امام مہدی رضی اللہ عنہ اور کالے جھنڈے
محترم قارئینِ کرام : قرب قیامت حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ،یہ وہ دو چیزیں ہیں جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہیں ، اور یہ ہی وہ دو امر ہیں جن کی بدولت (جبکہ مسلمان انتہائی پستی اور ذلت میں ہوں گے اور مسلمانوں کا خون دریا کے پانی کے مانند بہہ رہا ہوگا) مسلمانوں کواپنا کھویا ہوا وقار اور عزت واپس مل جائے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کا کیا ہوا وہ وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ زمین پر کوئی مٹی گارے کا گھر یا اونٹ کی کھال کا خیمہ باقی نہیں بچے گا جہاں اللہ تعالیٰ اپنے دین کو داخل نہ کردے ۔
پس آج جبکہ مسلمانوں سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی پستی اور ذلت کا شکار نہیں اور سب سے زیادہ خون جو بہہ رہا ہے اس وقت دنیا میں اس کا غالب حصہ مسلمانوں کا ہی ہے ۔ بس اس وقت ہر سچا اور مخلص مسلمان اس بات کا منتظر ہے کہ آخر وہ وقت کب آئےگا کہ جب یہ دونوں امر ظاہر ہوں گے یعنی حضرت مہدی کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ۔ جبکہ حالات تو یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قیامت کی وہ نشانیاں جن کو محدثین نے "علاماتِ صغریٰ" سے تعبیر کیا ہے ، ان میں سے اکثر کوآج ہم اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے ، اپنے سامنے پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں ، اور وہ علامات جن کو محدثین نے "علامات کبریٰ" سے تعبیر کیا ہے ، (جس میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول شامل ہے ) دنیا اب ان کے وقوع پذیر ہونے کی منتظر ہے ۔
حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے قبل کی چھٹی نشانی ۔ سفیانی کے لشکر سے مقابلے اور مہدی کی تلاش میں خراسان سے کالے جھنڈوں کا پھر سے برآمد ہونا ۔ جب سفیانی کا لشکر مجاہدین کے پیچھے خراسان کی طرف آنے لگے گا تو اہل خراسان بھی سفیانی کے مقابلے کےلیے اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس سے مقابلے اور اہل ایمان کی نصرت کے لئے عراق کی جانب روانہ ہونے شروع ہوجائیں گے تاکہ وہاں کے مسلمانوں کی مدد کی جا سکے اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کو بھی تلا ش کیا جا سکے ۔
جہاں تک تعلق ہے حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کا ، تو احادیث وروایات سے یہ بھی پتاچلتا ہے کہ ان دونوں امر کے ظاہر ہونے سے پہلے بھی کچھ اموراور واقعات ظہور پذیر ہوں گے ۔ جن میں خراسان سے کالے جھنڈوں کا برآمد ہونا اور پھر ان میں آپس کا اختلاف ہونا ، سفیانی کا خروج اور پھر اس کی جانب سے مسلمانوں کا شدید قتل عام کرنا ، آسمان پر عجیب و غریب علامات کا ظاہر ہونا، پھر دوبارہ خراسان سے کالے جھنڈوں کا حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کےطلب میں نکلنا اور ان کو تلاش کرکے ان سے بیعت کرنا اور سفیانی کے لشکر کا زمین میں دھنسنا وغیرہ شامل ہیں ۔
وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّايَاتِ السُّودَ قَدْ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ خُرَاسَانَ فَأْتُوهَا فَإِنَّ فِيهَا خَلِيفَةَ اللَّهِ الْمَهْدِيَّ ۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي ۔ دَلَائِل النبوَّة ۔
ترجمہ : روایت ہے حضرت ثوبان سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے جب تم کالے جھنڈے دیکھو ۱؎ کہ خراسان کی طرف آرہے ہیں ۔ تو تم وہاں جانا کیونکہ اس میں ﷲ کا خلیفہ مہدی ہے ۔ (احمد،بیہقی دلائل النبوۃ) ۔ (مشکواة المصابیح حدیث نمبر 5461 - 25)۔(سنن ابن ماجہ ۴۰۸۴) (المستدرک للحاکم: ۴۶۳/۴۔۴۶۴ح۸۴۳۲وصححہ علیٰ شرط الشیخین و وافقہ الذہبی)(مسند الرویانی:ج۱ص۴۱۷۔۴۱۸ح۶۳۷)(دلائل النبوۃ للبیہقی:۵۱۵/۶ وقال: "تفرد به عبد الرزاق عن الثوري)(السنن الواردۃ فی الفتن و غوائلھا والساعۃ وأشراطھا للدانی: ۱۰۳۲/۵۔۱۰۳۳ح۵۴۸)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمة اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوۓ لکھتے ہیں :
(1) اس میں خطاب حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہیں بلکہ عام مسلمانوں سے ہے کیونکہ یہ واقعہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں نہیں بلکہ قریب قیامت ہے اگرچہ اس وقت خضر علیہ السلام موجود ہوں گے ، یہ حضور صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے صحابی نہیں ، نیز بعض جنات صحابہ ہوں گے مگر وہ زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ نہیں ہوگا لہٰذا خطاب عام ہے ۔
(2) یعنی اسلام کا عظیم الشان اور جرار لشکر جو بہت سے جھنڈوں کے تلے ہوگا ۔ غالبًا یہ لشکر جرار حارث اور منصور کا ہوگا جن کا ذکر پہلے ہوچکا ۔
(3) یعنی اس لشکر میں امام مہدی رضی اللہ عنہ بذات خود سپاہیانہ شان سے ہوں گے ۔ آپ اس وقت خلیفہ نہ بنے ہوں گے یا یہ مطلب ہے کہ اس لشکر پر امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہوگا ان کی نصرت ہوگی لہٰذا یہ حدیث اس فرمان عالی کے خلاف نہیں کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور حرمین شریفین کے درمیان ہوگا کہ وہ وقت آپ کی خلافت کے ظہور کا ہے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ رنگ ماتمی نہیں جو کہ روافض کا خیال ہے،فتح مکہ کے دن حضور صلی الله علیہ و آلہ و سلم کا عمامہ سیاہ تھا ، ان جھنڈوں کا رنگ سیاہ ہی ہوگا ۔ (مراة شرح مشکواة جلد 7)
حدثنا سعيد أبو عثمان عن جابر عن أبي جعفر قال يخرج شاب من بني هاشم بكفه اليمنى خال من خراسان برايات سود بين يديه شعيب بن صالح يقاتل أصحاب السفياني فيهزمهم.
.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۶،رقم:۹۰۸، اسنادہ : ضعیف : جابر ھوالجعفی :ضعیف)
"حضرت ابو جعفر رضی اللہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جس کے دائیں ہتھیلی پر تل ہوگا ،خراسان سے کالے جھنڈوں کے ساتھ نکلے گا ،ا س کے آگے آگے شعیب بن صالح نامی ایک آدمی ہوگا ،سفیانی کے لشکر کے ساتھ لڑائی کرے گا اور اس کو شکست دےگا"۔
حدثنا الوليد بن مسلم ورشدين بن سعد عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي بن أبي طالب رضى الله عنه قال إذا خرجت خيل السفياني إلى الكوفة بعث في طلب أهل خراسان ويخرج أهل خراسان في طلب المهدي فيلتقي هو والهاشمي برايات سود على مقدمته شعيب بن صالح فيلتقي هو وأصحاب السفياني بباب اصطخر فتكون بينهم ملحمة عظيمة فتظهر الرايات السود وتهرب خيل السفياني فعند ذلك يتمنى الناس المهدي ويطلبونه
.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۹،رقم:۹۲۱،اسنادہ :ضعیف:مدارہ علی:(۱)الولید بن مسلم :مدلس التسویۃ وقع عنعنہ (۲)اب لھیعۃ :مدلس وقد عنعنہ ،ثم ضعیف)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سفیانی کا لشکر کوفہ پہنچ جائے گا تو خراسان والوں کے خلاف ایک لشکر بھیجے گا اور خراسان والے مہدی کی تلاش میں نکلیں گے تو سفیانی اور (خراسان کے لشکر کا امیر جوکہ )ہاشمی ہوگاجس کے ساتھ کالے جھنڈوں والا لشکر ہوگا اور ا س کے لشکر کے مقدمے کے کمانڈر کا نام شعیب بن صالح ہوگا ۔تو ہاشمی اور سفیانی "اصطخر" نامی شہر کے دروازے کے آمنے سامنے ہوں گے تو دونوں کے درمیان زبردست جنگ ہوگی تو کالے جھنڈے والے غالب آجائیں گے اور سفیانی کا لشکر بھاگ جائیں گا ۔پھر اس وقت لوگ مہدی کی تمنا کریں گے اور اس کو تلاش کریں گے"۔
اصطخر ایران میں شیراز شہر کے قریب واقع ہے ۔
یہ لشکر کیوں بھیجے گا سفیانی ؟ وجہ اس کی یہ ہوگی کہ عراق میں سے کچھ لوگ سفیانی سے شکست کھاکر خراسان کی طرف چلے جائیں گے جن کو پکڑ نے کے لئے سفیانی خراسان کی طرف لشکر بھیجےگا ۔
فترجع طائفة منهم إلى خراسان فتقبل خيل السفياني ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۴،رقم:۹۰۰،اسنادہ :صحیح) "بس لوٹ جائے گا ایک گروہ خراسان کی طرف تو سفیانی ان کی طرف لشکر بھیجے گا" ۔
بس یہ موقع ہوگا جب ایک قوم نکلے گی مہدی کی تلاش میں : ويظهر بخراسان قوم يدعون إلى المهدي ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۴،رقم:۹۰۰،اسنادہ :صحیح) "اور ایک قوم نکلے گی خراسان سے مہدی کی تلاش میں"۔
ويخرج أهل خراسان في طلب المهدي فيدعون له وينصرونه ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۰،رقم:۸۸۸،اسنادہ ضعیف:ابن لھیعۃ :مدلس وقد عنعنہ :وھو ضعیف) "اورخراسان والے مہدی کو ڈھونڈنے نکلیں گے اور اس کے لئے دعا کریں گے اور اس کی مدد کریں گے"۔
پھر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کو سفیانی ملعون کے مقابلے میں جو اصل نصرت ملے گی وہ سرزمین خراسان سے ملے گی ۔ چناچہ امام مہدی کی نصرت کے کے لئے دوبارہ خراسان سے کالے جھنڈے نکلیں گے جنہیں کوئی طاقت نہ روک سکے گی اور نہ ہی کوئی ان کو شکست دے سکے گا بلکہ وہ ہر کفر کی طاقت کو روندتے ہوئے اور اہل ایمان کو ان سے چھٹکارا دلاتے ہوئے مہدی کی بیعت کے لئے حرم مکہ تک پہنچ جائیں گے ۔
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَمْرِو بْنِ جَابِرٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنَ جَزْءٍ الزَّبِيدِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ الْمَشْرِقِ فَيُوَطِّئُونَ لِلْمَهْدِيِّ يَعْنِي سُلْطَانَهُ ۔ (سنن ابن ماجہ ،ج۱۲،ص۱۰۶،رقم:۴۰۷۸) ’’رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:مشرق کی جانب سے ایسے لوگ برآمد ہوں گے جو علاقوں کے علاقے فتح کرتے ہوئے ’’مہدی‘‘ کی مدد یعنی ان کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لئے پہنچیں گے ۔‘‘
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَا حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ فِي حَدِيثِهِ قَالَ حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ قَبِيصَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لَا يَرُدُّهَا شَيْءٌ حَتَّى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ ۔ (مسنداحمد ،ج۱۷،ص۴۶۲،رقم:۸۴۲۰) ’’حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ جب کالے جھنڈے مشرق سے نکلیں گے تو ان کو کوئی چیز روک نہ سکے گی حتیٰ کہ وہ ایلیا(یعنی بیت المقدس) میں نصب کردیئے جائیں گے‘‘۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لَا يَرُدُّهَا شَيْءٌ حَتَّى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ ۔
(جامع ترمذی ،ج۸،ص۲۲۴،رقم:۲۱۹۵) ’’خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے اور اانہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی یہاں تک کہ وہ ایلیا ء(یعنی بیت المقدس)میں نصب کردیئے جائیں۔‘‘
وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي ۔ (ابن ماجة،ج۱۲ص۱۰۰رقم الحديث:۴۰۷۲) "اور یقیناً میرے اہل بیت کو آزمائشوں ، جلا وطنی اور بے بسی کا سامنا ہوگا،یہاں تک کہ مشرق سے کچھ لوگ آئیں گے جن کے ہاتھ میں کالے جھنڈے ہوں گے،چناچہ وہ امارت کا سوال کریں گے لیکن( بنو ہاشم) ان کو عمارت نہیں دیں گےسو وہ جنگ کریں گے اور ان کی مدد کی جائے گی پھر( بنوہاشم)ان کو امارت دیں گے لیکن اب وہ اس کو قبول نہ کریں گےاور میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو امارت دیں گے"۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتَتِلُ عِنْدَ كَنْزِكُمْ ثَلَاثَةٌ كُلُّهُمْ ابْنُ خَلِيفَةٍ ثُمَّ لَا يَصِيرُ إِلَى وَاحِدٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَطْلُعُ الرَّايَاتُ السُّودُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ فَيَقْتُلُونَكُمْ قَتْلًا لَمْ يُقْتَلْهُ قَوْمٌ ..... فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ ۔ (ابن ماجة،ج۱۲ص۱۰۲ رقم الحديث۴۰۷۴) ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : تمہارے خزانے کے پاس تین شخص جنگ کریں گے یہ تینوں بادشاہ کے لڑکے ہوں گےپھر بھی یہ خزانہ ان میں سے کسی کے ہاتھوں نہیں آئے گا اس کے بعد مشرق سے سیاہ جھنڈے نمودار ہوں گے اور وہ تم سے اس شدت کے ساتھ جنگ کریں گے کہ اس سے پہلے کسی قوم نے اس شدت کے ساتھ جنگ نہ کی ہوگی۔۔۔۔۔(یہاں تک کہ مہدی کا خروج ہوگا)جب تم لوگ انہیں دیکھو تو ان سے بیعت لینا اگر چہ اس بیعت کے لئے تمہیں برف پر سے گھسٹ کر آنا پڑے وہ اللہ کے مہدی خلیفہ ہوں گے"۔
سفیانی کے خروج کے بعد امام مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہور کب ہوگا ؟
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ حَدَّثَنِي حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ زِيَادٍ الْمِعْوَلِيُّ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ بَشِيرٍ الْمُزَنِىِّ عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُبَشِّرُكُمْ بِالْمَهْدِىِّ يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي عَلَى اخْتِلَافٍ مِنْ النَّاسِ وَزَلَازِلَ فَيَمْلَأُ الْأَرْضَ قِسْطًا وَعَدْلًا كَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَظُلْمًا ۔ (مسند احمد،ج۲۳،ص۱۰۶،رقم:۱۱۰۶۱،رجاله ثقات\مسند احمد،ج۲۲،ص۴۴۳،رقم:۱۰۸۹۸،رجاله ثقات)
"حضرت سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم لوگوں کی بشارت ہے مہدی کی ،ان کا ظہور اس وقت ہوگا جب کہ لوگوں میں اختلاف ہوگا اور زمین پرزلزلوں کی کثرت ،پس وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھردے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے ظلم وجور سے بھری ہوئی تھی"۔
حدثنا أبو إسحق الأقرع حدثني أبو الحكم المدني قال حدثني يحيى بن سعيد عن سعيد بن المسيب قال تكون فرقه واختلاف حتى يطلع كف من السماء وينادي مناد ألا أن أميركم فلان. ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۶۶،رقم:۹۹۰،ابو الاسحق الأقرع :لم اعرفہ)
"سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بے اتفاقی اور اختلاف ہوگا ،یہاں تک کہ آسمان سے ایک ہتیلی ظاہر ہوگی اورآسمان سے ایک آواز دینے والا آواز دے گا :جان لو!تم لوگوں کا امیر فلاں شخص ہے"۔
حدثنا عبد الله بن مروان عن العلاء بن عتبة عن الحسن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر بلاء يلقاه أهل بيته حتى يبعث الله راية من المشرق سوداء من نصرها نصره الله ومن خذلها خذله الله حتى يأتوا رجلا اسمه كاسمي فيوليه أمرهم فيؤيده الله وينصره ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۷،رقم:۹۱۲،اسنادہ :ضعیف:الحسن عن النبی:مرسل)
"حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مصیبت کا ذکر کیا ۔جو ان کے اہل بیت (خاندان )والوں کو پہنچ جائیں گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مشرق کی طرف سے کالے جھنڈوں کا ایک لشکر بھیج دے گا جو اس کے لشکر کی نصرت و مدد کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد کرے گا اور جو اس لشکر کی نصرت نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کرے گا یہاں تک کہ یہ لشکر ایک آدمی تک پہنچ جائے گا جس کا نام میرے نام کی طرح ہوگا تو یہ لشکر والے اس کو اپنا امیر بنائیں گے پھر اللہ تعالیٰ اس کی تائید اور اس کی نصرت کریں گے "۔
وتبعث الرايات السود بالبيعةإلى المهدي.
.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۴،رقم:۹۰۰، اسنادہ :صحیح) "اور بالآخر کالے جھنڈوں والے مہدی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے"۔
حدثنا الحكم بن نافع عن جراح عن أرطاة قال يبايعه ثم يعود المهدي إلى مكة ثلاث سنين ثم يخرج رجل من كلب فيخرج من كان في أرض إرم كرها فيسير إلى المهدي إلى بيت المقدس في اثنا عشر ألفا فيأخذ السفياني فيقتله على باب جيرون ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۷۷،رقم:۱۰۲۹،اسنادہ :قوی)
محترم قارئین کچھ احادیثِ مبارکہ آپ نے پڑھیں اور پڑھینگے ان کے تعلق سے چار باتوں کی وضاحت ضرور پڑھ کر ذھن نشین فرما لیں :
اول : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور خاص کر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات کے بارے میں احادیث و روایات کثیر تعداد میں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں سے بعض احادیث تو وہ ہیں جوکہ صحیح احادیث ہیں اور بعض وہ ہیں جوکہ ضعیف اور بعض انتہائی ضعیف ہیں ۔ چناچہ ہم ذیل میں وہ احادیث و روایات نقل کریں گے جوکہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے ہیں۔گوکہ ذیل میں نقل ہونے والی کئی روایات ضعیف ہیں ، لیکن یہ بات سب جانتے ہیں وہ امور جن کا تعلق عقائد ، عبادات اور مسائل شرعیہ سے نہ ہوبلکہ ان کا خالصتاً تعلق اخبار (مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات) سے ہو،تو اس باب میں محدثین نے ضعیف احادیث کو بھی نقل کیا ہے ۔ یہاں تک وہ اسرائیلیات جوکہ قرآن وحدیث سے نہ ٹکراتی ہوں ،اور ان کا تعلق بھی اخبار سے ہو تو ان کو بھی نقل کیا ہے ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ ۔ (سنن ابی داود،ج۱۰،ص۷۹،رقم:۳۱۷۷)(مسند احمد ج ۲۰ ص ۲۸۹،رقم:۹۷۴۶)
ترجمہ : حضرت ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :بنی اسرائیل سے روایت کرو ، اس میں کوئی حرج نہیں ۔
دوم : ذیل میں ہم نے حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے متعلق صرف وہ احادیث نقل نہیں کی جوکہ ضعیف ہیں بلکہ وہ صحیح احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ان واقعات کا بالکل واضح ذکر موجود ہےیا ان میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والےواقعات سے متعلق ایسے واضح اشارے موجود ہیں جوکہ ضعیف احادیث کے ضعف کو کم کرتے ہیں ۔ چناچہ یہ بات بھی سب اہل علم جانتے ہیں کہ وہ ضعیف حدیث جس کے متن سے متعلق کسی امرکا واضح اور صریح اشارہ صحیح احادیث سے ملتا ہوا تو پھر اس حدیث کے ضعف کا وہ درجہ نہیں رہتا جوکہ اس کے راویوں کے ضعف کی بناء پر ہوتا ہے ۔
سوم : پہلی بات یہ ہے کہ ذیل میں ہم نے احادیث کو اسی واقعاتی ترتیب کے لحاظ سے نقل کرنے کی کوشش کی ہے ، جوکہ بظاہر احادیث کے مطالعہ سے سامنے آتا ہے ،لیکن یہ ترتیب کوئی حتمی نہیں ہے ۔ اس میں معاملات آگے پیچھے بھی ہوسکتےہیں اور دوسری سب سے اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ سے ماقبل ہونے والے واقعات کی حتمی تطبیق انتہائی دقیق اورمشکل کام ہے جوکہ صرف اہل علم ہی اپنےعلم اور نور بصیرت اور فراست سے اس کو پہچان سکتے ہیں ، جس کو پھر بھی حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول سے متعلق ماہ وسال کا تعین کسی نہ اختیار میں ہے اور نہ ہی اس کو متعین کرنا جائز ہے ۔بس اس ضمن میں یہ بات واضح کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضرت مہدی جب مکہ میں پناہ لیں گے تو ان کو پکڑنے کے لئے آنے والا لشکرجب زمین میں دھنسا یا جائے گا تو لوگ پہچان لیں گے کہ یہی وہ مہدی ہیں جن کی خوشخبری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دی تھی ۔ بس شام سے اولیاء اور عراق کے قبائل آکر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ سے بیعت کریں گے : فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ۔ (سنن ابی داود جلد نمبر ۱۱ صفحہ ۳۵۷ رقم:۳۷۳۷)
ترجمہ : وہ لشکر ، بیداء ، کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے، جب لوگ مہدی کے بارے میں سنیں گے تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی اور ان سے بیعت کریں گی ۔
چہارم : بہت سے لوگ جن میں بعض وقت کچھ اہل علم حضرات ، ان کے سامنےجب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور خاص کر حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے ماقبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے متعلق بات کی جاتی ہے تو اس سے انتہائی بے اعتنائی برتتے ہیں اور اس کے متعلق یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے اس کے ظہور ہونے میں ابھی صدیاں باقی ہیں ۔مگر ہم جب اس معاملے میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اور اسلاف کا طرز عمل دیکھیں تو وہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔وہاں تو یہ معاملہ تھا کہ اگر کوئی ایسی چیز صحابہ یا اسلاف دیکھ لیا کرتے تھے جو کہ دجال یا یاحضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور سے متعلق ہوتی تھی تو فوراً فکر مند ہو جاتے تھےاور اس کی اصلیت جاننے کی کوشش کرتے تھے تاکہ اگر اس چیز سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کوئی بشارت دی ہوتو اس سے محروم نہ رہا جا سکے اور اگر کسی چیز سے متعلق متنبہ کیا ہو تو اس کی گمراہی اور ہلاکت سے بچاجاسکے ۔
اس سلسلے میں چند مثالیں درج ذیل ہیں
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جب آسمان پر دمدار ستارہ دیکھا تو فکر مند ہوگئے کہ کہیں دجال تو نہیں نکل آیا ۔ چناچہ روایات میں آتا ہے : أخبرنا حمزة بن العباس العقبي ، ثنا العباس بن محمد الدوري ، ثنا عثمان بن عمرو ، أنبأ ابن جريج ، عن ابن أبي مليكة ، قال : غدوت على ابن عباس رضي الله عنهما ذات يوم ، فقال : « ما نمت البارحة حتى أصبحت » ، قلت : لم ؟ قال : « قالوا : طلع الكوكب ذو الذنب ، فخشيت أن يكون الدجال قد طرق » « هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه . غير أنه على خلاف عبد الله بن مسعود ، وأن آية الدجال قد مضى ۔ (مستدرک حاکم ،ج ۱۹،ص۳۱۱،رقم:۸۵۵۱)
اسی طرح امام مہدی رضی اللہ عنہ سے قبل کے رمضان میں جو عجیب و غریب علامات آسمان پر ظاہر ہوں گی ان سے متعلق ایک راوی کہتے ہیں کہ : حدثنا ابن وهب عن ابن عياش عن صفوان بن عمرو عن عبد الرحمن بن جبير عن كثير بن مرة قال لانتظر آية الحدثان في رمضان منذ سبعين سنة ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۴۰،اسنادہ :حسن)
ترجمہ : حضرت کثیر بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں ستر سال تک رمضان میں (آسمان پر ظاہر ہونے والی )دونشانیوں کا انتظار کرتا رہا ۔
اسی طرح قرب قیامت غزوہ ہند سے متعلق جو بشارتیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں اس سے متعلق حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کیا تھا ۔ وہ فرماتے ہیں : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ حَدَّثَنِي خَلِيلِي الصَّادِقُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْثٌ إِلَى السِّنْدِ وَالْهِنْدِ فَإِنْ أَنَا أَدْرَكْتُهُ فَاسْتُشْهِدْتُ فَذَلِكَ وَإِنْ أَنَا فَذَكَرَ كَلِمَةً رَجَعْتُ وَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ قَدْ أَعْتَقَنِي مِنْ النَّارِ ۔ (مسندا حمد ج ۱۸ ص ۹ رقم:۸۴۶۷۔البدایۃ والنھایۃالابن کثیر ،الاخبار عن غزوہ الھند:۶/۲۲۳)
ترجمہ : میرے جگری دوست رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ : اس امت میں سندھ اور ہند کی طرف لشکروں کی راونگی ہوگی ۔ (اس پر حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع لگا اور میں شہید ہوگیا تو ٹھیک ، اگر واپس لوٹا تو ایک آزادابوہریرہ ہوگا،جسے اللہ تعالیٰ نے جہنم سے آزاد کردیا ہوگا ۔
اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے اس لشکرمیں شرکت کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم کے ارشاد کو نقل فرمایا : حدثنا بقية بن الوليد عن صفوان عن بعض المشيخة عن أبي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وذكر الهند فقال (ليغزون الهند لكم جيش يفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوكهم مغللين بالسلاسل يغفر الله ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون ابن مريم بالشام).قال أبو هريرة إن أنا أدركت تلك الغزوة بعت كل طارف لي وتالد وغزوتها فإذافتح الله علينا وانصرفنا فأنا أبو هريرة المحرر يقدم الشام فيجد فيها عيسى بن مريم فلأحرصن أن أدنوا منه فأخبره أني قد صحبتك يا رسول الله قال فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وضحك ثم قال (هيهات هيهات) ۔ (الفتن ‘‘از نعیم بن حماد ،باب غزوۃ الہند ،ج۹ص۴۰۹،حدیث:۱۲۳۸،۱۲۳۶واسنادہ ضعیف ومسند اسحق بن راھویہ،قسم اول۔سوم:۱/۴۶۲حدیث:۵۵۳۷)
ترجمہ : ضرور تمہارا ایک لشکر ہند وستان سے جہاد کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ ان (ہندوستان) کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان (مجاہدین) کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ (اس پر) حضرت ابوہریر ۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو وہ میں ایک آزاد ابو ہریرۃ ہوں گا جو ملک شام میں (اس شان سے) آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاٶں کہ میں آپ کا صحابی ہوں ۔(راوی کا بیان ہے )کہ رسول اللہ ایہ بات سن کر مسکرا پڑے اور ہنس کر فرمایا:بہت مشکل ،بہت مشکل"۔
بس یہ تھا صحابہ کرام اور اسلاف کا طرز عمل ان نشانیوں کے حوالے سے ۔غور کرنے کی بات یہ ہے کہ صحابہ کرام اور اسلاف امت حضرت مہدی ،دجال اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے زیادہ قریب تھے یاہم اس زمانے کے زیادہ قریب ہیں ؟ظاہر سی بات ہے کہ ان کے مقابلے میں ہم ان نشانیوں کے زیادہ قریب ہے تو پھر ہمیں ان کے بارے میں کس قدر جانناچاہیے اور اگر اس متعلق کسی نشانی کا ظہور ہوتو اس کے متعلق کتنا فکر مند ہونا چاہیے۔لیکن معاملہ اسے بالکل برعکس ہے کہ عام آدمی تو درکنار اکثر اہل علم بھی اس پر بات کرنے یا اس کی طرف توجہ کرنے کو تیار نہیں ۔یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی حضرت مہدی کے ظہور اورخروج دجال کی نشانی ہے کہ ان خروج سے پہلے ان کا ذکر محراب و منبر سے اٹھ جائے گا یا پھر لوگ ایسے امر کے ظہور پذیر ہونے سے ہی مایوس ہوجائیں گے۔
عن ابن عباس فایبعث المھدی بعد ایاس حتیٰ یقول الناس لامھدی ۔ (کذا فی الحادی ج ۲ص۷۶)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک لوگ مایوس ہوکر یہ نہ کہنے لگیں کہ اب کوئی مہدی نہیں آنے والا"۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ لَا يَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى يَذْهَلَ النَّاسُ عَنْ ذِكْرِهِ وَحَتَّى تَتْرُكَ الْأَئِمَّةُ ذِكْرَهُ عَلَى الْمَنَابِرِ) ۔ (مسند احمد:ج۳۴ص۳رقم الحدیث:۱۶۰۷۳)
"دجال کا خروج نہ ہوگا یہاں تک کہ لوگ اس کا ذکر بھول جائیں گے(یعنی اس سے بے خوف ہوجائیں گے)اور مساجد کے آئمہ منبروں پر اس کا تذکرہ چھوڑ دیں گے"۔
جبکہ معاملہ یہ ہو کہ ؛ لیس من فتنۃ صغیرۃ ، ولا کبیرۃ لا تضع لفتنۃ الدجال فمن نجا من فتنۃ ما قبلہا نجا منہا ۔ (مسند البزار:ج۷ص۲۳۲رقم الحدیث:۲۸۰۷رجالہ رجال الصحیح)
"آج تک دنیا میں کوئی بھی چھوٹا بڑا فتنہ ظاہر نہیں ہوامگر یہ کہ وہ دجال کے فتنے کی وجہ سے ہے، سو جو کوئی اس کے فتنے سے پہلے ،فتنوں سے بچ گیا وہ دجال کے فتنے سے بھی بچ جائے گا ‘‘۔
"فتنہ چھوٹا ہو یا بڑا وہ دجال کے فتنے پر ہی منتج ہوگا۔سو جو اس کے فتنے سے پہلے فتنوں سے بچ گیا وہ دجال کے فتنوں سے بھی بچ جائے گا"۔(احادیث فی الفتن والحوادث ج:۱ص۲۵۶)
لہذا ان فتنوں سے سے بچنے کے لئے ان فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ؛ "یہ فتنے ایسے لمبے ہوجائیں گے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوجاتی ہے ۔ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ بچ جائیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہوں گے‘‘۔ (احادیث حذیفہ فی الفتن : ج ۱ ص۴۹)
کالے جھنڈوںمیں آپس میں اختلاف
کیا کالے جھنڈوں میں اختلاف شروع ہوچکاہے؟
قرب قیامت حضرت مہدی کا ظہور ہونا ہے اور ظہور مہدی سے پہلے قبیلہ قریش کے ایک شخص نے خروج کرنا ہے جس کا نام سفیانی ہوگا،اور سفیانی کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگاجب تک کہ خراسان سے نکلنے والے کالے جھنڈوں میں شدید اختلاف نہ ہوجائے اور ان میں آپس میں جنگ وجدال نہ ہونے لگے،اور جب ان کالے جھنڈوں میں اختلاف ہوجائے گا تو شام میں تین جھنڈے ظاہر ہوں گے جن میں سے ایک جھنڈا سفیانی ملعون کا ہوگا،اور سفیانی کا ظہور حضرت مہدی کی آمد کا دراصل اعلان ہوگا۔اب اس بات کواحادیث مبارکہ سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
ظہور مہدی سے قبل کی ایک نشانی جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ لوگوں میں کثیر اختلاف پیدا ہوجائے گا۔جیساکہ حدیث میں آتا ہے کہ:أُبَشِّرُكُمْ بِالْمَهْدِىِّ يُبْعَثُ فِي أُمَّتِي عَلَى اخْتِلَافٍ مِنْ النَّاسِ ۔ (مسند احمد،ج۲۳، ص۱۰۶،رقم:۱۱۰۶۱،رجاله ثقات\مسند احمد،ج۲۲، ص۴۴۳،رقم:۱۰۸۹۸،رجاله ثقات)
"تم لوگوں کی بشارت ہے مہدی کی ،ان کا ظہور اس وقت ہوگا جب کہ لوگوں میں اختلاف ہوگا"۔
لیکن یہ اختلاف کن لوگوں کے درمیان ہوگا اس حوالے سے تفاصیل دیگر احادیث میں ملتی ہیں۔جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ کسی بادشاہ کے اختلاف پر لوگوں میں اختلاف ہوگا تو لوگ ایک شخص جوکہ مہدی ہوں گے ان کو خلیفہ بنانے کا قصد کریں گے:يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ۔(سنن ابی داود،ج۱۱،ص۳۵۷،رقم:۳۷۳۷)
" ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلاخلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لیے نکالیں گے"۔
اسی طرح یہ اختلاف خراسان سے نکلنے والے کالے جھنڈوں کے درمیان بھی ہوگا : حدثنا الوليد وأخبرني أبو عبد الله عن مسلم بن الأخيل عن عبد الكريم أبي أمية عن محمد بن الحنفية قال لا تزال الرايات السود التي تخرج من خراسان في أسنتها النصر حتى يختلفوا فيما بينهم فإذا اختلفوا فيما بينهم رفعت ثلاث رايات بالشام.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۵،رقم:۵۹۶،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف،تحقیق شیخ ابو عبد اللہ و شیخ أیمن محمدمحمد عرفۃ ،المکتبہ التوفیقیہ ،مصر)
" محمد بن الحنیفۃ سے روایت ہے کہ خراسان سے جو کالے جھنڈوں والا لشکر نکلے گا وہ ہمیشہ غالب رہے گا یہاں تک کہ وہ آپس میں اختلاف کریں گے۔جب وہ آپس میں اختلاف کریں گے تو شام میں تین جھنڈے بلند کئے جائیں گے"۔
کیا کالے جھنڈوں میں آپس میں بڑا کشت وخون ہونے والاہے؟
حدثنا الوليد بن مسلم عن أبي عبدة المشجعي حدثنا أبو أمية الكلبي قال حدثنا شيخ أدرك الجاهلية قد سقط حاجباه على عينيه قال لا تزال أصحاب الرايات السود شديدة رقابهم بعدما يظهروا حتى يختلفوا فيما بينهم.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۴،رقم:۵۸۸،اسنادہ ضعیف:الولید بن مسلم :مدلس التسویۃ ولم یصرح۔شیخ لھم ادرک الجاھلیۃ :مجھول)
"ابو امیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ ہمیں ایک بوڑھے آدمی نے بتایا (جس نے جاہلیت کا زمانہ پایا تھا )اور بڑھاپے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی پلکیں اس کی آنکھوں کی نیچے پڑی ہوئی تھیں ،اس نے کہا کہ جب کالے جھنڈوں والا لشکر نکلے گا تو وہ ہر وقت کامیاب رہے گا یہاں تک کہ پھر ان کے درمیان اختلاف پیدا ہوجائے گا"۔
قال الوليد فأخبرني أبو عبدة المشجعي عن أبي أمية الكلبي قال بينما أصحاب الرايات السود يقتتلون فيما بينهم إذ خرج سابع سبعة
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۶،رقم:۸۷۵۔ابو امیۃ کلبی لم أعرفہ)
ابو امیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کالے جھنڈوں والے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوں گے تو ایک دم ساتواں نکلے گا۔۔۔۔"۔
حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی دوسری نشانی
کالے جھنڈوں میں اختلاف کے بعد شام میں نکلنے والے تین جھنڈے کون کون سے ہوں گے؟
الفتن نعیم بن حماد کی صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ آخر زمانے میں دمشق میں ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی،ایک مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا ،روم اور ترک ایک ہوجائیں گےتو شام میں تین جھنڈے نکلیں گے جن میں ایک سفیانی ملعون کا ہوگا!وہ صحیح روایات یہ ہیں : حدثنا الحكم عن جراح عن أرطاة قال إذا خسف بقرية من قرى دمشق وسقطت طائفة من غربي مسجدها فعند ذلك تجتمع الترك والروم يقاتلون جميعا وترفع ثلاث رايات بالشام ثم يقاتلهم السفياني حتى يبلغ بهم قرقيسيا ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۹،رقم:۶۱۱۔اسنادہ حسن)
"جب دمشق کے قریب ایک بستی دھنس جائے گی اور مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا ۔پس روم والے اور تر ک جمع ہوجائیں گے اور مل کر لڑیں گے تو شام میں تین جھنڈے بلند ہوں گے۔۔۔۔۔۔"۔
عن أرطاة قال إذا اجتمع الترك والروم وخسف بقرية بدمشق وسقط طائفة من غربي مسجدها رفع بالشام ثلاث رايات الأبقع والأصهب والسفياني ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۷،رقم:۸۳۹۔اسنادہ حسن)
جب روم اور ترک جمع ہوجائیں گے اور دمشق کے قریب ایک بستی دھنس جائے گی اور مسجد کا مغربی حصہ گر جائے گا تو شام میں تین جھنڈے بلند ہوں گے ،ایک ابقع کا ،دوسرا اصھب کا اور تیسرا سفیانی کا"۔
یہ جھنڈےآخر نکلیں گےکب ؟یہ جھنڈے اس وقت نکلیں گے جب کالے جھنڈوں میں اختلاف ہوجائے گا،اس کا ذکر درج ذیل احادیث میں ملتا ہے جوکہ ضعیف ہیں : حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي قال إذا اختلف أصحاب الرايات السود بينهم كان خسف قرية بإرم يقال لها حرستا وخروج الريات الثلاث بالشام عنها.
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۶،رقم:۸۷۵۔اسنادہ ضعیف :مدارہ علی ابن لھیعۃ :مدلس وقد عنعنہ وھو ضعیف)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے آپس میں اختلاف کریں گے تو اس وقت "وادی ارم "کی ایک بستی جس کو "حرستا"کہاجاتا ہوگا زمین میں دھنس جائے گی اورشام سے تین جھنڈے نکلیں گے"۔
حرستا شام کی ایک بستی کا نام ہے جوکہ آج بھی دمشق کے قریب واقع ہے۔
حدثنا الوليد عن أبي عبدة المشجعي عن أبي أمية الكلبي قال حدثنا شيخ قد أدرك الجاهلية قد سقط حاجباه على عينيه قال لا تزال أصحاب الرايات السود شديدة رقابهم حتى يختلفوا فيما بينهم يخالف بعضهم بعضا فيفترقون ثلاث فرق فرقة يدعون لبني فاطمة وفرقة يدعو لبني العباس وفرقة تدعو لأنفسهم قلت ومن أنفسهم ؟ قال لا أدري وهكذا سمعت.
(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۷۴،رقم:۵۸۸،اسنادہ ضعیف:الولید بن مسلم :مدلس التسویۃ ولم یصرح۔شیخ لھم ادرک الجاھلیۃ :مجھول)
"ابوامیہ الکلبی فرماتے ہیں کہ ایک بوڑھے نے ہمیں بتایا کہ جس نے جاہلیت کا زمانہ پایاتھا کہ کالے جھنڈوں والے غالب رہیں گے یہاں تک کہ ان میں اختلاف ہوجائے گا ۔تو وہ ایک دوسرے کی مخالفت کریں گے تو وہ تین جماعتوں تقسیم ہوجائیں گے ۔ایک جماعت لوگوں کو بنو فاطمہ کی طرف لوگوں کو دعوت دے گی ،دوسری جماعت بنو عباس کی طرف اور تیسری جماعت اپنے لئے بادشاہی کادعویٰ کرے گی ۔میں نے پوچھا کہ وہ کون ہے تو انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں ہے ،میں نے اسی طرح سنا تھا"۔
حدثنا عبد القدوس عن ابن عياش عمن حدثه عن كعب قال إذا رجع السفياني دعا إلى نفسه بجماعة اهل المغرب فيحتمعون لہ مالم یجتمعوا لأحد قط،لما سبق فی علم اللہ تعالیٰ۔۔۔
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۴،رقم:۸۶۹،اسنادہ ضعیف:شیخ ابن عیاش مجہول)
کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب سفیانی واپس آئے گا تو وہ اپنی بادشاہی کی طرف لوگوں کو دعوت دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدثنا الوليد قال وأخبرني أبو عبد الله عن مسلم بن الأخيل عن عبد الكريم أبي أمية عن محمد بن الحنفية قال إذا اختلفوا بينهم رفع بالشام ثلاث رايات راية الأبقع وراية الأصهب وراية السفياني ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۷، رقم:۸۴۱،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم ابو امیہ ضعیف)
"محمد بن حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب وہ آپس میں اختلاف کرنے لگیں تو شام میں تین جھنڈے اٹھائے جائیں گے ،ایک ابقع سیاہ وسفید داغ والا ،دوسرا اصہب سرخ وسفید اور تیسرا سفیانی کا جھنڈا"۔
حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي قال إذا إختلفت أصحاب الرايات السود خسف بقرية من قرى إرم ويسقط جانب مسجدها الغربي ثم تخرج بالشام ثلاث رايات الأصهب والأبقع والسفياني فيخرج السفياني من الشام والأبقع من مصر فيظهر السفياني عليهم.(الفتن نعيم بن حماد، ص۲۲۹،رقم:۸۴۷،اسنادہ ضعیف:عبد الکریم ابو امیہ ضعیف)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کالے جھنڈوں والے جب آپس میں اختلاف کریں گے تو ارم شہر کی ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی اور اسی بستی کے مسجد کا مغربی حصہ بھی گر جائے گا ،پھر شام میں تین جھنڈے نکلیں گے ،ایک ابقع دوسرا اصھب اور تیسرا سفیانی ۔سفیانی شام سے اور ابقع مصر سے نکلے گا اور سفیانی ان پر غالب آئے گا"۔
حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی تیسری نشانی
کالے جھنڈوں میں اختلاف کےبعدپیلے جھنڈے یا اہل مغرب کہاں اتریں گے؟
حدثنا عبد الله بن مروان عن سعيد بن يزيد التنوخي عن الزهري قال إذا اختلفت الرايات السود فيما بينهم أتاهم الرايات الصفر فيجتمعون في قنطرة أهل مصر فيقتتل أهل المشرق وأهل المغرب سبعا (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۴،رقم:۷۷۸،اسنادہ :جید)
"امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے آپس میں اختلاف کریں گے تو پیلے جھنڈوں والے ان کے پاس آئیں گے تو دونوں مصر والوں کے ساتھ جمع ہوں گےتو پھر مشرق مغرب والے سات (دن ،مہینے یا سال )جنگ کریں گے"۔
حدثنا عبد الله بن مروان عن أبيه عن عمرو بن شعيب عن أبيه قال دخلت على عبد الله بن عمر حين نزل الحجاج بالكعبة فسمعته يقول إذا أقبلت الرايات السود من المشرق والرايات الصفر من المغرب حتى يلتقوا في سرة الشام يعني دمشق فهنالك البلاء هنالك البلاء.
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۶،رقم:۷۸۹،اسنادہ :قوی)
"حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کالے جھنڈوں والے مشرق سے آگئے اور پیلے جھنڈے والے مغرب سے اور دمشق میں ایک دوسرے کے ساتھ آمنے سامنے آگئے تو اس وقت مصیبت ہی مصیبت ہے"۔
حدثنا عبد الله بن مروان عن أرطاة عن تبيع عن كعب قال إذا رأيت الرايات الصفر نزلت الأسكندرية ثم نزلوا سرة الشام فعند ذلك يخسف بقرية من قرى دمشق يقال لها حرستا.
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۶،رقم:۷۸۷، اسنادہ : جید)
"حضرت کعب فرماتے ہیں کہ جب آپ نے دیکھ لیا کہ پیلے جھنڈے والوں نے اسکندریہ اور پھر دمشق میں پڑاؤ ڈالیا تو اس وقت دمشق کی ایک بستی زمین میں دھنس جائے گی جس کا نام حرستا ہوگا"۔
حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی چوتھی نشانی
(۴)
خروج سفیانی
بہت سے لوگ آج کل جس طرح مہدی کے ظہور پر اعتراضات کرتے ہیں بلکہ بعض لوگ ایسی کسی شخصیت کے قائل ہی نہیں ،بالکل اسی طرح بہت سے لوگ اس شخصیت کے بھی منکر ہیں جوکہ قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوگا اور حضرت مہدی کے مقابلے میں شام سے لشکر بھیجے گا اور جس کا لقب روایات میں"سفیانی "مذکور ہے۔بہت سے لوگ اس شخصیت کو رافضیوں کی گڑھی ہوئی شخصیت قرار دیتے ہیں جوکہ ان کے کم علمی کی علامت ہے۔صحیح احادیث سے حضرت مہدی کا بیت اللہ میں پناہ لینا اور ان کے خلاف قبیلہ قریش کے ایک شخص جس کا ننھیال بنو کلب ہوگا ،حضرت مہدی کے خلاف شام سے لشکر بھیجنا اور اس کا زمین میں دھنس جانا ثابت ہے۔
مہدی کے خلاف لشکر کا بھیجا جانا:
(( حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الرَّازِيُّ وَهُوَ خَتَنُ سَلَمَةَ الْأَبْرَشِ قَالَ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُوسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ حَفْصَةَ ابْنَةِ عُمَرَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَأْتِي جَيْشٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يُرِيدُونَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ فَرَجَعَ مَنْ كَانَ أَمَامَهُمْ لِيَنْظُرَ مَا فَعَلَ الْقَوْمُ فَيُصِيبَهُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَيْفَ بِمَنْ كَانَ مِنْهُمْ مُسْتَكْرَهًا قَالَ يُصِيبُهُمْ كُلَّهُمْ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ كُلَّ امْرِئٍ عَلَى نِيَّتِهِ)) (مسند احمد،ج۵۳،ص۴۱۳،رقم:۲۵۲۵۳)
"حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے مشرق سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکرکا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبردے گا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس آدمی کا کیا بنے گا جو اس لشکر میں زبردستی شامل کرلیا گیا ہوگا؟ نبی علیہ السلام نے فرمایا یہ آفت تو سب پر آئے گی البتہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کی نیت پر اٹھائے گا"۔
((حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ جَدِّهِ عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِأَوْسَطِهِمْ فَيُنَادِي أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ فَلَا يَنْجُو إِلَّا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ)) (مسند احمد،ج۵۳،ص۳۹۹،رقم:۲۵۲۳۹)
"حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے رہ جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک آدمی بچے کا جو ان کے متعلق لوگوں کو خبر دے گا ایک آدمی نے کہا کہ یقینا اسی طرح ہوگا"۔
((و حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ الْحُدَّانِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ عَبَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنَامِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَنَعْتَ شَيْئًا فِي مَنَامِكَ لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ فَقَالَ الْعَجَبُ إِنَّ نَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَؤُمُّونَ بِالْبَيْتِ بِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ لَجَأَ بِالْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْبَيْدَاءِ خُسِفَ بِهِمْ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الطَّرِيقَ قَدْ يَجْمَعُ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ فِيهِمْ الْمُسْتَبْصِرُ وَالْمَجْبُورُ وَابْنُ السَّبِيلِ يَهْلِكُونَ مَهْلَكًا وَاحِدًا وَيَصْدُرُونَ مَصَادِرَ شَتَّى يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى نِيَّاتِهِمْ)(صحیح مسلم ،ج ۱۴،ص۵۵،رقم :۵۱۳۴)
"، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند میں اپنے ہاتھ پاؤں کو ہلایا تو ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ نے اپنی نیند میں وہ عمل کیا جو پہلے نہ فرمایا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا تعجب ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ بیت اللہ کا ارادہ کریں گے قریش کے ایک آدمی کو پکڑنے کے لئے جس نے بیت اللہ میں پناہ لی ہوگا یہاں تکہ کہ جب وہ ایک ہموار میدان میں پہنچیں گے تو انہیں دھنسا دیا جائے گا ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول راستے میں تو سب لوگ جمع ہوتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ان میں با اختیار مجبور اور مسافر بھی ہوں گے جو ایک ہی دفعہ ہلاک ہو جائیں گے اور مختلف طریقوں سے نکلیں گے اور انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا"۔
(( أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَيَعُوذُ بِهَذَا الْبَيْتِ يَعْنِي الْکَعْبَةَ قَوْمٌ لَيْسَتْ لَهُمْ مَنَعَةٌ وَلَا عَدَدٌ وَلَا عُدَّةٌ يُبْعَثُ إِلَيْهِمْ جَيْشٌ حَتَّی إِذَا کَانُوا بِبَيْدَائَ مِنْ الْأَرْضِ خُسِفَ بِهِمْ قَالَ يُوسُفُ وَأَهْلُ الشَّأْمِ يَوْمَئِذٍ يَسِيرُونَ إِلَی مَکَّةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَفْوَانَ أَمَا وَاللَّهِ مَا هُوَ بِهَذَا الْجَيْشِ))
(صحیح مسلم ،ج ۱۴،ص۵۵،رقم :۵۱۳۳)
"عبداللہ بن صفوان، سیدہ ام المومنین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب ایک قوم اس گھر یعنی خانہ کعبہ کی پناہ لے گی جن کے پاس کوئی رکاوٹ نہ ہوگی نہ آدمیوں کی تعداد ہوگی اور نہ ہی سامان ہوگا ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ زمین کے ایک ہموار میدان میں ہوں گے تو انہیں دھنسادیا جائے گا۔ یوسف نے کہا شام والے ان دنوں مکہ والوں سے لڑنے کے لئے روانہ ہو چکے تھے عبداللہ بن صفوان نے کہا اللہ کی قسم وہ لشکر یہ نہیں(بلکہ یہ آخری زمانے میں ہوگا)"۔
حضرت مہدی کے خلاف لشکر بھیجنے والاشخص قبیلہ قریش سے تعلق رکھتا ہوگا جبکہ اس کا ننھیال بنوکلب سے ہوگا!
((حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ قَتَادَةَ عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ صَاحِبٍ لَهُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَكُونُ اخْتِلَافٌ عِنْدَ مَوْتِ خَلِيفَةٍ فَيَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ هَارِبًا إِلَى مَكَّةَ فَيَأْتِيهِ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ فَيُخْرِجُونَهُ وَهُوَ كَارِهٌ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ وَيُبْعَثُ إِلَيْهِ بَعْثٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَيُخْسَفُ بِهِمْ بِالْبَيْدَاءِ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَإِذَا رَأَى النَّاسُ ذَلِكَ أَتَاهُ أَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فَيُبَايِعُونَهُ بَيْنَ الرُّكْنِ وَالْمَقَامِ ثُمَّ يَنْشَأُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَخْوَالُهُ كَلْبٌ فَيَبْعَثُ إِلَيْهِمْ بَعْثًا فَيَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ وَذَلِكَ بَعْثُ كَلْبٍ وَالْخَيْبَةُ لِمَنْ لَمْ يَشْهَدْ غَنِيمَةَ كَلْبٍ فَيَقْسِمُ الْمَالَ وَيَعْمَلُ فِي النَّاسِ بِسُنَّةِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُلْقِي الْإِسْلَامُ بِجِرَانِهِ فِي الْأَرْضِ فَيَلْبَثُ سَبْعَ سِنِينَ ثُمَّ يُتَوَفَّى وَيُصَلِّي عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ))
(سنن ابی داود،ج۱۱،ص۳۵۷،رقم:۳۷۳۷۔مسند احمد،ج۵۴،ص۱۲۹،رقم:۲۵۴۶۷)
"حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں (اگلاخلیفہ منتخب کرنے میں) اختلاف ہوجائے گا اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا لوگ اسے خلافت کے لیے نکالیں گے لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے پھر لوگ ان کے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کریں گے پھر وہ ایک لشکر شام سے بھیجیں گے تو وہ لشکر ، بیداء ، کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے، جب لوگ مہدی کے بارے میں سنیں گے تو اہل شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں ان کے پاس آئیں گی ان سے بیعت کریں گی۔ پھر ایک آدمی اٹھے گا قریش میں سے جس کی ننھیال بنی کلب میں ہوگی وہ ان کی طرف ایک لشکر بھیجے گا تو وہ اس لشکر پر غلبہ حاصل کرلیں گے اور وہ بنوکلب کا لشکر ہوگا اور ناکامی ہو اس شخص کے لیے جو بنوکلب کے اموال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر حاضر نہ ہو، مہدی مال غنیمت تقسیم کریں گے اور لوگوں میں انکے نبی کی سنت کو جاری کریں گے اور اسلام پر اپنی گردن زمین پر ڈال دے گا (سارے کرہ ارض پر اسلام پھیل جائے گا) پھر اس کے بعد سات سال تک وہ زندہ رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان انکی نماز جنازہ پڑھیں گے امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ بعض ہشام کے حوالہ سے یہ کہا کہ وہ نوسال تک زندہ رہیں گے جبکہ بعض نے کہا کہ سات سال تک رہیں گے"
مہدی کے خلاف قبیلہ قریش کا جو شخص لشکر بھیجے گا اس کا نام کیا ہوگا؟
یہ بات تو صحیح احادیث سے ثابت ہوچکی ہے کہ مہدی کے خلاف ایک شخص لشکر بھیجے گا جس کا ننھیال بنوکلب ہوگا اوروہ لشکر زمین میں دھنس جائے گا ۔اب آتے ہیں اس با ت کی طرف کہ مہدی کے خلاف لشکر بھیجنے والے کا نام کیا ہوگا ؟کیونکہ بعض احادیث میں اس شخص کے نام کے ساتھ بھی کچھ اس کی صفات کو بیان کیا گیا ہے جوکہ بہت اہم ہے۔اس شخص کا لقب "سفیانی "آیا ہے اور بعض روایات میں "سفیانی دوم "کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔
حدثنا أبو محمد أحمد بن عبد الله المزني ، ثنا زكريا بن يحيى الساجي ، ثنا محمد بن إسماعيل بن أبي سمينة ، ثنا الوليد بن مسلم ، ثنا الأوزاعي ، عن يحيى بن أبي كثير ، عن أبي سلمة ، عن أبي هريرة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : « يخرج رجل يقال له : السفياني في عمق دمشق ، وعامة من يتبعه من كلب ....حتى إذا صار ببيداء من الأرض خسف بهم ، فلا ينجو منهم إلا المخبر عنهم » « هذا حديث صحيح الإسناد على شرط الشيخين ، ولم يخرجاه » (مستدرک حاکم،ج۱۹ص۴۱۹،رقم:۸۷۳۲)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایک شخص نکلے گا جس کا نام ہوگا سفیانی جوکہ دمشق کی ایک بستی پر حملہ آور ہوگا اور بنو کلب والے اس کی پیروی کریں گے ۔۔۔(پھر آگے فرمایا)یہاں تک کہ وہ لشکر ایک میدان میں دھنس جائے گا اور ان میں سے کوئی باقی نہیں بچے گا سوائے ایک کے جوان کی خبر دے گا"۔
أخبرني محمد بن المؤمل بن الحسن ، ثنا الفضل بن محمد بن المسيب ، ثنا نعيم بن حماد ، ثنا يحيى بن سعيد ، ثنا الوليد بن عياش ، أخو أبي بكر بن عياش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال : قال ابن مسعود رضي الله عنه : قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم : « أحذركم سبع فتن تكون بعدي :----وفتنة من بطن الشام وهي السفياني » قال : فقال ابن مسعود : « منكم من يدرك أولها ، ومن هذه الأمة من يدرك آخرها » ،----« هذا حديث صحيح الإسناد ، ولم يخرجاه » (مستدرک حاکم،ج۱۹ص۳۴۰،رقم:۸۵۸۰)
"اور فتنہ شام کی پیٹ سے نکلے گا اور وہ فتنہ سفیانی ہوگا۔۔۔۔۔"
اس کے علاوہ الفتن نعیم بن حماد میں مہدی کے مقابلے میں آنے والے شخص سفیانی کے باب میں کی بہت ساری صحیح روایات ایسی ہیں جس میں اس کے متعلق کافی تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ان ساری احادیث کا یہاں ترجمہ پیش کرنا ممکن نہیں ۔ہم صرف چند صحیح احادیث نقل کریں گے جس میں اس کا باقاعدہ نام "سفیانی"مذکور ہے:حدثنا عبد القدوس عن أرطاة عن ضمرة قال السفياني رجل أبيض جعد الشعر ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۳،رقم:۸۲۰،اسنادہ جید)
"سفیانی سفید رنگت کا آدمی ہوگا جس کے بال گھگریالے ہوں گے"۔
محترم قارئینِ کرام : امید ہے آپ نے اس موضوع سے متعلق تمام مواد کو پڑھ لیا ہوگا کسی بھی موضوع کو سمجھنے کیلئے اسے مکمل پڑھنا ضروری ہوتا ہے ۔ کسی ایک آدھے پیراگراف سے موضوع سمجھنا اور نتیجہ اخذ کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ فقیر نے کوشش کی ہے مختصر مگر جامع طور پر اکثر مواد جمع کر دیا ہے ۔ اس کے باوجود گذارش ہے کہ مزید تفصیل کے لیے اہلِ علم حضرات امہات الکتب میں متعلقہ ابواب میں تفصیل دیکھ سکتے ہیں اور عوام الناس کو چاہیے جو بات سمجھ نہ آۓ اسے اٹل پچو سے حل نہ کریں بلکہ اپنے قریب کسی صاحبِ علم کے پاس جا کر سمجھ لیں جزاکم اللہ خیرا ـ
حدثنا الحكم بن نافع عن جراح عن أرطاة قال في زمان السفياني الثاني
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۶،رقم:۸۳۸،اسنادہ جید)
"سفیانی دوم کے زمانے میں۔۔۔"۔
حدثنا الحكم بن نافع عن جراح عن أرطاة قال ---- رفع بالشام ثلاث رايات الأبقع والأصهب والسفياني
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۷،رقم:۸۳۹،اسنادہ حسن)
"سرزمین شام میں تین جھنڈے بلند ہوں گے ،ابقع کا جھنڈا ،اصھب کا اور سفیانی کا"۔
حدثنا عبد الله بن مروان عن سعيد بن يزيد عن الزهري قال يبايع السفياني أهل الشام فيقاتل أهل المشرق
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۳،رقم:۸۶۶،اسنادہ قوی)
"اہل شام سفیانی کی بیعت کرلیں گے اور وہ اہل مشرق سے جنگ کرے گا"۔
نزل جيش السفياني البيداء فيخسف بهم ثم يخرج المهدي
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۴۴،رقم:۹۰۰،اسنادہ صحیح)
"سفیانی کا لشکر جب میدان میں اترے گا تو دھنس جائے گا پھر حضرت مہدی خروج فرمائیں گے"۔
حدثنا محمد بن عبد الله التيهرتي عن معاوية بن صالح عن شريح بن عبيد وراشد بن سعد وضمرة بن حبيب ومشايخهم قالوا يبعث السفياني خيله وجنوده فيبلغ عامة الشرق من أرض خراسان وأرض فارس ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۵۱،رقم:۹۲۴،اسنادہ جید)
سفیانی اپنے لشکر بھیجے گا جوکہ مشرق میں خراسان تک پہنچ جائیں گےیعنی فارس تک۔۔"
حدثنا محمد بن عبد الله التيهرتي عن عبد السلام بن مسلمة سمع أبا قبيل يقول يبعث السفياني جيشا إلى المدينة فيأمر بقتل كل من كان فيها من بني هاشم---حتى يظهر أمر المهدي بمكة ۔ (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۵۵،رقم:۹۳۹،اسنادہ جید)
"سفیانی مدینہ کی طرف ایک لشکر بھیجے گا اور ہر اس شخص کو قتل کرنے کا حکم دے دے گا جس کا تعلق بنی ہاشم سے ہوگا۔۔۔یہاں تک کہ مہدی ظاہر ہوجائیں گے مکہ میں"۔
حدثنا محمد بن عبد الله عن عبد السلام بن مسلمة عن أبي قبيل قال السفياني شر من ملك يقتل العلماء وأهل الفضل ويفنيهم ويستعين بهم فمن أبى عليه قتله۔(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۵،رقم:۸۳۳،اسنادہ قوی)
"ابوقبیل فرماتے ہیں کہ سفیانی بہت برا بادشاہ ہوگا جوکہ علماء اور عزت دار لوگوں کو قتل کرےگا اور ان کے خلاف دوسروں سے مدد لے گا ،جس نے اس کی بات نہیں مانی اسے قتل کردے گا"۔
حدثنا الحكم بن نافع عن جراح عن أرطاة قال ----فيأخذ السفياني فيقتله على باب جيرون.
.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۷۷،رقم:۱۰۲۹،اسنادہ :قوی)
"(حضرت مہدی )سفیانی کو پکڑ لیں گے اور اس کوجیرون وادی کے دروازے پر قتل کردیں گے"۔
یہ تو تھی وہ صحیح روایات جوکہ سفیانی کے حوالے سے وارد ہوئیں ۔اب کچھ مزید روایات ہیں جس میں اس کے مزید اوصاف کا ذکر ہے مگر وہ ضعیف ہیں :
سفیانی کا نام اصل نام عبد اللہ ہوگا:
حدثنا عبد الله بن مروان عن أرطاة بن المنذر عمن حدثه عن كعب قال اسم السفياني عبد الله..
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۴،رقم:۸۲۶،اسنادہ ضعیف:شیخ ارطاۃ:مجھول)
"حضرت کعب فرماتے ہیں کہ سفیانی کا نام عبد اللہ ہوگا"
سفیانی کا تعلق بنو امیہ سے ہوگا : حدثنا أبو المغيرة عن ابن عياش قال حدثني بعض أهل العلم عن محمد بن جعفر قال قال علي بن أبي طالب رضى الله عنه يخرج رجل من ولد خالد بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان)).(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۵،رقم:۸۳۳،اسنادہ ضعیف:مدارہ علی:بعض اہل العلم:مجاھیل)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خالد ابن یزید ابن معاویہ بن ابی سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا "۔
"حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ سفیانی (جوکہ آخر زمانے میں شام کے علاقے پر ۡقا بض ہوگا )نسلی طور پر خالد ابن یزید ابن معاویہ ابن ابی سفیان اموی کی پشت سے تعلق رکھتا ہوگا۔وہ بڑے سر اور چچک زدہ چہرے والا ہوگا ۔اس کی آنکھ میں سفید دھبہ ہوگا ،دمشق میں اس کا ظہور ہوگا ۔اس کے ساتھ قبیلہ کلب کے لوگوں کی اکثریت ہوگی ،لوگوں کا خون بہانا اس کی خاص عادت ہوگی ۔یہاں تک کہ حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرکے بچوں کو بھی ہلاک کردایا کرے گا،وہ جب مہدی کی خبر سنے گا تو ان سے جنگ کرنے کے لئے لشکر بھیجے گا"۔(بحوالہ مظاہر حق جدید،ج۵،ص۴۳،مظاہر حق نے اس روایت کو صحیح کہا ہے)
شام میں سفیانی کا خروج کب ہوگا؟
حدثنا أبو عمرو البصري عن ابن لهيعة عن عبد الوهاب بن حسين عن محمد بن ثابت البناني عن أبيه عن الحارث الهمداني عن ابن مسعود رضى الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ---- فذكر اختلافا طويلا إلى خروج السفياني). (الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۵۹۳،اسنادہ ضعیف)
"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ۔۔۔۔ طویل اختلاف کا ذکر کیا یہاں تک کہ سفیانی ظاہر ہوجائے گا"۔
إذا خرجت السودان طلبت العرب ينكشفون حتى يلحقوا ببطن الأرض - أو قال : ببطن الأردن - فبينما هم كذلك إذ خرج السفياني في ستين وثلاثمائة راكب حتى يأتي دمشق
(السنن الواردۃ فی الفتن ،جلد۲صفحہ ۲۰۲حدیث نمبر:۵۹۸)
جب سوڈان والے نکلیں گے اور عرب سے باہر آنے کا مطالبہ کریں گے یہاں تک کہ وہ (عرب)بیت المقدس یا اردن پہنچ جائیں گے ۔اسی دوران اچانک تین سو ساٹھ سواروں کے ساتھ سفیانی نکل آؕئے گا یہاں تک کہ وہ دمشق آئے گا"۔
وہ عورت کی حمل کی مقدار برابر حکومت کرے گا:
حدثنا سعيد أبو عثمان عن جابر عن أبي جعفر قال يملك السفياني حمل امرأة
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۴،رقم:۸۲۶،اسنادہ ضعیف:جابر:ھوا لجعفی :ضعیف)
"سفیانی عورت کے حمل کے مقدار کے برابر حکومت کرے گا"۔
سفیانی ابتداء میں بہت نیک آدمی ہوگا پھر غلط راستے کی طرف چل پڑےگا:
فأول ظهوره يكون بالزهد والعدل ويخطب له على منابر الشام فإذا تمكن وقويت شوكته زال الإيمان من قلبه وأظهر الظلم والفسق
(فیض القدیر،ج ۴ص۱۶۸)
(سفیانی ) ابتداء میں بہت متقی و پرہیزگار اور انصاف کرنے والا بن کر آئے گا حتی کہ شام کے اندر مساجد میں اس کاخطبہ پڑھایا جائے گا ۔پھر جب وہ مضبوط ہوجائےگا تو اس کے دل سے ایمان نکل جائے گا اور ظلم اور بداعمالیوں پر اتر آئے گا"۔
سفیانی اور اس کا لشکر ارتداد کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے:
قال حذيفة : يا رسول الله وكيف يحل قتالهم وهم موحدون ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : » يا حذيفة هم يومئذ على ردة
(السنن الواردۃ فی الفتن ،جلد۲صفحہ ۲۰۲حدیث نمبر:۵۹۸)
"حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول !کیسے (سفیانی کے لشکر سے )قتال کریں جبکہ وہ موحد ہوں گے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اے حذیفہ!اس روز وہ ارتدادپرہوں گے"۔
سفیانی کا ساتھ دینے والوں میں سے ایک لشکر کا نام النصر برگیڈہوگا:
((حدثنا أبو المغيرة عن ابن عياش قال حدثني بعض أهل العلم عن محمد بن جعفر قال قال علي بن أبي طالب رضى الله عنه يخرج رجل من ولد خالد بن يزيد بن معاوية بن أبي سفيان في سبعة نفر مع رجل منهم لواء معقود يعرفون في لوائه النصر يسير بين يديه على ثلاثين ميلا لا يرى ذلك العلم أحد إلا انهزم)).(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۵،رقم:۸۳۳،اسنادہ ضعیف:مدارہ علی:بعض اہل العلم:مجاھیل)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خالد ابن یزید ابن معاویہ بن ابی سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حدثنا عبد القدوس وغيره عن ابن عياش عمن حدثه عن محمد بن جعفر عن علي قال السفياني من ولد خالد بن يزيد بن أبي سفيان رجل ضخم الهامة بوجهه آثار جدري وبعينه نكتة بياض يخرج من ناحية مدينة دمشق في واد يقال له وادي اليابس يخرج في سبعة نفر مع رجل منهم لواء معقود يعرفون في لوائه النصر يسيرون بين يديه على ثلاثين ميلا لا يرى ذلك العلم أحد يريده إلا انهزم.
(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۲۲،رقم:۸۱۸،اسنادہ ضعیف:شیخ ابن عیاش مجہول)
سفیانی مسلمانوں اورخصوصاً بنوہاشم یعنی اہل بیت کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
حدثنا الوليد ورشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل عن أبي رومان عن علي رضى الله عنه قال إذا ظهر أمر السفياني لم ينج من ذلك البلاء إلا من صبر على الحصار.(الفتن نعيم بن حماد)
"حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سفیانی نکلے گا تو اس مصیبت سے سوائے محاصرے پر صبر کرنے والوں کے علاوہ کوئی بھی نجات نہیں پاسکے گا"۔
((يخرج السفياني بالشام فيسير الي الکوفة فيبعث جيشا الي المدينة فيقاتلون ماشائ الله حتي يقتل الحبل في بطن امه))(علل بن ابی حاتم ،ج۲ص۴۲۵)
"سفیانی کا خروج شام سے ہوگا پھر وہ کوفہ جائے گا تو مدینہ کی جانب ایک لشکر روانہ کرے گا ،چناچہ وہ لوگ وہاں لڑیں گے جب تک کہ اللہ چاہے حتی کہ ماں کے پیٹ میں موجود بچے کو بھی قتل کردیا جائے گا"۔
عن علي قال : يبعث بجيش إلى المدينة فيأخذون من قدروا عليه من آل محمد صلى الله عليه وسلم ، وتقتل من بني هاشم رجالاونساء ، فعند ذلك يهرب المهدي والمبيض من المدينة إلى مكة فيبعث في طلبهما وقد لحقا بحرم الله وأمنه (نعيم).
(کنز العمال،ج۱۴ص۵۸۹حدیث نمبر:۳۹۶۶۹)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی طرف(سفیانی کی طرف سے) ایک لشکر بھیجا جائے گا۔وہ اہل بیت کے لوگوں کا قتل عام کرے گاتو مہدی اور مبیض مدینہ سے مکہ بھاگ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
وَإِنَّ أَهْلَ بَيْتِي سَيَلْقَوْنَ بَعْدِي بَلَاءً وَتَشْرِيدًا وَتَطْرِيدًا حَتَّى يَأْتِيَ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ مَعَهُمْ رَايَاتٌ سُودٌ فَيَسْأَلُونَ الْخَيْرَ فَلَا يُعْطَوْنَهُ فَيُقَاتِلُونَ فَيُنْصَرُونَ فَيُعْطَوْنَ مَا سَأَلُوا فَلَا يَقْبَلُونَهُ حَتَّى يَدْفَعُوهَا إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي
(ابن ماجة،ج۱۲ص۱۰۰رقم الحديث:۴۰۷۲)
اور یقیناً میرے اہل بیت کو آزمائشوں ،جلاوطنی اور بے بسی کا سامنا ہوگا،یہاں تک کہ مشرق سے کچھ لوگ آئیں گے جن کے ہاتھ میں کالے جھنڈے ہوں گے،چناچہ وہ امارت کا سوال کریں گے لیکن( بنو ہاشم) ان کو عمارت نہیں دیں گےسو وہ جنگ کریں گے اور ان کی مدد کی جائے گی پھر( بنوہاشم)ان کو امارت دیں گے لیکن اب وہ اس کو قبول نہ کریں گےاور میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو امارت دیں گے۔
سفیانی کے ہاتھوں نفس زکیہ قتل ہونا:
حدثني مجاهد قال : حدثني فلان رجل من أصحاب النبي (ص) : (أن المهدي لا يخرج حتى تقتل النفس الزكية ، فإذا قتلت النفس الزكية ، غضب عليهم من في السماء ومن في الارض ۔ (مصنف ابن ابی شيبة،ج۸ص ۶۷۹ رقم الحديث:۱۹۹)
امام مجاہد فرماتے ہیں کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے یہ بیان کیا کہ مہدی اس وقت تک نہیں آئیں گے جب تک کہ نفس زکیہ کو قتل نہیں کردیا جاتا ۔چناچہ جب نفس زکیہ قتل کردیئے جائیں گے تو آسمان اور زمین والے ان قاتلوں پر غضبناک ہوں گے۔
حدثنا سعيد أبو عثمان عن جابر عن أبي جعفر قال: إذا بلغ السفياني قتل النفس الزكية وهو الذي كتب عليه فهرب عامة المسلمين من حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى حرم الله تعالى بمكة فإذا بلغه ذلك بعث جندا إلى المدينة عليهم رجل من كلب حتى إذا بلغوا البيداء خسف بهم وينفلت أميرهم . (الفتن نعيم بن حماد،ص۲۵۸،رقم:۹۰۳،اسنادہ ضعیف:جابر ھوالجعفی :ضعیف)
"ابو جعفر سے روایت ہے کہ سفیانی جب نفس زکیہ کو قتل کرےگا تو سارے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مدینہ سے بھاگ کر اللہ تعالیٰ کے حرم یعنی مکہ کی طرف چلے جائیں گے، جب اس کو اس بات کی خبر پہنچیں گی تو وہ ایک لشکر مدینے کی طرف بھیجے گا ،اس لشکر کا بڑا بنو کلب کا ایک آدمی ہوگا ۔یہاں تک کہ یہ لشکر بیدا مقام پر پہنچے گا تو دھنسادیا جائے گا اور ان کا بڑا بچ جائے گا "۔
حدثنا رشدين عن ابن لهيعة قال حدثني أبو زرعة عن عبد الله بن زرير عن عمار ابن ياسر رضى الله عنه قال إذا قتل النفس الزكية وأخوه يقتل بمكة ضيعة نادى مناد من السماء إن أميركم فلان وذلك المهدي الذي يملأ الأرض حقا وعدلا..(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۶۶،رقم:۹۸۹،اسنادہ ضعیف:مدار ہ علی:(۱)رشدین :ضعیف (۲)ابن لھیعۃ:ضعیف(۱) ابو ذرعۃ :ھوعمر بن جعفر :ضعیف)
"حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نفس زکیہ کو قتل کیا جائے گا اور اس کا بھائی مکہ میں قتل ہوگا تو آسمان سے آواز دینے والا آواز دے گا کہ اب تمہارا امیرفلاں شخص ہے اور یہی مہدی ہوں گے جوکہ زمین کو حق اور عدل سے بھردیں گے"۔
سفیانی کے ہاتھوں بنو ہاشم کے ایک بادشاہ کاقتل ہونا:حدثنا رشدين عن ابن لهيعة عن أبي قبيل قال يملك رجل من بني هاشم فيقتل بني أمية حتى لا يبقى منهم إلا اليسير لا يقتل غيرهم ثم يخرج رجل من بني أمية فيقتل لكل رجل إثنين حتى لا يبقى إلا النساء ثم يخرج المهدي.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۶۳،رقم:۹۷۶،اسنادہ ضعیف:مدار ہ علی:(۱)رشدین :ضعیف (۲)ابن لھیعۃ:مدلس وقد عنعنہ ثم ھو ضعیف)
"بادشاہ ہوگا ایک آدمی بنو ہاشم میں سے ،پس قتل کرے گا اس کو بنو امیہ یہاں تک کہ باقی نہ رہے گا کوئی ان میں سے مگر مسافر ،پس قتل کرے گا ان کے علاوہ کو یہاں تک کہ نکلے گا ایک آدمی بنو امیہ میں سے ،قتل کرے گا ہر دو آدمیوں کو یہاں تک کہ نہیں باقی رہیں گی پھر مہدی ظاہر ہوجاؕئیں گے"۔
حدثنا الوليد قال أخبرني ابن لهيعة عن أبي قبيل عن ابن عباس رضى الله عنه قال يخرج رجل من المشرق فينفر منه ملكهم فيقتل بين الرقة وحران يقتله رجل من قريش ويخرج من البرية من آل أبي سفيان رجل من المغرب ويقتل ملك الكوفة بحران.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۳۷،رقم:۸۷۷،اسنادہ ضعیف:ابن لھیعۃ :مدلس وقدعنعنہ وھو ضعیف)
"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرق سے ایک آدمی نکلے گا تو ان کا بادشاہ اس سے ڈرجائے گا تو یہ آدمی رقہ اور حران کے درمیان مارا جائے گا اور اس کو قریش کا ایک آدمی مارے گا اور بریہ سے اور ابوسفیان کے خاندان سے مغرب کا ایک آدمی نکلے گا اور کوفے کے بادشاہ کو حران میں قتل کرے گا"۔
الرقہ شہر شام کے میں واقع ہے۔
حضرت مہدی کے ظہور سے قبل کی پانچویں نشانی
کالے جھنڈوں میں اختلاف کے بعد آسمان پر کیا نشانیاں ظاہر ہوں گی ؟
کالے جھنڈوں میں اختلاف ظاہر ہونے کے بعداور مہدی کے ظہور سے پہلے آسمان پر بہت سے عجیب و غریب علامات ظاہرہوں گی جوکہ خصوصاًرمضان المبار ک میں واقع ہوں گی:
قال الوليد فأخبرنا صفوان بن عمرو عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير عن كثير بن مرة الحضرمي قال آية الحدثان في رمضان علامته في السماء بعدها اختلاف في الناس فإن أدركتها فأكثر من الطعام ما استطعت.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۳۷،اسنادہ :جید )
"حضرت کثیر بن مرۃ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں اختلاف ہونے کے بعد رمضان کے مہینے میں آسمان پر نشانیاں ظاہر ہوں گی ۔پس جو اس وقت کو پالے وہ جتنا ہوسکے راشن جمع کرلے "۔
حدثنا عيسى بن يونس والوليد بن مسلم عن ثور بن يزيد عن خالد بن معدان قال إنه ستبدوا آية عمودا من نار يطلع من قبل المشرق يراه أهل الأرض كلهم فمن أدرك ذلك فليعد لأهله طعام سنة.(الفتن نعيم بن حماد،ص۲۱۶،رقم:۷۸۷،اسنادہ :صحیح:ولکن مثلہ لا یقال من قبیل الرأی)
"خالد بن معدان سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ عنقریب ایک نشانی ظاہر یعنی آگ کا ستون مشرق کی طرف سے نکلے گا ،ساری زمین والے اس کو دیکھیں گے،جس نے اس کو پالیا تو وہ اپنے گھر والوں کے لئے ایک سال کا راشن جمع کرلے "۔
قال الوليد فأخبرني شيخ عن الزهري قال وفي ولاية السفياني الثاني وخروجه علامة ترى في السماء.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۳۸،اسنادہ :ضعیف :شیخ الولید :مجہول)
"سفیانی دوم کے عہد میں آسمان پر نشانی ظاہر ہوگی"۔
قال وحدثت عن شريك أنه قال بلغني أنه قبل خروج المهدي تنكسف الشمس في شهر رمضان مرتين.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۷،رقم:۶۴۵،اسنادہ :ضعیف :بین الولید وشریک انقطاع یعلمہ اللہ)
"شریک سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ مہدی کے خروج سے پہلے دوبار رمضان میں سورج گرہن ہوگا"۔
حدثنا ابن وهب عن ابن عياش عن صفوان بن عمرو عن عبد الرحمن بن جبير عن كثير بن مرة قال لانتظر آية الحدثان في رمضان منذ سبعين سنة.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۴۰،اسنادہ :حسن)
"حضرت کثیر بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں ستر سال تک رمضان میں (آسمان پر ظاہر ہونے والی )نشانیوں کا انتظار کرتا رہا"۔
حدثنا جنادة بن عيسى عن أرطاة عن عبد الرحمن بن جبير عن كثير بن مرة قال إني لأنتظر آية الحدثان في رمضان منذ سبعين سنة.
.(الفتن نعيم بن حماد،ص۱۸۵،رقم:۶۴۰، اسنادہ :جید :جنادۃ بن عیسیٰ لم اعرفہ)
"حضرت کثیر بن مرۃ کہتے ہیں کہ میں ستر سال تک رمضان میں (آسمان پر ظاہر ہونے والی )نشانیوں کا انتظار کرتا رہا"۔
علم آخر الزمان کو انگریزی میں Eschatology کہا جاتا ہے ۔ دنیا کے اختتام کی علامات سے متعلق سامی مذاہب میں کافی تفصیلات ملتی ہیں۔اسلام کے علاوہ بالخصوص یہودیت اور مسیحیت کے مذہبی ادب میں عصر حاضر میں لڑی جانے والی جنگوں اور مستقبل کے حالات کو اس علم کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔علم اخر الزمان،اشراط الساعۃ ، فتن،علامات الساعۃ یہ تمام اسی علم کے دوسرے نام ہیں جن پر سب سے زیادہ قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں بحث کی گئی ہے ۔قیامت کی علامات کبری ٰ ہوں یا صغریٰ ان کی سب سے زیادہ تفصیلات نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بیان فرمائی ہیں تا کہ مسلمان ان کی روشنی میں اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی کو طے کر سکیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تو یہاں تک بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جو کچھ ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونے والا تھا وہ سب بیان فرمایا دیا۔ہم میں سے زیادہ جاننے والا وہ ہے جو سب سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ان باتوں کو یاد رکھنے والا ہے ۔
ان علامات میں ایک بہت بڑا حصہ وہ ہے جس میں قرب قیامت میں لڑی جانے والی جنگوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے ۔ الملحمۃ الکبریٰ جو قیامت کی علامات کبری کا باب ہے اس سے قبل اور اس عظیم ترین جنگ کے ساتھ شروع ہونے والی جنگوں کے تسلسل کو احادیث میں کافی تفصیلات سے بیان کیا گیا ہے ۔اس حوالے سے دیگر محدثین کی کتب حدیث کے علاوہ خاص طور پر امام نعیم بن حماد کی "الفتن" ، امام ابو عمرو دانی کی "السنن الواردۃ فی الفتن و الملاحم"، امام ابن کثیر کی "النھایۃ فی الفتن و الملاحم"امام قرطبی کی"التذکرۃ" اور امام برزنجی کی "الاشاعۃ لاشراط الساعۃ " کا مطالعہ ضروری ہے۔جنگوں کے انہی سلسلہ میں ہندوستان،ترکی ، بیت المقدس ، عراق ، افغانستان ، یمن ، شام اور دیگر خطوں میں ہونے والی جنگوں کا ذکر ملتا ہے ۔ بعض روایات میں مسلمان مجاہدین کی ایک ایسی فوج کا ذکر ملتا ہے جو قیامت تک حق کی خاطر قتال کرتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملات انہیں خوف میں مبتلانہ کر سکے گی ۔ بعض احادیث میں ایسے ہی ایک گروہ کے خراسان سے اٹھنے کا ذکر ملتا ہے جو "رایات سود" یعنی سیاہ جھنڈے والے ہوں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا مبارک جھنڈا" عقاب "بھی سیاہ رنگ کا تھا ۔ مجاہدین کا یہ گروہ اللہ کی راہ میں قتال کرتا رہے گا یہاں تک کہ اس کا آخری حصہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی فوج سے مل جائے گا ۔ سیاہ جھنڈوں سے متعلق نظریہ کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ ، افغانستان اور دیگر خطوں میں لڑنے والے افراد اپنی جنگوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ بعض یہ گمان بھی رکھتے ہیں کہ امام مہدی عنقریب تشریف لانے والے ہیں ۔ سیاہ جھنڈوں سے متعلق روایات کو انہی کتب میں با آسانی دیکھا جا سکتاہے ۔
تاریخ میں تقریبا 40 سے زائد لوگ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ و حضرت مسیح علیہ السلام ہونے کا جھوٹا دعویٰ کر چکے ہیں ۔ حال ہی میں 5 سے زیادہ افراد تو صرف پاک و ہند میں ہی اپنا مہدی ہونا بتا چکے ہیں ۔ بعض لوگوں کے نزدیک ان کی ولادت ہو چکی ہے اور بعض کے نزدیک وہ آنے کو ہیں البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بھی ان کی آمد میں سینکڑوں سال باقی ہیں اور شاید ان کی آمد تیسرے ہزار سال میں ہو گی ۔
دشمنان اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ان احادیث کا اچھا مطالعہ رکھتے ہیں اور وہ غزوہ ہند ، فتح قسطنطینہ اور سیاہ جھنڈے جیسے روحانی نظریات کو بخوبی جانتے ہیں ۔ اسی لیے گذشتہ چند سالوں سے ایسے "سیاہ جھنڈے"جن پر کلمہ طیبہ "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لکھا ہوا ہے تمام دنیا کے میڈیا میں مختلف گروہوں کے ہاتھ میں دکھایا جا تا ہے اور انہیں دہشت گرد بتا یا جاتا ہے ۔ ان کی اسی کلمہ طیبہ کے ساتھ سیاہ جھنڈوں میں ایسی ویڈیوز وائرل کی جاتی ہیں جن کو دیکھنے کے بعد انسان کا انسان پر سے اعتبار اٹھ جا ئے اور نعوذ باللہ کلمہ طیبہ ، اسلام و خلافت جیسے ناموں سے لوگوں کو نفرت ہو جائے ۔
سیاہ جھنڈوں کے بارے میں مختلف گروہ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ احادیث میں سیاہ جھنڈے والوں سے متعلق جو جو پیشن گوئی کی گئی ہے اس سے مراد ہمارا ہی گروہ ہے لہٰذا ہمارا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے ۔ بعض اشخاص تو ان روایات کی تعبیر میں یوں بھی گویا ہوئے کہ من قبل خراسان کا مطلب یہ ہے کہ خراسان کے پیچھے یعنی پاکستان سے ان کا ظہو ہو گا اور ان سیاہ جھنڈوں سے مراد پاکستان کے جھنڈے ہیں ۔ سیاہ جھنڈوں سے متعلق نظریہ کو سمجھنے کےلیے ان احادیث کو جاننا ضروری ہے جو اس باب میں کتب حدیث میں بیان ہوئی ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے : تَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتٌ سُودٌ لَا يَرُدُّهَا شَيْءٌ حَتَّى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ ۔ (سنن ترمذی/مسند امام احمد بن حنبل /المعجم الکبیر /المعجم الاوسط للطبرانی /دلائل النبوۃ للبيهقي) ترجمہ : خراسان سے سیاہ جھندے نکلیں گے انہیں کوئی چیز رد نہیں کر سکے گی یہاں تک کہ ان سیاہ جھنڈوں کو ایلیا (بیت المقدس)پر نصب کر دیا جائے گا ۔
اس حدیث کو متعدد محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ کتب حدیث میں روایت کیا ہے ۔ حضر امام احمد بن حنبل نے ایک اور مقام پر نقل کیا : إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّايَاتِ السُّودَ قَدْ جَاءَتْ مِنْ خُرَاسَانَ فَأْتُوهَا فَإِنَّ فِيهَا خَلِيفَةَ اللَّهِ الْمَهْدِيَّ۔ (مسند امام احمد بن حنبل)
ترجمہ : جب تم سیاہ جھنڈوں کو دیکھو کہ وہ خراسان کی طرف سے آئے ہیں تو ان کے پاس جاؤ کیونکہ ان میں اللہ کا خلیفہ مہدی ہے ۔
مستدرک حاکم اور سنن ابن ماجہ میں اسی بات کو من قبل خراسان یعنی خراسان کی جانب سے کہہ کر بیان کیا گیا ۔ یاقوت حموی نے خراسان کا جغرافیا اس طرح بیان کیا کہ خراسان میں وسیع علاقہ شامل ہے ۔ اس کی اول حدود وہ ہیں جو عراق ازاذوار جوین اور بیہق (موجودہ ایران) کے قصبے سے شروع ہوتی ہیں اور اس کی آخری حدود ہند میں طخارستان ، غزنہ ، سجستان اور کرمان سے ملتی ہیں البتہ یہ علاقے خراسان میں شامل نہیں اس کی حدود کے کنارے ہیں اور خراسان کے امہات البلاد میں نیشاپور، ہرات، مرو ، بلخ، طالقان،نسا،ابیورد اور سرخس شامل ہیں۔بعض علما کے نزدیک اس میں ماوراء النہر کے علاقے بھی شامل ہیں۔گویا کہ قدیم خراسان میں افغانستان کا قلب اور ایران کا حصہ شامل ہے ۔
امام مہدی رضی اللہ عنہ ہونے کے دعویٰ کی طرح سیاہ جھنڈے والے بھی کئی بار نکل چکے ہیں ۔ امام ابن کثیر نے اس تناظر میں ابو مسلم خراسانی کے سیاہ جھنڈوں کی ان احادیث کی طرف نسبت کی نفی کی ہے ۔ بنو عباس کی جانب سے بھی جنگوں میں ان سیاہ جھنڈوں کو استعمال کیا گیا ۔ اس لیے یہ بات ذہن میں رہے کہ احادیث میں سیاہ جھنڈوں سے متعلق جن مسلمان مجاہدین کےلیے بشارت ہے وہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا کر ملیں گے اور ان کا قتال فتنہ ، گمراہی یا نعوذباللہ کفر نہیں ہو گا اور نہ ہی وہ مسلمانوں کا قتلِ عام کریں گے بلکہ دشمنانِ اسلام سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری حصہ امام مہدی رضی اللہ عنہ سے جا ملے گا ۔
حضرت امام نعیم بن حماد علیہ الرحمۃ نے کتاب الفتن میں ایسے گمراہ سیاہ جھنڈوں کا بھی ذکر احادیث کی روشنی میں کیا ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اذا خرجت الرايات السود فإن أولها فتنة وأوسطها ضلالة وآخرها كفر ۔ (کتاب الفتن) ، یعنی جب سیاہ جھنڈے نکلیں گے تو ان کا اول فتنہ دورہو گا ، دوسرا گمراہی اور تیسرا دور کفر ہو گا ۔
ایک روایت میں یوں بھی لکھا ہے کہ مشرق سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے ان کی قیادت بڑے بڑے اونٹوں کی مانند مردوں کے ہاتھ میں ہو گی ۔ بال والے ہوں گے۔ان کے نسب علاقوں کی طرف منسوب ہوں گے ۔ ان کے نام کنیتوں پر ہوں گے ۔ وہ دمشق کو فتح کریں گے اور تین ساعات کےلیے ان سے رحمت کو اٹھا لیا جائے گا ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں اس بات کو حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا : قال إذا رأيتم الرايات السود فالزموا الأرض فلا تحركوا ايديكم ولا أرجلكم ثم يظهر قوم ضعفاء لا يؤبه لهم قلوبهم كزبر الحديد هم أصحاب الدولة لا يفون بعهد ولا ميثاق يدعون إلى الحق وليسوا من أهله أسماؤهم الكنى ونسبتهم القرى وشعورهم مرخاة كشعور النساء حتى يختلفوا فيما بينهم ثم يؤتي الله الحق من يشاء.(الفتن) ، یعنی جب تم سیاہ جھنڈوں کو دیکھے تو زمین کو لازم پکڑ لونہ ہی اپنے ہاتھ اور پیروں کو ہلاؤ(یعنی ان کی طرف سفر نہ کرو اور نہ ہی اس فتنے میں مبتلا ہو)پھر ایک کمزور قوم ظاہر ہو گی ان کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی ۔ ان کے دل لوہے کے ٹکڑوں کی طرح ہوں گے ۔ وہ اصحاب الدولہ ہوں گے۔ اپنے وعدے اور معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے ۔ حق کی طرف بلائیں گے مگر اہل حق میں سے نہ ہوں گے ۔ ان کے نام کنیتوں پر ہوں گے اور ان کی نسبتیں علاقوں کے نام پر ہوں گی ۔ان کے بال عورتوں کی طرح لمبے ہو ں گے یہاں تک کہ ان میں اختلاف ہو گا پھر اللہ جس کے ہاتھ میں چاہے گا حق دے گا ۔
اس تمام بحث سے یہ معلوم ہوا کہ قرب قیامت میں برپا ہونے والی ان جنگوں میں ہر سیاہ جھنڈوں سے مراد حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کے رایات سود مراد نہیں بلکہ ان میں بعض ایسے بھی ہوں گے جو فتنوں ، گمراہی اور کفر میں مبتلا ہوں گے ۔ اہل ایمان پر لازم ہے کہ وہ ان رایات سود میں اہل باطل کو پہچاننے میں خطا نہ کریں ۔
(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
0 Comments