے پاس ہوتی ! جب کتاب اور سنت کی تصریح سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اعمال صالحہ کا وسیلہ پیش کرنا جائز ہے تو صالحین کے وسیلہ کو بھی اس پر قیاس کیا جائے گا اور امام جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ کے آداب دعا میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انبیاء اور صالحین کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے ‘ اور ایک اور حدیث میں ہے : یا محمد ! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ‘ سید نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے موضوع نہیں ہے ‘ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،چشتی، ایک حدیث میں ہے : میں تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور موسیٰ علیہ السلام کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ اس کو علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ نے ” نہایہ “ میں اور علامہ طاہر پٹنی رحمۃ اللہ علیہ نے ” مجمع بحار الانوار ،چشتی“ میں ذکر کیا ہے ‘ اور امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث میں حضرت آدم علیہ السلام کی اس دعا کو روایت کیا ہے : اے اللہ ! میں تجھ سے بحق محمد سوال کرتا ہوں ‘ اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے : اے اللہ ! تیرے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو وجاہت اور عزت ہے میں اس کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں ‘ علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ وسیلہ پیش کرنا ‘ مدد طلب کرنا اور شفاعت طلب کرنا مستحسن ہے ‘ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر آہ وزاری کرنے کا متقدمین اور متاخرین میں سے کسی نے انکار نہیں کیا تھا حتی کہ ابن تیمیہ آیا اور اس نے انکار کیا ‘ قاضی شوکانی نے کہا کہ انبیاء میں سے کسی نبی ‘ اولیاء میں سے کسی ولی اور علماء میں سے کسی عالم کا بھی وسیلہ پیش کرنا جائز ہے جو شخص قبر پر جا کر زیارت کرے یا فقط اللہ سے دعا کرے اور اس میت کے وسیلہ سے دعا کرے کہ اللہ میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے فلاں بیماری سے شفاء دے اور میں اس نیک بندے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں تو اس دعا کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے۔ قاضی شوکانی کا کلام ختم ہوا ۔ (ہدیۃ المہدی صفحہ نمبر 47 تا 49 مطبوعہ اسلامی کتبخانہ سیالکوٹ)
توسل بعد از وصال کے متعلق غیرمقلد وہابیوں کے امام قاضی شوکانی کا نظریہ
غیرمقلد وہابی عالم علامہ مبارکپوری ” الدرالنضید “ سے قاضی شوکانی کی عبارت نقل کرتے ہیں : انبیاء اور صالحین کے توسل سے منع کرنے والے قرآن مجید کی ان آیات سے استدلال کرتے ہیں : ہم ان کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ (الزمر : ٣) اللہ کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ (جن : ١٨) اسی کو (معبود سمجھ کر) پکارنا بر حق ہے ‘ اور جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے ہیں جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے ۔ (الرعد : ١٤) ان آیات سے استدلال صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ سورة زمر کی آیت نمبر ٣ میں یہ تصریح ہے کہ مشرکین بتوں کی عبادت کرتے تھے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اسی کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ اس کی عبادت نہیں کرتا بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس عالم کے علم کی وجہ سے اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت اور وجاہت ہے ‘ وہ اس وجہ سے اس کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ اس طرح سورة جن کی آیت نمبر ١٨ میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرکے پکارنے (یا عبادت کرنے) سے منع کیا ہے ‘ مثلا کوئی شخص کہے : میں اللہ اور فلاں کی عبادت کرتا ہوں ‘ اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور اللہ کے بعض نیک بندوں کے اعمال صالحہ کے وسیلہ پیش کرتا ہے، جیسا کہ ایک غار میں تین شخص تھے اور اس غار کے منہ پر ایک چٹان گرگئی تو انہوں نے اپنے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا کی ‘ اسی طرح سورة رعد کی آیت نمبر ١٤ میں ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو ان لوگوں کو (معبود سمجھ کر) پکارتے تھے جو ان کو کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے اور اپنے رب کو نہیں پکارتے تھے جو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور جو شخص مثلا کسی عالم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہے ‘ وہ صرف اللہ سے دعا کرتا ہے اور کسی اور سے دعا نہیں کرتا ‘ اللہ کے بغیر نہ اللہ کے ساتھ ۔ (تحفۃ الاحوذی ج ٤ ص ٢٨٣‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین سے براہ راست استمداد
انبیاء علیہم السلام اور بزرگاں دین سے براہ راست مدد طلب کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : کراما کاتبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے بندو ! تم پر اللہ رحم فرمائے میری مدد کرو ۔ (المصنف ج ١٠ ص ٣٩٠ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗ ٦۔ ١٤ ھ)
حافظ ابوبکر دینوری معروف بابن السنی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک شخص کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! اس کو روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو اس کو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ عزوجل کے کچھ روکنے والے ہیں جو اس کو روک لیتے ہیں ۔ (عمل الیوم واللیلہ ص ١٦٢‘ مطبوعہ مطبع مجلس الدائرۃ المعارف ‘ حیدر آباد دکن ‘ ١٣١٥ ھ)
امام بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا ‘ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب تم میں سے کسی شخص کو جنگل کی سرزمین میں کوئی مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (کشف الاستار عن زوائد البزارج ٤ ص ٣٤‘ مطبوعہ، وسستہ الرسالۃ بیروت)
حافظ الہیثمی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کر دے درآن حالیکہ وہ کسی اجنبی جگہ پر ہو تو اس کو یہ کہنا چاہیے کہ اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو ‘ کیونکہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے ۔ یہ امر مجرب ہے ‘ اس حدیث کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا اور اس کے بعض راویوں کے ضعف کے باوجود ان کی توثیق کی گئی ہے ‘ البتہ یزید بن علی نے حضرت عتبہ کو نہیں پایا ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کراما کاتبین کے سوا اللہ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں ‘ جب کسی ویران زمین پر کسی کو مشکل پیش آئے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! میری مدد کرو ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٣٠١٤ ھ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کسی ایک کی سواری ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ یہ ندا کرے : اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو ! روک لو ‘ اے اللہ کے نیک بندو روک لو ‘ کیونکہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے روکنے والے ہیں جو اس کو عنقریب روک لیں گے ‘ اس کو امام ابویعلی رحمۃ اللہ علیہ اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا ہے اور طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں یہ اضافہ ہے : وہ اس کو تمہارے لیے روک لیں گے ۔ (مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٣٢‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)
رجال غیب (ابدال) سے استمداد کے متعلق فقہاء اسلام کے نظریات
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ ‘ امام ابن السنی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : مجھ سے میرے بعض اساتذہ نے بیان کیا جو بہت بڑے عالم تھے کہ ایک مرتبہ ریگستان میں ان کی سواری بھاگ گئی، ان کو اس حدیث کا علم تھا انہوں نے یہ کلمات کہے : (اے اللہ کے بندو ! روک لو) اللہ تعالیٰ نے اس سواری کو اسی وقت روک دیا ۔ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھا ‘ اس جماعت کی ایک سواری بھاگ گئی ‘ وہ اس کو روکنے سے عاجز آگئے ‘ میں نے یہ کلمات کہے تو بغیر کسی اور سبب کے صرف ان کلمات کی وجہ سے وہ سواری اسی وقت رک گئی ۔ (کتاب الاذکار ص ٢٠١‘ مطبوعہ دار الفکر ‘ بیروت ‘ طبع رابع ‘ ١٣٧٥ ھ)
ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کو نقل کیا ہے۔ (الحرز الثمین شرح حصن حصین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المبطعۃ المنیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
غیرمقلدوں کے امام قاضی شوکانی نے بھی علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ کی اس عبارت کو نقل کیا ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین بعدۃ الحصن الحصین ص ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی واولادہ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ ” یاعباد اللہ “ کی شرح میں لکھتے ہیں : ” اے اللہ کے بندو “ اس سے مراد فرشتے ہیں یا مسلمان جن یا اس سے مردان غیب مراد ہیں جن کو ابدال کہتے ہیں (یعنی اولیاء اللہ) ۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٨‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
امام محمد بن جزری رحمۃ اللہ علیہ نے ” حصن حصین “ میں اس حدیث کو طبرانی ‘ ابویعلی ‘ ابن السنی ‘ بزار اور ابن ابی شیبہ کے حوالوں سے درج کیا ہے ‘ ان تمام ورایات کو درج کرنے کے بعد ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : بعض ثقہ علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے اور مسافروں کو اس کی ضرورت پڑتی ہے اور مشائخ سے مروی کہ یہ امر مجرب ہے۔ (الحرز المثین علی ہامش الدرالغالی ص ٣٧٩‘ مطبوعہ المطبعۃ المیریہ ‘ مکہ مکرمہ ‘ ١٣٠٤ ھ)
وہابیوں کے امام قاضی شوکانی ‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں لکھتے ہیں : مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کے روای ثقہ ہیں ‘ اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں ‘ جیسے فرشتے اور صالح جن ‘ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ جیسا کہ جب سواری کھسک جائے یا بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کرنا جائز ہے ۔ (تحفۃ الذاکرین ص ١٥٦۔ ١٥٥‘ مطبوعہ مطبع مصطفے البابی و اولا دہ ‘ مصر ‘ ١٣٥٠ ھ)
امام ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر کے حوالوں سے عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں ندائے یا محمداہ کا رواج : عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں مسلمانوں کا یہ شعار تھا کہ وہ شدائد اور ابتلاء کے وقت ” یا محمداہ “ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ندا کرتے تھے ۔ جنگ یمامہ میں جب مسیلمہ کذاب اور مسلمانوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ‘ اس کا نقشہ کھینچنے کے بعد علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں : پھر حضرت خالد بن ولید نے دشمن کو للکارا اور للکارنے والوں کو دعوت (قتال) دی ‘ پھر مسلمانوں کے معمول کے مطابق یا محمداہ کہہ کر نعرہ لگایا ‘ پھر وہ جس شخص کو بھی للکارتے اس کو قتل کردیتے تھے ۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٢٤٦‘ مطبوعہ دار الکتاب العربیہ بیروت)
حافظ ابن کثیر بھی جنگ کے اس منظر کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : پھر حضرت خالدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کے معمول کے مطابق نعرہ لگایا اور اس زمانہ میں ان کا معمول یا محمداہ کا نعرہ لگانا تھا ۔ (البدایہ والنہایہ ج ٦ ص ٣٢٤‘ مطبوعہ دارا الفکر ‘ بیروت)
حافظ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن کثیر نے یہ تصریح کی ہے کہ عہد صحابہ اور تابعین رضی اللہ عنہم میں شدائد اور ابتلاء کے وقت یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ندائے غائب کے منکرین کے ہاں حافظ ابن کثیر کی بہت پذیرائی ہے اور ان کا یہ لکھنا کہ عہد صحابہ وتابعین میں یا محمداہ کہنے کا معمول تھا ‘ ان کے خلاف قوی حجت ہے ۔
امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ” المطالب العالیہ “ میں ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر عیسیٰ میری قبر پر کھڑے ہو کر ” یا محمد “ کہیں تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔(المطالب العالیہ ج ٤ ص ٣٤٩‘ مطبوعہ مکہ مکرمہ)
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب ” یا رسول اللہ انظرحالنا ‘ یا نبی اللہ اسمع قالنا “ کے جواز یاعدم جواز کی بحث میں لکھتے ہیں : یہ خود معلوم آپ کو ہے کہ ندا غیر اللہ تعالیٰ کو دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم سامع مستقل عقیدہ کرے ورنہ شرک نہیں ‘ مثلا یہ جانے کہ حق تعالیٰ انکو مطلع فرما دیوے گا یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہوجاوے گا یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا کہ درود کی نسبت وارد ہے ‘ یا محض شوقیہ کہتا ہو محبت میں یا عرض حال محل تحسر و حرمان میں ‘ ایسے مواقع میں اگرچہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہرگز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ‘ پس ان ہی اقسام سے کلمات مناجات واشعار بزرگان کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک ہیں نہ معصیت مگر ہاں بہ وجہ موہم ہونے کے ان کلمات کا مجامع میں کہنا مکروہ ہے کہ عوام کو ضرر ہے اور فی حد ذاتہ ابہام بھی ہے ‘ لہذا نہ ایسے اشعار کا پڑھنا منع ہے اور نہ اس کے مولف پر طعن ہوسکتا ہے (الی قولہ) مگر اسی طرح پڑھنا اور پڑھوانا کہ اندیشہ عوام کا ہو بندہ پسند نہیں کرتا گو اس کو معصیت بھی نہیں کہہ سکتا مگر خلاف مصلحت وقت کے جانتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٢٨‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز ‘ کراچی)
گویا محمد یا رسول اللہ کے نعروں سے علماء دیوبند کا منع کرنا ذاتی نا پسندیدگی کی وجہ سے ہے کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ شیخ گنگوہی سے سوال کیا گیا :
سوال : اشعار اس مضمون کے پڑھنے : ” یا رسول کبریا فریاد ہے ‘ یا محمد مصفطے فریاد ہے ‘ مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری تم سے ہر گھڑی فریاد ہے “ کیسے ہیں ؟
جواب : ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے یا محض محبت سے بلا کسی خیال سے جائز ہیں اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہونے کے شرک ہیں اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقائد کو فاسد کرتے ہیں ‘ لہذا مکروہ ہوں گے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٩٥‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
عام مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عالم الغیب نہیں سمجھتے ‘ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ‘ البتہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے آپ پر حقائق غیبیہ منکشف ہوجاتے ہیں جس طرح ہم کو ایسی صفت عطا فرمائی ہے جس سے ہم پر عالم شہادت کے واقعات منکشف ہوجاتے ہیں ‘ نہ ہم بذاتہ شہادت (عالم ظاہر) کے عالم ہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذاتہ غیب کے عالم ہیں ۔ ہم پر اللہ تعالیٰ نے عالم شہادت منکشف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ عزوجل نے عالم غیب بھی منکشف کیا ۔ یہی عام مسلمانوں کا عقیدہ ہے اور شیخ گنگوہی کی تصریح کے مطابق یہ شرک اور معصیت نہیں ہے بلکہ جائز ہے ‘ علماء اہل سنت اپنی تقاریر اور تصانیف میں عوام کو یہ فرق ہمیشہ سے ہر دور میں بتاتے رہتے ہیں اور عام مسلمان اس فرق کو جانتے ہیں ‘ اس لیے عوام کے جلسوں میں بھی اس قسم کے اشعار پڑھنا جائز ہیں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک مانتا ہے اور اس کی عبادت بجا لاتا ہے اس کے متعلق یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مستقل سامع یا مستقل عالم گردانتا ہے ‘ البتہ ذاتی ناپسندیدگی کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے ۔
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب لکھتے ہیں : اور اولیاء کی نسبت بھی یہ عقیدہ ایمان ہے کہ حق تعالیٰ جس وقت چاہے ان کو علم و تصرف دیوے اور عین حالت تصرف میں حق تعالیٰ ہی مصرف ہے ‘ اولیاء ظاہر میں مصرف ہی معلوم ہوتے ہیں ‘ عین حالت کرامت و تصرف میں حق تعالیٰ ہی ان کے واسطے سے کچھ کرتا ہے ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٤٩‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
علامہ محمود الحسن دیوبندی (آیت) ” ایاک نستعین “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے ‘ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے ۔ (حاشیتہ القرآن الحکیم صفحہ نمبر ٢‘ مطبوعہ تاج کمپنی ‘ کراچی)
مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں : اور حقیقی طور پر اللہ کے سوا کسی کو حاجت روانہ سمجھے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرے ‘ کسی نبی یا ولی وغیرہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا اس کے منافی نہیں ۔ (معارف القرآن ‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف ‘ کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)
قطبُ العالم دیوبند جناب رشید احمد گنگوہی صاحب اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ دعا میں بحق رسول وولی اللہ کہنا ثابت ہے یا نہیں ‘ بعض فقہا ومحدثین منع کرتے ہیں ‘ اس کا کیا سبب ہے ؟
جواب : بحق فلاں کہنا درست ہے اور معنی یہ ہیں کہ جو تو نے اپنے احسان سے وعدہ فرمالیا ہے اس کے ذریعہ سے مانگتا ہوں مگر معتزلہ اور شیعہ کے نزدیک حق تعالیٰ پر حق لازم ہے اور وہ بحق فلاں کے یہی معنی مراد رکھتے ہیں ‘ سو اس واسطے معنی موہم اور مشابہ معتزلہ ہوگئے تھے ‘ لہذا فقہاء نے اس لفظ کا بولنا منع کردیا ہے تو بہتر ہے کہ ایسا لفظ نہ کہے جو رافضیوں کے ساتھ تشابہ ہوجاوے فقط ۔ (فتاوی رشیدیہ کامل ص ٩٤‘ مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
علاّمہ محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہاں ہم صرف ” المہند “ کی عبارت پر اکتفاء کرتے ہیں جو علماء دیوبند کے نزدیک ایک اجماعی کتاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔
جواب : ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء واولیاء و صدیقین کا توسل جائز ہے ‘ ان کی حیات میں یا بعد وفات کے بایں طور کہے کہ یا اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ کے تجھ سے دعا کی قبولیت اور حاجت برائی چاہتا ہوں ‘ اسی جیسے اور کلمات کہے ‘ چناچہ اس کی تصریح فرمائی ہے ہمارے مولانا محمد اسحاق دہلوی ثم المکی نے ‘ پھر مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی اپنے فتاوی میں اس کو بیان فرمایا ہے جو چھپا ہوا آج کل لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اور یہ مسئلہ اس کی پہلی جلد کے صفحہ نمبر ٩٣ پر مذکور ہے ‘ جس کا جی چاہے دیکھ لے ۔ (انتہی المہند ص ١٢۔ ١٣) (تسکین الصدور ص ٤١٣‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالوں سے حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : (ف) اس سے توسل بعد الوفات بھی ثابت ہوا اور علاوہ ثبوت بالروایۃ کے درایۃ بھی ثابت ہے کیونکہ روایت اول کے ذیل میں جو توسل کا حاصل بیان کیا گیا تھا ‘ وہ دونوں حالتوں میں مشترک ہے ۔ (نشر الطیب ص ٢٥٣‘ مطبوعہ تاج کمپنی ‘ کراچی)
حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر بارش کی دعا کے لیے درخواست کی تھی اس کے متعلق دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : اس روایت کے سب راوی ثقہ ہیں اور حافظ ابن کثیر ‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اس روایت کو صحیح کہتے ہیں ‘ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٧ ھ اور ١٨ ھ کی ابتداء (تاریخ طبری ج ٤ ص ٩٨‘ البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٩١) اور مورخ عبدالرحمان بن محمد بن خلدون (المتوفی ٨٠٨ ھ) فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ ١٨ ھ کا ہے۔ (ابن خلدون ج ٢ ص ٩٦٩)
یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات سے تقریبا سات آٹھ سال بعد پیش آیا ‘ اس وقت بکثرت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے ۔ خواب دیکھنے والے کوئی مجہول شخص نہیں تھے ‘ بلکہ جلیل القدر صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی (المتوفی ٦٧ ھ) رضی اللہ عنہ تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہو کر طلب دعا اور سوال شفاعت شرک نہیں ورنہ یہ جلیل القدر صحابی یہ کارروائی ہرگز نہ کرتے ۔ یہ معاملہ نرے خواب کا نہیں ہے بلکہ اس سچے خواب کو خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید وتصویب حاصل ہے اور اس کارروائی کا حکم پہلے تو ” علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین الحدیث “ کے تحت سنیت کا ہوگا ورنہ استحباب اور اقل درجہ جواز سے کیا کم ہوگا ۔ (تسکین الصدور ص ٣٥٢۔ ٣٤٩“ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجرانوالہ)
نیز یہی دیوبندی شیخ الحدیث محمد سرفراز خاں صفدر لکھتے ہیں : علاوہ ازیں متعدد کتابوں میں آپ کی قبر مبارک پر حاضر ہو کر طلب دعا کا تذکرہ ہے ‘ چناچہ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک جماعت نے عتبی سے یہ مشہور حکایت نقل کی ہے جس جماعت میں شیخ ابومنصور الصباغ بھی ہیں ‘ انہوں نے اپنی کتاب ” الشامل “ میں بیان کیا ہے کہ عتبی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس بیٹھا ہوا تھا ‘ کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے کہا : السلام علیک یا رسول اللہ ! میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا ہے ” اور اگر بیشک وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا تیرے پاس آتے پس وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور ان کے لیے رسول بھی اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتا تو وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے “ اس لیے میں اپنے گناہوں کی معافی مانگے کے لیے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی پیش کرنے آیا ہوں۔ اس کے بعد اس نے درد دل سے چند اشعار پڑھے اور جذبہ محبت کے پھول نچھاور کرکے چلا گیا ‘ اور اسی واقعہ کے آخر میں مذکور ہے کہ خواب میں اس کو کامیابی کی بشارت بھی مل گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے عتبی ! جا کر اعرابی سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ج ١ ص ٥٢٠) یہ واقعہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ” کتاب الاذکار “ ص ١٨٥‘ طبع مصر میں اور علامہ ابوالبرکات عبد اللہ بن احمد النسفی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ المتوفی ٧١٠ ھ نے اپنی تفسیر ” مدارک “ ج ١ ص ٣٩٩ میں اور علامہ تقی الدین سبکی نے ” شفاء السقام “ ص ٤٦ میں اور شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے ” جذب القلوب “ میں ص ١٩٥ میں اور علامہ بحرالعلوم عبدالعلی نے ” رسائل الارکان “ ص ٢٨٠ طبع لکھنؤ میں نقل کیا ہے ‘ اور علامہ علی بن عبد الکافی السبکی رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ سمہودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ۔ عتبی کی حکایت اس میں مشہور ہے اور تمام مذاہب کے مصنفین نے مناسک کی کتابوں میں اور مورخین نے اس کا ذکر کیا ہے اور سب نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ‘ اس اسی طرح دیگر متعدد علماء نے قدیما وحدیثا اس کو نقل کیا ہے اور تھانوی صاحب لکھتے ہیں کہ مواہب میں بسند امام ابومنصور صباغ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن النجار رحمۃ اللہ علیہ اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ نے محمد بن حرب ہلالی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ میں قبر مبارک کی زیاررت کرکے سامنے بیٹھا تھا کہ ایک اعرابی آیا اور زیارت کرکے عرض کیا کہ یا خیرالرسل ! اللہ نے آپ پر ایک سچی کتاب نازل فرمائی جس میں ارشاد ہے : (آیت) ” ولوانہم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توابا رحیما “ ۔ (النساء : ٦٤) اور میں آپ کے پاس اپنے گناہوں سے استغفار کرتا ہوا اور اپنے رب کے حضور میں آپ کے وسیلہ سے شفاعت چاہتا ہوا آیا ہوں پھر دو شعر پڑھے ‘ اور اس محمد بن حرب کی وفات ٢٢٨ ھ میں ہوئی ہے ‘ ١ ھ۔ غرض زمانہ خیر القرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں بس حجت ہوگیا ۔ (نشر الطیب ص ٢٥٤) اور بانی دیوبند جناب محمد قاسم نانوتوی صاحب یہ آیت کریمہ لکھ کر کہتے ہیں : ” کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں آپ کے ہم عصر ہوں یا بعد کے امتی ہوں ‘ اور تخصیص ہو تو کیونکر ہو آپ کا وجود تربیت تمام امت کے لیے یکساں رحمت ہے کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ قبر میں زندہ ہوں ‘ ١ ھ ۔ (آب حیات ص ٤٠) اور علامہ ظفر احمد عثمانی دیوبندی یہ سابق واقعہ ذکر کرکے آخر میں لکھتے ہیں کہ پس ثابت ہوا کہ اس آیت کریمہ کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی باقی ہے ۔ (اعلاء السنن ج ١٠ ص ٣٣٠) ان اکابر اور دیوبندی اکابرین کے بیان سے معلوم ہوا کہ قبر پر حاضر ہو کر شفاعت مغفرت کی درخواست کرنا قرآن کریم کی آیت کے عموم سے ثابت ہے ‘ بلکہ امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس معنی میں صریح ہے ۔ (شفاء القام ص ١٢٨) ، اور خیر القرون میں یہ کارروائی ہوئی مگر کسی نے انکار نہیں کیا جو اس کے صحیح ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ (تسکین الصدور ص ٣٦٥۔ ٣٦٢‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجر انوالہ)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرنے کو ناجائز ثابت کرنے کے لیے علامہ ابن تیمیہ ‘ علامہ ابن قیم اور شیخ ابن الہادی وغیرہم کی ایک یہ دلیل ہے کہ حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘ ائمہ دین اور سلف صالحین سے ایسی کارروائی ثابت نہیں ‘ اگر یہ جائز ہوتی تو وہ ضرور ایسا کرتے ‘ اس کے جواب میں جناب محمد سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں : یہ ان حضرات کا ایک علمی مغالطہ ہے کیونکہ قبر کے پاس حاضر ہو کر سفارش کرانا اور طلب دعا ‘ نہ تو فرض و واجب ہے اور نہ سنت مؤکدہ ‘ تاکہ یہ حضرات اس پر خواہ مخواہ ضرور عمل کر کے دکھاتے اور اس کا رروائی کے نہ کرنے پر وہ ملامت کئے جاتے ‘ اس کارروائی کے مقر اس کو صرف جائز ہی کہتے ہیں اور جواز کے اثبات کے لیے حضرت بلال بن الحارث رضی اللہ عنہ کا یہ فعل جس کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تائید کی ہے کیا کم ہے ؟ اگر حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما صحابی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں کیا تو یقین جانئے کہ بلال بن الحارث اور ان کی اس کارروائی کے مصدقین بھی صحابہ کرام (رض) ہیں ‘ اگرچہ حافظ ابن تیمیہ یہ کارروائی تسلیم نہیں کرتے لیکن اس کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ کارروائی بعض متاخرین سے ثابت ہے ۔ (محصلہ قاعدہ جلیلہ ص ٧٢)،(تسکین الصدور ص ٣٥٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ ادارہ نصرۃ العلوم ‘ گوجر انوالہ)
خلاصہ یہ ہے کہ تمام اکابر اور اصاغر علماء دیوبند کے نزدیک یا رسول اللہ کہنا جائز ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر مقربین کے وسیلہ سے دعا کرنا اور ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی جائز ہے ‘ بلکہ سنت اور مستحب ہے اور ہم بھی اس سے زیادہ نہیں کہتے ۔
نداے غیر الہ اور توسل کے متعلق ہمارا موقف
انبیا کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرّحمہ سے استمداد کے متعلق جو ہم نے احادیث اور فقہاء اسلام علیہم الرّحمہ کی عبارات نقل کی ہیں اس سے ہمارا صرف یہ منشاء ہے کہ عام مسلمان جو شدائد اور ابتلاء میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ کر پکارتے ہیں ‘ ان کا یہ پکارنا شرک نہیں ہے اور اس نداء کو شرک کہنا شدید ظلم اور زیادتی ہے کیونکہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہرحال اللہ کی مخلوق اور اس کا مقرب بندہ گردانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقی کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام کا ہر فعل اور ہر تصرف اللہ کے اذن ‘ اس کی مشیت اور اس کی دی ہوئی قدرت کے تابع ہے ‘ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام ہوں یا عام انسان ‘ اس کائنات میں جس سے بھی جو فعل صادر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قدرت سے صادر ہوتی ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی انسان کو کسی شے پر ذرہ بھی قدرت نہیں ہے ‘ اور اس اعتقاد کے ساتھ ندائے غیر اللہ کو علماء دیوبند بھی جائز کہتے ہیں ‘ جیسا کہ علامہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کے حوالے سے گزر چکا ہے ۔
اس اعتقاد کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد اور استغاثہ کرنا جائز ہے ۔
شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم صاحب شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : البتہ یہ ظاہر ہے کہ جب حقیقی حاجت روا ‘ مشکل کشا اور کارساز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے تو احسن اور اولی یہی ہے کہ اسی سے مانگا جائے اور اسی سے درخواست کی جائے اور انبیاء علیہم السّلام واولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کا وسیلہ اس کی بارگاہ میں پیش کیا جائے ‘ کیونکہ حقیقت ‘ حقیقت ہے اور مجاز ‘ مجاز ہے ‘ یا بارگاہ انبیاء علیہم السّلام و اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ سے درخواست کی جائے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں کہ ہماری مشکلیں آسان فرمادے اور حاجتیں برلائے اس طرح کسی کو غلط فہمی بھی پیدا نہیں ہوگی اور اختلافات کی خلیج بھی زیادہ وسیع نہیں ہوگی ۔ (ندائے یا رسول اللہ ص ١٢‘ مطبوعہ مرکزی مجلس رضا ‘ لاہور ‘ ١٤٠٥ ھ) ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 Comments