جمہوریت اور خلافت، کیا (خلیفہ سلطان) کا قرشی ہونا شرط ہے؟

 جمہوریت اور خلافت، کیا (خلیفہ سلطان) کا قرشی ہونا شرط ہے؟

***********************************

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سلطنت عثمانیہ کی اعانت مسلمانوں پر لازم ہے یانہیں فرضیتِ اعانت کے لئے بھی سلطان کا قرشی ہونا شرط ہے یانہیں یا صرف خلافت شرعیہ کےلئے یا کسی کے لئے نہیں، مولوی فرنگی محلی کے خطبہ صدارت میں اس کے متعلق چند سطور ہیں اور مسٹر ابوالکلام آزاد نے رسالہ مسئلہ خلافت وجزیرہ عرب میں صفحہ۳۲ سے صفحہ۷۰ تک حسبِ عادت اسے بہت پھیلا کر بیان کیا ہے، ان دونوں کا محصل یہ ہے کہ خلافت شرعیہ میں بھی قرشیت شرط نہیں، یہ صحیح ہے یانہیں؟ اور اس بارے میں مذہب اہلسنت کیا ہے؟بینواتوجروا

الجواب
الحمدﷲ الذی فرض اعانۃ سلاطین الاسلام علی المسلمین وفضل قریشا بخاتم النبیین وسید المرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلیھم وبارک وسلم الٰی یوم الدین وعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ کل اٰن وحین۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان الدین النصیحۃ ﷲ ولکتابہ ولرسولہ ولائمۃ المسلمین وعامتھم۱؎، رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی عن تمیم الداری والترمذی والنسائی عن ابی ھریرۃ واحمد عن ابن عباس والطبرانی فی الاوسط عن ثوبان رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔بیشک دین یہ ہے کہ اﷲ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول سے سچا دل رکھے اور سلاطینِ اسلام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کرے(اسے احمد،مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے تمیم داری سے اور ترمذی اور نسائی نے ابوہریرہ سے اور احمد نے ابن عباس سے اور طبرانی نے اوسط میں ثوبان رضی ا ﷲ تعالٰی عنہم سے روایت کیا ہے۔(ت)

 (۱؎ صحیح مسلم         کتاب الایمان     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۵۴)
(سنن ابوداؤد         کتاب الادب     آفتاب عالم پریس لاہور    ۲/ ۳۲۰)
(مسند احمد بن حنبل     حدیث تمیم الداری     دارالفکر بیروت    ۴/ ۱۰۲)

سلطنت علیہ عثمانیہ ایدہا اﷲ تعالٰی نہ صرف عثمانیہ ہر سلطنت اسلام نہ صرف سلطنت ہر جماعت اسلام نہ صرف جماعت ہر فرد اسلام کی خیر خواہی ہر مسلمان پر فرض ہے اس میں قرشیت شرط ہونا کیا معنی، دل سے خیر خواہی مطلقاً فرض عین ہے، اور وقت حاجت دعا سے امداد واعانت بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس سے کوئی عاجز نہیں اور مال یا اعمال سے اعانت فرض کفایہ ہے اور ہر فرض بقدر قدرت ہر حکم بشرط استطاعت۔

قال تعالٰی لایکلف اﷲ نفسا الّا وسعھا۲؎، وقال تعالٰی فاتقوااﷲ مااستطعتم۳؎۔اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اﷲ کسی نفس کواس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ اور اﷲ نے فرمایا: تو اﷲ سے ڈرو جہاں تک ہوسکے۔(ت)

 (۲؎ القرآن الکریم                     ۳/ ۲۸۶) (۳؎ القرآن الکریم                    ۶۴/ ۱۶)

مفلس پر اعانت مال نہیں، بے دست وپا پراعانتِ اعمال نہیں، ولہذا مسلمانانِ ہند پر حکم جہاد وقتال نہیں۔ بادشاہ اسلام اگرچہ غیر قرشی ہواگرچہ کوئی غلام حبشی ہوامور جائزہ میں اس کی اطاعت تمام رعیت اور وقت حاجت اس کی اعانت بقدر استطاعت سب اہلِ کفایت پر لازم ہے، البتہ اہلسنت کے مذہب میں خلافت شرعیہ کے لئے ضرور قرشیت شرط ہے اس بارے میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے متواتر حدیثیں ہیں، اسی پر صحابہ کا اجماع، تابعین کا اجماع، اہلسنت کا اجماع ہے، اس میں مخالف نہیں مگر خارجی یا کچھ معتزلی کتب عقائد وکتب
حدیث و کتب فقہ اس سے مالامال ہیں، بادشاہ غیر قرشی کو سلطان، امام، امیر، والی، ملک کہیں گے، مگر شرعاً خلیفہ یا امیر المومنین کہ یہ بھی عرفاً اسی کا مترادف ہے، ہر بادشاہ قرشی کو بھی نہیں کہہ سکتے سوااس کے جو ساتوں شروط خلافت اسلام، عقل، بلوغ، حریت، ذکورت، قدرت، قرشیت سب کا جامع ہوکر تمام مسلمانوں کا فرمان فرمائے اعظم ہو۔
اجمالی کلام وواقعات عام وازالہ اوہام جہال خام
اقول وباﷲ التوفیق اسم خلافت میں یہ شرعی اصطلاح ہے جملہ صدیوں میں اسی پر اتفاقِ مسلمین رہا۔
(۱) زمانہ صحابہ سے برابر علمائے کرام خلفاء ملوک کو علیحدہ کرتے آئے حتی کہ خود سلاطین اسی کے پابند رہے اور آج تک ہیں، بڑے بڑے جبار بادشاہ گزرے کبھی غیر قریش نے ترک ہوں یا مغل یا پٹھان یا کوئی اور اپنے آپ کو خلیفہ نہ کہلوایا، نہ خلافت مصطفویہ شرعیہ کا دعوٰی کیا، جب تک خلافت عباسیہ قائم رہی خلیفہ ہی کی سرکار سے سلاطین کی تاجپوشی ہوتی، سلطان دستِ خلیفہ پر بیعت کرتا اوراس منصب شرعی کا مستحق اسی کو اگرچہ زور و طاقت وسطوت میں اس سے کہیں زائد ہوتا، جب کفار تاتار کے دستِ ظلم سے محرم ۶۵۶ھ میں جامہ خلافت تار تار ہوگیا علماء نے فرمایا ساڑھے تین برس تک خلافت منقطع رہی حالانکہ اس وقت بھی قاہر سلطنتیں موجود تھیں، مصر میں ملک ظاہر سلطان بیبرس کا دور دورہ تھا،
 امام جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء میں خاتم الخلفا مستعصم باﷲ کی شہادت کے بعد ذکر فرماتے ہیں:

ثم دخلت سنۃ سبع وخمسین والدنیا بلاخلیفۃ۱؎۔پھر ۶۵۷ھ آیا اور دنیا بے خلیفہ تھی۔

(۱؎ تاریخ الخلفاء     احوال المستعصم باﷲ     مطبع مجتبائی دہلی     ص۳۳۰)

پھر فرمایا:ثم دخلت سنۃ ثمان وخمسین والوقت ایضا بلاخلیفۃ ۲؎۔پھر ۶۵۸ھ آیا اور زمانہ اسی طرح بے خلیفہ تھا۔

 (۲؎تاریخ الخلفاء     احوال المستعصم باﷲ     مطبع مجتبائی دہلی ۳۳۱)

پھر فرمایا:وتسلطن بیبرس وازال المظالم وتلقب بالملک الظاہر ثم دخلت سنۃ تسع وخمسین والوقت ایضا بلاخلیفۃ الٰی رجب فاقیمت بمصر الخلافۃ وبویع المستنصر وکان مدۃ انقطاع الخلافۃ ثلاث سنین ونصفا۱؎۔(ملخصاً)بیبرس سلطان ہوا اوراس نے ظلم دفع کئے اور اپنا لقب ملک ظاہر رکھا، پھر ۶۵۹؁آیا اوروقت ماہ رجب تک یونہی بے خلیفہ تھا یہاں تک کہ مصر میں پھر خلافت قائم کی گئی مستنصر باﷲ عباسی کے ہاتھ پر بیعت ہوئی خلافت ساڑھے تین برس تک معدوم رہی۔(ملخصًا)۔

(۱؎ تاریخ الخلفاء احوال المستعصم باﷲ   مطبع مجتبائی دہلی     ص۳۳۱)

یونہی حسن المحاضرہ فی اخبار مصر والقاہرہ میں فرمایا:لمااخذالتاتاربغداد وقتل الخلیفۃ اقامت الدنیا بلاخلیفۃ ثلث سنین ونصف سنۃ وذٰلک من یوم الاربعاورابع عشر صفر سنۃ ست وخمسین وھو یوم قتل الخلیفۃ المستعصم رحمہ اﷲ تعالٰی الٰی اثناء سنۃ تسع وخمسمائۃ۔۲؎یعنی جبکہ تاتاریوں نے بغداد مقدس لے لیا اور خلیفہ شہید ہوئے دنیا ساڑھے تین برس بے خلیفہ رہی اور یہ ۱۴صفر روز چار شنبہ ۶۵۶ھ سے کہ رو زشہادت خلیفہ مستعصم رحمہ اﷲ تعالٰی تھا سے ۱۳ رجب ۶۵۹ھ تک کا زمانہ ہے۔

 (۲؎ حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ )

 (۲) یہ خلافت کہ مصر میں قائم ہوئی اور ڈھائی سو برس سے زائد رہی خود سلطان کی قائم کی ہوئی تھی، سلطان بظاہر اس کا دست نگر ہوتا اور خلاف پر قادر تھا نظر بقوت بے تفویض خلیفہ بھی نظم ونسق ورتق، فتق وامر وحکم میں سلطان مستقل تھا، خلیفہ امیر المومنین کہلانے اور بیعت لینے اور خطبہ و سکہ کو زینت اور سلاطین کو تاج و خلعت دینے کے لئے ہوتا بلکہ اس کی بنا خود خلافت بغداد میں پڑچکی تھی، مقتدر باﷲکو ۲۹۶ھ میں تیرہ برس کی عمر میں خلافت ملی، طفلی واشتغال بازی واختیارات زنان واستخدام یہود ونصارٰی نے ضعف پہنچایا ملک مغرب نکل گیا، مصر نکل گیا، قرامطہ ملعونوں کا زور ہوا، پھر ۳۲۴ھ میں واسطہ کا صوبہ محمد بن رائق خلیفہ راضی باﷲ پر فائق ہوا خلیفہ نام کے لئے تھا پھر یہ بدعت شنیعہ مدتوں مستمر رہی مگر تمام علماء ومسلمین اور خودوہ جبار سے جبار سلاطین بھی خلافت انہیں قرشی خلفاء کی مانتے اور انہیں سے پروانہ وخلعت سلطنت لیتے۔ اگر غیر قرشی بھی خلیفہ ہوسکتا تو سلاطین خود خلفاء بنتے، کیا ضرورت تھی ان قرشیوں کو اپنا تغلب مٹانے کے لئے حیلہ شرعیہ کے واسطے خلیفہ بناتے اور اپنے زیردستوں کے حضور سربندگی جھکاتے اور ان کے ہاتھ سے تاج وخطاب پاتے ،مگر نہیں وہ مسلمان تھے سنی تھے جانتے تھے کہ ہم قرشی نہیں ہماری خلافت نہیں ہوسکتی اور بے تولیت خلافت بطور خود سلطنت کرینگے تو داغ تغلب ہماری پیشانی سے نہ مٹے گا اسی لئے ان عباسی قرشیوں کی خلافت رکھی تھی۔
(۳) پھر ادھرہی کے سلاطین نہیں اس دور دراز ممکت ہند کے متشرع سلاطین نے بھی انہیں خلفاء سے اپنے نام پروانہ سلطنت کیا حالانکہ یہ کسی طرح تسلط کی راہ سے ان کے ماتحت نہ تھے،

تاریخ الخلفاء میں ہے:وفی سنۃ اربع عشرۃ ارسل غیاث الدین اعظم شاہ بن اسکندر شاہ ملک الھند یطلب التقلید من الخلیفۃ وارسل الیہ مالاوللسلطان ھدیۃ۱؎۔سنہ آٹھ سوچودہ میں بادشاہ ہند اعظم شاہ غیاث الدین بن سکندر شاہ نے خلیفہ مستعین باﷲ ابوالفضل سے اپنے لئے پروانہ تقررِ سلطنت مانگا اور خلیفہ کے لئے نذر اور سلطانِ مصر کو ہدیہ بھیجا۔

 (۱؎ تاریخ الخلفاء     احوال المستعین باﷲ ابوالفضل     مطبع مجتبائی دہلی     ص۳۵۷)

خود مسٹر کے اسی رسالہ  خلافت ص۷۹ میں ہے: ''جب تک بغداد کی خلافت رہی ہندوستان کے تمام حکمران اس کے فرماں بردار رہے جب ۶۶۰ھ(عہ) میں مصر کی عباسی خلافت کا سلسلہ شروع ہوا تو اگرچہ عباسیہ کے کارواں رفتہ کا محض ایک نمود غبار تھا تاہم سلاطین ہند اس کی حلقہ بگوشی وغلامی کو اپنے لئے فخر سمجھتے رہے اور مرکزی خلافت کی عظمت دینی نے مجبور کیا کہ اپنی حکومت کو شرعی طور پر منوادینے کے لئے مقامِ خلافت سے پروانہ نیابت حاصل کرتے رہیں''۔

عہ: یہ غلط ہے بلکہ ۹/رجب ۶۵۹ھ۔۱۲منہ غفرلہ

پھر سلطان محمد بن تغلق شاہ وسلطان فیروز شاہ کی بندگی وغلامی جو اس خلافت سے رہی اور فیروز شاہ کے لئے دربارخلافت سے دوبار پروانہ تقرر سلطنت ونشان خلعت کاآنا لکھا اور یہ کہ سلطان نے اس کی کمال تعظیم کی اور یہ سمجھا کہ گویا یہ عزت آسمان سے اتری اور یہ سند بارگاہ رسالت سے ملی، پھر کہا(ص۸۰)
''غور کرو مقامِ خلافت کی عظمت کا ہمیشہ کیا حال رہا خلافت بغداد مٹنے کے بعد بھی خلافت کی صرف ایک اسمی نسبت بھی اس درجہ جبروت رکھتی تھی کہ ہندوستان جیسے بعید گوشہ میں ایک عظیم الشان  فرمانراوئے اقلیم مصر کے دربار خلافت سے اذن واجازت حاصل ہونے پر فخر کرتاہے مٹنے پر بھی اس مقام کی عظمت تمام عالم اسلامی پر اس طرح چھائی رہتی ہے کہ وہاں کافرمان آسمانی فرمان اور وہاں کا حکم بارگاہِ نبوت کا حکم سمجھا جاتا ہے''۔
خداجانے مسٹر آزاد یہ کس جنگ یا کس نشے کی ترنگ میں لکھ گئے، ان کا اعتقاد تو یہ ہے ص۴۵ کہ:
''انتخاب خلیفہ کا موقع نہ رہا ہوتو خلیفہ تسلیم کرلینے کےلئے بجز اسلام اور حکومت کے جماؤ اور جگہ پکڑلینے کے اور کوئی شرط نہیں۔''
سبحان اﷲ ! یہ سلاطین ہند وسلاطینِ مصر اور خود سلطان بیبرس جس نے اس خلافت کی بنیاد رکھی مسلمان ہی تھے اور ان کی حکومتیں جمی ہوئی تھیں تو آپ کی کافی ساختہ دونوں شرط خلافت موجود تھیں پھر انہوں نے خود اپنے آپ کو خلیفہ کیوں نہ جانا اور ان کی حکومت شرعی طور پر ماننے کے قابل کیوں نہ ہوئی حالانکہ آپ کے نزدیک شریعت کا حکم ہے کہ:
''اسی کو خلیفہ ماننا چاہئے خواہ تمام شرطیں اس میں پائی جائیں یا نہ پائی جائیں۔''(ص۵۱)
''ہر مسلمان پر ازروئے شرع واجب ہے کہ اسی کو خلیفہ اسلام تسلیم کرے''(ص۳۵)
خیر آپ کا تناقض آپ کو مبارک ۔سلاطین اسلام نے کیوں اپنی خلافت نہ مانی اور وہ کیا بات ان میں کم تھی جس کے لیے انھیں دوسرے کی خلافت جمانے اور اس کی اجازت کے صدقے اپنی حکومت کو شرعی منوانے کی ضرورت پڑی ۔ظاہر ہے کہ وہ نہ تھی مگر شرط قرشیت ۔
(۴) مسٹر کو چھوڑئیے جنہوں نے دو ہی شرطیں رکھیں، ائمہ دین تو سات بتاتے ہیں دیکھئے شاید ان میں  کوئی اور شرط مفقود ہونے کے سبب سلاطین نے اپنے آپ کو خلیفہ نہ سمجھا، اوپر گزرا کہ وہ اسلام وحریت وذکورت وعقل وبلوغ و قدرت وقرشیت ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان سلاطین میں چھ موجود تھیں پہلی پانچ بداہۃً اور قدرت یوں کہ حکومت کا جماؤ بے اس کے نہیں تو صرف ایک ہی قرشیت نہ تھی لاجرم اسی کے نہ ہونے تمام سلاطین نے اپنے آپ کو خلیفہ نہ مانا اورقرشی خلافت کا محتاج دست نگر جانا۔
(۵) بلکہ بطور مسٹر امر واضح تر ہے ان نام کے خلفا میں اگر قرشیت موجود تھی قدرت مفقود تھی کہ وہ سلاطین کے ہاتھوں میں شطرنج کے بادشاہ تھے، جبار خونخوار متکبر متجبر سلاطین کے سر میں یوں بھی سودائے مساوات و بے نیازی نہ سمایا اور انہیں کو خلیفہ اور اپنے آپ کو ان کو محتاج ٹھہرایا حتی کہ جب سلطان بیبرس نے مستنصر کو خلیفہ کیا اور اس سے پروانہ سلطنت لیا خلیفہ نے اظہار انقیاد کے لئے اس کے پاؤں میں سونے کی بیڑیاں ڈالیں اور سلطان نے خدم حشم کے ساتھ یونہی قاہرہ اپنے دار السلطنت کا گشت کیا کہ گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں اور آگے آگے وزیر کے سر پر خلیفہ کا عطا کیا ہو اپروانہ سلطنت (حسن المحاضرہ) روشن ہوا کہ وہ شرط قرشیت کس درجہ اہم وضروری ترجانتے تھے انہوں نے خیال کیا کہ قدرت مکتسبہ بھی ہوتی ہے بلکہ اسے اکتساب سے مفر نہیں کہ ملکوں پر تنہا کا تسلط عادۃً نہیں ہوتا مگر افواج واطاعت جماعت سے جب اقتدار والوں نے انہیں سرپررکھ لیا تو مقصود اقتدار حاصل ہوگیا جیسے خلیفہ میں خود عالم اصول وفروع ہونے کی شرط اتفاقی نہ رہی کہ دوسرے کے علم سے کام چل سکتا ہے لیکن قرشیت ایسی چیز نہیں کہ دوسرے سے مکتسب وہ لہذا اپنے اقتدار کا خیال نہ کیا اور ان کی قرشیت کے آگے سر جھکادیا۔
(۶) نہ صرف سلاطین بلکہ بکثرت ائمہ وعلماء نے اسی کو خلافت جانا خلافت بغداد پر پچھلی تین صدیاں جیسی گزریں انہیں جانے دو تو یہی خلافت مصر لو جسے تم کاروانِ رفتہ کی محض ایک نمود غبار کہتے ہو۔
(ا) جب بیبرس نے مستنصر کی خلافت قائم کرنی چاہی سب میں پہلے امام اجل امام عزالدین بن عبدالسلام نے بیعت فرمائی پھر سلطان بیبرس پھر قاضی پھر امراء وغیرہم نے۔
(ب) پھر ابوالعباس حاکم بامراﷲ کے بیٹے تیسرے خلیفہ مصری مستکفی باﷲ کی خلافت کا امضا اور اس کی صحت کاثبوت امام اجل تقی الدین بن دقیق العید کے فتوے سے ہوا ان کےعہدنامہ خلافت میں تھا،

الحمدﷲ الذی ادام الائمۃ من قریش وجعل الناس تبعالھم فی ھذاالامرفغیرھم بالخلافۃ العظمۃ لایدعی ولایسمّی۱؎۔سب خوبیاں اﷲکو جس نے خلیفہ ہمیشہ قریش میں سے کئے اور تمام لوگوں کو خلافت میں ان کو تابع کیا تو غیر قرشی کو نہ خلیفہ کہا جائے گا نہ وہ اس نام سے پکارا جائے۔
اس پر قاضی القضاۃ شمس الدین حنفی کے دستخط ہوئے۔

 (۱؎ حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ )

 (ج) پھر مستکفی کے بیٹے ابوالعباس احمد حاکم بامر اﷲ کی صحت خلافت پر امام قاضی القضاۃ عزالدین بن جماعہ نے شہادت دی اور ان کی مثال بیعت علامہ احمد شہاب ابن فضل اﷲ نے لکھی اس میں ان کو خلیفہ جامع شرائط خلافت لکھا اور لکھا کہ:

وصل الحق الٰی مستحقہ

۲؎حق بحقدار رسید،

کل ذٰلک فی حسن المحاضرۃ(یہ سب کا سب حسن المحاضرۃ میں موجود ہے۔ت)

 (۲؎حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ)

 (د) امام اجل ابوزکریا نووی اسی خلافت مصریہ کے دور سے متعلق شرح صحیح مسلم میں فرمارہے ہیں:قد ظھرما قالہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فمن زمنہ الی الاٰن الخلافۃ فی قریش ۳؎۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ظاہر ہوگیا کہ جب سے آج تک خلافت قریش ہی میں ہے۔
دیکھو اکابر ائمہ برابر انہیں خلفاء مانتے آئے۔

(۳؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ  قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۱۹)

 (ہ) امام خاتم الحفاظ جلال الدین سیوطی نے تاریخ الخلفاء میں یہ تمام خلافتیں بغدادی پھر مصری ذکر کیں اور خطبہ میں فرمایا:

ترجمت فیہ الخلفاء امراء المؤمنین القائمین بامرالامۃ من عھد ابی بکر الصدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ والی عھدنا ھذا۱؎۔میں نے اس کتاب میں ان کے احوال بیان کئے جو خلیفہ امیر المومنین کارامت پر قیام کرنے والے صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے وقت سے ہمارے زمانے تک ہوئے۔

 (۱؎ تاریخ الخلفاء     خطبہ کتاب     مطبع مجتبائی دہلی     ص۶)

 (و) پھر فرمایا میں نے اس میں کسی عبیدی کا ذکر نہ کیا کہ کئی وجہ سے ان کی خلافت صحیح نہیں، ایک تو وہ قرشی نہ تھے، دوسرے وہ بدمذہب بے دین کم از کم رافضی تھے ومثل ھؤلاء لاتنعقد لھم بیعۃ ولاتصح لھم امامۃ۲؎ایسوں کے لئے نہ بیعت ہوسکے نہ ان کی خلافت صحیح۔ تیسرے یہ کہ ان کی بیعت اس وقت ہوئی کہ خلافت عباسی قائم تھی اور ایک وقت میں وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے، چوتھے یہ کہ حدیث فرماچکی کہ خلافت جب بنی عباس کو ملے گی پھر ظہور امام مہدی تک دوسرے کونہ پہنچے گی، ان وجوہ سے میں نے عبیدیوں کو ذکر نہ کیا وانماذکرت الخلیفۃ المتفق علٰی صحۃ امامتہ۳؎میں نے وہی خلفاء ذکر کئے جن کی صحتِ خلافت پر اتفاق ہے دیکھو کیسے صریح نص ہیں کہ یہ کمزور خلافتیں بھی صحیح خلافت ہیں، آخر کس لئے، اس لیے کہ قرشی ہیں اور زبردست طاقتور سلاطین غیر قرشی۔

 (۲؎تاریخ الخلفاء     خطبہ کتاب     مطبع مجتبائی دہلی  ص۷)
(۳؎تاریخ الخلفاء     خطبہ کتاب     مطبع مجتبائی دہلی    ص۸)

 (ز) جب خلیفہ مستکفی باﷲ نے شعبان ۷۴۰ھ یا ۷۴۱ھ میں وفات پائی اور اپنے بیٹے احمد حاکم بامراﷲ کو ولی عہد کیا سلطان ناصر الدین محمد بن قلادون ترکی نے کہ۷۳۶ھ میں مستکفی باﷲ سے رنجیدہ ہوگیا اور ۱۸ذی الحجہ کو اسے مصر سے باہر شہر قوص میں مقیم کیا(اگرچہ ادارات پہلے سے بھی زائد کردئے اور خطبہ وسکہ خلیفہ ہی کا جاری رہا اس عہد کو نہ مانا اور جبراً خلیفہ مستکفی کے بھتیجے ابراہیم بن محمد حاکم بامراللہ کے لیے بیعت لی (اگرچہ  مرتے وقت خود اس پر نادم ہوا اور سرداروں کو وصیت کی کہ خلافت ولی عہد مستکفی احمد ہی کے لئے ہو جس پر ابن فضل اﷲ نے وہ لکھا کہ حق بحقدار رسید)ابن قلادون کی اس حرکت پر امام جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ میں فرمایا کہ اﷲ عزوجل نے ناصربن قلادون پر اس کے سب سے زیادہ عزیز بیٹے امیر نوک کی موت کی مصیبت ڈالی، یہ اسے پہلی سزادی، پھر مستکفی کے بعد سلطنت سے متمتع نہ ہوا ایک سال اور کچھ روزوں کے بعد اﷲ عزوجل نے اسے ہلاک کیا بلکہ بعض نے مستکفی کی وفات۷۴۱ھ  میں لکھی ہے تو یوں تین ہی مہینے بعد مرا،

سنۃ اﷲ فیمن مس احدامن الخلفاء بسوء فان اﷲ تعالٰی یقصمہ عاجلا وما ید خرلہ فی الاٰخرۃ من العذاب اشد۔۱؎سنت الٰہیہ ہے کہ جو کوئی کسی خلیفہ سے برائی کرے اﷲ تعالٰی اسے ہلاک فرمادیتا ہے اور وہ جو آخرت میں اسے کے لئے رکھتا ہے سخت تر عذاب ہے۔

 (۱؎حسن المحاضر ۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ۔)

پھر اولاد ابن قلادون میں اس کی شامت کی سرایت بیان فرمائی کہ ان میں جو بادشاہ ہواتخت سے اتارا گیا اور قید یا جلاوطن یا قتل کیا گی، خود اس کا صلبی بیٹا کہ اس کے بعد تخت پر بیٹھا دو مہینے سے کم میں اتاردیا گیا اور مصر سے قوص ہی کو بھیجا گیا جہاں سلطان نے خلیفہ کو بھیجا تھا اور وہیں قتل کیا گیا، ناصر نے چالیس برس سے زیادہ سلطنت کی اور اس کی نسل سے بارہ ۱۲بادشاہ ہوئے جن کی مجموعی مدت اتنی نہ ہوئی۔

 (ح) نیز امام ممدوح کتاب موصوف میں فرماتے ہیں:اعلم ان مصر من حین صارت دارالخلافۃ عظم امرھاوکثرت شعائرالاسلام فیھا وعلت فیھا السنۃ وعفت عنھا البدعۃ وصارت محل سکن العلماء ومحط الرجال الفضلاء وھذاسرمن اسرار اﷲ تعالٰی اودعہ فی الخلافۃ النبویۃ کمادل ان الایمان والعلم یکونان مع الخلافۃ اینما کانت ولایظن ان ذٰلک بسبب الملوک فقد کانت ملوک بنی ایوب اجل قدراو اعظم قدر امن ملوک جاء ت بعدھم بکثیر ولم تکن مصر فی زمنھم کبغداد وفی اقطار الارض الاٰن من الملوک من ھواشد بأساواکثر جندامن ملوک مصر کالعجم والعراق والروم والھندوالمغرب ولیس الدین قائما ببلادھم کقیامہ بمصر ولاشعائر الاسلام ظاھرۃ فی اقطارھم کظہورھا فی مصرو لانشرت السنۃ والحدیث والعلم فیھا کما فی مصر۱؎۔یعنی مصر جب سے دارالخلافہ ہوا اس کی شان بڑھ گئی، شعائرِ اسلام کی اس میں کثرت ہوئی، سنت غالب ہوئی بدعت مٹی، علماء کا جنگل فضلاء کا دنگل ہوگیا، اور یہ رازِ الٰہی ہے کہ اس نے خلافتِ نبوت میں رکھا ہے جس طرح حدیث میں آیا کہ خلافت جہاں ہوگی علم وایمان اس کے ساتھ ہوں گے، اوریہ کوئی نہ سمجھے کہ مصر میں یہ دین کی ترقی سلاطین کے سبب ہوئی کہ سلاطین بنی ایوب سلاطینِ مابعد سے بہت زیادہ جلیل القدر تھے اور ان کے زمانے میں مصر بغداد کو نہ پہنچتا تھا اور اب اطراف زمین میں وہ سلاطین ہیں کہ سلاطین مصر سے ان کی آنچ سخت اور لشکر زائد جیسے ایران ، عراق ،روم، مغرب، ہندوستان۔ مگر دین وہاں ایسا قائم نہیں جیسا مصر میں ہے، نہ شعائر اسلام ایسے ظاہر نہ سنت وحدیث وعلم کا ایسا شیوع، یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے، دیکھو کیسا جبار وبالاقتدار سلاطین کو جن میں ترک بھی ہیں الگ کردیا اور خلافت نبوت ایسی کمزور خلافت مصر میں مانی۔

 (۱؎ حسن المحاضرۃ فی اخبارمصر والقاہرۃ)

آخر یہ فرقِ قرشیت نہیں تو کیا ہے۔
(۷) اگر کہے وہ خلافت سے نامزد ہوچکے تھے لہذا بعد کے سلاطین نے اگرچہ جامع شروط تھے اپنے آپ کو خلیفہ نہ جانا کہ خلافت جب ایک کے لئے ہولے دوسرا نہیں ہوسکتا،
اقول(میں کہتا ہوں۔ت) اولًا ہو تو سلاطین یا بعد میں ہو، بیبرس کی سلنطت تو پہلے منعقد ہولی تھی، پھر دوسرے کو خلیفہ بنانے اور اس کے آگے ہاتھ پھیلانے اور یہ سلسلہ ماضیہ جلانے جمانے کے کیا معنی تھے، کاش سلطان اپنے آپ کو معزول کرلیتا اور مستنصر ہی کے ہاتھ میں باگ دیتا مگر نہیں وہ سلطنت پر قائم رہا، اور تمہارے زعم میں خود بیبرس کی خلافت صحیحہ اور ہر مسلمان پر شرعاً واجب التسلیم تھی، اب اس نے انتخاب کی طر ف آکر اپنی صحیح شرعی خلافت تو باطل کردی اور ایک اسمی رسمی قائم کی، یہ کیسا جنون ہوا جسے تمام علمائے عصر نے بھی پسندکیا طرفہ تریہ کہ یہ اپنی حکومت  شرعی طور پر منوانے کےلئے کیا جس کا مسٹر کو بھی اعتراف ہے حالانکہ اس سے پہلے اس کی خلافت کا ماننا آپ کے نزدیک شرعاً واجب تھا، اور اب نہ رہا کہ انتخاب نے شرائط عائد کیں وہ نہ اس میں ہیں نہ اس خلیفہ میں، تو اپنی خلافت کھوئی خلیفہ اسمی سے تولیت لی وہ گئی اور یہ نہ ہوئی دونوں دین سے گئے اسی لئے گلے میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں پہنی تھیں۔عبیکسیہائے تمنا کہ نہ دنیا ونہ دین

 (بیکسی کی آرزو پر افسوس ہے کہ نہ دنیا ہاتھ آئی نہ دین حاصل ہوا۔ت)
غرض یہ ایجاد آزاد وہ مہمل وبیمعنی ہذیان ہے جو سلاطین وعلماء کی خواب میں بھی نہ تھا وہ یقینا جانتے تھے کہ خلافت میں ہمارا کچھ حصہ نہیں اور داغِ تغلب ہم سے نہ مٹے گا جب تک کسی خلیفہ قرشی سے اذن نہ لیں لہذا یہ صورت خلافت قائم کی کہمالایدرک کلہ لایترک کلہ (جسے نہ کلی طور پر حاصل کیا جاسکتا ہے نہ ہی اسے چھوڑاجاسکتا ہے۔ت)

 (۸) ثانیاً دنیا میں اسلامی سلطنتیں مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی تھیں اور ہر ایک اپنے ملک کا حاکم مستقل اور آپ کی دونوں شرط خلافت کا جامع تھا اور تبدل ایام و موت، تقرر سلاطین سے کبھی یہاں کی سلطنت پہلے ہوتی کبھی وہاں کی، ان میں کسی متأخر نے یہ نہ جانا کہ خلافت اس دوسرے سلطان کا حق ہے مجھے اس سے اذن وپروانہ لینا چاہئے لیکن سمجھا تو اس قریشی خلافت کا محتاج سمجھا تو ہرگز اس کی بناء پر تقدم و تأخر نہ تھی کہ بلکہ وہی ایک اکیلی شرط قرشیت کہ نامقتدری خلیفہ کی حالت میں بھی اپنا رنگ جماتی اور بڑے بڑے اقتدار وجبروت والوں کا سراپنے سامنے جھکاتی تھی۔ الحمدﷲ کیسے روشن بیانوں سے ثابت ہوا کہ یہ سارے جلوے شرط قرشیت کے تھے تمام سلاطین کا خودیہی عقیدہ تھا کہ ہم بوجہ عدم قرشیت لائق خلافت نہیں، قرشی کے سوا دوسرا شخص خلیفہ نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت وقرن کے علماء انہیں یہی بتاتے رہے۔ اور قطعاً یہی مذہب اہلسنت ہے اور اسی پر احادیث مصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی متواتر شہادت ہےفماذابعد الحق الا الضلا ل (تو حق کے بعد کیا ہے صرف گمراہی ہے۔ت)

رہا مسئلہ اعانت، کیاآپ لوگوں کے زعم میں سلطانِ اسلام کی اعانت کچھ ضرور نہیں، صرف خلیفہ کی اعانت جائز ہے کہ مسلمانوں کو اعانت پر ابھارنے کے لئے ادعائے خلافت ضرور ہوا یا سلطان مسلمین کی اعانت صرف قادروں پر ہے اور خلیفہ کی اطاعت بلاقدرت بھی فرض ہے، یہ نصوص قطعیہ قرآن کے خلاف ہے، اور جب کوئی وجہ نہیں پھر کیا ضرور ت تھی کہ سیدھی بات میں جھگڑا ڈالنے کے لئے جملہ علمائے کرام کی واضح تصریحات متظافرہ اور اجماعِ صحابہ واجماعِ امت واحادیثِ متواترہ کے خلاف یہ تحریک لفظ خلافت سے شروع کرکے عقیدہ اجماعیہ اہلسنت کا خلاف کیا جائے، خارجیوں معتزلیوں کا ساتھ دیاجائے، دوراز کار تاویلوں، تبدیلیوں، تحریفوں، خیانتوں، عنادوں، مکابروں سے حق چھپانے اور باطل پھیلانے کا ٹھیکالیاجائے، والعیاذ باﷲ تعالٰی۔
اب ہم بتوفیقہ تعالٰی اس اجمال مفصل کی تفصیل مجمل کے لئے کلام کو ایک مقدمہ اور تین فصل پر منقسم کرتے ہیں:
مقدمہ: خلیفہ وسلطان کے فرق اور یہ کہ کسی عرف حادث سے مسئلہ خلافت مصطلحہ شرعیہ پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
فصل اول: احادیث متواترہ واجماع صحابہ وتابعین ومذہب اہلسنت نصرھم اﷲ تعالٰی سے شرطِ قرشیت کے روشن ثبوت۔
فصل دوم:خطبہ صدارت میں مولوی فرنگی صاحب کی پندرہ سطری کار گزاری کی ناز برداری۔
فصل سوم: رسالہ خلافت میں مسٹر ابوالکلام آزاد کے ہذیانات وتلبیسات کی خدمتگزاری۔

وباﷲ التوفیق لارب سواہ، والصلوٰۃ والسلام علٰی مصطفاہ واٰلہ وصحبہ والاہ۔

مقدمہ
خلیفہ و سلطان کے فرق اور یہ کہ سلطان کہہ دیا جانا ہی خلیفہ نہ ہونے کی کافی دلیل ہے اور یہ کہ لفظ خلیفہ میں اگر کوئی عرف حادث ہوتو اس سے خلافت مصطلحہ شرعیہ پر کیا اثر۔
(۱) خلیفہ حکمرانی وجہانبانی میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا نائب مطلق تمام امت پر ولایت عامہ والا ہے،
 شرح عقائد نسفی میں ہےخلافتھم) ای نیابتھم عن الرسول فی اقامۃ الدین بحیث یجب علی کافۃ الامم الاتباع۱؎۔ان کی خلافت، یعنی دین کی اقامت میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابت کا مقام یہ ہے کہ تمام امت پر اس کی اتباع واجب ہے(ت)

(۱؎ شرح العقائد النسفیۃ     دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان ص۱۰۸)

خودسر کفار کا اسے نہ ماننا شرعاً اس کے استحقاق ولایت عامہ میں مخل نہیں جس طرح ان کا خود نبی کو نہ ماننا یونہی روئے زمین کے مسلمانوں میں جو اسے نہ مانے گا اس کی خلافت میں خلاف نہ آئے گا یہ خود ہی باغی قرار پائے گا اور اصطلاح میں سلطان وہ بادشاہ ہے جس کا تسلط قہری ملکوں  پر ہوچھوٹے چھوٹے والیانِ ملک اس کے زیرِ حکم ہوں،

کماذکرہ الامام جلال الدین السیوطی رحمہ اﷲ تعالٰی فی حسن المحاضرۃ عن ابن فضل اﷲ فی المسالک عن علی بن سعید۔جیسا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اﷲ تعالٰی نے حسن المحاضرۃ میں ابن فضل اﷲ سے انہوں نے مسالک میں علی بن سعید سے اسے ذکر کیا۔(ت)
یہ دو قسم ہے:
(۱) مُولّی جسے خلیفہ نے والی کیا ہو اس کی ولایت حسبِ عطائے خلیفہ ہوگی جس قدر پر والی کرے۔
(۲) دوسرا متغلب کہ بزورِ شمشیر ملک دبا بیٹھا اس کی ولایت اپنی قلمر و پر ہوگی وبس۔
(۲) کہ اول پر متفرع ہے خلیفہ کی اطاعت غیر معصیت الٰہی میں تمام امت پر فرض


جس کا منشا خود اس کا منصب ہے کہنا نائبِ رسول رب  ہے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، اور سلطان کی اطاعت صرف اپنی قلمرو پر، پھر اگر مولٰی ہے تو بواسطہ عطائے خلیفہ اس منصب ہی کی  وجہ سے کہ اس کا امر امرِ خلیفہ ہے اور امرِ خلیفہ امر نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، اور اگر متغلب ہے تو نہ اس کے منصب سے کہ وہ شرعی نہیں بلکہ دفعِ فتنہ اور اپنے تحفظ کے لئے خود مسٹر نے فتح الباری سے دربارہ سلطان متغلب نقل کیا (ص۵۱)۔طاعتہ خیرمن الخروج علیہ لما فی ذٰلک من حقن الدماء وتسکین الدھماء۱؎۔اس کے خلاف کے مقابلہ میں اس کی طاعت بہتر ہے کیونکہ اس میں جانوں کا تحفظ اور شورش سے سکون ہے(ت)

 (۱؎ مسئلہ خلافت     بحث بعض کتب مشہورہ عقائد و فقہ      داتا پبلشر لاہور     ص ۱۰۶)

 (۳) کہ دوم پر متفرع ہے خلیفہ نے جس مباح کا حکم دیا حقیقۃً فرض ہوگیا جس مباح سے منع کیا حقیقۃً حرام ہوگیا یہاں تک تنہائی وخلوت میں بھی اس کا خلاف جائز نہیں کہ خلیفہ نہ دیکھے اﷲ دیکھتا ہے، ایک زمانے میں خلیفہ منصور نے امام الائمہ سراج الامہ سید نا امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو فتوٰی دینے سے منع کردیا تھا، امام ہمام کی صاحبزادی نے گھرمیں ایک مسئلہ پوچھا، امام نے فرمایا : میں جواب نہیں دے سکتا خلیفہ نے منع کیا ہے۔ یہاں سے ظاہر ہوا کہ خلیفہ کا حکم مباح درکنار فرض کفایہ پر غالب ہے جبکہ دوسرے اس کے ادا کرنے والے موجود ہوں کہ اب اس کا ترک معصیت نہیں تو حکمِ خلیفہ نافذ ہوگا اگرچہ خلیفہ ظالم بلکہ خود اس کا وہ حکم ظلم ہو کہ امام کو فتوٰی سے روکنا نہ ہوگا مگر ظلماً، اور سلطان متغلب جس کی ولایت خلیفہ سے مستفاد نہ ہو اس کے امر و نہی سے مباحات فی نفسہا واجب و حرام نہ ہوجائیں گے تنہائی میں اس طور پر کہ اسے اطلاع پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو مباح اپنی اباحت پر رہے گا۔ علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اﷲ تعالٰی صاحب نسیم الریاض وعنایۃ القاضی وغیرہما کتب نافعہ کے زمانے میں سلطان نے حقہ پینے سے لوگوں کو منع کیا تھا یہ پردہ ڈال کر پیتے۔

امام علامہ عارف باﷲ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی رسالہ الصلح بین الاخوان میں فرماتے ہیں:
''نہ خود حقہ پیتا ہوں نہ میرے گھر بھر میں کوئی پیتا ہے مگر مباح کو حرام نہیں کہہ سکتا''۔۲؎

 (۲؎ رسالہ الصلح بین الاخوان لعبد الغنی نابلسی )

اور منع سلطانی کے جواب میں شرح ہدیہ ابن العماد میں فرماتے ہیں:لیت شعری ای امر من امریہ یتمسک بہ امرہ الناس بترکہ اوامرہ باعطاء المکس علیہ علی ان المراد من اولی الامر فی الاٰیۃ العلماء علی اصح الاقوال کماذکرہ العینی فی اٰخر مسائل شتی من شرح الکنز وایضا ھل منع السلاطین الظلمۃ یثبت حکما شرعیا وقد قالوا من قال لسلطان زماننا عادل کفر۔۱؎یعنی کاش میں جانوں کہ سلطان کا کون سا حکم لیاجائے یہ کہ لوگ حقہ نہ پئیں یا یہ کہ تمباکو پرٹیکس دیں معہذا آیہ کریمہ میں اصح قول یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد علماء ہیں جس طرح شرح کنز امام عینی میں ہے نیز کیا ظالم سلاطین کا حکم حکم شرعی ہوجائے گا حالانکہ ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ جو ہمارے زمانے کے سلطان کو عادل کہے کافر ہوجائیگا انتہی۔
یہ ارشاد امام علم الہدٰی ابو منصور ماتریدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا اپنے زمانے کے سلاطین میں ہے جنہیں ہزار برس سے زائد ہوئے نہ کہ اب۔نسأل اﷲ العفووالعافیۃ۔

 (۱؎ شرح ہدیۃ ابن العماد    )

(۴)کہ نیز دوم پر متفرع ہے ایک وقت میں تمام جہان میں ایک ہی ہوسکتا ہے اور سلاطین دس ملکوں میں دس۔ خود مسٹر آزاد لکھتے ہیں(ص۸۴): ''اسلام نے مسلمانوں کی حکومت ایک ہی قرار دی تھی یعنی روئے زمین پر مسلمانوں کا صرف ایک ہی فرمانرواوخلیفہ ہو۔''
(۵)کوئی سلطان اپنے انعقاد سلطنت میں دوسرے سلطان کے اذن کا محتاج نہیں مگر ہر سلطان اذن خلیفی کا محتاج ہے کہ بے اس کے اس کی حکومت شرعی و مرضی شرع نہیں ہوسکتی، خود آزاد کے ص۷۹ سے گزرا کہ:
''خلافت کی عظمت دینی نے مجبور کیا کہ اپنی حکومت کو شرعی طور پر منوادینے کے لئے خلافت سے پروانہ نیابت حاصل کرتے رہیں۔''
(۶) خلیفہ بلاوجہ شرعی کسی بڑے سے بڑے سلطان کے معزول کئے معزول نہیں ہوسکتا، خود جبار وسرکش قوّاد ترک کہ متوکل بن معتصم بن ہارون رشید کو قتل کرکے خلفاء  پر حاوی ہوگئے تھے جب ان میں کسی کو زندہ رکھ کر معزول کرنا چاہتے خود اسے مجبورکرتے کہ خلافت سے استعفٰی دے تاکہ عزل صحیح ہوجائے بخلاف سلطان کہ خلیفہ کا صرف زبان سے کہہ دینا'' میں نے تجھے معزول کیا'' اس کے عزل کو بس ہے۔
(۷) سلطنت کے لئے قرشیت درکنار حریت بھی شرط نہیں، بہتیرے غلام بادشاہ ہوئے،
خود رسالہ آزاد صفحہ۵۵میں ہے: ''غلاموں نے بادشاہت کی ہے اور تمام سادات وقریش نے ان کے آگے اطاعت کاسر جھکایا ہے''۔
اور خلافت کےلئے حریت باجماع اہل قبلہ شرط ہےکمافی المواقف وشرحہ وعامۃ الکتب (جیسا کہ مواقف اور اس کی شرح اور عامہ کتب میں ہے۔ت)

یہاں سے خلیفہ وسلطان کے فرق ظاہرہوگئے، نیزکھل گیا کہ سلطان خلیفہ سے بہت نیچا درجہ ہے، ولہذا کبھی خلیفہ کے نام کے ساتھ لفظ سلطان نہیں کہا جاتا کہ اس کی کسرِ شان ہے آج تک کسی نے سلطان ابوبکر صدیق،سلطان عمر فاروق، سلطان عثمان غنی، سلطان علی المرتضٰی بلکہ سلطان عمر بن عبدالعزیز بلکہ سلطان ہارون رشید نہ سنا ہوگا، کسی خلیفہ اموی یا عباسی کے نام کے ساتھ اسے نہ پائیے گا، تو کھل گیا کہ جس کے نام کے ساتھ سلطان لگاتے ہیں اسے خلیفہ نہیں مانتے کہ خلیفہ اس سے بلندوبالا ہے، یہی وہ خلافت مصطلحہ شرعیہ ہے جس کی بحث ہے، اسی کے لئے قرشیت وغیرہا سات شرطیں لازمی ہیں عرف حادث میں اگر کسی سلطان کو بھی خلیفہ کہیں یا مدح میں ذکر کرجائیں وہ نہ حکمِ شرع کا نافی ہے نہ اصطلاحِ شرع کا منافی۔ جس طرح اجماعِ اہلسنت ہے کہ بشر میں انبیا ء علیہم الصلاۃ والسلام کے سواکوئی معصوم نہیں ، جو دوسرےکو معصوم مانے اہلسنت سے خارج ہے، پھر عرف حادث میں بچوں کو بھی معصوم کہتے ہیں یہ خارج ازبحث ہے جیسے لڑکوں کے معلم تک کو خلیفہ کہتے ہیں، یہ مبحث واجب الحفظ ہے کہ دھوکا نہ ہووباﷲ التوفیق۔
فصل اوّل
احادیث متواترہ سرکار رسالت واجماع صحابہ وتابعین وائمہ امت ومذہب مہذب اہلسنت وجماعت سے شرط قرشیت کے روشن ثبوت
احادیث شریفہ کو میں جدا لاؤں ان کی تخریج و شان تو اتر بتاؤں ان سے اتمام تقریب ووجہ احتجاج دکھاؤں اس سے یہی بہتر کہ کتبِ عقائد وکتبِ حدیث وکتبِ فقہ سے اقوال جلیلہ ائمہ کرام علمائے اعلام بتادیں گے کہ حدیثیں متواتر ہیں ان کی حجتیں قاہرہ ہیں ہر طبقہ وقرن کے اجماع متظافر ہیں مخالف سنی نہیں خارجی معتزلی گمراہ خاسر ہیں وباﷲ التوفیق۔
کتب عقائد
امام ہمام مفتی الجن والانس عارف باﷲ نجم الملۃ والدین عمر نسفی استادِ امام برہان الملۃ والدین صاحبِ ہدایہ رحمہمااﷲ تعالٰی کا متن عقائد مشہور بہ عقائد نسفی جو سلسلہ نظامیہ ودیگر سلاسل تعلیمیہ میں عقائد اہلسنت کی درسی کتاب ہے جسے درس میں اسی لئے رکھا ہے کہ طلبہ عقائدِ اہلسنت سے آگاہ ہوجائیں، اس کتاب جلیل میں ہے:ویکون من قریش ولایجوز من غیرھم۱؎یعنی خلیفہ قریش سے ہو غیر قریشی جائز نہیں۔

 (۱؎ شرح العقائد النسفیۃ     دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار،افغانستان     ص۱۱۱)

شرح علامہ تفتازانی میں ہے:لم یخالف فیہ الاالخوارج وبعض المعتزلۃ۱؎۔قرشیت کی شرط میں کسی نے خلاف نہ کیا مگر خارجیوں اور بعض معتزلیوں نے۔ (۱؎ شرح العقائد النسفیۃ     دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان    ص۱۱۲)

اسی میں ہے:یشترط ان یکون الامام قریشیا لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام الائمۃ من قریش وھذا وان کان خبراواحدا لکن لمارواہ ابوبکر محتجابہ علی الانصار ولم ینکرہ احد فصار مجمعاعلیہ۲؎۔یعنی شرط یہ ہے کہ خلیفہ قریشی ہو بدلیل قول نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش اور یہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے لیکن جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے انصار پر حجت میں اسے پیش کیا اورصحابہ کرام میں کسی نے اس پر انکار نہ کیا تو اس پر اجماع ہوگیا۔

 (۲؎شرح العقائد النسفیۃ     دارالاشاعۃ العربیۃ قندھار، افغانستان     ص۱۱۱ و ۱۱۲)

کتاب قواعد العقائد امام حجۃ الاسلام غزالی میں ہے:شرط الامامۃ نسبۃ قریش لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۳؎۔خلافت کی شرط نسب قریشی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا خلفاء قریش سے ہیں ۔

 (۳؎ احیاء العلوم     کتاب قواعد العقائد     الفصل الثالث     الرکن الرابع    مکتبۃ المشہد الحسینی قاہرہ مصر  ۱/ ۱۱۵)

اس کی شرح اتحاف میں ہے:ان کثیرامن المعتزلہ نفی ھذاالاشتراط، ودلیل اھل السنۃ قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش قال العراقی اخرجہ النسائی من حدیث انس والحاکم من حدیث علی وصححہ اھ قلت وکذا اخرجہ البخاری فی التاریخ وابویعلی والطیالسی والبزار عن انس واخرجہ احمد من حدیث ابی ھریرۃ وابی بکر الصدیق والطبرانی من حدیث علی وعندہ عن انس بلفظ ان الملک فی قریش واخرج یعقوب بن سفیان وابویعلی والطبرانی من طریق سکین من عبدالعزیز حدثنا سیاربن سلامۃ ابوالمنہال قال دخلت مع ابی علی ابی برزۃ الاسلمی فسمعتہ یقول سمعت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول الامراء من قریش الخ۱؎(ملخصاً)یعنی بہت معتزلیوں نے شرطِ قرشیت کا انکار کیا اور اہلسنت کی دلیل، رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلفا قریش سے ہوں، امام زین الدین عراقی نے فرمایا یہ حدیث نسائی نے حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور حاکم نے امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ سے روایت کی اور کہا یہ حدیث صحیح ہے اھ  میں کہتا ہوں یونہی اسے امام بخاری نے کتاب التاریخ اور ابویعلی وابوداؤد طیالسی و بزار نے انس اور امام احمد نے ابوہریرہ وحضرت صدیق اکبر اور طبرانی نے مولٰی علی سے روایت کیا رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، نیز طبرانی کے یہاں بروایت انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان لفظوں سے ہے کہ سلطنت قریش میں ہے اور یعقوب بن سفیان و ابویعلٰی وطبرانی نے سکین بن عبدالعزیز سے روایت کی کہ ہم سے سیار بن سلامہ ابو المنہال نے حدیث بیان کی کہ میں اپنے والد کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس گیا انہیں یہ حدیث روایت کرتے سنا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی کو فرماتے سنا کہ خلفاء قریش سے ہیں الخ(ملخصاً)

 (۱؎ اتحاف السادۃ المتقین     کتاب قواعد العقائد     دارالفکربیروت     ۲/ ۲۳۱)

ثم ذکرتخاریج حدیث لایزال ھذا الامر فی قریش۲؎ وشواھدہ وکلہ ماخوذ من الفتح۔پھر انہوں نے حدیث، کہ یہ خلافت ہمیشہ قریش میں ہوگی، کی تخریجات اور شواہدات کو ذکر کیا اور یہ سب فتح الباری سے ماخوذ ہے(ت)

(۲؎اتحاف السادۃ المتقین     کتاب قواعد العقائد     دارالفکربیروت     ۲/ ۲۳۱)

مسایرہ امام محقق علی الاطلاق کمال الدین بن الہام میں ہے:شرط الامام نسب قریش خلافا لکثیر من المعتزلۃ۳؎۔خلیفہ کی شرط نسب قرشی ہے بہت معتزلیوں کا اس میں خلاف ہے(ت)

 (۳؎ مسایرۃ مع المسامرۃ     شروط الامام         متکبہ تجاریۃ کبرٰی مصر    ص۲۳۹)

مسامرہ علامہ ابن ابی شریف شافعی تلمیذ امام ابن الہمام میں ہے:لنا قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش قدمناتخریجہ وقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الناس تبع لقریش اخرجہ الشیخان وفی البخاری من حدیث معٰویۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان ھذاالامر فی قریش۱؎۔ہم اہلسنت کی دلیل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ خلفا قریش سے ہیں، ہم نے اس حدیث کی تخریج اوپر بیان کی نیز حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ سب آدمی قریش کے تابع ہیں، اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا، نیز بخاری میں امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی حدیث سے ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا بیشک خلافت قریش میں ہے۔
اور تخریج حدیث چھ ورق اوپر بیان کی،

رواہ النسائی من حدیث انس ورواہ بمعناہ الطبرانی فی الدعاء والبزار والبیھقی وافردہ شیخنا الامام الحافظ ابوالفضل بن حجر بجزء جمع فیہ طرقہ نحومن اربعن صحابیا۲؎۔یہ حدیث نسائی نے انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کی اور یہی مضمون طبرانی نے کتاب الدعاء اور بزار و بیہقی نے روایت کیا اور ہمارے شیخ امام حافظ ابو الفضل ابن حجر عسقلانی نے خاص اس حدیث میں ایک مستقل رسالہ لکھا جس میں ا س کی روایات قریب چالیس صحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے جمع کیں۔

 (۱؎ مسامرۃ شرح مسایرہ    شروط الامام     مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر     ص۳۲۰)
(۲؎مسامرۃ شرح مسایرہ    شروط الامام     مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر    ص۳۰۶)

علامہ امام قاسم بن قطلوبغا حنفی تلمیذ ابن الہمام تعلیقات مسایرہ میں فرماتے ہیں:اماعندنا فالشروط انواع بعضھا لازم لاتنعقد بدونہ، وھی الاسلام والذکورۃ والحریۃ والعقل والبلوغ واصل الشجاعۃ وان یکون قرشیا۳؎۔ہمارے نزدیک خلافت کی شرطیں کئی قسم ہیں بعض تو شروط لازم ہیں کہ ان کے بغیر خلافت صحیح ہی نہیں ہوسکتی وہ یہ ہیں اسلام اور مرد ہونا اور آزادی وعقل وبلوغ واصل شجاعت اور قرشی ہونا۔

 (۳؎ تعلیقات مسایرۃ مع المسامرۃ شروط الامام     مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ص۳۱۹ و ۳۲۰)

پھر فرمایا:امانسب قریش فلقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش رواہ البزار وھذا وان کان خبرواحد فقد اتفقت الصحابۃ علی قبولہ الامام ابوالعباس الصابونی وغیرہ۴؎۔قریشی ہونا اس لئے شر ط ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قریش سے ہوں۔ اسے بزار نے روایت کیا، اور یہ اگرچہ خبر احاد ہو مگر صحابہ کرام نے اس کے قبول پر اجماع فرمایا، یہ امام ابوالعباس صابونی وغیرہ نے افادہ فرمایا۔

(۴؎تعلیقات مسایرۃ مع المسامرۃ شروط الامام     مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر    ص۳۲۰)

طوالع الانوار علامہ بیضاوی میں ہے:التاسعۃ کونہ قرشیا خلافا للخوارج وجمع من المعتزلۃ قولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش واللام فی الجمع حیث لاعھد للعموم۱؎۔یعنی خلافت کی نویں شرط قریشی ہونا ہے اس میں خارجیوں اور ایک گروہ معتزلہ کو خلاف ہے کہ وہ خلیفہ کا قریشی ہونا ضروری نہیں جانتے، ہماری دلیل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلفاء قریش سے ہوں جہاں عہد نہ ہو جمع پر لام استغراق کے لئے ہوتا ہے یعنی تمام خلفاء قریش ہی سے ہوں۔

 (۱؎ طوالع الانوار علامہ بیضاوی )

مواقف میں ہے:یکون قرشیا ومنعہ الخوارج وبعض المعتزلۃ لنا قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش ثم ان الصحابۃ عملوابمضمون ھذاالحدیث واجمعواعلیہ فصار قاطعا۲؎۔یعنی خلیفہ قریشی ہوخارجی اور بعض معتزلی اس شرط کے منکر ہیں ہماری دلیل نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ خلیفہ قریشی ہو، پھر صحابہ کرام اس حدیث کے مضمون پر عامل ہوئے اور ان کا اس پر اجماع ہوا تو وہ دلیل قطعی ہوگئی۔

 (۲؎ مواقف مع شرح المواقف     المرصد الرابع فی الامامۃ     منشورات الشریف رضی قم ایران     ۸/ ۳۵۰)

شرح علامہ سید شریف میں ہے:صاردلیلا قطعا یفید الیقین باشتراط القرشیۃ۳؎۔یعنی دلیل قطعی ہوگئی جس سے قرشیت کا شرط ہونا یقینی ہوگیا۔ اسی میں ہے:اشترطہ الاشاعرۃ۴؎یعنی اہلسنت کے نزدیک خلیفہ کا قرشی ہونا شرط ہے۔

 (۳؎مواقف مع شرح المواقف     المرصد الرابع فی الامامۃ     منشورات الشریف رضی قم ایران     ۸/ ۳۵۰)
(۴؎مواقف مع شرح المواقف     المرصد الرابع فی الامامۃ     منشورات الشریف رضی قم ایران     ۸/ ۳۵۰)

مقاصد میں ہے:یشترط فی الامام کونہ قرشیا لقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۵؎۔امام میں شرط ہے کہ قرشی ہو، رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قریش سے ہوں۔

 (۵؎ مقاصد علی ہامش شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ المبحث الثانی   دارالمعارف النعمانیۃ لاہور  ۲/ ۲۷۷)

شرح مقاصد میں ہے:اتفقت الامۃ علی اشتراط کونہ قرشیا خلافنا للخوارج لنا السنۃ والاجماع اماالسنۃ فقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش واماالاجماع فھو انہ لما قال الانصار یوم السقیفۃ مناامیرومنکم امیرمنعھم ابوبکر رضی اﷲ تعالٰی عنہ بعدم کونھم من قریش ولم ینکرہ علیہ احد من الصحابۃ فکان اجماعا۱؎۔یعنی تمام امت کا اجماع ہے کہ خلیفہ کا قریشی ہونا شرط ہے اس میں مخالف خارجی ہیں اور اکثر معتزلی، ہماری دلیل حدیث اور اجماع امت ہے، حدیث تو حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ سلم کا ارشاد ہے کہ خلفاء قریش سے ہیں، اور اجماع یوں کہ جب انصار رضی اﷲ تعالٰی عنہم نے روز سقیفہ بنی ساعدہ مہاجرین رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے کہا ایک امیر ہم میں سے اور ایک تم میں سے، انہیں صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی نے دعوی خلافت سے یوں باز رکھا کہ تم قریشی نہیں(اور خلیفہ کا قریشی ہونا لازم ہے) اس پر کسی صحابی نے انکار نہ کیا تو اجماع ہوگیا۔

 (۱؎ شرح المقاصد         الفصل الرابع فی الامامۃ         دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲/ ۲۷۷)

شرح فقہ اکبر میں ہے:یشترط ان یکون الامام قرشیا لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش وھو حدیث مشہور ولیس المراد ادبہ الامامۃ فی الصلٰوۃ اتفاقا فتعینت الامامۃ الکبری خلافا للخوارج وبعض المعتزلۃ۲؎۔یعنی شرط یہ ہے کہ خلیفہ قریشی ہو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: ائمہ قریش سے ہیں۔ اور یہ حدیث مشہور ہے اور اس میں امامت نماز باجماع مراد نہیں تو ضرور خلافت مراد ہے اس میں مخالف خارجی ہیں یا بعض معتزلی۔

(۲؎ منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر     نصب الامام واجب         مصطفی البابی مصر    ص۱۴۷)

طریقہ محمد یہ میں ہے:المسلمون لابدلھم من امام قرشی ولایشترط ان یکون ھاشمیا۳؎۔یعنی مسلمانوں کے لئے ضرور ہے کہ کوئی قریشی خلیفہ ہو اور ہاشمی ہوناشرط نہیں۔

 (۳؎ طریقہ محمدیۃ         المسلمون لابدلہم من امام         مکتبہ حنفیہ کوئٹہ     ا/۷۱)

حدیقہ ندیہ میں ہے:یکون من قریش ولایجوز من غیرھم۴؎۔خلیفہ قریشی ہو غیر قریشی کی خلافت درست نہیں۔

 (۴؎ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمد یہ       المسلمون لابدلہم من امام    مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد     ۱/ ۲۹۵)

تمہید امام ابوالشکور سالمی جسے سلطان الاولیاء محبوب الٰہی نظام الحق والدین نے درس میں پڑھا اس میں ہے:اجمعنا علی ان الامام من قریش ولایکون من غیرہ۱؎۔ہم اہلسنت کا اجماع ہے کہ خلیفہ قریش سے ہو ان کے غیر سے نہیں۔

 (۱؎ التمہید فی بیان التوحید        الباب الحادی عشر فی الخلافۃ         دارالعلوم حزب الاحناف لاہور     ص۱۵۹)

کتب حدیث
صحیح مسلم وصحیح بخاری میں ہے رسول ا ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:لایزال ھذاالامر فی قریش مابقی من الناس اثنان۲؎۔خلافت ہمیشہ قریش کےلئے ہے جب تک دنیامیں دو آدمی بھی رہیں۔

 (۲؎ صحیح بخاری         کتاب الاحکام باب الامراء من قریش     قدیمی کتب خانہ کراچی         ۲/ ۱۰۵۷)
(صحیح مسلم             کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش  قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۱۱۹)

شرح صحیح مسلم للامام النووی وشرح صحیح بخاری للامام القسطلانی ومرقاۃ علی قاری میں ہے:بین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ان ھذا الحکم مستمر الٰی اٰخر الدنیا مابقی من الناس اثنان۳؎۔رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے ظاہر فرمادیا کہ یہ حکم ختم دنیا تک ہے جب تک دو آدمی بھی رہیں۔

 (۳؎ شرح مسلم مع صحیح مسلم         کتاب الامارۃ         قدیمی کتب خانہ کراچی      ۲/ ۱۱۹)
(ارشاد الساری             باب الامراء من قریش         دارالکتاب العربی بیروت        ۱۰/ ۲۱۸)

ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ابن المنیر سے اور عمدۃ القاری امام بدر محمود عینی حنفی میں ہے:قریش ھم اصحاب الخلافۃ وھی مستمرۃ لھم الی اٰخر الدنیا مابقی من الناس اثنان۴؎۔قریش ہی خلافت والے ہیں وہ ختمِ دنیا تک انہیں کے لئے ہے جب تک دو آدمی بھی باقی رہیں۔

 (۴؎ عمدۃ القاری شرح البخاری     باب الامراء من قریش       ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ         ۱۶/ ۷۵)

امام قرطبی کی مفہم شرح صحیح مسلم میں پھر عمدۃ القاری وفتح الباری شروح صحیح بخاری میں ہے:ھذاالحدیث خبر عن المشروعیۃ ای لاتنعقد الامامۃ الکبری الالقرشی مھما وجد منھم احد۱؎۔اس حدیث میں حکمِ شرعی کا بیان ہے یہ فرمایاہے کہ جب تک دنیا میں ایک قرشی بھی باقی رہے اور وں کی خلافت صحیح نہیں۔

 (۱؎ فتح الباری شرح البخاری     باب الامراء من قریش     مصطفی البابی مصر    ۱۶/ ۲۳۵)

امام نووی شرح صحیح مسلم پھر امام قسطلانی شرح بخاری اور علامہ طیبی وعلامہ سید شریف وعلی قاری شروحِ مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں:

ھذہ الاحادیث واشباھھا دلیل ظاھر ان الخلافۃ مختصۃ لقریش لایجوز عقدھا لاحد من غیرھم وعلی ھذا انعقد الاجماع فی زمن الصحابۃ وکذلک بعدھم ومن خالف فیہ من اھل البدع اواعرض بخلاف من غیرھم فھو محجوج باجماع الصحابۃ والتابعین فمن بعدھم بالاحادیث الصحیحۃ۲؎۔یہ حدیث اور ان کے مثل اور احادیث روشن دلیلیں ہیں کہ خلافت قریش کے ساتھ خاص ہے ان کے سواکسی کو خلیفہ بنانا جائز نہیں، اسی پر زمانہ صحابہ میں یوں ہی ان کے بعد اجماع منعقد ہواتو جن بدمذہبوں نے اس میں خلاف کیا یا جس نے اور کسی کے خلاف کا اشارہ کیا اس کاقول صحابہ تابعین وعلمائے مابعد کے اجماع اورصحیح حدیثوں سے مردود ہے۔

 (۲؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم کتاب الامارۃ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۱۱۹)

علامہ ابن المنیر پھر حافظ عسقلانی شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں:الصحابۃ اتفقواعلی افادۃ المفھوم للحصر خلافا لمن انکرذلک والی ھذاذھب جمھور اھل العلم ان شرط الامام ان یکون قرشیا وقالت الخوارج وطائفۃ من المعتزلۃ یجوز ان یکون الامام غیرقرشی وبالغ ضرار بن عمرو فقال تولیۃ غیر القرشی اولی وقال ابوبکر الطیب لم یعرج المسلمون علی ھذاالقول بعد ثبوت حدیث الائمۃ من قریش وعمل المسلمون بہ قرنابعد قرن وانعقد الاجماع علی اعتبار ذالک قبل ان یقع الاختلاف۱؎۔یعنی صحابہ نے اتفاق فرمایا کہ حدیث الائمۃ من قریش خلافت کا قریشی میں حصر فرماتی ہے بر خلاف اس کے جواس کا منکر ہو، اور یہی مذہب جمہور اہل علم کا ہے کہ خلیفہ کے لئے قریشی ہونا شرط اور خارجیوں اور ایک گروہ معتزلہ نے کہا کہ غیر قریشی بھی خلیفہ ہوسکتا ہے اور ضرار بن عمرو تو یہاں تک بڑھ گیا کہ کہا غیر قریشی کا خلیفہ کرنا بہتر ہے۔ امام ابوبکر ابن الطیب نے فرمایا مسلمانوں نے اس قول کی طرف التفات نہ کیا بعداس کے کہ حدیث "الائمۃ من قریش" ثابت ہوچکی اور ہر قرن میں مسلمان اس پر عامل رہے اور اس اختلاف اٹھنے سے پہلے اس کے ماننے پر اجماع (عہ) منعقد ہولیا۔

عہ: تنبیہ ضروری: یہ کلام جلیل یادرکھنے کا ہے کہ بعونہٖ تعالٰی اس سے اہلِ باطل کا منہ کالا ہوگا۱۲ حشمت علی عفی عنہ ۔

 (۱؎ فتح الباری شرح البخاری     باب الامراء من قریش     مصطفی البابی مصر    ۱۶/ ۲۳۶)

امام احمد ناصرالدین اسکندرانی پھر امام شہاب الدین کنانی وجہ دلالت حدیث "لایزال ھذالامر فی قریش"میں فرماتے ہیں:المبتدأبالحقیقۃ ھٰھنا ھوالامرالواقع صفۃ لھذاوھذالا یوصف الا بالجنس فمقتضاہ حصر جنس الامر فی قریش کانہ قال لاامر الافی قریش والحدیث وانکان بلفظ الخبر فھو بمعنی الامر، بقیۃ طرق الحدیث تؤید ذٰلک۲؎۔یعنی حاصل حدیث یہ ہے کہ "ھذاالامر فی قریش" دائما یہ امر خلافت ہمیشہ قریش کے لیے ہے" ھذا" مبتدا ہے اور "امر" اس کی صفت، اور "ھذا" کی صفت میں ہمیشہ جنس ہی آتی ہے، تو مطلب یہ کہ جنس خلافت قریش ہی کےلئے ہے(ان کے غیرکے لئے اس کا کوئی فرد نہیں)گویا الفاظ یوں ارشاد ہوئے کہ خلافت نہیں مگر قریش میں، حدیث اگرچہ صورۃً خبر ہے معنًی امر ہے، حدیث کی باقی روایتیں اس معنٰی کی مؤید ہیں۔

 (۲؎فتح الباری شرح البخاری     باب الامراء من قریش     مصطفی البابی مصر    ۱۶/ ۲۳۶)

امام ابن حجر اور ان سے پہلے امام ابن بطال شرح بخاری للمہلب سے ناقل:یجوز ان یکون ملک یغلب علی الناس بغیر ان یکون خلیفۃ، وانما انکرمعٰویۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ خشیۃ ان یظن احدان الخلافۃ تجوز فی غیرقریش، فلما خطب بذٰلک دل علی ان ذٰلک الحکم عندھم کذلک اذلم ینقل عن احد منھم انکر علیہ ۳؎۔یعنی جب حضرت عبدا ﷲ بن عمر و رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے کہا کہ عنقریب ایک بادشاہ قبیلہ قحطان سے ہو گا ، حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اس پر سخت انکار کیا اور خطبہ پڑھا اس میں فرمایا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ خلافت قریش میں ہے، یہ انکار اس بنا پر نہ تھا کہ کوئی غیر قرشی بادشاہ بھی نہیں ہوسکتا، یہ توجائز ہے کہ کوئی بادشاہ لوگوں پر تغلب کرے اور خلیفہ  نہ ہو بلکہ انکار کی وجہ یہ تھی کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ غیر قرشی خلیفہ ہوسکتاہے لہذا حضرت امیر معاویہ نے خطبہ پڑھا کہ کوئی غیر قرشی خلیفہ نہیں ہوسکتا اوراس پر کسی صحابی وتابعی نے انکار نہ کیا تو معلوم ہوا کہ ان سب کا یہی مذہب ہے۔

 (۳؎فتح الباری شرح البخاری     باب الامراء من قریش     مصطفی البابی مصر   ۱۶/ ۲۳۲)

مہلب پھر ابن بطال پھر عینی وعسقلانی وقسطلانی سب شروح بخاری میں فرماتے ہیں:ان القحطانی اذاقام ولیس من بیت النبوۃ ولا من قریش الذین جعل اﷲ فیھم الخلافۃ فھو من اکبر تغیر الزمان وتبدیل الاحکام۱؎۔جب قحطانی قائم ہوگا اور وہ نہ خاندان نبوت سے ہے نہ قریش سے جن میں اﷲ عزوجل نے خلافت رکھی ہے تو یہ ایک بڑا تغیر زمانہ اور احکامِ شریعت کی تبدیل ہوگا۔

 (۱؎ فتح الباری     کتاب الفتن         باب تغیر الزمان حتی یعبد الاوثان     مصطفی البابی مصر     ۱۶/ ۱۹۱)

امام اجل قاضی عیاضی پھر امام ابو زکریا نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:اشتراط کونہ قرشیا ھو مذھب العلماء کافۃ وقد احتج بہ ابوبکر وعمر علی الانصار یوم السقیفۃ فلم ینکرہ احدوقد عدھا العلماء فی مسائل الاجماع ولم ینقل عن احد من السلف فیھا قول ولافعل یخالف ماذکرنا وکذٰلک من بعدھم فی جمیع الاعصار ولااعتداد بقول النظام ومن وافقہ من الخوارج واھل البدع انہ یجوز کونہ من غیر قریش لما ھو علیہ من مخالفۃ اجماع المسلمین۔۲؎خلیفہ میں قرشی ہونےکی شرط جمیع علماء کا مذہب ہے اور بیشک اسی سے صدیق اکبر فاروق اعظم نے روز سقیفہ انصار پر حجت قائم فرمائی اور صحابہ میں کسی نے اس کا انکار نہ کیااور بیشک علماء نے اسے مسائل اجماع میں گنا اور سلف صالح میں کوئی قول یا فعل اس کے خلاف منقول نہ ہوا، یونہی تمام زمانوں میں علماء سے مابعد سے اور وہ جو نظام معتزلی اور خارجیوں اور بدمذہبوں نے کہا کہ غیر قریشی بھی خلیفہ ہوسکتا ہے کچھ گنتی شمار میں نہیں کہ اجماع مسلمین کے خلاف ہے۔

 (۲؎ شرح صحیح مسلم مع صحیح مسلم     کتاب الامارۃ     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۱۱۹)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:گفت آں حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہمیشہ می باشد امر خلافت در قریش یعنی مے باید کہ در ایشاں باشد وجائز نیست شرعا عقد خلافت مر غیر ایشاں را وبریں منعقد شد اجماع در زمن صحابہ وبایں حجت کردند مہاجران بر انصار۱؎۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: خلافت ہمیشہ قریش میں ہوگی یعنی انہی میں ہونا چاہئے اور شرعاً ان کے غیر میں خلافت کا انعقاد جائز نہیں صحابہ کے زمانہ میں اس پر اجماع ہوچکا ہے اور اسی حدیث کو مہاجرین نے انصار پر بطورِ حجت پیش کیا۔(ت)

 (۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ     باب مناقب قریش فصل اول     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۴/ ۶۱۹)

امام جلال الدین کی تاریخ الخلفاء(عہ) سے گزرا: لم اورد احدا من الخلفاء العبیدیین لان امامتھم غیر صحیح لانھم غیر قریش۲؎۔میں نے اس کتاب میں خلفائے عبیدیہ سے کسی کا ذکر نہ کیا اس لئے کہ ان کی خلافت باطل ہے کہ وہ قرشی نہیں۔

عہ:اوردہ آخر کتب الحدیث تبعا ۱۲ منہ غفرلہ

ا س کوکتب حدیث کے آخر میں تابع ہونے کی حیثیت سے ذکر کیا ہے(ت)

 (۲؎ تاریخ الخلفاء         خطبہ کتاب             مطبع مجتبائی دہلی         ص۷)

کتبِ فقہ حنفی
فتاوی سراجیہ کتاب الاستحسان باب مسائل اعتقادیہ میں ہے:یشترط ان یکون الخلیفۃ قرشیا ولایشترط ان یکون ھاشمیا۳؎۔خلیفہ میں شرط ہے کہ قرشی ہو اور ہاشمی ہونا شرط نہیں۔

 (۳؎ فتاوٰی سراجیہ  کتاب الاستحسان باب مسائل اعتقاد     نولکشور لکھنؤ   ص۷۰)

اشباہ والنظائر فن ثالث بیان فرق پھر ابوالسعود ازہری علی الکنز میں ہے: یشترط فی الامام ان یکون قرشیا۴؎۔خلیفہ میں شرط ہے کہ قریشی ہو۔

 (۴؎ الاشباہ والنظائر   الفن الثالث         ادارۃ القرآن کراچی         ۲/ ۲۵۳ و ۶۵۴)

غمزالعیون میں ہے:یشترط نسب قریش لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش۵؎۔قرشی ہونا شرط ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:خلفاء قریشی ہوں۔

 (۵؎ غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر      الفن الثالث             ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۵۳ و ۶۵۴)

درمختار میں ہے:یشترط کونہ مسلما حراذکرا عاقلا بالغا قادر اقرشیا۱؎۔خلیفہ ہونے کے لئے شرط ہے کہ مسلمان آزاد، مرد، عاقل، بالغ، قادر، قرشی ہو۔

 (۱؎ درمختار             باب الامامۃ             مطبع مجتبائی دہلی         ۱/ ۸۲)

طحطاوی علے الدرمیں ہے:اشترط کونہ قرشیا لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الائمۃ من قریش وقد سلمت الانصار الخلافۃ لقریش بھذاالحدیث۔ ۲؎خلیفہ کا قرشی ہونا شرط ہے کہ رسول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: خلفاء قرشی ہوں۔ اسی حدیث سے انصار نے قریش کی خلافت تسلیم کردی۔

 (۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    باب الامامۃ          دارالمعرفۃ بیروت        ۱/ ۲۳۹)

ردالمحتار میں اسی کے مثل لکھ کر فرمایا:وبہ یبطل قول الضراریۃ ان الامامۃ تصلح فی غیر قریش والکعبیۃ ان القرشی اولی بھا۳؎۔یعنی اسی حدیث واتفاق صحابہ کرام سے ضرار یہ کا قول باطل ہوا جو کہتے ہیں کہ خلافت غیر قریش میں لائق ہے اور کعبیہ کا جو کہتے ہیں خلافت کےلئے قرشی ہونا صرف اولٰی ہے یعنی ان دونوں گمراہ فرقوں نے اہلسنت کا خلاف کیا، اول نے غیر قرشی کی خلافت کو اولٰی جانا دوم نے قرشی کی خلافت کو صرف اولٰی سمجھا لازم نہ جانا، اہلسنت کے نزدیک خلیفہ کا قرشی ہونا لازم ہے دوسرا خلیفہ  شرعی نہیں ہوسکتا۔

 (۳؎ ردالمحتار            باب الامامۃ          داراحیاء التراث العربی بیروت     ۱/ ۳۶۸)

تمہید امام ابوشکور سالمی میں امام الائمہ سراج الامہ اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نص سے اس کی تصریح ہے کہ:
قال ابوحنیفۃ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ یصح امامتہ اذاکان قرشیا براکان اوفاجرا۴؎۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے فرمایا: خلافت صحیح ہے بشرطیکہ قرشی ہو نیک خواہ بد۔

 (۴؎ تمہید ابو شکور سالمی        الباب الحادی عشر فی الخلافۃ والامامۃ     دارالعلوم حزب الاحناف لاہور     ص۱۵۹)

ازالہ وہم میں عباراتِ کتب عقائد وحدیث
بالجملہ مسئلہ قطعاً یقینا اہلسنت کا اجماعی ہے ولہذا حدیث بخاری:اسمعوا واطیعواوان استعمل علیکم عبد حبشی۵؎۔سنو اور مانو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام عامل کیا جائے۔

 (۵؎ صحیح بخاری     کتاب الاحکام    باب السمع والطاعۃ للامام     قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۱۰۵۷)

اس کی شرح میں علما قاطبۃً ازالہ وہم کی طرف متوجہ ہوئے، شرح مقاصدمیں ہے:ذٰلک فی غیر الامام من الحکام۱؎۔یہ حدیث خلیفہ کے سوا اور حکام ماتحت کے بارے میں ہے۔

 (۱؎ شرح المقاصد     الفصل الرابع فی الامامۃ     المبحث الثانی     دارالمعارف النعمانیہ لاہور    ۲/ ۲۷۷)

مواقف میں ہے:ذلک الحدیث فی من امرہ الامام علی سریۃ وغیرہا۲؎۔یہ حدیث اس کے بارے میں ہے جسے کسی لشکر وغیرہ پر سردار کرے۔

 (۲؎ مواقف شرح المواقف     المرصدا لرابع فی الامامۃ     منشورات الشریف الرضی، قم، ایران    ۸/ ۳۵۰)

شرح مواقف میں ہے:یجب حملہ علی ھذادفعا للتعارض بینہ وبین الاجماع،او نقول ھو مبالغۃ علی سبیل الفرض ویدل علیہ انہ لایجوز کون الامام عبدااجماعا۳؎۔حدیث کو اس معنی پر حمل کرنا واجب ہے کہ اجماع کے مخالف نہ پڑے، یایوں کہیں کہ وہ بروجہ مبالغہ بطور فرض ارشاد ہواہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ امام کا غلام ہونا بالاجماع باطل ہے۔

 (۳؎ شرح المواقف  المرصدا لرابع فی الامامۃ     منشورات الشریف الرضی، قم، ایران    ۸/ ۳۵۰)

ابن الجوزی نے تحقیق پھر امام بدر محمود عینی نے عمدۃ القاری، پھر حافظ عسقلانی نے شرح بخاری کتاب الصلوٰۃ میں فرمایا:ھذا فی الامراء والعمال لاالائمۃ والخلفاء فان الخلافۃ فی قریش لامدخل فیھا لغیرھم۔۴؎یہ حدیث سرداروں اور عاملوں کے بارے میں ہے نہ کہ خلفا میں کہ خلافت تو قریش میں ہے دوسروں کو اس میں دخل ہی نہیں۔

(۴؎عمدۃ القاری شرح البخاری     باب امامۃ العبد والمولٰی     قدیمی کتب خانہ کراچی         ۵/ ۲۲۸)

یہیں فتح الباری میں ہے:امر بطاعۃ العبد الحبشی والامامۃ العظمی انما تکون بالاستحقاق فی قریش فیکون غیرھم متغلبا۵؎۔حبشی غلام کی اطاعت کا حکم فرمایا اور خلافت تو صرف قریش کا حق ہے تو غیر قریشی متغلب ہوگا یعنی زبردستی امیر بن بیٹھنے والا۔

 (۵؎ فتح الباری    شرح البخاری     باب امامۃ العبد والمولٰی      مصطفی البابی مصر        ۱۶/ ۲۳۹)

عمدۃ القاری وفتح الباری کتاب الاحکام میں اسی حدیث کے نیچے ہے:ای جعل عاملا بان امرامارۃ عامۃ علی البلد مثلا او ولی فیھا ولایۃ خاصۃ کالامامۃ فی الصلٰوۃ اوجبایۃ الخراج او مباشرۃ الحرب فقد کان فی زمن الخلفاء الراشدین من تجمع لہ الامور الثلثۃ ومن یختص ببعضھا۔۱؎مراد یہ ہے کہ وہ عامل کیا جائے، یوں کہ خلیفہ غلام حبشی کو کسی شہر کا عام والی کردے یا کسی خاص منصب کی ولایت دے جیسے نماز کی امامت یا خراج کی تحصیل یا کسی لشکر کی سرداری، خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ تینوں باتیں بعض میں جمع ہوجاتی تھیں اورکسی میں بعض۔

 (۱؎ فتح الباری         باب السمع والطاعۃ             مصطفی البابی مصر    ۱۶/ ۲۳۹)

امام ابوسلیمٰن خطابی پھر امام عینی وامام عسقلانی علی قاری نے فرمایا:قدیضرب المثل بمالایقع فی الوجود وھذا من ذاک واطلق العبد الحبشی مبالغۃ فی الامر بالطاعۃ وان کان لایتصور شرعا ان یلی ذٰلک۲؎اھ بلفظ المرقاۃ قال الخطابی قدیضرب المثل بمالایکاد یصح فی الوجود۳؎۔یعنی کبھی ضرب مثل میں وہ بات کہی جاتی ہے جو واقع نہ ہوگی، یہ حدیث اسی قبیل سے ہے، حبشی کاذکر حکمِ اطاعت میں مبالغہ کے لئے فرمایااگرچہ حبشی غلام کا ولی بننا شرعًا متصور نہیں، مرقاۃ کے الفاظ یہ ہیں خطابی نے کہا کبھی مثل میں وہ بات کہی جاتی ہے جوواقع نہ ہوگی۔(ت)

 (۲؎ فتح الباری        باب السمع والطاعۃ             مصطفی البابی مصر     ۱۶/ ۲۴۰)
(۳؎ مرقاۃ المفاتیح      شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الامارۃ الفصل الاول     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۷/ ۲۴۶)

اشعۃ اللمعات میں ہے:ذکر عبد برائے مبالغہ است بروتیرہ قول آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہر کہ بناکند مسجدے اگرچہ مثل آشیانہ کنجشک و مرمسجد ہر گز مثل آشیانہ کنجشک نباشد لیکن مقصود مبالغہ است یا مراد نائب خلیفہ است۴؎۔

غلام کا ذکر بطور مبالغہ ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کے طور پر، جو مسجد بنائے اگرچہ چڑیا کے گھونسلے کی مثل ہو، حلانکہ مسجد ہرگز چڑیا کے گھونسلے کی مثل نہیں ہوتی، لیکن مقصود مبالغہ ہے یا خلیفہ کا کوئی نائب مراد ہے(ت)

 (۴؎ اشعۃ اللمعات     کتاب الامارۃ الفصل الاول         مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۳/ ۳۰۱)

عمدۃ القاری و کواکب الدراری ومجمع البحار میں ہے:ھذافی الامراء والعمال دون الخلفاء لان الحبشی لایتولی الخلافۃ لان الائمۃ من قریش۱؎۔یہ حدیث سرداروں اور عاملوں میں ہے حبشی خلیفہ نہ ہوگا کہ خلفاء تو قریش سے ہیں

 (۱؎ عمدۃ القاری         کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ     ادارۃ المنیریۃ دمشق     ۲۳/ ۲۲۴)

مہلب پھر ابن بطال پھر ابن حجر نے فتح میں کہا:قولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اسمعوا واطیعوالایوجب ان یکون المستعمل للعبد الاامام قرشی لما تقدم ان الامامۃ لاتکون الافی قریش۲؎۔نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد کہ غلام کی اطاعت کرو اسی کو واجب کرتا ہے کہ غلام کو قریشی خلیفہ نے عامل بنایا ہو کہ خلافت تو نہیں مگر قریش میں۔

 (۲؎ فتح الباری شرح البخاری         باب السمع والطاعۃ         مصطفی البابی مصر    ۱۶/ ۳۴۰)

فتح الباری وارشاد الساری و مرقاۃ قاری میں ہے:واللفظ لھا(وان استعمل علیکم عبد حبشی) ای وان استعملہ الامام الاعظم علی القوم لاان العبد الحبشی ھوالامام الاعظم فان الائمۃ من قریش۳؎۔اگرچہ تم پر غلام حبشی عامل کیا جائے یعنی اگرچہ خلیفہ کسی غلام کو عامل بنائے نہ یہ کہ خود غلام حبشی خلیفہ ہوکہ خلفاء تو قریش سے ہیں۔

 (۳؎ مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح     کتاب الامارۃ الفصل الاول     مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۷/ ۲۴۶)

مجمع البحار الانوار میں ہے: شرط الامام الحریۃ والقرشیۃ ولیس فی الحدیث انہ یکون امامابل یفوض الیہ الامام امرامن الامور۴؎۔

خلیفہ کےلئے شرط ہے کہ آزاد وقریشی ہو او رحدیث میں یہ نہیں کہ غلام خلیفہ ہو بلکہ یہ مراد کہ خلیفہ اسے کوئی کام سپرد کردے۔

 (۴؎ مجمع بحار الانوار         تحت لفظ جدع    مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ         ۱/ ۳۳۰)

اقول(میں کہتا ہوں۔ت) بلکہ خود حدیث صحیح میں اس معنی کی تصریح صریح موجود جس کابیان فصل سوم میں آئے گا ان شاء اﷲ الغفور الودود۔
بالجملہ دربارہ خلافت ہر طبقے اور ہر مذہب کے علمائے اہلسنت ایسا ہی فرماتے آئے یہاں تک کہ اب دورِ آخر میں مولوی عبدالباری صاحب کے جد اعلٰی حضرت ملک العلماء بحر العلوم عبدالعلی لکھنوی فرنگی محلی رحمہ اﷲ تعالٰی نے شرح فقہ اکبر سید ناامام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں خلافتِ صدیقی پر اجماع قطعی کے منعقد ہونے میں فرمایا:

باقی ماند کہ سعد بن عبادہ از بیعت متخلف ماند میگویم کہ سعد بن عبادہ امارات خود می خواست وایں مخالف نص ست چہ حضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرمودہ اند الائمۃ من قریش ائمہ از قریش اند پس مخالفت اودراجماع قدح ندارد چہ مخالفت مررائہاے صحابہ نبود بلکہ مخالفتِ اجماع واواعتبار ندارد۱؎۔

باقی رہایہ کہ سعد بن عبادہ نے بیعت نہ کی، تو ہم کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ اپنے لئے خلافت کے خواہشمند تھے ان کی یہ خواہش نص کے خلاف تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے لہذا ان کی مخالفت اجماع پر اثر انداز نہیں ہے کیونکہ یہ محض صحابہ کرام کی رائے کی مخالفت نہ تھی بلکہ اجماع کی مخالفت تھی جس کا اعتبار نہیں ہے۔(ت)

 (۱؎ شرح الفقہ الاکبر لعبد العلی فرنگی محلی)

پھر خلافت فاروقی پر انعقاد اجماع میں فرمایا:ہمہ صحابہ بر آں عمل کردند و بیعت حضرت امیرا لمومنین عمر کردند و دریں ہم کسے مخالفت نکرد سوائے سعد بن عبادہ لیکن مخالفت او مخالفت نص بود چہ امارت خود میخو است چنانچہ دانستی۲؎۔

تمام صحابہ نے اس حدیث پر عمل کیا اور امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی بیعت کی ا س میں بھی سوائے سعد بن عبادہ کے کسی نے مخالفت نہ کی لیکن ان کی مخالفت نص کے خلاف تھی کیونکہ وہ اپنے لئے امارت کے خواہشمند تھے جیسا کہ آپ نے جان لیا۔(ت)

(۲؎شرح الفقہ الاکبر لعبد العلی فرنگی محلی   )

اب سب سے اخیر دور میں حضرت مولانا فضل (عہ) رسول صاحب مرحوم اپنی کتاب عقائد المعتقد المنتقد میں فرماتے ہیں:یشترط نسب قریش خلافا لکثیر من المعتزلۃ ولایشترط کونہ ھا شمیا خلافا للرافض۳؎۔خلیفہ کا قریشی النسب ہونا شرط ہے برخلاف بہت معتزلیوں کے، اور ہاشمی ہونا شرط نہیں برخلاف رافضیوں کے۔

عہ: بدایونی لیڈر عبدالماجد صاحب کے دادا کے دادا ۱۲ حشمت علی لکھنو عفی عنہ

 (۳؎ المعتقد المنتقد    الباب الرابع فی الامامۃ     مکتبہ حامدیہ لاہور    ص۱۹۷)

حضرت مولٰنا(عہ) عبدالقادر صاحب بدایونی مرحوم اپنے رسالہ عقائد احسن الکلام میں فرماتے ہیں:نعتقد انہ یجب علی المسلمین نصب امام من قریش۔۱؎ (۱؎ احسن الکلام )

ہم پر اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں پر قریشی خلیفہ قائم کرنا فرض ہے۔

عہ: مذکور متلڈر بدایونی (ہداہ اﷲ تعالٰی) کے پردادا۱۲ حشمت علی قادر رضوی لکھنوی غفرلہ

نوعِ دگراز کتب عقائد
علامہ سعد الدین تفتازانی شرح عقائد میں فرماتے ہیں:فان قیل فعلی ماذکرمن ان مدۃ الخلافۃ ثلثون سنۃ یکون الزمان بعد الخلفاء الراشدین خالیا عن الامام فتعصی الامۃ کلھم، قلنا المراد بالخلافۃ الکاملۃ ولوسلم فلعل الخلافۃ تنقضی دون الامامۃ بناء علی ان الامامۃ اعم لکن ھذاالاصطلاح لم نجدہ من القوم واما بعد الخلفاء العباسیۃ فالامر مشکل ۲؎(ملخصاً)یعنی اگر کہا جائے کہ جب خلافت حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد تیس ہی برس رہی تو خلفائے راشدین رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے بعد زمانہ امام سے خالی رہا اورمعاذاﷲ تمام امت گنہگار ٹھہری کہ نصب امام امت پر واجب تھا تو ہم جواب دیں گے کہ وہ جو تیس برس پر ختم ہوگئی خلافت راشدہ کا ملہ تھی نہ کہ مطلق خلافت، اور اگر تسلیم بھی کرلیں تو شاید خلافت ختم ہوگئی امامت بعد کو رہی اور واجب نصب امام ہی تھا تو امت گنہگار نہ ہوئی یہ اس پر مبنی ہوگا کہ امامت خلافت سے عام ہے مگر ہم  نے قوم سے یہ اصطلاح نہ پائی، بہرحال جب سے خلفائے عباسیہ نہ رہے امر مشکل ہے کہ اس وقت سے نہ کوئی امام ہے نہ کوئی خلیفہ، تو اعتراض نہ اٹھاانتہی(ملخصاً)۔

(۲؎ شرح العقائد النسفیہ     دارالاشاعۃ قندھار، افغانستان     ص۱۱۰ و ۱۱۱)

اقول اولًا صحیح جواب اول ہے اور اشکال کا جواب خود علامہ کے کلام سے آتا ہے اس وقت نظر اس پر نہ کہی تھی۔
ثانیاً امامت بیشک عام ہے جس کا بیان ہم کرینگے ان شاء اﷲ۔
نیز علامہ موصوف شرح مقاصد میں اسی اعتراض کو ذکر کرکے بہت صحیح وواضح جواب سے دفع فرماتے ہیں:فان قیل لووجب نصب الامام لزم اطباق الامۃ فی اکثر الاعصار علی ترک الواجب لانتفاء الامام المتصف بمایجب من الصفات سیما بعد انقضاء الدولۃ العباسیۃ قلنا انما یلزم الضلالۃ لوترکوہ عن قدرۃ واختیار لاعجز واضطرار۱؎۔اگر کہا جائے کہ نصب امام واجب ہوتا تو اکثر زمانوں میں ترک واجب پر امت کا اتفاق لازم آتا ہے کہ امام کے لئے جو صفات لازم ہیں ایسا مدت سے نہیں خصوصاً جب سے دولتِ عباسیہ نہ رہی خلافت کانام نشان تک نہ رہا اور ایسا ترک واجب گمراہی ہے اور گمراہی پر امت کا اتفاق محال،تو ہم جواب دیں گے کہ گمراہی توجب ہوتی کہ ان کے بعد امت نصب امام پر قادر ہوتی اور قصدًا ترک کرتی، عجز و مجبوری کی حالت میں کیا الزام ہو۔

 (۱؎ شرح المقاصد الفصل الرابع فی الامامۃ  المبحث الاول فی نصب الامام     دارالمعارف النعمانیہ لاہور   ۲/ ۲۷۵)

یہی مضمون مولوی علی الخیالی میں ہے حدیث عجز واضطرار بیان کرکے کہا:وبھذا الحدیث یندفع الاشکال بعدالخلفاء الراشدین والعباسیۃ ایضًا۲؎۔یعنی خلفائے عباسیہ کے بعد تمام عالم سے خلافت ضرور مفقود ہے مگر امت پر الزام نہیں آتا کہ عذر مجبوری موجود ہے۔

(۲؎ مولوی علی الخیالی     مطبع ہندوپریس دہلی     ص۲۵۷)

شرح عقائد امام نسفی پھر تعلیقات المسایرۃ للعلامۃ قاسم الحنفی تلمیذ الامام ابن الہمام رحمہم اﷲ تعالٰی میں ضرورت خلیفہ بتائی کہ دین و دنیا کے اِن ان کاموں کے انتظام کو اس کا ہونا ضرور ہے پھر فرمایا:فان قیل فلیکتف بذی شوکۃ لہ الریاسۃ العامۃ اماماکان او غیر امام فان انتظام الامر یحصل بذٰلک کما فی عھد الاتراک قلنا نعم یحصل بعض النظام فی امرالدنیا ولکن یختل امرالدین وھو المقصود الاھم۳؎۔یعنی اگر کوئی کہے کہ انتظام ہی کی ضرورت ہے تو ایک عام ریاست والے پر کیوں نہ قناعت ہوجائے وہ خلیفہ ہو یا نہ ہو کہ انتظام اس سے بھی حاصل ہوجائیگا جیسے سلطنت ترکی سے کہ خلافت نہیں اور انتظام کررہی ہے پھر خلیفہ کی کیا ضرورت، تو ہم جواب دینگے ہاں ایسی سلطنتوں سے دنیاوی کاموں کا کچھ انتظام چل جائے گا مگر دینی کاموں میں خلل آئے گا وہ بے خلیفہ نہ بنیں گے اور دین ہی مقصود اعظم ہے۔

 (۳؎ شرح العقائد النسفیہ     دارالاشاعت قندھار افغانستان ص۱۱۰)

لہذاترکی سلطنت یا اور بادشاہیاں کافی نہیں خلیفہ کی ضرورت ہے، کیاان سے بھی صاف نص کی حاجت ہے وﷲ الحجۃ البالغۃ۔
تنبیہ: اسی نوع سے ہے وہ حدیث کہ صدر کلام میں امام خاتم الحفّاظ سے گزری کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ خلافت جب بنی عباس کو پہنچے گی ظہور مہدی تک اور کو نہ ملے گی۔ ظاہر ہو اکہ۱۳۳۱ھ  سے آج تک اور آج سے ظہور حضرت امام مہدی تک کوئی غیر عباسی خلیفہ نہ ہوا ہے نہ ہوگا جو دوسرے کو خلیفہ مانے حدیث کی تکذیب کرتا ہے یہ حدیث اپنے طرق عدیدہ سے حسن ہے اسے طبرانی نے معجم کبیر میں ام المومنین ام سلمہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے روایت کیا، اور دیلمی نے مسند الفردوس میں انہیں سے بسندِ دیگر اور دارقطنی نے افراد میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے مرفوعاً اور خطیب نے بسندِ خلفاء حضرت حبرالامۃ سے موقوفاً اور حاکم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے، حدیث طبرانی کے لفظ یہ ہیں:لکنھا فی ولد عمی صنوابی حتی یسلموھا الی الدجال۔۱؎ہاں خلافت میرے چچا میرے باپ کی جگہ عباس کی اولاد میں ہے یہاں تک کہ اسے سپرد دجال کرینگے۔

 (۱؎ المعجم الکبیر    حدیث۱۰۱۶     مروی از ام سلمہ رضی اﷲ عنہا    مکتبہ فیصلیہ بیروت    ۲۳/ ۴۲۰)

اور حدیث ابن مسعود میں ہے:لاتذھب الایام واللیالی حتی یملک رجل من اھل بیتی یواطی اسمہ اسمی واسم ابیہ اسم ابی فیملؤھا قسطا وعد لاکماملئت جوراوظلما۲؎۔شب وروز گزرنے کے بعد وہ خلافت کو میرے اہلبیت سے ایک مرد کے سپرد کریں گے جس کا نام میرا نام ہوگااور اس کے باپ کانام میرے باپ کا نام، وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم و ستم سے بھر گئی تھی یعنی حضرت امام مہدی رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

 (۲؎ المستدرک للحاکم     کتاب الفتن والملاحم    دارالفکر بیروت    ۴/ ۴۴۲)

امام خاتم الحفاظ نے اس حدیث سے استناد اور اس پر اعتماد کیا کما تقدم(جیسا کہ پیچھے گزرا۔ت) یہ ہیں تقریبًا پچاس حدیثیں اور کتب عقائد و تفسیر وحدیث و فقہ کی بانوے عبارتیں۔ سنی بانصاف کو اسی قدر کافی ووافی ہیں۔

وﷲ الحمد والحمد ﷲ رب العٰلمین وصلی اﷲ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ وصحبہ وابنہ وحزبہ اجمعین۔

(فتاوا رضویہ جلد 14)


Post a Comment

0 Comments