اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات اور مخلوق کی عطائی صفات

 الله تعالیٰ کی ذاتی صفات اور مخلوق کی عطائی صفات


مسلمانوں پر جعلی شرک بدعات کے فتوے لگانے والو تم کس بنیاد پر اُمت مسلمہ کو گمراہ کرتے ہو ہمارا قرآن اور احادیث ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے اور تم لوگوں کو کیا سمجھاتے ہو ــ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(1) رحیم خدا کا اسم ہے ۔

ان ربک لھو العزیز الرحیم ۔

ترجمہ : تمھارا رب عزیز اور رحیم ہے ۔


مصطفٰی صلی الله علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم ہیں۔

لقد جآءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ماعنتم حریص علیکم بالمو منین رو ءف رحیم

ترجمہ : تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول آئے تمہاری تکلیف ان کو گراں گزرتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہش مند ہیں اور مومنوں کے لئے روف اور رحیم ہیں ۔


(2) الله کا نام بھی روف ہے۔

ان ربک لروف الرحیم (سورہ النحل ۔7)

ترجمہ : تمہارا رب روف اور رحیم ہے ۔


حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلم کا نام بھی روف ہے ۔

وبالمو منین رئوف رحیم (سورہ التوبہ۔128)

ترجمہ : اور مو منوں کے لئے وہ رؤف (تکلیف دہ امور ہٹانے والے ) اور رحیم (راحت رساں امور پہنچانے والے ہیں)۔


(3) الله کا نام مومن ہے ۔

لا الہ الا ھو ۔ المک القدوس السلام المومن (سورہ الحشر ۔ 23)

ترجمہ : الله کے سواکوئی معبود نہیں ۔ وہ بادشاہ قدوس ہے سلام ہے اور مومن ہے ۔


بندے بھی مومن ہیں ۔

الذین یقیمون الصلوۃ ومما رز قنھم ینفقون او لئک ھم المو منون حقا ۔

ترجمہ : وہ نماز قائم کرتے ہیں الله کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں وہی سچے مومن ہیں ۔


(4) الله کا نام ولی ہے ۔

ام اتخذوا من دونہ اولیآء فااللہ ھو ا لولہ ۔ (سورہ الشوریٰ۔9)

ترجمہ : کیا انہوں نے اس کے سوا کار ساز بنالئے ہیں ؟ ولی تو خدا ہے ۔


محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم بھی ولی ہیں ۔

انما ولیکم اللہ ورسولہ (سورہ المائدہ)

ترجمہ : تمہارا ولی الله ہے اور اس کا رسول ۔


(5) علیم الله ہے ۔

نرفع درجت من نشاء ان ربک حکیم علیم ۔ (سورہ انعام ۔83)

ترجمہ : ہم جسے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں بے شک تمہارا رب حکیم اور علیم ہے۔


 یوسف علیہ السلام کا نام بھی علیم ہے ۔

قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم ۔ (سورہ یوسف ۔ 58 )

ترجمہ : یوسف علیہ السلام نے کہا مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کردیجئے کیونکہ میں حفاظت کرنے والا علیم ہوں ۔


ان حوالہ جات کاخلاصہ ملاحظہ ہو ۔

رب بھی رحیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم بھی رحیم

رب بھی رؤف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صلی الله علیہ و آلہ وسلم بھی رؤف

الله مومن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی مومن

الله ولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی ولی

الله علیم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی علیم

الله حفیظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی حفیظ

الله سمیع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ بھی سمیع


دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے میں نے پوچھا : بون آف کنٹنشن کیا ہے ؟ کہنے لگا یہ علی کو مشکل کشاء کہتا ہے مشکل کشاء صرف الله ہے ، حاجت روا صرف الله ہے میں نے پوچھا جناب کیا مشکل صرف الله دور کرتا ہے ؟ بولے ہاں میں نے کہاں بھوک لگی تھی آپ گھر گئے ۔ فورا بیوی نے روٹی پکا کردی ۔ آپ نے کھائی۔۔۔۔۔ جان میں جان آئی ۔۔۔۔۔ ایک مشکل تو آپ کی بیوی نے بھی حل کردی آپ دیوالیہ ہونے لگے ، آپ کی کروڑوں کی جائیداد بکنے لگی ۔ مگر ایک دوست نے آپ کی مطلوبہ رقم پہنچادی اتنی بڑی مشکل کشاء پکار اٹھے تو کیا قیامت ہے ؟ وہ مجھے کہنے لگے مشکل کشاء صرف الله کو کہیں گے میں نے کہا ٹھیک ہے اب اپنے بیان پر قائم رہنا۔ جو الله ہے وہ بندہ نہیں ہو سکتا یہی ہے ناں تمہارا مطلب ؟ وہ بولا ہاں ۔


الله رحیم ہے تو بندہ رحیم

الله مومن ہے بندہ بھی مومن

الله کو ولی کہتے ہی بندہ کو بھی ولی کہتے ہیں

بولو کہنے والا مشرک ہوگا ؟

رحیم الله کا نام ہے اگر محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو کہہ دیا تو کہنے والا مشرک ہوگا ؟ 

میں نے آیات بھی پڑھیں وہ خاموش ہو گیا میں نے کہا سن تجھے بتاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خدا رحیم ہے ذاتی طور ہر ۔۔۔۔۔ بندہ رحیم عطائی طور پر

الله ولی ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ ولی ہے عطائی طور پر

الله علیم ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ علیم ہے عطائی طور پر

الله حفیظ ہے ذاتی طور پر ۔۔۔۔۔ بندہ حفیظ ہے عطائی طور پر

فرق ہوگیا ناں ؟ 

اگر کوئی آدمی بندے کو مجازی طور پر مشکل کشاء کہنے سے کافر ہوجاتا ہے کیونکہ مشکل کشاء الله ہے تو پھر رحیم نبی کو کہا تو بھی کافر ہوناچاہیے ۔ علیم کہو تو کافر ، ولی کہنے سے بھی کافر ، اگر کافر ہوگا تو پھر الله نے رحیم ، علیم ، حفیظ ، سمیع ، ولی ، مومن باوجود یکہ اس کے نام ہیں بندوں کو ان ناموں سے کیوں مخاطب کیا ہے ؟ 

اگر غیر الله کو علیم ، حکیم ، حلیم ، کریم ، حفیظ ، سمیع ولی ، مومن کے اسماء سے پکارنے والا کافر نہیں ہوتا تو اسی طرح مجازی طور پر کسی کو مشکل کشاء کہنے سے بھی آدمی کافر نہیں ہوتا ۔

اسی طرح عدد ایک بھی ہے ۔ کوئی پوچھے الله کتنے ہیں ؟ آپ فورا کہتے ہیں الله ایک ہے اور یہی ایک آپ باپ کے ساتھ بھی استعمال کرتے ہیں جب کوئی پوچھے کہ تمہارے باپ کتنے ہیں تو آپ کہتے ہی ایک ہے باپ ایک ہے کیا آپ کے نزدیک مشرک نہ ہوگا ؟


لفظ الله اور رحمن کے علاوہ الله کے باقی صفاتی نام مجازی طور پر غیر الله پر بول سکتے ہیں کچھ الفاظ الله نے قرآن مجید میں خود بھی استعمال کئے ۔

اسی طرح آج کل شور ہے کہ داتا صرف الله ہے گنج بخش کو داتا کہنا شرک ہے ۔ داتا ہندی کا لفظ ہے معنی ہے دینے والا ۔آپ رحمتہ الله علیہ کے پہلے مریدار رائے راجو جن کا نام شیخ ہندی رحمتہ الله علیہ رکھا انہیں آپ رحمتہ الله علیہ کے صدقے ایمان کی دولت نصیب ہوئی تو انہوں نے داتا کہا سورہ یوسف آپ پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ جب یوسف علیہ السلام قید خانہ میں گئے تو دو قیدی بھی ساتھ داخل ہوئے ۔ان میں سے ایک نے کہا کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ شراب نچوڑ رہا ہوں آپ نے فرمایا یسقی ربہ خمرا وہ اپنے رب کو شراب پلائے گا ۔۔۔ لفظ رب نبی استعمال کررہا ہے بادشاہ مصر کے لئے تو مجھے کہنے دیجئے اگر کافر شرابی بادشاہ کے لئے یوسف علیہ السلام لفظ رب مجازی طور پر استعمال کریں تو شرک نہیں اگر ہم ولی کامل عالم دین آلِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لئے مجازی طور پر داتا کا لفظ استعمال کردیں تو بھی شرک نہیں ہے ۔ 

کیا داتا لفظ بڑا ہے یا رب ؟


الله تعالیٰ حاکم ہے اور احکم الحاکمین بھی ہے ، 

الله تعالیٰ مالک ہے اور مالک الملک بھی ہے ۔ 

جو الله کو احکم الحاکمین تو مانے لیکن اس کے تابع کسی حاکم کو نہ مانے ، 

جو الله کو مالک الملک تو مانے لیکن اس کے تابع کسی مالک نہ مانے تو اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے ۔


الله اکبر کا مطلب ہے ، الله سب سے بڑا ہے ۔ باقی سب حاکم ، سب مالک ، سب غوث ، سب قطب ، اس کے بندے ہیں اور ان بندوں کو یہ اعزازات اس الله اکبر نے ہی عطا فرمائے ہیں ۔


رسول اکرم شفیع اعظم صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے سیدنا ابو امامہ صحابی رضی الله عنہ کو فرمایا :

 لاتجالس قدریا ولامرجیا ولاخارجیا انھم یکفون الدین کما یکفاء الاناء و یغلون کما غلت الیھود والنصاریٰ ۔

ترجمہ : اے ابو امامہ تو کسی قدری ، کسی مرجی ، کسی خارجی کے پاس مت بیٹھ (یہ تینوں اسلام کا دعویٰ کرنے والے کلمہ پڑھنے والے گمراہ فرقوں کے نام ہیں)

اور فرمایا یہ مسلمان کہلانے والے گمراہ لوگ یہ دین کو یوں الٹ دیتے ہیں جیسے کہ برتن کو الٹ دیا جاتا ہے اور یہ بد مذہب لوگ دین میں ایسا غلو کرتے ہیں جیسے یہود و نصاریٰ نے اپنے دین میں غلو کیا ہے ۔ 

یہودیوں نے جو دین میں غلو کیا اس کی ایک مثال جیسے قرآن مجید میں ہے : وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم ولعنوا بما قالوا بل یداہ مبسوطتان ینفق کیف یشاء ۔ (سورۃ مائدہ)

ترجمہ : یہودی کہتے ہیں الله تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں ان یہودیوں کے ہاتھ بند ہو جائیں اور ان پر ایسا کہنے کی بنا پر لعنت ہو بلکہ الله تعالیٰ کے دونوں دست کرم کھلے ہیں وہ جس کو چاہے جتنا چاہے عطا کرے ۔


                                         


یوں ہی ان خارجیوں کا کہنا ہے کہ الله تعالیٰ کے پاس سب کچھ ہے مگر وہ کسی کو دیتا کچھ نہیں نہ وہ کسی کو غوث بنا سکتا ہے نہ داتا گنج بخش بنا سکتا ہے نہ کسی کو گنج شکر بنا سکتا ہے نہ کسی کو غریب نواز بنا سکتا ہے 

الله تعالٰٰیٰ مسلمانوں کو ایسا دین میں غلو کرنے والوں سے بچائے رکھے آمین ۔


خارجی دنیا کی بدترین مخلوق ہیں بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات اہل ایمان پر چسپاں کرتے ہیں : 

کچھ نادان لوگ جہاں کہیں ’’مِن دُونِ اللّهِ‘‘ کے الفاظ دیکھتے ہیں قطع نظر اس سے کہ وہاں کیا بیان کیا گیا ہے اس کا اطلاق بلا استثناء انبیاء و رسل عظام علیھم السلام اور اولیاء و صلحاء علیہم الرّحمہ پر بھی کر دیتے ہیں ۔

 ان کی اس جاہلانہ روش سے قرآنی احکام کے بیان کی طرف سے اصل توجہ نہ صرف ہٹ جاتی ہے بلکہ خدا کے محبوب اور مقرب بندوں کی تنقیصِ شان بھی واقع ہوتی ہے جو نہ شارعِ اسلام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منشا ہے اور نہ خود ذاتِ باری تعالیٰ کا منشا و مقصود ۔ 

قرآنی الفاظ کا عموم ہو یا خصوص ، ضروری ہے کہ ان کے استعمال کا اصول اور اسلوب ہمیشہ پیشِ نظر رکھا جائے ۔ اگر یہ بنیادی پہلو ہی نظر انداز ہو گیا تو اس غلط تفسیرِ قرآن سے گمراہی کے دروازے کھل جائیں گے۔

 خوارج کا طریق بھی یہی تھا کہ اصل مدعا کو سمجھے بغیر الفاظ کے ظاہری عموم کی بناء پر قرآنی حکم کا ہر جگہ اطلاق کرتے تھے خواہ وہ اطلاق قطعاً غیر موزوں اور غلط ہی کیوں نہ ہوتا ۔


خوارج کے بارے میں منقول ہے : 

کَانَ ابْنُ عُمَرَ يرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَ قَالَ : اِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلٰی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِی الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.

ترجمہ : حضرت عبدالله بن عمر رضی ﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے : 

یہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان پر کرتے ہیں ۔

 (صحیح البخاری صفحہ 1714 کتاب استتابۃ المرتدین مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت)( بخاري، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين، 6 : 2539)(ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 335)(ابن حجر عسقلاني، تغليق التعليق، باب قتل الخوارج والملحدين، 5 : 259)

حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما خوارج کو اس لئے الله تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کہ وہ ان آیات کو جو کفار و مشرکین کے حق میں نازل ہوئی تھیں ، اہلِ ایمان پر منطبق و چسپاں کرکے انہیں کافر و مشرک ٹھہراتے تھے ۔ اس لئے آیات اور الفاظِ قرآنی کا اصل مورد و محل جانے بغیر انہیں اس طرح بے باکی کے ساتھ ہر جگہ استعمال کرنا بذاتِ خود ایک بہت بڑی گمراہی ہے۔ 

قرآن کے ہر طالب علم کا اس گمراہی سے بچنا ضروری ہے ۔

یعنی جیسے کافروں بت پرستوں کے معبود بت نکمے ناکارے کچھ نہیں کر سکتے یوں ہی ولی نبی کچھ نہیں کر سکتے معاذاللہ ۔

الله تبارک و تعالیٰ ہمیں بدعقیدہ خوارج کے شر سے بچائے آمین ۔

Post a Comment

0 Comments