شرک کی کہانی .. دودھ کا دودھ پانی کا پانی

شرک کی کہانی۔۔۔دودھ کا دودھ، پانی کا پانی

***************************************************

اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی فطرت کا ترجمان ہے، اس میں افراط و تفریط نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اسکی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، جن کے فہم کے لیے صحابہ کرام، اھل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سلف صالحین کی راہنمائی اشد ضروری ہے، ان مقدس ہستیوں کی فکر سے بغاوت کر کے قرآن و سنت کا خانہ زاد اور طبع زاد مفہوم کشید کرنے سے بہت ساری خرابیاں لازم آتی ہیں، *امت مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم* کے شیرازہ کو منتشر کرنے کے لیے اور ان کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے سب سے پہلے یہ طریقہ خوارج نے ایجاد کیا تھا، جب حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جب خونِ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اختلاف ہوا تو اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے صحابہ کرام نے حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ثالث یعنی حکم مقرر کیا، تو ان شوریدہ سر خارجیوں نے فورا چوتھے خلیفہ راشد داماد رسول زوج بتول حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ پر اور دیگر صحابہ کرام جنہوں نے اس تحکیم کو تسلیم کیا، ان پر شرک کا فتویٰ جڑ دیا۔

حضرت علی المرتضی نے ان کے خلاف لشکر کشی فرمائی، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما جو لشکر حیدر کی زینت تھے، انہوں نے عرض کی امیر المومنین! مجھے اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں ان خارجیوں سے پوچھوں تو سہی کہ انہوں نے آپ پر شرک کا فتویٰ کس بنیاد پر لگایا ہے، شیر خدا کی اجازت سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ انکے ساتھ مذاکرات کے لیے تشریف لے گئے، آپ نے پوچھا ظالمو! تمہیں معلوم ہے کہ تم کس ھستی پہ شرک کا فتویٰ لگا رہے ہو، جنہوں نے *نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم* کے کندھوں پہ سوار ہو کر بت شکنی کی، کیا تم انکو مشرک کہتے ہو؟ انہوں نے بڑی سادگی میں ملفوف شاطرانہ چال سے کہا:

ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے، ہمارے پاس قرآن کی دلیل موجود ہے۔

آپ نے پوچھا کونسی دلیل؟

کہنے لگے۔

*ان الحکم الا للہ*

حکم صرف اللہ کا ہے، لھذا ثالث صرف اللہ ہے، تو علی نے چونکہ عمرو بن العاص اور ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہما کو ثالث مان لیا ہے، لھذا انہوں نے اس آیت کی مخالفت کرتے ہوئے شرک کا ارتکاب کیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما ہمارے دور کے کسی سادہ لوح مسلمان کی طرح تو تھے نہیں، جو کہتے کہ چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں، آپ رضی اللہ عنہ تو حبر الامۃ تھے، ترجمان القرآن تھے۔

آپ نے ارشاد فرمایا ظالمو! ڈبل ظلم کر رہے ہو، ایک تو تم نے ایک سَچے سُچے مسلمان پر شرک کا فتویٰ لگایا اور دوسرے نمبر پر قرآن کی آیت کا مفہوم بگاڑنے کی بدبختی کی۔

اچھا چلو تم سمجھتے ہو کہ تمہارے پاس دلیل موجود ہے تو مجھے دو سوالوں کے جواب دو؟؟؟

*پہلا سوال:*

اگر کسی گھر میں ناچاقی ہو جائے، جھگڑا طول پکڑ جائے، اختلاف کی خلیج وسیع ہو جائے، تو قرآن مقدس فرماتا ہے، کہ میاں بیوی درمیان مصالحت کی کوشش کی جائے اور طریقہ کار یہ ہو کہ ایک ثالث مرد کی طرف سے اور ایک ثالث عورت کی طرف سے مقرر کیا جائے، انکی ثالثی پر دونوں راضی ہو جائیں تاکہ جھگڑا ختم ہو جائے، اور ایک گھر برباد ہونے سے بچ جائے۔

*وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا*

سورۃ النساء آیت نمبر 35

اگر تمہیں انکے درمیان ناچاقی کا خطرہ ہو تو ایک ثالث مرد والوں کی طرف سے اور ایک عورت کے خاندان کی طرف سے بھیجو، (تو یہ فیصلہ دراصل اللہ ہی کی طرف سے ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے)۔

اگر ایک گھر کا مسئلہ ہو تو ثالثی جائز ہو، اور جہاں پوری امت کا مسئلہ ہو تو وہاں ناجائز کیسے؟؟؟؟

اب خارجی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، چہروں پہ ہوائیاں اڑنے لگیں، منہ پہ تالے لگ گئے، آپ نے فرمایا بولو۔۔۔دو نا جواب۔۔۔بس بیچارے مبھوت ہوگئے، سراپا سکوت ہو گئے، آپ نے فرمایا مزید سنو۔

*دوسرا سوال:*

یہ ہے کہ کسی مسلمان نے احرام باندھ کر حرم میں شکار کیا تو اسکی سزا کیا ہے؟؟؟

قرآن مجید کہتا ہے:

*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ*

سورۃ المائدہ آیت 95

اے ایمان والو! شکار کو قتل نہ کرو دراں حالیکہ تم نے احرام باندھا ہوا ہو، اور جس نے تم میں سے جان بوجھ کر شکار کو قتل کیا، تو اسکی سزا یہ ہے کہ اسی جانور جیسا جانور بطور جرمانہ دے۔ (اس جیسا ہے یا نہیں) اسکی تحکیم یعنی ثالثی دو عادل آدمیوں کے ذمہ لگائی جائے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

اگر حرم کے خرگوش اور ہرنی کے لیے ثالث مقرر کرنے کی اجازت ہے، تو جہاں پوری امت کا مسئلہ ہو، وہاں ثالثی شرک ہو جائے۔۔۔۔۔یہ کہاں کا انصاف ہے؟

کوئی اور بھی دلیل ہے، تو لے آؤ تاکہ تمہیں دلیل کا بخار نہ رہے، خارجیوں کی آپ نے بولتی بند کر دی۔

آپ نے ارشاد فرمایا:

لو اپنی پیش کردہ دلیل کے بارے میں بھی سن لو۔۔۔۔ *ان الحکم الا للہ*۔۔۔کا مطلب یہ ہے، کہ ثالثی کرنے والے افراد ہوا و ہوس کے تابع ھو کر یا کسی پریشر کے تابع ہو کر فیصلہ نہیں کریں گے، بلکہ ثالثی کرتے ہوئے اللہ کریم کی رضا کو پیش نظر رکھیں گے، جو حقیقی حاکم ہے۔


                                         


انسان مجازی ثالث ہیں، اور اللہ کریم حقیقی حَکَمْ ہے، حقیقت اور مجاز کے اس قرآنی فلسفہ کو سمجھنا بہت ضروری ہے، وگرنہ انسان ھدایت پانے کی بجائے گمراہی کی دلدل میں پھنس جائے گا، بلکہ قرآن کھولنے سے پہلے مندرجہ ذیل 5 فرق یاد کر لینے چاہییں تاکہ شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں۔

1️⃣ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ (معبود ہونا بھی وجوب ذاتی کا تقاضا کرتا ہے، ممکن معبود نہیں ہو سکتا) اور ساری مخلوق ممکن الوجود ہے۔

واجب اور ممکن کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

2️⃣اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات قدیم ہیں، جبکہ ساری مخلوق کی ذات و صفات حادث و فانی ہیں۔

قدیم اور حادث، باقی اور فانی کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

3️⃣اللہ تعالیٰ کی تمام صفات ذاتی ہیں، جبکہ مخلوق کی تمام صفات عطائی ہیں۔

ذاتی اور عطائی کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

4️⃣اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں لا محدود ہے جبکہ مخلوق اپنی ذات و صفات میں محدود ہے۔

محدود و لا محدود کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

5️⃣اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں کسی کا محتاج نہیں، جبکہ ساری مخلوق اپنی ذات و صفات میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔

محتاج و غیر محتاج کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔

مندرجہ بالا پانچ فرق ازبر ہو جائیں، تو انسان قرآن پاک کے گلستان میں سے کسی حد تک گل چینی کے قابل ہو سکتا ہے، ورنہ گام گام پہ ٹھوکریں انسان کا مقدر بن جاتی ہیں۔

پھر خدمت دین کے نام پر دین کی تباہی شروع ہو جاتی ہے، جیسے آج کل بعض نام نہاد، مبلغ فتویٰ فروشی کا مکروہ دھندہ کر رہے ہیں۔

شرک کا بارود اگلنے والی مشینوں سے چند سوالات:

1️⃣ کیا آپ زندہ ہیں یا مردہ؟؟؟

اگر زندہ ہیں تو زندہ ہونا تو اللہ کی صفت ہے، آیۃ الکرسی میں ہے۔

*اللّٰہُ لَآ اِلٰــہَ اِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ*

آل عمران آیت نمبر 2

اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ زندہ ہے۔

تو کیا اپنے زندہ ہونے کا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہوگا؟؟؟

اگر شرک نہیں تو آخر کیوں؟؟؟

2️⃣کیا آپ سچے ہیں یا جھوٹے؟؟؟

اگر سچے ہیں تو سچا ہونا تو اللہ کی صفت ہے۔

*ومَن اَصْدَقُ مِنَ اللّـٰهِ قِیْلًا*

النساء آیت نمبر 122

اللہ سے بڑھ کر سچا کون ہے؟؟؟

تو کیا اپنے سچا ہونے کا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہوگا؟؟؟

اگر شرک نہیں تو آخر کیوں؟؟؟

3️⃣ آپ اپنے علماء کو مولانا کہتے ہیں یا نہیں؟؟؟

اگر مولانا کہتے ہیں، تو مولانا ہونا اللہ کریم کی صفت ہے،

*وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا*

البقرہ آیت نمبر 286

اے اللہ! ہمیں معاف فرما، ہماری مغفرت فرما دے، ہمارے اوپر رحم فرما دے، تو ہمارا مولا ہے۔

تو کیا کسی عالم کو مولانا کہنا شرک نہیں ہوگا؟؟؟

اگر شرک نہیں تو آخر کیوں؟؟؟

4️⃣کیا آپ سنتے اور دیکھتے ہیں؟؟؟

سننا اور دیکھنا تو اللہ کی صفت ہے۔

سورۃ الاسراء میں ہے۔

*اِنَّهٝ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ*

الاسراء آیت نمبر 1

بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

تو کیا اپنے سننے اور دیکھنے کا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہوگا؟؟؟

اگر شرک نہیں تو آخر کیوں؟؟؟

5️⃣ جبریل ایک ہیں یا زیادہ؟

میکائیل ایک ہیں یا زیادہ؟

اسرافیل ایک ہیں یا زیادہ؟

عزرائیل ایک ہیں یا زیادہ؟

سدرۃ المنتہیٰ ایک ہیں یا زیادہ؟

بلکہ

تمہارا والد ایک ہیں یا زیادہ؟

تو یقیناً آپ جواب دیں گے۔

جبریل ایک ہے،

میکائیل ایک ہے،

اسرافیل ایک ہے،

عزرائیل ایک ہے،

سدرۃ المنتہیٰ بھی ایک ہے،

میرا والد بھی ایک ہے،

ایک ہونا تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔

*وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ*

البقرہ آیت نمبر 163

اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔

تو کیا جبریل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل،سدرۃ المنتہیٰ، اور تمہارے باپ کے ایک ہونے کا عقیدہ رکھنا شرک نہیں ہوگا؟؟؟

اگر شرک نہیں۔۔۔۔تو آخر کیوں؟؟؟

کیا آپ شرک سے بچنے کے لیے زندہ ہونے کا انکار کر سکتے ہیں؟؟؟

کیا آپ شرک سے بچنے کے لیے اپنے جھوٹا ہونے کا اعتراف کرسکتے ہیں؟؟؟

کیا آپ شرک سے بچنے کے لیے اپنے علماء کو مولانا کہنے سے انکار کر سکتے ہیں؟؟؟

کیا آپ شرک سے بچنے کے لیے اپنے سننے اور دیکھنے کا انکار کر سکتے ہیں؟؟؟

کیا آپ شرک سے بچنے کے لیے اپنے والد کے ایک ہونے کا انکار کر سکتے ہیں؟؟؟

🤔اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو وجہ تطبیق کیا ہوگی؟؟؟


                                       


اگر ان سوالوں سے آپ کا دماغ چکرا رہا ہو تو پھر سن لیں، کسی ژولیدہ فکری اور گمراہی سے بچنے کے لیے وہی پانچ فرق ملحوظ خاطر رکھنا ہوں گے، جو ابتدا میں ھم نے ذکر کیے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے زندہ ہونے میں، سچا ہونے میں، مولا ہونے میں، سننے والا اور دیکھنے والا ہونے میں، اور واحد یکتا ہونے میں بے مثل و بے مثال ہے۔

ہر واحد یا جنسی ہو گا یا نوعی، یا عددی ہوگا یا اتصالی، لیکن اللہ کریم واحد حقیقی ہے، وہ جنس و نوع سے پاک ہے، وہ عددی، اتصالی ہونے سے بھی پاک ہے۔

امید ہے کہ حقیقت کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگانے کے بعد اب اگر حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ مشکل کشا، حضرت عبد القادر جیلانی کے نام کے ساتھ غوث، سید علی ہجویری کے اسم مبارک کے ساتھ داتا گنج بخش، حضرت معین الدین اجمیری کے نام کے ساتھ غریب نواز کا لفظ، یہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا، بلکہ ان اسماء کو بھی آپ اسی پانچ فرق والے میزان پر رکھ کر سوچیں گے۔۔۔۔۔تو انشاء اللہ کوئی الجھن باقی نہیں رہے گی۔

*سجدہ کا حکم:*

سجدہ کی دو قسمیں ہیں۔

👉سجدہ عبادت

👉سجدہ تعظیمی

سجدہ عبادت، اللہ کے سوا کسی اور کو کرنا کفر ہے اور یہ اسوقت ہوگا جب کسی کو معبود سمجھ کر سجدہ کیا جائے۔

سجدہ تعظیمی *شریعت مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم* میں کسی بھی مخلوق کو کرنا حرام ہے۔

اگر کوئی جاہل شخص اللہ کے سوا کسی کو سجدہ عبادت کرے یا کسی مخلوق کو سجدہ تعظیمی کرے تو یہ اسکا ذاتی فعل ہے، جو قابل نفرت بھی ہے اور قابل مذمت بھی، اھل سنت کے مسلمہ عقائد کیساتھ اسکا کوئی تعلق نہیں۔

*لمحہ فکریہ*

ایسا انسان جو تصدیق قلبی کیساتھ اللہ کریم کے وحدہ لا شریک ہونے کا اقرار کرے، اور حضرت محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی نبوت و رسالت کا اقرار کرے اسکو مشرک کہنا کیا انصاف کا قتل نہیں ہے؟؟؟

جو کلمہ طیبہ میں *لا الہ الا اللہ* کا صبح شام اقرار کرے۔

جو کلمہ شہادت میں *اشھد ان لا الہ الا اللہ* (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کا صبح شام وظیفہ کرے۔

جو اذان میں *اشھد ان لا الہ الا اللہ* کا برملا اعلان کرے۔

جو اقامت میں *اشھد ان لا الہ الا اللہ* کا پانچ وقت اعتراف کرے۔

جو نماز کی ثناء میں *ولا الہ غیرک* (تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے)، پورے یقین سے پڑھے۔

جو سورہ الفاتحہ میں *ایاک نعبد و ایاک نستعین* (ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں) پر یقین واثق رکھے۔

جو سجدے میں سر رکھ کر اللہ کی سبوحیت یعنی پاکی بیان کرے۔

جو تشہد میں بیٹھ کر *التحیات للہ والصلوت والطیبات* (تمام قولی فعلی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں) کا وظیفہ کرے۔

جو نماز میں *اشھد ان لا الہ الا اللہ* پڑھے اور پورے یقین سے پڑھے۔

جو ایمان کے اجمال و تفصیل کو ایمان مجمل اور مفصل کے تناظر میں اپنے بچوں کو بھی یاد کرواتا ہو، اس پر شرک کا فتویٰ لگانا پتہ نہیں کہاں کی دانائی ہے؟؟؟

میرے نزدیک تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی سورج کو کالا ہونے کا طعنہ دے۔

ان مذکورہ حقائق کو اپنی آنکھوں سے صبح و شام دیکھ کر اور کانوں سے سن کر، پھر بھی کوئی آدمی یہ آیت پڑھے۔

*وَ مَا یُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ بِاللّٰهِ اِلَّا وَ هُمْ مُّشْرِكُوْنَ*

سورہ یوسف آیت نمبر 106

اور نہیں ایمان لاتے ان میں سے اکثر اللہ کے ساتھ مگر اس حالت میں کہ وہ شرک کرنے والے ہیں۔

اور خانہ زاد مفہوم نکال کے اھل محبت کو تنقید کا نشانہ بنائے تو یہ تو گلاب کو بدبودار کہنے کے مترادف ہے، اللہ کریم نے یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ کی معبودیت کیساتھ ساتھ بتوں کی معبودیت کے بھی قائل ہیں۔

الحمد للّٰہ اھل سنت فقط اللہ کریم کو معبود مانتے ہیں، اللہ کریم کے سوا کسی کے بارے میں رائی کے دانے کے ہزارویں حصہ کے برابر بھی معبودیت یا الوہیت کا تصور نہیں کرسکتے۔

دعا ہے اللہ کریم بد گمانیوں سے محفوظ فرمائے، اور تمام امت کو اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام کے رکھنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین *بجاہ سید المرسلین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم*

Post a Comment

0 Comments